والدین خود ڈاکٹر بننے کی کوشش نہ کریں طبی ماہرین
ملک میں خسرے کی وباء کے بارے میں آگاہی کی غرض سےمنعقدہ ایکسپریس فورم میں صوبائی وزیرصحت اور طبّی ماہرین کا اظہار خیال
پنجاب بھر میں وبائی امرض کاپھیلاؤ اوراس سے ہونے والی ہلاکتوں نے محکمہ صحت کی کارکردگی پر کاری ضرب لگائی ہے۔
تاہم اس سلسلہ میں حکومتی سطح پرکئے جانے والے اقدامات کو فراموش نہیں کیاجاسکتا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ پولیو اورڈینگی وائرس کے بعد خسرہ کی بیماری جان لیوا ثابت ہوئی ہے جس کے باعث ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تک سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 175معصوم جانیں لقمۂ اجل بن چکی ہیں جن میں سے 84 ہلاکتیں صرف لاہور میں ہوئی ہیں اور آئے روز مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، جو 19ہزار400 سے تجاوز کر چکی ہے جس میں سے 5247 مریضوں کا تعلق لاہور سے ہے۔
روزنامہ ایکسپریس نے عوام الناس کو خسرہ جیسی خطرناک اورجان لیوا بیماری کے بارے میں آگاہی دینے اور اس سے بچاؤ کیلئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کیلئے'' خسرہ کے محرکات اور اس سے بچاو'' کے موضوع پرایک خصوصی فورم کا اہتمام کیا تاکہ عوام میں خسرہ اوراس جیسی وبائی بیماریوں سے محفوظ رہنے کی آگاہی پیدا جاسکے۔ فورم میں صوبائی وزیر صحت خلیل طاہر سندھو، جنرل سیکرٹری تحریک انصاف پنجاب و سابق صدر پا کستان میڈیکل ایسوسی ایشن پروفیسر ڈاکٹر یاسمین راشد، میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سرگنگارام ہسپتال ڈاکٹرفضل الرحمان، ماہروبائی امراض اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹراظہر احمد نے اظہار خیال کیا۔ طبی ماہرین نے جو گفتگو کی وہ نذرقارئین ہے۔
خلیل طاہر سندھو
صوبائی وزیرصحت پنجاب
خسرہ کی بیماری اور اس کے باعث ہونے والی اموات کے پیش نظرحکومتی سطح پرفیصلہ کیاگیا ہے کہ اب اس معاملہ میں کوئی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی بلکہ حکومت ،عوام اور معالجین مل کر اس وباء کے خلاف جنگ لڑیں گے۔ پولیو ،ڈینگی وائرس کے بعد خسرہ کاجان لیوا حملہ عوام کے لیے خوف کی علامت بن چکا ہے جس کے لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ عوام کو اس بات پر آمادہ کیاجائے کہ کوئی بھی وبائی مرض خواہ وہ ڈینگی وائرس کے باعث ہو یا خسرہ کے اس وقت تک جان لیوا ثابت نہیں ہوتا جب تک کہ اس کے علاج معالجہ میں کوتاہی نہ برتی جائے یا ایسی احتیاطی تدابیر کو نظرانداز کیاجائے۔
جن کو ہم اپنے طورپر اپنا کر ہر بیماری سے اپنی قیمتی جانوں کو محفوظ بناسکتے ہیں اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کو خسرہ سے محفوظ رکھنے کے لیے آگاہی مہم کوگھر گھر پہنچایا جائے۔ وزیراعلی پنجاب محمد شہباز شریف کی قیادت میں نہ صرف عوام کو ہر بحران سے ریلیف دینے کا تہیہ کیاگیا ہے بلکہ ہر بیماری اورپریشانی سے محفوظ بنانے کا اعلان بھی کیاگیا ہے اوریہ اعلان جنگی بنیادوں پر کیاگیا ہے۔ جس انداز میں وزیراعلی پنجاب محمد شہبازشریف نے ڈینگی وائرس کے خلاف عوام کے سنگ جنگ لڑی اوراس میں کامیابی بھی حاصل کی اسی انداز میں وہ خسرہ کی بیماری کے خلاف عوام کے سنگ مہم میں حصہ لے رہے ہیں۔
جس کے لیے ان کی خصوصی ہدایات ہیں کہ نہ صرف وزراء بلکہ ہر ممبر صوبائی اسمبلی کسی نہ کسی ہسپتال کا دورہ کرے گا اور اس بات کو یقینی بنائے گا کہ ہسپتالوں میں آنے والے مریضوں جن میں خصوصا خسرہ کے مریض شامل ہیں کے علاج میں کسی قسم کی کمی نہ ہو۔ اس بات پر بھی زوردیا گیا ہے کہ عوام کو گھر گھر جاکر اورایسے ذرائع استعمال کرکے خسرہ سے محفوظ بننے کی تجاویز دی جائیں جس سے وہ اپنے گھروں میں ہی ہر بیماری سے محفوظ رہیں۔ موجودہ حکومت اس وقت بھاری مینڈیٹ نہیں بلکہ بھاری ذمہ داری کے فارمولا پر کاربند ہے۔
وزیراعلی پنجاب محمد شہبازشریف نے سب سے پہلے جس اجلاس کی صدارت کی وہ خسرہ سے متعلق تھا اور اس حوالے سے ان کا مؤقف انتہائی اہم رہا ہے وزیر اعلیٰ کے ویژن کے مطابق پسماندہ علاقوں میں قائم صحت کے مراکز سے لے کر شہری سطح پر تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے، تمام ڈاکٹرز کی چھٹیاں منسوخ کردی گئی ہیں اور اس بات کویقینی بنایا جارہا ہے کہ سب مل کر خسرہ سمیت دیگر وبائی بیماریوں خناق،کالی کھانسی، تپ دق اور پولیو وغیرہ سے بھی بچاؤ کیلئے بھی احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔ خسرہ سے صرف پاکستانی عوام ہی متاثر نہیں ہوئے بلکہ لندن کے شہر بریسلز اوربھارت میں بھی خسرہ کی وباء انسانی جانوں کو اپنا شکار بنا چکی ہے۔
اب تک خسرہ کے باعث جتنی بھی اموات ہوئی ہیں تمام قیمتی جانیں تھیں، مگر ہمارے ہاں بھارت کے مقابلے میں شرح اموات بہت کم رہی۔ خسرہ سے بچاؤ کے لیے ایک تحقیق سامنے آئی ہے کہ جن بچوں کو وٹامن اے کا استعمال زیادہ کرایا جائے ان کے لیے خسرہ جان لیوا ثابت نہیں ہوتا اسلئے حکومتی سطح پر یہ طے کیاگیا ہے کہ خسرہ کی ویکسینیشن کے ساتھ وٹامن اے بھی دی جائے تاکہ بچوں میں قوت مدافعت بڑھے اور وہ خسرہ جیسی بیماری سے بچ سکیں۔ انسانی جانیں ہم سب کے لیے بڑی اہمیت رکھتی ہیں ان کی حفاظت اپنی قومی ذمہ داری ہے، خواہ ڈاکٹرز ہوں ، سیاستدان ہوں یا پھر عوام ہوں خسرہ کے خلاف جاری جنگ میں سب کو بلا امتیاز حصہ لینا ہوگا اورسب کو قومی ذمہ داری سمجھ کر اپنا اپنا کام کرنا ہوگا۔
خسرہ کی بیماری 2012ء میں اندرون سندھ سے شروع ہوئی جو پنجاب میں ڈی جی خان اور راجن پوروغیرہ کے اضلاع میں پھیلی جس کے پیش نظر اس وقت وزیراعلی پنجاب محمد شہباز شریف نے احتیاطی طورپر 19اضلاع میں خسرہ کی ویکسینیشن مہم کاآغاز کیا اوراب ان اضلاع کو بھی شامل کرلیاگیا ہے جہاں خسرہ کے متاثرہ بچے انتہائی کم تعداد میں ہیں یا بالکل نہیں ہیں۔
میں خود ہنگامی بنیادوں پر وزیراعلی پنجاب محمد شہباز شریف کی ہدایت پر سرکاری ہسپتالوں کے دورے کررہا ہوں اور میں نے دن رات عوام کی خدمت کے لیے وقف کررکھا ہے، اس دوران ان تمام چیزوں کومدنظررکھا جارہا ہے جس سے عوام کو خسرہ جیسی موذی بیماری سے محفوظ بنایا جاسکے جس میں ہمیں کافی حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے مگر اصل مرحلہ عوامی رابطہ مہم ہی ہے۔
جس کے بغیر کسی بھی بیماری کے خلاف جنگ نہیں لڑی جاسکتی ہے۔ ہمارے عوام باشعور ہیں صرف ان کی توجہ کو حاصل کرنے کی ضرورت ہے جس طرح سے عوام اور حکومت نے ملکر ڈینگی وائرس کے خلاف جہاد کیا اور اس کو ماربھگانے کی قسم اٹھائی اسی طرح اب وقت ہے کہ خسرہ کے خلاف جنگ لڑی جائے اور یہ طے کرلیاجائے کہ ہر صورت میں ہم نے اس بیماری کو اپنے شہراور صوبے سے ہی نہیں بلکہ ملک سے بھی ختم کرنا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر یاسمین راشد
سابق صدر پا کستان میڈیکل ایسوسی ایشن
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ خسرہ کی بیماری پھیلنے کی بنیادی وجہ بچوں میں خوراک کی کمی ہے اور حکومت نے جو بجٹ پیش کیا ہے اس میں خوراک پر جی ایس ٹی لگادیا گیا ہے، جس سے اس وباء کے پھیلنے کا اندیشہ بڑھ گیا ہے۔ جن بچوں کی خوراک بہتر اوراچھی ہوتی ہے ان کی قوت مدافعت بھی بہترہوتی ہے ایسے بچوں میں بیماری سے بچنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ یہ بات انتہائی تشویش ناک ہے کہ حکومت اس وقت حرکت میں آتی ہے جب بیماری حد سے بڑھ چکی ہوتی ہے اور اس کا علاج معالجہ تشویشناک ہوجاتا ہے حالانکہ دنیا بھر میں یہ فارمولا اپنایا جاتا ہے کہ بیماری ہونے سے قبل اس کی روک تھام کے اقدامات کیے جائیں اور علاج سے بہتر پرہیز کے فارمولا کوترجیح دی جاتی ہے اس لئے خسرہ سے لڑنے کے لیے یہ بڑی اہم بات ہے کہ پنجاب حکومت خوراک کو ٹیکس فری کرے۔
خصوصاً بچوں کی خوراک دودھ وغیرہ پر ٹیکس عائد نہ کیا جائے۔ ماؤں کا دودھ پینے والے بچوں میں بھی بیماری سے بچنے کی صلاحیت دیگر کی نسبت زیادہ ہوتی ہے جبکہ دیہی اور پسماندہ علاقوں میں فیڈرسے دودھ پلانے کے رواج نے بچوں میں خسرہ ،گیسٹرو اور دیگر موذی امراض پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، میری تجویز ہے کہ ہر تین ماہ بعد حکومت تمام علاقوں میں مرحلہ وار سروے کرائے کہ کن علاقوں میں کس بیماری کا حملہ ہوا ہے یا ہوا تھا اورا سکی ویکسینیشن کس طرز پر کی گئی۔ یہاں حالات یہ ہیں کہ ہر سال 35سے40لاکھ بچے پیدا ہوتے ہیں جوچھ ماہ سے دس سال کی عمر میں کسی نہ کسی بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں۔
جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عوام کو شعورنہیں کہ بچوں کی عمر کے مطابق نشوونما کیسے ہونی چاہیے اس لیے ضروری ہے کہ سرکاری سطح پر سرکاری میڈیا میں زیادہ سے زیادہ وبائی امراض کے حوالے سے بڑے پیمانے پر تشہیری پروگرام چلائے جائیں اور عوام کو شعوردیا جائے کہ انہوں نے بیماریوں سے اپنے اوراپنے بچوں کو کس طرح سے محفوظ رکھنا ہے۔ ہم تحقیق پر یقین نہیں رکھتے یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں آئے روز مختلف بیماریوں اوربحرانوں کا سامنا ہے۔ حکومت سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیمی سہولیات کے ساتھ ساتھ بچوں کی معیاری خوراک دینے کا بھی بندوبست کرے۔
تاکہ تعلیم یافتہ اور صحت مند معاشرہ کی تکمیل یقینی ہوسکے۔ بیماری کوئی بھی ہو سب سے پہلے اس کی نقل وحرکت پر نظررکھنی چاہیے کہ یہ کس جگہ سے شروع ہورہی ہے اورکیوں ہورہی ہے یعنی وہ کون سی وجوہات ہیں جو کسی بھی ایسی بیماری کو پھیلانے کا سبب بن رہی ہیں جن سے انسانی جانوں کا ضیاع ہورہا ہے پھر اس کے بارے میں فوری تحقیق اورعمل کیا جائے۔ ہمارے ہاں یہ بھی کسی بدقستمی سے کم نہیں کہ ہم تحقیق پر یقین نہیں رکھتے بلکہ ایسے فوری طریقے ڈھونڈتے ہیں جس سے ایک منٹ میں صحت مند ہوجائیں۔
خسرہ اوراس جیسی دیگر بیماریاں کیونکہ سر اٹھارہی ہیں ہونا تو یہ چاہیے کہ دیکھا جائے اس کے پیچھے کون سے ایسے عوامل یا جراثیم ہیں جوان بیماریوں کو پہلے پسماندہ اور پھر شہری علاقوں تک آسانی سے پھیلا دیتے ہیں ان عوامل کومدنظر رکھ کر مکمل بندوبست کیاجائے۔ آجکل سفری سہولتیں اس قدر عام ہوگئی ہیں کہ بیماریاں بھی انسانوں کے ساتھ ساتھ سفرکررہی ہیں اس لیے یہ بھی ضروری ہے کہ جن علاقوں میں کوئی بھی بیماری یامرض بچوں یا بوڑھوں میں پایا جائے اس کی ویکسینیشن صرف اس علاقہ تک ہی نہیں بلکہ سفر کے دوران بھی کی جائے ٹرانسپورٹ کو بھی ویکسینیٹ کیاجائے اوراس بات کویقینی بنایا جائے کہ تمام افراد جو ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں ان کوکسی نوعیت کی بیماری یا مرض نہیں ہے کوئی ایسا وائرس تو نہیں جو یکدم پھیل جائے اوراس سے دیگر افراد بھی متاثرہوجائیں۔ خسرہ کے باعث ہونے والی ہلاکتیں انتہائی افسوسناک ہیں تاہم حکومت کو چاہیے کہ اس پر فوری ایکشن لیتے ہوئے ایسے فیصلے اوراقدامات کرے جس سے کسی بھی کوتاہی کو نظرانداز نہ کیاجائے اورعوام کو گھر کی دہلیز پر بہترین اور معیاری علاج فراہم کیاجائے۔
ڈاکٹرفضل الرحمان
میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سرگنگارام ہسپتال
یہ بات درست ہے کہ انسانی جانوں کو ہر دور میں کسی نہ کسی بیماری کے باعث انتہائی تشویش ناک صورتحال کا سامنا رہا ہے اوراس سلسلہ میں متعدد انسانی جانیںلقمہ اجل بھی بنی ہیں مگر اس میں جتنی ذمہ دار سرکاری میشنری ہے اتنی ہی غفلت عوام کی جانب سے بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں بطورایک قوم یہ طے کرنا ہوگا کہ ہم اپنے اداروں پر اعتماد کریں خصوصا قومی سطح پر چلائی جانے والی صحت افزاء مہموں کو ہر صورت میں کامیاب بنائیں اور اس شک میں نہ پڑیں کہ حکومت یا کوئی اور حکومتی ادارہ عوام کو بیماریوں سے محفوظ بنانے کے لیے جو بھی ویکسیئن استعمال کررہا ہے وہ غیر معیاری یا طبی طور پر بے سود ہے۔
حکومت اس سلسلہ میں اربوں روپے کے فنڈز استعمال کررہی ہے جس کا ایک ہی مقصد ہے کہ عوام کو کسی بھی طرح سے صحت مند اور تندرست بنایاجا سکے۔ملک کے پسماندہ علاقوں میں اس حوالے سے آگاہی مہم چلانے کی زیادہ ضرور ت ہے کیونکہ پسماندہ علاقوں میں غربت کے ساتھ ساتھ ناخواندگی کی بھی بہت زیادہ ہے ان حالات میں ان علاقوں تک احتیاطی تدابیر کی تشہیر انتہائی اہمیت رکھتی ہے جس کے لیے گھر گھر جاکر مہم چلانے کی ضرورت ہے۔
اس وقت کوئی بھی مرض خطرناک بن سکتا ہے جب اس سے احتیاط کرنے کے مراحل کو نظرانداز کردیا جائے اور یہ تصورکیاجائے کہ یہ خودبخود ٹھیک ہوجائے گا بلکہ ایک بھی علامت ظاہر ہونے پر بیماری کا فوری علاج ہونا ضروری ہے تاکہ اسکو مزید بگڑنے سے بچایا جا سکے۔ میری سربراہی میں سرگنگارام ہسپتال میں جہاں دیگر مریضوں کے لیے ہر ممکن طبی سہولت کو ہمہ وقت فراہم کیاجارہا ہے وہاں خصوصا وبائی امراض جن میں خاص طور پرخسرہ کی بیماری جو آجکل شدت اختیارکرچکی ہے سے عوام کو محفوظ بنانے کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔
جس کے تحت خسرہ کے مریضوں کا الگ سے وارڈ بنایا گیا ہے جہاں تینوں شفٹوں میں الگ سے کوالیفائیڈ ڈاکٹرز،نرسز اورپیرامیڈیکل سٹاف تعینات ہے، ان کے بہترین علاج معالجہ کے باعث سرگنگارام ہسپتال میں خسرہ کا صرف ایک مریض داخل ہوا جو تیزی سے صحت یاب ہورہا ہے۔ ہسپتال میں وزیراعلی پنجاب محمد شہبازشریف کی ہدایت کے مطابق تمام تر طبی سہولیات کو فراہم کیاجارہا ہے اور ہسپتال میں تمام عملا کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ مریض کے ساتھ شائستگی سے پیش آئے اوران کے دکھ درد کو سمجھتے ہوئے اس کا بہترعلاج کرے اور وہ تمام سہولیات فوری فراہم کرے۔
جو حکومت کی جانب سے ہسپتال کو فراہم کی جاتی ہیں جن میں طبی ٹیسٹوں سے لے کر ادویات اور علاج شامل ہے۔ اب یہ ہم سب کافرض بنتا ہے کہ جس طرح ہم نے حکومت اورعوام کے ساتھ ملکر ڈینگی وائرس کا قلع قمع کیا اور اس کے موذی اثرات کو بے اثر کیا اسی طرح ہم خسرہ کے خلاف جاری جنگ میں اپنا کردار اداکریں۔ صرف خسرہ ہی نہیں بلکہ ہر وہ بیماری جو وباء بن کر انسانی جانوں کو لقمہ اجل بنا رہی ہے اس کے خلاف جنگ جاری رہے گی اورموسمی کیفیات میں تبدیلی کے پیش نظر ہر مرض کوکنٹرول کرنے کی حکمت عملی بدستوراپنائی جائیگی۔
اس جنگ یعنی ڈینگی وائرس،پولیو اوراب خسرہ کے خلاف جاری مہم میں عوام کی شمولیت کے بغیرکچھ بھی نہیں کیاجاسکتا اس لیے آگاہی مہم مؤثرکردار ادا کرے گی اورحکومت کی ہدایت پر آگاہی مہم اورعلاج ساتھ ساتھ چلتے رہے گے۔ خسرہ جیسی دیگر وبائی بیماریوں سے بچاؤکے لیے ضروری ہے کہ ہم حکومت کی جانب سے فراہم کیے جانے والے حفاظتی ٹیکوں کا کورس مکمل کرائیں اور اپنے بچوں کو اس کورس کے مکمل کرانے کے دوران کسی پراپیگنڈہ کا شکار نہ ہوں۔ حکومت کی ہدایت کے مطابق جس گلی محلے میں خسرہ کاایک بچہ متاثر ہورہا ہے اس کے اردگرد دس گھروں کے بچوں کو ویکسیئن دی جارہی ہے۔یہ ضروری ہے کہ جس بچہ کو خسرہ ہواس کو دیگر بچوں سے دوررکھیں مگر ہمارے ہاں غربت کے باعث ایک کمرے میں دس دس افراد رہتے ہیں اس لیے اس کام میں جتنی احتیاط برتی جائے بہتر ہے۔
اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹراظہر احمد
ماہروبائی امراض
انسان کی زندگی میں صحت اوربیماری ساتھ ساتھ چلتے ہیں فرق صرف اتنا ہوتا کہ صحت مند افراد جب بیمار پڑتے ہیں تو اس کو نارمل لیتے ہیں جس سے ان کی بیماری میں پیچیدگیاں آنے لگتی ہیں۔ خسرہ کی بیماری اتنی پیچیدہ اورخطرناک نہیں کہ اس کو جان لیوا بیماری کہا جائے بلکہ یہ ایک عام سا مرض ہے جو عموماً چھ ماہ سے پندرہ سا ل کی عمر کے بچوں کو کسی بھی وقت ہوسکتا ہے اس سے گھبرانے کے بجائے اس کاعلاج کرانا چاہیے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ کسی بھی بیماری کے ہونے سے پیداہونے والی گھبراہٹ کا حل صحیح معالج کاانتخاب اورعلاج ہے اورسب سے بہتر یہ ہے کہ ہرفرد طرز زندگی کو تبدیل کرے یعنی ایسے ماحول کو پروان چڑھائے جس سے صحت مندمعاشرہ کی تکمیل بھی ہو اور اپنے اردگرد کا ماحو ل بھی صاف ستھرا بن جائے اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر فرد اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اپنا اپنا کام ایمانداری سے کرے گھروں میں خصوصاً صاف صفائی کاخیال رکھا جائے۔
زیادہ تر بیماریوں کا موجب گندگی بنتی ہے اوراگر ہم صرف صفائی کا ہی خیال رکھ لیں تو نوے فیصد بیماریوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ خسرہ سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ عوام کو یہ بھی معلوم ہو کہ خسرہ کی نشانیاں کیا ہیں تاکہ بچوں کو ٹوٹکوں کی بجائے اصل علاج کرایاجاسکے اوران کو خسرہ جیسی بیماری سے محفوظ بنایا جاسکے۔ خسرہ اوراس جیسی دیگر بیماریوں کا وائرس ایک گھنٹہ سے زائد ہوا میں رہتا ہے اس لیے جس کسی کو بھی خسرہ یا دیگر وبائی مرض ہو اس کو تنہا رکھا جائے اورخصوصا اس کے منہ کو ہلکے سے کپڑے سے ڈھانپ کررکھاجائے تاکہ اگر اس کو چھینک یاکھانسی آئے تو اس کے جراثیم ہوا میں نہ ٹھہر سکیں اور ارد گرد کے افراد اس سے محفوظ رہیں۔ خسرہ قابل علاج مرض ہے تاہم ضروری یہ ہے کہ اس کا بروقت علاج کرایا جائے۔
گھروں میں ماؤں کو اس حوالے سے آگاہی دینے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ بچوں کو جس عمر میں خسرہ یا دیگر وبائی امراض کاحملہ ہوتا ہے وہ چھ ماہ سے شروع ہوتا ہے اورا س دوران ماں کاکردار زیادہ متحرک اور اہم ہوتا ہے، جس ماں کو احتیاطی تدابیر کاعلم ہوگا وہ اپنے بچوں کو زیادہ صحت مند بنا سکیں گی اوریوں خسرہ سے بھی بچوں کو محفوظ بنایاجاسکے اور انسانی جانوں کے ضیاع کا سلسلہ بھی رک جائیگا۔ خسرہ کی بیماری عموماً خوراک کی کمی اور کمزوری سے ہوتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ چھ ماہ سے پندرہ سال کی عمر کے بچوں اوربچیوں کو نہ صرف وقت پر حفاظتی ٹیکوں کا کورس مکمل کرایا جائے بلکہ ان کی خوراک کا بھی خیال رکھا جائے۔
خوراک مقدار میں زیادہ نہیں ہونی چاہیے بلکہ معیار میں بہتر ہونی چاہیے تھوڑی اور بہترخوراک قوت مدافعت کو بڑھانے میں مدد کرتی ہے اس لیے یہ سوچ غلط ہے کہ صرف اچھی خوراک مقدار کانام ہے بلکہ اچھی خوراک معیارکانام ہے اوراس کے ساتھ ساتھ اگر صفائی کے نظام کو بھی بہتر بنا دیا جائے تو سونے پر سہاگہ ہے اس لیے ضروری ہے کہ خسرہ سے محفوظ رہنے کے لیے احتیاطی تدابیر کواختیارکیاجائے صفائی کا خیال رکھا جائے اور معیاری خوراک استعمال کی جائے۔
عام طورپر والدین میں یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ صحت کے مراکز پردی جانے والی ویکسیئن قابل اعتمادنہیں ہوتی والدین کایہ تاثر بالکل غلط ہے بلکہ سب سے زیادہ محفوظ جگہ سرکاری ادارے ہیںجہاں کسی بھی مرض کی ویکسیئن کو انتہائی احتیاط اور تمام تر سہولیات ساتھ سنبھال کررکھا جاتا ہے جبکہ دوسری جانب بعض نجی ہسپتالوں میں یہ بات مشاہدہ میں آئی ہے کہ ان کے پاس کسی بھی مرض کی ویکسیئن کو سنبھال کررکھنے کی سہولیات نہیں ہوتیں یا پھر انتہائی محدود ہوتی ہیں جس کے باعث ویکسیئن کے خراب ہونے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔
حکومت اور اس کے ماتحت سرکاری ہسپتال کسی صورت بھی عوام کے لیے خطرہ مول نہیں لیتے تاہم یہ الگ بات ہے کہ بعض سرکاری ہسپتالوں سے بھی عوامی شکایات وصول ہوئی ہیں مگرمجموعی طورپر سرکاری ہسپتالوں میں چیک اینڈ بیلنس زیادہ ہوتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ والدین اپنے بچوں اوربچیوں کے ساتھ جب وہ بیمار ہوں تو تجربات نہ کریں یعنی نہ خود ڈاکٹربننے کی کوشش کریں اورنہ ہی کسی نیم حکیم کے مشوروں کو آزمائیں بلکہ فوری طورپر قریبی ہستپال سے رجوع کریں یا پھر اپنے فیملی فزیشن کی خدمات حاصل کریں۔
زیادہ تر بیماروں کاپھیلنا یا بیماری کے بگڑ جانے کی ایک وجہ یہ بھی سامنے آئی ہے کہ سیلف میڈیکیشن کی جاتی ہے یعنی کسی معالج یا کوالیفائیڈ ڈاکٹرسے مشورہ نہیں کیاجاتا اور خود ہی سب کچھ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس سے بیماری میں بگاڑ پیداہوتا ہے اورمریض کوتشویشناک حالت تک پہنچادیا جاتا ہے۔
اگرمریض کوبروقت علاج کے لیے قریبی ہسپتال یا مرکز صحت تک پہنچادیاجائے تو نہ صرف علاج معالجہ سو فیصد درست ہوگا بلکہ شرح اموات میں بھی کمی واقع ہوگی اس لیے ضروری ہے کہ اپنے معالج سے ہر صورت میں مشورہ کیا جائے۔ خسرہ کی بیماری جان لیوانہیں ہے مگر اس میں بے احتیاطی سے نمونیا اور ڈائریا ہوجاتا ہے جو موت کا باعث بن رہا ہے اس لیے ضرور ی ہے کہ خسرہ سے محفوظ رہنے کے لیے ماؤں کو علامتوں کا علم ہو۔ خسرہ کو بڑھنے سے بچانے کیلئے ضروری ہے کہ جیسے ہی منہ میں دانوں کا خدشہ محسوس کیاجائے قریبی مرکز صحت یا ہسپتال سے رجوع کیا جائے۔
تاہم اس سلسلہ میں حکومتی سطح پرکئے جانے والے اقدامات کو فراموش نہیں کیاجاسکتا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ پولیو اورڈینگی وائرس کے بعد خسرہ کی بیماری جان لیوا ثابت ہوئی ہے جس کے باعث ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تک سرکاری اعدادو شمار کے مطابق 175معصوم جانیں لقمۂ اجل بن چکی ہیں جن میں سے 84 ہلاکتیں صرف لاہور میں ہوئی ہیں اور آئے روز مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، جو 19ہزار400 سے تجاوز کر چکی ہے جس میں سے 5247 مریضوں کا تعلق لاہور سے ہے۔
روزنامہ ایکسپریس نے عوام الناس کو خسرہ جیسی خطرناک اورجان لیوا بیماری کے بارے میں آگاہی دینے اور اس سے بچاؤ کیلئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کیلئے'' خسرہ کے محرکات اور اس سے بچاو'' کے موضوع پرایک خصوصی فورم کا اہتمام کیا تاکہ عوام میں خسرہ اوراس جیسی وبائی بیماریوں سے محفوظ رہنے کی آگاہی پیدا جاسکے۔ فورم میں صوبائی وزیر صحت خلیل طاہر سندھو، جنرل سیکرٹری تحریک انصاف پنجاب و سابق صدر پا کستان میڈیکل ایسوسی ایشن پروفیسر ڈاکٹر یاسمین راشد، میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سرگنگارام ہسپتال ڈاکٹرفضل الرحمان، ماہروبائی امراض اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹراظہر احمد نے اظہار خیال کیا۔ طبی ماہرین نے جو گفتگو کی وہ نذرقارئین ہے۔
خلیل طاہر سندھو
صوبائی وزیرصحت پنجاب
خسرہ کی بیماری اور اس کے باعث ہونے والی اموات کے پیش نظرحکومتی سطح پرفیصلہ کیاگیا ہے کہ اب اس معاملہ میں کوئی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی بلکہ حکومت ،عوام اور معالجین مل کر اس وباء کے خلاف جنگ لڑیں گے۔ پولیو ،ڈینگی وائرس کے بعد خسرہ کاجان لیوا حملہ عوام کے لیے خوف کی علامت بن چکا ہے جس کے لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ عوام کو اس بات پر آمادہ کیاجائے کہ کوئی بھی وبائی مرض خواہ وہ ڈینگی وائرس کے باعث ہو یا خسرہ کے اس وقت تک جان لیوا ثابت نہیں ہوتا جب تک کہ اس کے علاج معالجہ میں کوتاہی نہ برتی جائے یا ایسی احتیاطی تدابیر کو نظرانداز کیاجائے۔
جن کو ہم اپنے طورپر اپنا کر ہر بیماری سے اپنی قیمتی جانوں کو محفوظ بناسکتے ہیں اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کو خسرہ سے محفوظ رکھنے کے لیے آگاہی مہم کوگھر گھر پہنچایا جائے۔ وزیراعلی پنجاب محمد شہباز شریف کی قیادت میں نہ صرف عوام کو ہر بحران سے ریلیف دینے کا تہیہ کیاگیا ہے بلکہ ہر بیماری اورپریشانی سے محفوظ بنانے کا اعلان بھی کیاگیا ہے اوریہ اعلان جنگی بنیادوں پر کیاگیا ہے۔ جس انداز میں وزیراعلی پنجاب محمد شہبازشریف نے ڈینگی وائرس کے خلاف عوام کے سنگ جنگ لڑی اوراس میں کامیابی بھی حاصل کی اسی انداز میں وہ خسرہ کی بیماری کے خلاف عوام کے سنگ مہم میں حصہ لے رہے ہیں۔
جس کے لیے ان کی خصوصی ہدایات ہیں کہ نہ صرف وزراء بلکہ ہر ممبر صوبائی اسمبلی کسی نہ کسی ہسپتال کا دورہ کرے گا اور اس بات کو یقینی بنائے گا کہ ہسپتالوں میں آنے والے مریضوں جن میں خصوصا خسرہ کے مریض شامل ہیں کے علاج میں کسی قسم کی کمی نہ ہو۔ اس بات پر بھی زوردیا گیا ہے کہ عوام کو گھر گھر جاکر اورایسے ذرائع استعمال کرکے خسرہ سے محفوظ بننے کی تجاویز دی جائیں جس سے وہ اپنے گھروں میں ہی ہر بیماری سے محفوظ رہیں۔ موجودہ حکومت اس وقت بھاری مینڈیٹ نہیں بلکہ بھاری ذمہ داری کے فارمولا پر کاربند ہے۔
وزیراعلی پنجاب محمد شہبازشریف نے سب سے پہلے جس اجلاس کی صدارت کی وہ خسرہ سے متعلق تھا اور اس حوالے سے ان کا مؤقف انتہائی اہم رہا ہے وزیر اعلیٰ کے ویژن کے مطابق پسماندہ علاقوں میں قائم صحت کے مراکز سے لے کر شہری سطح پر تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے، تمام ڈاکٹرز کی چھٹیاں منسوخ کردی گئی ہیں اور اس بات کویقینی بنایا جارہا ہے کہ سب مل کر خسرہ سمیت دیگر وبائی بیماریوں خناق،کالی کھانسی، تپ دق اور پولیو وغیرہ سے بھی بچاؤ کیلئے بھی احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔ خسرہ سے صرف پاکستانی عوام ہی متاثر نہیں ہوئے بلکہ لندن کے شہر بریسلز اوربھارت میں بھی خسرہ کی وباء انسانی جانوں کو اپنا شکار بنا چکی ہے۔
اب تک خسرہ کے باعث جتنی بھی اموات ہوئی ہیں تمام قیمتی جانیں تھیں، مگر ہمارے ہاں بھارت کے مقابلے میں شرح اموات بہت کم رہی۔ خسرہ سے بچاؤ کے لیے ایک تحقیق سامنے آئی ہے کہ جن بچوں کو وٹامن اے کا استعمال زیادہ کرایا جائے ان کے لیے خسرہ جان لیوا ثابت نہیں ہوتا اسلئے حکومتی سطح پر یہ طے کیاگیا ہے کہ خسرہ کی ویکسینیشن کے ساتھ وٹامن اے بھی دی جائے تاکہ بچوں میں قوت مدافعت بڑھے اور وہ خسرہ جیسی بیماری سے بچ سکیں۔ انسانی جانیں ہم سب کے لیے بڑی اہمیت رکھتی ہیں ان کی حفاظت اپنی قومی ذمہ داری ہے، خواہ ڈاکٹرز ہوں ، سیاستدان ہوں یا پھر عوام ہوں خسرہ کے خلاف جاری جنگ میں سب کو بلا امتیاز حصہ لینا ہوگا اورسب کو قومی ذمہ داری سمجھ کر اپنا اپنا کام کرنا ہوگا۔
خسرہ کی بیماری 2012ء میں اندرون سندھ سے شروع ہوئی جو پنجاب میں ڈی جی خان اور راجن پوروغیرہ کے اضلاع میں پھیلی جس کے پیش نظر اس وقت وزیراعلی پنجاب محمد شہباز شریف نے احتیاطی طورپر 19اضلاع میں خسرہ کی ویکسینیشن مہم کاآغاز کیا اوراب ان اضلاع کو بھی شامل کرلیاگیا ہے جہاں خسرہ کے متاثرہ بچے انتہائی کم تعداد میں ہیں یا بالکل نہیں ہیں۔
میں خود ہنگامی بنیادوں پر وزیراعلی پنجاب محمد شہباز شریف کی ہدایت پر سرکاری ہسپتالوں کے دورے کررہا ہوں اور میں نے دن رات عوام کی خدمت کے لیے وقف کررکھا ہے، اس دوران ان تمام چیزوں کومدنظررکھا جارہا ہے جس سے عوام کو خسرہ جیسی موذی بیماری سے محفوظ بنایا جاسکے جس میں ہمیں کافی حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے مگر اصل مرحلہ عوامی رابطہ مہم ہی ہے۔
جس کے بغیر کسی بھی بیماری کے خلاف جنگ نہیں لڑی جاسکتی ہے۔ ہمارے عوام باشعور ہیں صرف ان کی توجہ کو حاصل کرنے کی ضرورت ہے جس طرح سے عوام اور حکومت نے ملکر ڈینگی وائرس کے خلاف جہاد کیا اور اس کو ماربھگانے کی قسم اٹھائی اسی طرح اب وقت ہے کہ خسرہ کے خلاف جنگ لڑی جائے اور یہ طے کرلیاجائے کہ ہر صورت میں ہم نے اس بیماری کو اپنے شہراور صوبے سے ہی نہیں بلکہ ملک سے بھی ختم کرنا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر یاسمین راشد
سابق صدر پا کستان میڈیکل ایسوسی ایشن
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ خسرہ کی بیماری پھیلنے کی بنیادی وجہ بچوں میں خوراک کی کمی ہے اور حکومت نے جو بجٹ پیش کیا ہے اس میں خوراک پر جی ایس ٹی لگادیا گیا ہے، جس سے اس وباء کے پھیلنے کا اندیشہ بڑھ گیا ہے۔ جن بچوں کی خوراک بہتر اوراچھی ہوتی ہے ان کی قوت مدافعت بھی بہترہوتی ہے ایسے بچوں میں بیماری سے بچنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ یہ بات انتہائی تشویش ناک ہے کہ حکومت اس وقت حرکت میں آتی ہے جب بیماری حد سے بڑھ چکی ہوتی ہے اور اس کا علاج معالجہ تشویشناک ہوجاتا ہے حالانکہ دنیا بھر میں یہ فارمولا اپنایا جاتا ہے کہ بیماری ہونے سے قبل اس کی روک تھام کے اقدامات کیے جائیں اور علاج سے بہتر پرہیز کے فارمولا کوترجیح دی جاتی ہے اس لئے خسرہ سے لڑنے کے لیے یہ بڑی اہم بات ہے کہ پنجاب حکومت خوراک کو ٹیکس فری کرے۔
خصوصاً بچوں کی خوراک دودھ وغیرہ پر ٹیکس عائد نہ کیا جائے۔ ماؤں کا دودھ پینے والے بچوں میں بھی بیماری سے بچنے کی صلاحیت دیگر کی نسبت زیادہ ہوتی ہے جبکہ دیہی اور پسماندہ علاقوں میں فیڈرسے دودھ پلانے کے رواج نے بچوں میں خسرہ ،گیسٹرو اور دیگر موذی امراض پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، میری تجویز ہے کہ ہر تین ماہ بعد حکومت تمام علاقوں میں مرحلہ وار سروے کرائے کہ کن علاقوں میں کس بیماری کا حملہ ہوا ہے یا ہوا تھا اورا سکی ویکسینیشن کس طرز پر کی گئی۔ یہاں حالات یہ ہیں کہ ہر سال 35سے40لاکھ بچے پیدا ہوتے ہیں جوچھ ماہ سے دس سال کی عمر میں کسی نہ کسی بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں۔
جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عوام کو شعورنہیں کہ بچوں کی عمر کے مطابق نشوونما کیسے ہونی چاہیے اس لیے ضروری ہے کہ سرکاری سطح پر سرکاری میڈیا میں زیادہ سے زیادہ وبائی امراض کے حوالے سے بڑے پیمانے پر تشہیری پروگرام چلائے جائیں اور عوام کو شعوردیا جائے کہ انہوں نے بیماریوں سے اپنے اوراپنے بچوں کو کس طرح سے محفوظ رکھنا ہے۔ ہم تحقیق پر یقین نہیں رکھتے یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں آئے روز مختلف بیماریوں اوربحرانوں کا سامنا ہے۔ حکومت سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیمی سہولیات کے ساتھ ساتھ بچوں کی معیاری خوراک دینے کا بھی بندوبست کرے۔
تاکہ تعلیم یافتہ اور صحت مند معاشرہ کی تکمیل یقینی ہوسکے۔ بیماری کوئی بھی ہو سب سے پہلے اس کی نقل وحرکت پر نظررکھنی چاہیے کہ یہ کس جگہ سے شروع ہورہی ہے اورکیوں ہورہی ہے یعنی وہ کون سی وجوہات ہیں جو کسی بھی ایسی بیماری کو پھیلانے کا سبب بن رہی ہیں جن سے انسانی جانوں کا ضیاع ہورہا ہے پھر اس کے بارے میں فوری تحقیق اورعمل کیا جائے۔ ہمارے ہاں یہ بھی کسی بدقستمی سے کم نہیں کہ ہم تحقیق پر یقین نہیں رکھتے بلکہ ایسے فوری طریقے ڈھونڈتے ہیں جس سے ایک منٹ میں صحت مند ہوجائیں۔
خسرہ اوراس جیسی دیگر بیماریاں کیونکہ سر اٹھارہی ہیں ہونا تو یہ چاہیے کہ دیکھا جائے اس کے پیچھے کون سے ایسے عوامل یا جراثیم ہیں جوان بیماریوں کو پہلے پسماندہ اور پھر شہری علاقوں تک آسانی سے پھیلا دیتے ہیں ان عوامل کومدنظر رکھ کر مکمل بندوبست کیاجائے۔ آجکل سفری سہولتیں اس قدر عام ہوگئی ہیں کہ بیماریاں بھی انسانوں کے ساتھ ساتھ سفرکررہی ہیں اس لیے یہ بھی ضروری ہے کہ جن علاقوں میں کوئی بھی بیماری یامرض بچوں یا بوڑھوں میں پایا جائے اس کی ویکسینیشن صرف اس علاقہ تک ہی نہیں بلکہ سفر کے دوران بھی کی جائے ٹرانسپورٹ کو بھی ویکسینیٹ کیاجائے اوراس بات کویقینی بنایا جائے کہ تمام افراد جو ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے ہیں ان کوکسی نوعیت کی بیماری یا مرض نہیں ہے کوئی ایسا وائرس تو نہیں جو یکدم پھیل جائے اوراس سے دیگر افراد بھی متاثرہوجائیں۔ خسرہ کے باعث ہونے والی ہلاکتیں انتہائی افسوسناک ہیں تاہم حکومت کو چاہیے کہ اس پر فوری ایکشن لیتے ہوئے ایسے فیصلے اوراقدامات کرے جس سے کسی بھی کوتاہی کو نظرانداز نہ کیاجائے اورعوام کو گھر کی دہلیز پر بہترین اور معیاری علاج فراہم کیاجائے۔
ڈاکٹرفضل الرحمان
میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سرگنگارام ہسپتال
یہ بات درست ہے کہ انسانی جانوں کو ہر دور میں کسی نہ کسی بیماری کے باعث انتہائی تشویش ناک صورتحال کا سامنا رہا ہے اوراس سلسلہ میں متعدد انسانی جانیںلقمہ اجل بھی بنی ہیں مگر اس میں جتنی ذمہ دار سرکاری میشنری ہے اتنی ہی غفلت عوام کی جانب سے بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں بطورایک قوم یہ طے کرنا ہوگا کہ ہم اپنے اداروں پر اعتماد کریں خصوصا قومی سطح پر چلائی جانے والی صحت افزاء مہموں کو ہر صورت میں کامیاب بنائیں اور اس شک میں نہ پڑیں کہ حکومت یا کوئی اور حکومتی ادارہ عوام کو بیماریوں سے محفوظ بنانے کے لیے جو بھی ویکسیئن استعمال کررہا ہے وہ غیر معیاری یا طبی طور پر بے سود ہے۔
حکومت اس سلسلہ میں اربوں روپے کے فنڈز استعمال کررہی ہے جس کا ایک ہی مقصد ہے کہ عوام کو کسی بھی طرح سے صحت مند اور تندرست بنایاجا سکے۔ملک کے پسماندہ علاقوں میں اس حوالے سے آگاہی مہم چلانے کی زیادہ ضرور ت ہے کیونکہ پسماندہ علاقوں میں غربت کے ساتھ ساتھ ناخواندگی کی بھی بہت زیادہ ہے ان حالات میں ان علاقوں تک احتیاطی تدابیر کی تشہیر انتہائی اہمیت رکھتی ہے جس کے لیے گھر گھر جاکر مہم چلانے کی ضرورت ہے۔
اس وقت کوئی بھی مرض خطرناک بن سکتا ہے جب اس سے احتیاط کرنے کے مراحل کو نظرانداز کردیا جائے اور یہ تصورکیاجائے کہ یہ خودبخود ٹھیک ہوجائے گا بلکہ ایک بھی علامت ظاہر ہونے پر بیماری کا فوری علاج ہونا ضروری ہے تاکہ اسکو مزید بگڑنے سے بچایا جا سکے۔ میری سربراہی میں سرگنگارام ہسپتال میں جہاں دیگر مریضوں کے لیے ہر ممکن طبی سہولت کو ہمہ وقت فراہم کیاجارہا ہے وہاں خصوصا وبائی امراض جن میں خاص طور پرخسرہ کی بیماری جو آجکل شدت اختیارکرچکی ہے سے عوام کو محفوظ بنانے کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔
جس کے تحت خسرہ کے مریضوں کا الگ سے وارڈ بنایا گیا ہے جہاں تینوں شفٹوں میں الگ سے کوالیفائیڈ ڈاکٹرز،نرسز اورپیرامیڈیکل سٹاف تعینات ہے، ان کے بہترین علاج معالجہ کے باعث سرگنگارام ہسپتال میں خسرہ کا صرف ایک مریض داخل ہوا جو تیزی سے صحت یاب ہورہا ہے۔ ہسپتال میں وزیراعلی پنجاب محمد شہبازشریف کی ہدایت کے مطابق تمام تر طبی سہولیات کو فراہم کیاجارہا ہے اور ہسپتال میں تمام عملا کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ مریض کے ساتھ شائستگی سے پیش آئے اوران کے دکھ درد کو سمجھتے ہوئے اس کا بہترعلاج کرے اور وہ تمام سہولیات فوری فراہم کرے۔
جو حکومت کی جانب سے ہسپتال کو فراہم کی جاتی ہیں جن میں طبی ٹیسٹوں سے لے کر ادویات اور علاج شامل ہے۔ اب یہ ہم سب کافرض بنتا ہے کہ جس طرح ہم نے حکومت اورعوام کے ساتھ ملکر ڈینگی وائرس کا قلع قمع کیا اور اس کے موذی اثرات کو بے اثر کیا اسی طرح ہم خسرہ کے خلاف جاری جنگ میں اپنا کردار اداکریں۔ صرف خسرہ ہی نہیں بلکہ ہر وہ بیماری جو وباء بن کر انسانی جانوں کو لقمہ اجل بنا رہی ہے اس کے خلاف جنگ جاری رہے گی اورموسمی کیفیات میں تبدیلی کے پیش نظر ہر مرض کوکنٹرول کرنے کی حکمت عملی بدستوراپنائی جائیگی۔
اس جنگ یعنی ڈینگی وائرس،پولیو اوراب خسرہ کے خلاف جاری مہم میں عوام کی شمولیت کے بغیرکچھ بھی نہیں کیاجاسکتا اس لیے آگاہی مہم مؤثرکردار ادا کرے گی اورحکومت کی ہدایت پر آگاہی مہم اورعلاج ساتھ ساتھ چلتے رہے گے۔ خسرہ جیسی دیگر وبائی بیماریوں سے بچاؤکے لیے ضروری ہے کہ ہم حکومت کی جانب سے فراہم کیے جانے والے حفاظتی ٹیکوں کا کورس مکمل کرائیں اور اپنے بچوں کو اس کورس کے مکمل کرانے کے دوران کسی پراپیگنڈہ کا شکار نہ ہوں۔ حکومت کی ہدایت کے مطابق جس گلی محلے میں خسرہ کاایک بچہ متاثر ہورہا ہے اس کے اردگرد دس گھروں کے بچوں کو ویکسیئن دی جارہی ہے۔یہ ضروری ہے کہ جس بچہ کو خسرہ ہواس کو دیگر بچوں سے دوررکھیں مگر ہمارے ہاں غربت کے باعث ایک کمرے میں دس دس افراد رہتے ہیں اس لیے اس کام میں جتنی احتیاط برتی جائے بہتر ہے۔
اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹراظہر احمد
ماہروبائی امراض
انسان کی زندگی میں صحت اوربیماری ساتھ ساتھ چلتے ہیں فرق صرف اتنا ہوتا کہ صحت مند افراد جب بیمار پڑتے ہیں تو اس کو نارمل لیتے ہیں جس سے ان کی بیماری میں پیچیدگیاں آنے لگتی ہیں۔ خسرہ کی بیماری اتنی پیچیدہ اورخطرناک نہیں کہ اس کو جان لیوا بیماری کہا جائے بلکہ یہ ایک عام سا مرض ہے جو عموماً چھ ماہ سے پندرہ سا ل کی عمر کے بچوں کو کسی بھی وقت ہوسکتا ہے اس سے گھبرانے کے بجائے اس کاعلاج کرانا چاہیے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ کسی بھی بیماری کے ہونے سے پیداہونے والی گھبراہٹ کا حل صحیح معالج کاانتخاب اورعلاج ہے اورسب سے بہتر یہ ہے کہ ہرفرد طرز زندگی کو تبدیل کرے یعنی ایسے ماحول کو پروان چڑھائے جس سے صحت مندمعاشرہ کی تکمیل بھی ہو اور اپنے اردگرد کا ماحو ل بھی صاف ستھرا بن جائے اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر فرد اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اپنا اپنا کام ایمانداری سے کرے گھروں میں خصوصاً صاف صفائی کاخیال رکھا جائے۔
زیادہ تر بیماریوں کا موجب گندگی بنتی ہے اوراگر ہم صرف صفائی کا ہی خیال رکھ لیں تو نوے فیصد بیماریوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ خسرہ سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ عوام کو یہ بھی معلوم ہو کہ خسرہ کی نشانیاں کیا ہیں تاکہ بچوں کو ٹوٹکوں کی بجائے اصل علاج کرایاجاسکے اوران کو خسرہ جیسی بیماری سے محفوظ بنایا جاسکے۔ خسرہ اوراس جیسی دیگر بیماریوں کا وائرس ایک گھنٹہ سے زائد ہوا میں رہتا ہے اس لیے جس کسی کو بھی خسرہ یا دیگر وبائی مرض ہو اس کو تنہا رکھا جائے اورخصوصا اس کے منہ کو ہلکے سے کپڑے سے ڈھانپ کررکھاجائے تاکہ اگر اس کو چھینک یاکھانسی آئے تو اس کے جراثیم ہوا میں نہ ٹھہر سکیں اور ارد گرد کے افراد اس سے محفوظ رہیں۔ خسرہ قابل علاج مرض ہے تاہم ضروری یہ ہے کہ اس کا بروقت علاج کرایا جائے۔
گھروں میں ماؤں کو اس حوالے سے آگاہی دینے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ بچوں کو جس عمر میں خسرہ یا دیگر وبائی امراض کاحملہ ہوتا ہے وہ چھ ماہ سے شروع ہوتا ہے اورا س دوران ماں کاکردار زیادہ متحرک اور اہم ہوتا ہے، جس ماں کو احتیاطی تدابیر کاعلم ہوگا وہ اپنے بچوں کو زیادہ صحت مند بنا سکیں گی اوریوں خسرہ سے بھی بچوں کو محفوظ بنایاجاسکے اور انسانی جانوں کے ضیاع کا سلسلہ بھی رک جائیگا۔ خسرہ کی بیماری عموماً خوراک کی کمی اور کمزوری سے ہوتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ چھ ماہ سے پندرہ سال کی عمر کے بچوں اوربچیوں کو نہ صرف وقت پر حفاظتی ٹیکوں کا کورس مکمل کرایا جائے بلکہ ان کی خوراک کا بھی خیال رکھا جائے۔
خوراک مقدار میں زیادہ نہیں ہونی چاہیے بلکہ معیار میں بہتر ہونی چاہیے تھوڑی اور بہترخوراک قوت مدافعت کو بڑھانے میں مدد کرتی ہے اس لیے یہ سوچ غلط ہے کہ صرف اچھی خوراک مقدار کانام ہے بلکہ اچھی خوراک معیارکانام ہے اوراس کے ساتھ ساتھ اگر صفائی کے نظام کو بھی بہتر بنا دیا جائے تو سونے پر سہاگہ ہے اس لیے ضروری ہے کہ خسرہ سے محفوظ رہنے کے لیے احتیاطی تدابیر کواختیارکیاجائے صفائی کا خیال رکھا جائے اور معیاری خوراک استعمال کی جائے۔
عام طورپر والدین میں یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ صحت کے مراکز پردی جانے والی ویکسیئن قابل اعتمادنہیں ہوتی والدین کایہ تاثر بالکل غلط ہے بلکہ سب سے زیادہ محفوظ جگہ سرکاری ادارے ہیںجہاں کسی بھی مرض کی ویکسیئن کو انتہائی احتیاط اور تمام تر سہولیات ساتھ سنبھال کررکھا جاتا ہے جبکہ دوسری جانب بعض نجی ہسپتالوں میں یہ بات مشاہدہ میں آئی ہے کہ ان کے پاس کسی بھی مرض کی ویکسیئن کو سنبھال کررکھنے کی سہولیات نہیں ہوتیں یا پھر انتہائی محدود ہوتی ہیں جس کے باعث ویکسیئن کے خراب ہونے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔
حکومت اور اس کے ماتحت سرکاری ہسپتال کسی صورت بھی عوام کے لیے خطرہ مول نہیں لیتے تاہم یہ الگ بات ہے کہ بعض سرکاری ہسپتالوں سے بھی عوامی شکایات وصول ہوئی ہیں مگرمجموعی طورپر سرکاری ہسپتالوں میں چیک اینڈ بیلنس زیادہ ہوتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ والدین اپنے بچوں اوربچیوں کے ساتھ جب وہ بیمار ہوں تو تجربات نہ کریں یعنی نہ خود ڈاکٹربننے کی کوشش کریں اورنہ ہی کسی نیم حکیم کے مشوروں کو آزمائیں بلکہ فوری طورپر قریبی ہستپال سے رجوع کریں یا پھر اپنے فیملی فزیشن کی خدمات حاصل کریں۔
زیادہ تر بیماروں کاپھیلنا یا بیماری کے بگڑ جانے کی ایک وجہ یہ بھی سامنے آئی ہے کہ سیلف میڈیکیشن کی جاتی ہے یعنی کسی معالج یا کوالیفائیڈ ڈاکٹرسے مشورہ نہیں کیاجاتا اور خود ہی سب کچھ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس سے بیماری میں بگاڑ پیداہوتا ہے اورمریض کوتشویشناک حالت تک پہنچادیا جاتا ہے۔
اگرمریض کوبروقت علاج کے لیے قریبی ہسپتال یا مرکز صحت تک پہنچادیاجائے تو نہ صرف علاج معالجہ سو فیصد درست ہوگا بلکہ شرح اموات میں بھی کمی واقع ہوگی اس لیے ضروری ہے کہ اپنے معالج سے ہر صورت میں مشورہ کیا جائے۔ خسرہ کی بیماری جان لیوانہیں ہے مگر اس میں بے احتیاطی سے نمونیا اور ڈائریا ہوجاتا ہے جو موت کا باعث بن رہا ہے اس لیے ضرور ی ہے کہ خسرہ سے محفوظ رہنے کے لیے ماؤں کو علامتوں کا علم ہو۔ خسرہ کو بڑھنے سے بچانے کیلئے ضروری ہے کہ جیسے ہی منہ میں دانوں کا خدشہ محسوس کیاجائے قریبی مرکز صحت یا ہسپتال سے رجوع کیا جائے۔