دلیرانہ اور جرأت مندانہ فیصلے
قوم نے ایک وہ جمہوری دور بھی دیکھا تھا جس میں حکمرانوں نے جمہوریت کو تاراج کرنے اور آئین و دستور کو بازیچہ اطفال۔۔۔
قوم نے ایک وہ جمہوری دور بھی دیکھا تھا جس میں حکمرانوں نے جمہوریت کو تاراج کرنے اور آئین و دستور کو بازیچہ اطفال بنانے والوں کا احتساب کرنے سے نہ صرف اجتناب کیا بلکہ اُنہیں مکمل پروٹوکول دیکر اور گارڈ آف آنر پیش کر کے عزت و احترام کے ساتھ ایوانِ صدر سے رخصت کیا۔ وہ پانچ سال تک لیت و لعل اور تاخیری حربوں سے عدلیہ کی ہر اُس کوشش کو ناکام بناتے رہے جو سابق فوجی آمر کے غیر آئینی فیصلوں کو احتساب کے شکنجے میں لانے کی جانب جاتی ہو۔ اِس کی شاید ایک وجہ تو بدنامِ زمانہ این آر او کا وہ قانون تھا جس سے مستفید ہوتے ہوئے بہت سے لوگ نہ صرف اپنے جرائم کی جزا و سزا سے بچ گئے بلکہ اعلیٰ حکومتی عہدوں تک پہنچ گئے جہاں سے استثناء کا سہارا لے کر وہ ملکی اور غیر ملکی عدالتوں کی گرفت سے بھی نکل گئے۔
جمہوریت کے لیے بڑی بڑی قربانیوں کے اِن دعویداروں کو اپنے اِس پانچ سالہ دورِ اقتدار میں اپنی قائد اور چیئر پرسن کے قاتلوں کا پتہ لگانے کی بھی توفیق نہ ہوئی۔ سارا وقت لوٹی ہوئی دولت بچانے میں صرف ہو گیا، نہ عوام کی فلاح و بہبود کا کوئی کام ہوا اور نہ مسائل و مصائب میں گرفتار قوم کے دکھوں کا مداوا ممکن ہوا۔ ملک کے تمام مالیاتی ادارے تباہ کر دیے گئے، بجلی پانی اور گیس سمیت تمام ضروریات ِ زندگی ناپید کر دی گئیں لیکن کرپشن اور لوٹ مار کے ریکارڈ اِسکینڈل بہر حال خوب بنائے گئے مگر عدلیہ نے جب اُن پر باز پرس کرنا شروع کی تو اُسے بھی اپنے خلاف یکطرفہ تادیبی کارروائیاں کرنے کا الزام دیا جاتا رہا۔
اب ایک نئی حکومت نئے جوش و ولولے اور نئے عزم و استقلال کے ساتھ معرضِ وجود میں آ چکی ہے اور اپنے وعدوں کے عین مطابق اپنے دیے ہوئے منشور پر عمل پیرا ہونے کی دعویدار ہے۔ اِس نئی جمہوری حکومت کو ابتدا ہی سے کئی بحرانوں کا سامنا بھی ہے۔ اُسے ایک بیمار اور اپاہج معیشت ورثے میں ملی ہے، مسائل کی گھمبیری اور وسائل کی کمیابی اُسے ناپسندیدہ اور سخت گیر فیصلوں پر مجبور کیے ہوئے ہے۔ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے اور غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے اُسے فوری طور پر ایک بڑی رقم کی ضرورت ہے جو صرف اُسے آئی ایم ایف ہی سے دستیاب ہو سکتی ہے اور آئی ایم ایف جب کسی کو قرضہ دیتی ہے تو اُس کی وصولی کے بھی کچھ طور طریقے اور کچھ احتیاطی تدابیر وضع کرتی ہے جن کا قرضہ لینے والوں کو پاس بھی رکھنا پڑتا ہے۔
اپنی حکومت کی پیدائش کے صرف ایک ماہ میں مسلم لیگ (ن) کو بجٹ بنانے اور آئی ایم ایف سے سودے بازی کرنے کا جو مشکل ٹاسک ملا تھا وہ اُس میں تو سرخرو ہوتی دکھائی دے رہی ہے لیکن امن و امان اور دہشت گردی جیسے خطرناک معرکوں سے نبرد آزما ہونے میں وہ ابھی تک ناکام رہی ہے۔ بلوچستان میں زبردست خونریزی کے بعد کراچی اور پھر شمالی علاقہ جات میں رونما ہونے والے سنگین واقعات نے سارے ملک کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔ حکومت کسی ایک جانب توجہ دیتی ہے تو دوسری جانب ہلاکتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اپنے محدود مالی وسائل کی موجودگی میں بجلی اور گیس کے بحرانوں کا فوری اور مستقل حل تلاش کرنا بھی کوئی اتنا آسان نہیں۔ جب کہ عرصے سے مصائب زدہ ہمارے عوام کو اب ریلیف بھی چاہیے وہ اپنی اِس نئی حکومت سے بہت توقعات اور اُمیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ سخت گرمی میں بجلی سے محرومی نے اُن کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز کر دیا ہے اور وہ سڑکوں پر نکل کے احتجاج پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اِن تمام مشکلات پر بیک وقت قابو پانا کوئی اتنا آسان نہیں۔ جناب وزیرِ اعظم اور اُن کی حکومتی ٹیم رات دن اِسی فکر میں سرگرداں ہے کہ وہ جلد سے جلد عوام کو اُن کے توقعات کے عین مطابق ریلیف پہنچا سکیں۔
اِدھر ہماری اعلیٰ عدلیہ حکومت سے اُس جواب کی منتظر ہے کہ کیا وہ سابق صدر کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلانے کا کوئی ارادہ رکھتی ہے یا نہیں۔ کہیں وہ بھی سابقہ حکمرانوں کی طرح صرف وقت گزار کر معاملہ رفع دفع کرنا چاہتی ہے۔ موجودہ حکمرانوں کے لیے یہ یقیناً ایک مشکل مرحلہ ہے۔ پاکستان کی طویل ترین سیاسی تاریخ میں حکمرانوں کے لیے ایسا دشوار مرحلہ شاید ہی پہلے کبھی آیا ہو ۔ سابقہ جمہوری حکومت نے اپنے کاندھوں کا بوجھ میاں نواز شریف پر ڈال کر خود کو تماش بینوں میں شامل کر لیا ہے۔ وہ اپنے اِس طرز عمل سے ایک طرف اِسٹیبلشمنٹ کی کسی ناراضی اور مخاصمت سے بچنا چاہتے تھے تو دوسری جانب جناب پرویز مشرف کے اُن احسانوں کا خوشگوار بدلہ بھی اُتارنا چاہتے تھے جو اُنہوں نے این آر او کی صورت میں اُن پر کیا تھا۔ میاں صاحب پر پہلے ہی یہ الزام تراشی کی جاتی ہے کہ وہ طاقت اور اقتدار کے نشے میں ملکی اداروں سے محاذ آرائی شروع کر دیتے ہیں۔
حالانکہ اگر ایک غیر جانبدارانہ اور منصفانہ جائزہ لیا جائے تو یہ بات بالکل غلط ثابت ہو گی ۔ 1993ء میاں صاحب کی منتخب حکومت کو گرانے کی سازشیں کرنے والوں سے اُن کی محاذ آرائی کوئی بلاوجہ اور غیر منطقی نہ تھی۔ اِس کے پیچھے کئی راز پوشیدہ ہیں۔ سپریم کورٹ سے بحالی کے باوجود اُن کی حکومت کا جبراً خاتمہ خود اُس سازش کو بے نقاب کر تا ہے۔ پھر اِسی طرح 1997ء کی اُن کی حکومت کو جسٹس سجاد علی شاہ نے جس طریقے سے ختم کرنے کی ٹھان لی تھی وہ بھی تاریخ کے صفحات پر جلی حرفوں سے رقم شدہ ہیں۔ جسٹس سعید الزماں صدیقی اور اُن کے ساتھیوں کو اسلام آباد سے نکال کر دیگر صوبوں میں تعیناتی اور اپنے چند من پسند ججوں پر مشتمل بینچ قائم کر کے میاں صاحب کو سزا دینے کا تہیہ کر لینے کی سار ی کہانی مورخ کے ذہن میں اب بھی محفوظ ہے۔ اِس لیے یہ کہنا کسی طور بھی مناسب نہیں ہے کہ اداروں سے محاذ آرائی میاں صاحب کی فطرت میں شامل ہے۔
اب آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کسی سابق جنرل کے خلاف مقدمہ چلانے کی ذمے داری اگر تاریخ نے میاں صاحب کے کاندھوں پر ڈال دی ہے تو تاریخ گواہ کہ قومی اسمبلی میں شامل تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے اِس پر اُنہیں اپنی مکمل حمایت اور تعاون کا یقین دلایا ہے۔ کل اگر کسی ادارے کی جانب سے کوئی جوابی ردِ عمل سامنے آتا ہے تو اِن سب کو اُسی اتحاد اور یک جہتی کے ساتھ اُس کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ اِس سے پسپائی کے لیے کوئی عذر اور بہانہ اُنہیں عوام کی نظروں میں مقدم اور سرخرو نہیں کر پائے گا۔میاں صاحب نے جس طرح اپنے پچھلے دور میں تمام بیرونی دباؤ کا مقابلہ کرتے ہوئے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں 28 مئی1998ء کو ایٹمی دھماکے کرنے کا دلیرانہ فیصلہ کیا تھا اُسی طرح اُن کا آج کا فیصلہ بھی ہماری جمہوری تاریخ کا ایک جرأت مندانہ اور دلیرانہ فیصلہ گردانہ جائے گا۔
جمہوریت کے لیے قربانیاں دینے کا دعویٰ تو بہت لوگ کر تے ہیں لیکن اُسکی حفاظت کے لیے جب کڑا وقت آتا ہے تو کچھ لوگوں کے قدم ڈگمگانے لگتے ہیں۔ آج اُسی جمہوریت کی حفاظت کے لیے میاں صاحب نے جو دلیرانہ فیصلہ کیا ہے وہ شاید اُن سے پہلے آنے والوں کے مقدر میں نہ تھا۔ ایک نامعلوم خوف اور وسوسہ اُن کے دلوں کو ڈراتا اور سہماتا رہا اور وہ اِس سے پہلو تہی کرتے ہوئے اپنے آپ کو بچاتے رہے۔ میاں صاحب نے جمہوریت پر شب خون مارنے کے تمام ممکنہ راستوں کو ہمیشہ کے لیے بند کر نے کی بنیاد رکھ دی ہے۔ اب ہماری اعلیٰ عدلیہ اِس کام کو آگے بڑھاتے ہوئے دستورِ پاکستان کو اتنا محفوظ اور مقدس بنا کر اگلی نسلوں کے سپرد کر دے گی کہ پھر کوئی طالع آزما اِسے تاراج کرنے کی جرأت نہ کر سکے۔