کوئی کھٹراگ نہیں ہونے جا رہا

ٹیلی وژن کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت نے سیاسی سوالات پر از خود غور کرنا چھوڑ دیا ہے۔


Nusrat Javeed June 26, 2013
[email protected]

KARACHI: محض ایک پیشہ ور صحافی کے طور پر نہیں بلکہ پاکستان کا ایک عام شہری ہوتے ہوئے بھی میں اپنے ملک میں چوبیس گھنٹے چلنے والے چینلوں کے فروغ پانے پر بہت خوش ہوا تھا یا جب سے ہوش سنبھالا ہمیشہ اس بات پر کڑھتا رہا کہ پاکستان کے لوگوں تک یہاں کی سفاک اشرافیہ پورے حقائق نہیں پہنچنے دیتی۔

کسی بھی عوامی مسئلے کے بارے میں ایک کہانی گھڑلیتی ہے جسے سخت گیر حکومتی انتظامیہ کی وزارتِ اطلاعات کے ذریعے پھیلا کر حقیقت کا روپ دے دیا جاتا ہے۔ 2002ء کے بعد سے ایک فوجی وردی پہنے صدر کے ہوتے ہوئے بھی صحافت کا بتدریج آزاد ہونا اور پھر چوبیس گھنٹے چلنے والے ٹیلی وژن کے ذریعے اتنا پھیل جانا میں نے ایک بہت بڑا انقلاب سمجھا اور یہ باور کر بیٹھا کہ اب لوگوں میں کسی بھی موضوع کے بارے میں ہر طرح کے خیالات کی موجودگی کی وجہ سے سیاسی شعور میں کہیں زیادہ گہرائی آجائے گی۔ یہ کالم دراصل میرا اعترافی بیان ہے۔ میری سوچ بالکل غلط تھی۔

ٹیلی وژن کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت نے سیاسی سوالات پر از خود غور کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ان کی جگہ سوچنے کا ذمے ہمارے اسٹار بنے اینکروں نے اپنے سر لے لیا ہے۔ اسی لیے ٹیلی وژن اسکرین پر اب حقائق نہیں ڈرامے نظر آتے ہیں اور Showbiz والوں کے وہ تمام ہتھکنڈے جو نیکی اور بدی کے درمیان کسی بڑی جنگ میں اپنے تئیں حق کے طرفدار بنے مجاہدوں کی نمایندگی کرتے نظر آتے ہیں۔ میرا دُکھ سمجھنا چاہتے ہیں تو صرف جنرل مشرف کے موجودہ حالات پر غور کرلیجیے۔

موصوف نے نو سال تک اس ملک پر بڑی شان وشوکت سے راج کیا۔ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کا اپنے ملک آنا ناممکن بنا دینے کے بعد فرمانبردار سیاستدانوں کی ایک بہت بڑی کھیپ کی سرپرستی فرمائی۔ انھیں قاف لیگ نامی ایک جماعت میں اکٹھا کیا اور 2002ء میں عام انتخابات کروادیے۔ ان کی بنائی قاف لیگ سادہ اکثریت بھی حاصل نہ کرپائی تو پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے لوگوں میں سے ''محب الوطن'' افراد ڈھونڈے اور ان کی مدد سے میر ظفر اللہ جمالی کو ایک ووٹ کی اکثریت سے اس ملک کا وزیر اعظم بنوادیا۔

جمالی سے ناراض ہوئے تو چوہدری شجاعت حسین کو چند روز کے لیے وزیر اعظم کے دفتر میں بٹھایا۔ شوکت عزیز کو ایک کے بجائے قومی اسمبلی کی دونشستوں سے جتوایا اور بالآخر چوہدری صاحب کی جگہ بٹھادیا۔ اس وقت کے صوبہ سرحد اور بلوچستان میں قاف والے کوئی بڑا جلوہ نہ دکھا پائے تھے۔ اس لیے جماعت اسلامی اور جمعیت العلمائے السلام کے ایم ایم اے میں اکٹھے ہوئے صالحین کی حکومتیں ان دوصوبوں میں ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنا پڑیں۔ جواباً ان صالحین نے جنرل مشرف کے 12اکتوبر 1999ء کے غیر آئینی اقدام کو معاف کردیا۔بعض اداروں کی جانب سے ان سے کئی برس پہلے ہی اس فوجی کارروائی کو عین قومی مفاد میں اُٹھایا گیا قدم ٹھہرایا چکا تھا۔

راوی جنرل مشرف کے بارے میں چین ہی چین لکھتا رہتا۔ مگر فارسی کا ایک محاورہ کہتا ہے کہ ہر عروج کو ایک دن زوال بھی آتا ہے اور عید بھی صرف ایک ہی دن کے لیے ہوتی ہے ہر روز عید نہیں منائی جاسکتی۔ جنرل صاحب کی ''عید'' ختم ہوئی تو انھوں نے سپریم کورٹ سے ٹکر لے لی۔اس کے بعد کیا ہوا اسے دہرانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ قصہ کوتاہ 2008ء کے انتخابات ہوئے۔ قاف لیگ تتر بتر ہوگئی۔ بالآخر جنرل مشرف کو استعفیٰ دے کر ایوانِ صدر آصف علی زرداری کے حوالے کرنا پڑا۔ ایوانِ صدر چھوڑ دینے کے بعد بھی جنرل صاحب کی زندگی میں راحت کی کوئی کمی نہ ہوئی۔ بیرون ملک بڑے مزے سے رہتے رہے۔ پھر بھی نہ جانے کیا سوجھی کہ ایک دن وطن واپس لوٹ کر اس کا نجات دہندہ بننے کا فیصلہ کر بیٹھے۔ ایسا کرتے ہوئے بڑی رعونت سے وہ یہ بات بھول گئے کہ پاکستان اب ایک دن بدن توانا ہوتا جمہوری معاشرہ بن چکا ہے۔ لوگوں کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر انھیں اب بھیڑوں کے ایک ریوڑ کی صورت کسی سمت نہیں دھکیلا جاسکتا۔

کوئی دھکیلنا چاہے بھی تو عدلیہ مستعد اور آزاد ہے۔ میڈیا اور سول سوسائٹی بھی متحرک ہیں۔ ایسے ماحول میں وزیر اعظم نواز شریف صرف وہی فیصلہ کرسکتے تھے جو انھوں نے 24جون کے روز کیا۔ ان کے اس فیصلے کو ٹھنڈے دل سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مگر ٹیلی وژن والے تو یہ فیصلہ کر بیٹھے ہیں کہ جیسے 24جون کو وزیر اعظم کی قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر کے بعد ایک منتخب حکومت اور عسکری قیادت میں چپقلش شروع ہوگئی ہے۔ اپنے ماضی کی روشنی میں ہم پوری طرح جانتے ہیں کہ ایسی چپقلش میں بالآخر کون جیتا کرتا ہے اور ہمارے لال حویلی میں بیٹھے ستارہ شناس نے تو یہ اعلان بھی کردیا ہے کہ نواز شریف حکومت 24جون سے زیادہ سے زیادہ چھ مہینے تک برقرار رہ سکتی ہے۔

تخت یا تختہ والی جنگوں کے مناظر ایجاد کرنے کے بعد اس ضمن میں جاری جنگ سے حظ اُٹھانے والے پتہ نہیں یہ بات کیوں بھول رہے ہیں کہ جناب افتخار چوہدری کی بحالی کے بعد یہ سپریم کورٹ 31جولائی 2009ء کو ایک فیصلہ دے چکی ہے۔ اس فیصلے میں قطعی الفاظ کے ساتھ یہ قرار دے دیا گیا تھا کہ 3نومبر2007ء کی رات اُٹھائے گئے غیر آئینی اقدام کا جنرل مشرف تن تنہاء ذمے دار تھا۔ اس نے فوجی وردی پہن کر اس ملک کا دوبارہ پانچ سال صدر بننے کے لیے قاف سے بھری پارلیمان سے اکثریتی ووٹ حاصل کیے تھے جہاں اس کے مخالف امیدواروں نے کوئی وردی نہ پہن رکھی تھی۔ چونکہ پیپلز پارٹی نے اس انتخاب سے پہلے NROکررکھا تھا اس لیے وہ جماعت اس ضمن میں خاموش رہی۔ مگر ایک اور امیدوار ریٹائرڈ جسٹس وحید سپریم کورٹ چلے گئے۔

جنرل مشرف کو خدشہ تھا کہ سپریم کورٹ ان کا انتخاب کالعدم قرار دیدے گی اور اپنے اسی خوف کی وجہ سے انھوں نے 3نومبر کا انتہائی قدم اُٹھایا۔ اب اگر اس اقدام کی کوئی سزا ملتی ہے تو اس کا نشانہ بھی صرف اور صرف جنرل مشرف کی ذات ہوگی۔ کسی اور فریق یا ادارے کو اس معاملے میں ہرگز نہیں گھسیٹا جاسکتا۔ لہذا اطمینان رکھئے کوئی کھٹراگ نہیں ہونے جا رہا۔ ٹیلی وژن کھول کر ریموٹ تھامیے اور کسی نہ کسی اسکرین پر احمد رضا قصوری ،شیخ رشید یا اعجاز الحق کو بیٹھے ہوئے تلاش کیجیے اور زندگی کے مزے لیجیے ۔مجھے فکر ہوگی تو بس اس بات کی کہ آپ کے ہاں بتی آرہی ہے یا نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں