ملنگ کے ٹویٹ پر جی کا زیاں
آج بھی تمام تر خودداری کے باوجود ہم اسی ایک کال کے منتظر ہیں جس کے آنے کا امکان بہت کم ہے۔
اسرائیل ، مصر اور خلیج تعاون کونسل کے چھ ارکان کے سوا دنیا کا کوئی اور ملک یا علاقائی تنظیم بتا دیں جو ٹرمپ سے خوش ہو۔خود ریپبلیکن پارٹی کے سرکردہ بزرگ حتی کہ خاتونِ اول میلانیا بھی تارکینِ وطن کے بارے میں ٹرمپ کی امتیازی پالیسی پر کھلے عام نکتہ چینی کر چکے ہیں۔ پارہ صفت امریکی صدر دو برس کے دوران دو وزرائے خارجہ ، قومی سلامتی کے دو مشیر ، دو وزرائے دفاع ، سی آئی اے اور ایف بی آئی کے دو دو سربراہ ، دو اٹارنی جنرل ، وائٹ ہاؤس کے دو ترجمان اور کئی ذاتی مشیر تبدیل کر چکے ہیں۔
اس وقت واشنگٹن میں دو خارجہ پالیسیاں متوازی چل رہی ہیں۔ایک ٹرمپ کے ٹویٹر پر اور دوسری دفترِ خارجہ میں۔ٹرمپ کے سب سے قریبی مشیر دامادِ اول جیرارڈ کشنر ہیں جنھیں وہ بوجوہ برطرف کرنا بھی چاہیں تو بھی نہیں کر سکتے۔کشنر کو چھوڑ کے کسی کابینہ وزیر ، مشیر ، اسسٹنٹ یا افسر کو نہیں معلوم کہ کل صبح جب وہ بستر سے اٹھے گا تو حاضر ہوگا کہ سابق۔
اس اعتبارسے ٹرمپ کو امریکا کا پہلا اضطراری صدر کہا جا سکتا ہے جسے خود بھی نہیں معلوم کہ اگلے لمحے وہ کیا سوچ کے کیا فیصلہ کرنے والا ہے۔اگر تو واقعی یہ جینوئن ذہنی کیفیت ہے پھر تو امریکا سمیت سب کو خیر منانا چاہیے اور اگر یہ ہوشیار دیوانے والی اوڑھی ہوئی کیفیت ہے تو پھر بلاشبہ ٹرمپ امریکی کے سب سے فطین صدر اور مارلن برانڈو کی ٹکر کے اداکار ہیں۔
تشویش ناک یہ نہیں کہ ٹرمپ چار برس کے لیے منتخب ہوئے ہیں۔پریشانی یہ ہے کہ ایک امریکی صدر دوسری ٹرم کے لیے بھی الیکشن لڑ سکتا ہے اور امریکی تاریخ میں ایسے صدور کی تعداد کم ہے جو دوسری ٹرم کے لیے منتخب نہ ہو پائے ہوں۔اس اعتبار سے ٹرمپ اگر دو ہزار چوبیس تک امریکا کے صدر رہے تو سوچیے کیسی دنیا ہوگی جس میں ایک طرف ٹرمپ اور دوسری طرف سب۔
ابھی تو پہلی مدتِ صدارت کے بھی دو برس باقی ہیں اور اب تک یورپی یونین اور چین سے تجارتی جنگ چھڑ چکی ہے ، مشرقِ وسطی ایک بار پھر رولر کوسٹر پر سوار ہے۔ اس بار اس رولر کوسٹر کی رفتار پہلے سے کہیں تیز اور جھٹکے دار ہے۔وسیع تر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تعداد محدود کرنے کے بارے میں سابق سوویت یونین اور امریکا کے درمیان پچھلے پچاس برس کے دوران جو جو سمجھوتے ہوئے ان کی افادیت عملاً ردی ہو چکی ہے ، اب تو ٹرمپ نے امریکی مسلح افواج کی بری ، فضائی ، بحری اور میرین شاخوں کے علاوہ پانچویں شاخ یعنی اسپیس فورس قائم کرنے کا بھی حکم دے دیا ہے۔ایک خلا بچا تھا سو وہاں بھی ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہوا چاہتی ہے۔کرسی کی پشت سیدھی کر لیجیے اور سیٹ بیلٹ باندھ لیجیے۔
اقوامِ متحدہ سمیت ہر طرح کا ماحولیاتی محقق اور سائنسداں چیخ رہا ہے کہ اگر دو ہزار تیس تک زمین کا اوسط درجہِ حرارت ڈیڑھ سے دو ڈگری کم کرنے کے لیے اجتماعی ہنگامی کوششیں بار آور نہ ہوئیں تو انسان ماحولیات کو بچانے کی جنگ ہارنا شروع ہو جائے گا اور تب تک بہت دیر ہو چکی ہوگی۔
بری خبر یہ ہے کہ پچیس فیصد ماحولیاتی آلودگی کے ذمے دار امریکا نے ماحولیات کے عالمی معاہدوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔ اس سے بھی بری خبر یہ ہے کہ جنوبی امریکا کے سب سے بڑے ملک برازیل میں انتہائی دائیں بازو کا صدارتی امیدوار بولسونارو کامیاب ہو چکا ہے۔ان صاحب کا منشور ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا جنگل امیزون کیوں نہیں کاٹا جا سکتا اور اس جنگل کی دولت صنعتی ترقی کے لیے کیوں بلا رکاوٹ استعمال نہیں ہو سکتی۔
امیزون کے گھنے جنگلات کو زمین کے پھیپھڑے کہا جاتا ہے۔کرہِ ارض پر اس وقت امیزون جنگلات سے بڑا حیاتیاتی اور آکسیجن کا ذخیرہ اور کہیں نہیں۔سوچیے اگر پھیپھڑے ہی کاٹ دیے جائیں تو انسان کے روز جی سکتا ہے۔اب یہ سوچیے کہ ٹرمپ اور بولسونارو فطری اتحادی ہیں۔جب یہ دونوں رہنما مل کے ماحولیاتی آرکسٹرا بجائیں گے تو کیا ہم سب کا باجا نہیں بجے گا ؟
ایسی غیر یقینی ٹرمپیانہ دنیا میں اگر کوئی ایسا ٹویٹ آجائے کہ پاکستان نے اب تک امریکا کے لیے کچھ نہیں کیا تو نہ اضافی ٹینشن لینی چاہیے نہ ہی برا منانا چاہیے۔ دونوں صورتوں میں ملنگ کا کچھ نہیں جائے گا نقصان ہمارے ہی جی کا ہے۔افغان طالبان ماشااللہ اس قابل ہو چکے ہیں کہ ہماری انگلی پکڑے یا ہمارے اشارہِ ابرو کا انتظار کیے بغیر امریکا سے براہِ راست بات چیت کر سکتے ہیں۔
اس تناظر میں اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ پاکستان امریکا کو صرف مالی طور پر ٹھگتا رہا اور بدلے میں کچھ بھی نہیں کیا تو پھر اشرف غنی کی کابل حکومت کے بارے میں کیا کہا جائے جو امریکا کی سو فیصد وفادار اور مرہونِ منت ہونے کے بعد بھی شکوہ کناں ہے کہ اسے میڈیا کے ذریعے پتہ چلا کہ امریکی ایلچی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد اور طالبان کے درمیان بات چیت کے کئی دور ہو چکے ہیں۔
جو سپر پاور جنوبی ویتنام کی وفادار طفیلی حکومت کو شمالی ویتنام کے کیمونسٹوں سے نہ بچا پائی ، رضا شاہ پہلوی کو پناہ نہ دے پائی وہ کسی اور کے لیے کیا کرے گی۔ٹرمپ سے پہلے بھی اور ٹرمپ کے بعد بھی امریکی خارجہ پالیسی اسی اصول پر استوار تھی اور رہے گی کہ یہ مت پوچھو ہم نے تمہارے لیے کیا کیا ، یہ بتاؤ کہ تم نے ہمارے لیے کیا کیا۔
مگر میں اس کا کیا کروں کہ ٹرمپ کے تازہ ترین ٹویٹ پر تمام تر غیرت دکھانے اور منہ سے جھاگ نکالنے کے باوجود کل اگر یہی ٹرمپ ٹویٹ کر دے کہ پاکستان جنوبی ایشیا میں ہمارا قابلِ اعتماد اتحادی تھا اور رہے گا تو پوری پاکستانی ریاست اس ٹویٹ کا جھولا بنا کر پینگ جائے گی۔یاد نہیں جب ٹرمپ نے صدارتی انتخاب جیتنے کے فوراً بعد وزیرِ اعظم نواز شریف سے فون پر دو اچھی اچھی اوپری باتیں کی تھیں تو حکومتِ پاکستان نے سرخوشی میں پوری کی پوری گفتگو کا اسکرپٹ جاری کر دیا تھا۔اس کے بعد ٹرمپ کے ترجمان کو وضاحت کرنا پڑی کہ بھائی جان فون پر ایسی تو کوئی بات ہوئی ہی نہیں جس پر پاکستان اتنی بغلیں بجا رہا ہے۔
آج بھی تمام تر خودداری کے باوجود ہم اسی ایک کال کے منتظر ہیں جس کے آنے کا امکان بہت کم ہے۔ پھر بھی ہم کہتے ہیں کہ محلے میں ہماری عزت کیوں نہیں۔
پھر اسی بے وفا پے مرتے ہیں
پھر وہی زندگی ہماری ہے
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)