پڑھی لکھی عورت ہی حقیقی تبدیلی لاسکتی ہے ایوب شان خاصخیلی

غریب لڑکیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے والے گوشہ نشیں سماجی کارکن، ایوب شان خاصخیلی کی کہانی

اسّی سالہ خواتین ’’سر‘‘ کہہ کر مخاطب کرتی ہیں، تو دل خوشی سے بھر جاتا ہے ۔ فوٹو : فائل

سمندر اور وہ جیسے اٹوٹ بندھن میں بندھے ہیں۔ روحی رشتہ ہے دونوں کے درمیان۔ لہروں کی نغمگی صبح گھاٹ پر لے جاتی ہے، جہاں فطری سکوت میں وہ علم کی شمع روشن کرنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہیں۔ایک عظیم عزم کا اعادہ!

یہ ایوب شان خاصخیلی کا ذکر ہے، سندھ کی ساحلی پٹی میں جنھیں احتراماً ''سر'' کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔ اور یہ معاملہ اُن سے اکتسابِ علم کرنے والوں تک محدود نہیں۔ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں،''جب اسّی سالہ خواتین مجھے 'سر' کہہ کر مخاطب کرتی ہیں، تو دل خوشی سے بھر جاتا ہے۔ اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ آج بھی ہمارے معاشرے میں تدریس کے پیشے کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ساتھ ہی مجھے مزید کام کرنے کی تحریک ملتی ہے۔'' ایوب شان کے کارناموں کی فہرست طویل ہے۔ اُن کی سرپرستی میں ابراہیم حیدری اور ریڑھی گوٹھ کی، وسائل سے محروم، لگ بھگ 250 لڑکیاں میٹرک کا مرحلہ طے کرچکی ہیں۔ چند طالبات تو اِس سے ایک قدم اور آگے بڑھیں، انٹر اور گریجویشن کیا۔ اُن پڑھی لکھی بچیوں نے فقط گھر نہیں سنبھالے، عملی زندگی میں بھی قدم رکھا۔ کسی نے تدریس کا پیشہ اختیار کیا، کوئی ہیلتھ ورکر ہوگئی، کسی نے این جی اوز سے وابستہ ہوکر کام کیا۔ چند نے بستی کے گرد و نواح میں واقع صنعتوں میں روزگار کے ذرایع کھوج نکالے۔

فلاحی تنظیموں ''انجمن سماجی بہبود'' اور ''ابراہیم حیدری ساھیڑین سھت'' (ابراہیم حیدری، سہیلیوں کا ساتھ) کے پلیٹ فورم سے ایوب شان نے ساحلی پٹی کی خواتین میں علم کی شمع روشن کرنے کا منفرد کارنامہ انجام دیا۔ دونوں ہی تنظیموں کے وہ بانی رکن ہیں۔ اِس عرصے میں تھیٹر کو بھی بہ طور آلہ برتا۔ اِس وقت ماہی گیروں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم ''پاکستان فشر فوک فورم'' سے بہ طور سینٹرل انفارمیشن سیکریٹری اور ''ٹرینر'' منسلک ہیں۔ تنظیم کے صدر، محمد علی شاہ ہیں۔

قلم کو بھی سماجی خدمت کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ ایک طویل عرصے سے وہ سندھی اخبارات و جراید میں سماجی مسائل پر مضامین لکھ رہے ہیں۔ ان مضامین کو 2011 میں ''ننڈ نہ کجی ناکئا'' (ماہی گیر جاگتے رہنا) نامی کتاب میں سمویا گیا۔ مستقبل میں اپنے تجربات اور مشاہدات کو سوانح عمری کی شکل دینے کا ارادہ ہے۔

اُن کے نزدیک خواتین کی تعلیم کے بغیر پاکستان ترقی نہیں کرسکتا کہ پڑھی لکھی عورت ہی سماج میں حقیقی تبدیلی لاسکتی ہے۔ خواہش مند ہیں کہ مرد حضرات اپنے خاندان کی ناخواندہ خواتین کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔


حالاتِ زیست کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ ایوب شان نے 1960 میں ابراہیم حیدری میں حاجی عبداﷲ خاصخیلی کے گھر آنکھ کھولی، جن کا روزگار سمندر سے وابستہ تھا۔ پانچ بھائی دو بہنوں میں وہ چوتھے ہیں۔ بچپن میں خاصے کم گو ہوا کرتے تھے۔ کچھ انوکھا کرنے کی خواہش دل میں ہر دم پنپتی رہتی۔ فٹ بال کا کھیل توجہ کا مرکز رہا۔ بھائیوں نے تو آبائی پیشہ اختیار کیا، مگر پانچویں کا مرحلہ طے کرنے کے بعد ان کے دل میں مزید تعلیم حاصل کرنے کی خواہش مچلنے لگی۔ بہ قول ان کے،''میرے والد نے صرف پہلی جماعت تک پڑھا تھا، مگر اُن کا خط بہت اچھا تھا۔ اخبارات بھی وہ پڑھا کرتے تھے، تو اُن کی لکھائی دیکھ کر مزید پڑھنے کی آرزو ہوئی۔'' باپ نے نہ صرف بیٹے کی خواہش کا احترام کیا، بلکہ بھرپور معاونت بھی کی۔ اُنھوں نے صدر میں واقع این جی وی ہائی اسکول میں داخلہ لے لیا۔ سفر طویل تھا، اور ماحول نیا، مگر ان کے جذبے کے آگے کوئی رکاوٹ نہیں ٹھہر سکی۔ 78ء میں میٹرک کیا۔ اس عرصے میں فٹ بال بھی خوب کھیلی۔ 82ء میں سائنس سے انٹر کرنے کے بعد آرٹس کی جانب متوجہ ہوئے۔ 86ء میں گریجویشن کا مرحلہ طے کیا۔ 88ء میں جامعہ کراچی سے سندھی ادب میں ماسٹرز کیا۔ پھر سندھ یونیورسٹی سے سماجیات میں ماسٹرز کی سند حاصل کی۔

اُس وقت تک خود کو سماجی خدمت کے لیے وقف کر چکے تھے۔ سلسلے کا آغاز 78ء میں ہوا، جب اُنھوں نے اپنے ساتھیوں فقیر محمد خاصخیلی، غلام حسین چارن، محمد علی شاہ، یوسف شاہ اور نذیر احمد کے ساتھ ایک فلاحی تنظیم کی بنیاد رکھی، جو 82ء میں ''انجمن سماجی بہبود'' کی شکل اختیار کر گئی۔ توجہ سماجی مسائل پر مرکوز تھی، جس کے پیش نظر ماہی گیروں کی اُس بستی میں جس کے کئی باسیوں نے اُن کے بہ قول، کبھی شہر کا رخ نہیں کیا تھا، آگاہی مہم شروع کی۔ چند برس بعد ذہن میں نیا سودا سمایا۔ کہتے ہیں،''60 کی دہائی میں ابراہیم حیدری میں سرکاری اسکول تو قائم ہوگئے تھے، لیکن لڑکیوں کی تعلیم کا تصور کبھی مستحکم نہیں ہو سکا۔ اگر کچھ بچیوں نے اپنی خوشی سے اسکول کا رخ کیا بھی، تو چند جماعتوں بعد اسکول چھوڑ دیا۔ پھر ان کی شادیاں ہوگئیں۔ برسوں بعد جب علاقے میں ریڈیو اور ٹی وی آیا، تو سماجی شعور بلند ہونے لگا، اور خواتین میں دوبارہ تعلیم حاصل کرنے کی خواہش جاگی۔''

ایوب شان نے اُن خواتین اور کم سن لڑکیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا انوکھا فیصلہ کیا۔ اس ضمن میں کئی مسائل درپیش تھے۔ مردوں کا خواتین کو پڑھانے کا تصور یک سر اجنبی تھا۔ اِس رکاوٹ کو عبور کرنے کے لیے تنظیم کے ارکان نے اپنے گھر کی خواتین کو اِس منصوبے میں شامل کرلیا۔ کڈانی محلے میں ڈسٹرکٹ کونسل کراچی کی لائبریری ہوا کرتی تھی، جہاں 89ء میں اُنھوں نے تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ گھر گھر جا کر لوگوں کو مائل کیا کہ وہ اپنی بچیوں اور خاندان کی عورتوں کو اسکول بھیجیں۔ استاد اور سماجی کارکن کی حیثیت سے لوگ اُنھیں پہچانتے تھے، اعتبار کرتے تھے، سو پہلے ''بیج'' کے لیے 48 طالبات اکٹھی کرنے میں کام یاب رہے، جن کی عمروں میں خاصا فرق تھا۔ چند تو ایسی تھیں، جو عملی زندگی میں ماں کا کردار نبھا رہی تھیں، اور چند ایسی، جنھوں نے ابھی شعور کی دہلیز پر قدم رکھا تھا۔ شعوری سطح اور عمروں کا فرق ایک بڑا چیلینج تھا۔ انھوں نے خصوصی نصاب ترتیب دیا، جس میں چند کتابیں پہلی جماعت کی تھیں، چند دوسری اور چند تیسری جماعت کی۔ یوں سفر شروع ہوا۔ ڈیڑھ برس بعد ایوب شان اور ان کی ٹیم کی کوششوں سے یہ بچیاں اور خواتین سندھی، اردو اور انگریزی حرف تہجی سے آشنا ہوگئیں۔ جمع تفریق کی سمجھ بھی ان میں پیدا ہوگئی۔ 94ء میں اُن کی طالبات نے کراچی بورڈ سے نویں جماعت کا امتحان دیا۔ اگلے برس میٹرک کا مرحلہ طے کر لیا۔ یہ ایک بڑی کام یابی تھی۔ دوسرا ''بیج'' بھی ساتھ ہی چل رہا تھا۔ یوں سفر آگے بڑھتا رہا۔ اِسی عرصے میں ''ابراہیم حیدری ساھیڑین سھت'' کی بنیاد رکھی، جو اُن کے بہ قول، علاقے میں خواتین کی پہلی فلاحی تنظیم تھی۔ انجمن سماجی بہبود اور ''ابراہیم حیدری ساھیڑین سھت'' کافی عرصے فعال رہیں۔ 2005-6 میں اِن تنظیموں کی سرگرمیاں سُکڑنے لگیں، مگر وہ نہیں رُکے۔ ''پاکستان فشر فوک فورم'' کا حصہ بننے کے بعد ماہی گیروں کی تربیت کے میدان میں قدم رکھا۔ ساتھ ہی تدریسی عمل سے بھی جُڑے رہے۔

سماجی خدمت اپنی جگہ، مگر انسان کے ساتھ پیٹ بھی لگا ہوا ہے۔ زمانۂ طالب علمی میں وہ سوشل ویلفیر ڈیپارٹمنٹ، سندھ کے ایک اسکول میں ملازم ہوگئے تھے۔ بعد کے برسوں میں ٹیوشن پڑھاتے رہے۔ ضرورت کے وقت دوست بھی کام آئے۔ پاکستان فشر فوک فورم سے ماہانہ اعزازیہ ملتا ہے، جس سے گزارہ ہوجاتا ہے۔

زندگی میں کئی خوش گوار لمحے آئے۔ ٹریننگ کے لیے تھائی لینڈ کے دورے سے حسین یادیں نتھی ہیں۔ اِسی طرح جب ایک ڈوبتے ہوئے بچے کو بچایا، تو روحانی تجربے سے گزرے۔ اس بات کا دکھ ہے کہ جن افراد کوعوام منتخب کرتے ہیں، وہ الیکشن کے بعد اپنے وعدے بھول جاتے ہیں۔ ان کے مطابق ابراہیم حیدری ماہی گیری کے نقطۂ نگاہ سے پاکستان کا سب سے بڑا گائوں ہے، مگر اس علاقے کی جانب زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ خواہش ہے کہ پینے کے پانی کی فراہمی کا مسئلہ فی الفور حل کیا جائے۔ ساتھ ہی منشیات کے بڑھتے اثرات پر بھی قابو پایا جائے۔

بلا کے سادگی پسند ہیں وہ۔ شلوار قمیص میں خود کو آرام دہ پاتے ہیں۔ مچھلی مرغوب غذا ہے۔ سردی کے موسم سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ شاعری میں شاہ بھٹائیؒ اور شیخ ایاز کے مداح ہیں۔ نثر میں تنویر عباسی اور رسول بخش پلیجو کو سراہتے ہیں۔ گائیکی میں عابدہ پروین اور محمد یوسف کا نام لیتے ہیں۔ دلیپ کمار اور محمد علی کی فنّی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ 89ء میں شادی ہوئی۔ خدا نے دو بیٹوں، دو بیٹیوں سے نوازا۔ ایک بیٹا ملازمت کر رہا ہے، باقی بچے زیر تعلیم ہیں۔ زندگی سے مطمئن ہیں۔ بیگم کے کردار کو سراہتے ہیں، جنھوں نے اُن کی مصروفیات کے دوران گھر کو اچھے ڈھب پر سنبھالا۔
Load Next Story