انسداد پولیو کی راہ میں رکاوٹیں

عالمی ادارہ صحت کے مطابق افغانستان میں سب سے زیادہ مشکلات درپیش ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق افغانستان میں سب سے زیادہ مشکلات درپیش ہیں۔ فوٹو:فائل

پولیو کی بیماری سے بچوں کی دونوں ٹانگیں معذور ہو جاتی ہیں۔ پاکستان میں اس بیماری کا شکار زیادہ تر صوبہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے رہنے والے بنتے ہیں جہاں نہ صرف پولیو کے قطروں کے بارے میں منفی قسم کا پراپیگنڈہ کیا جاتا رہا بلکہ پولیو ورکروں پر جان لیوا حملے بھی ہوئے جن کی حفاظت کے لیے حکومت کو مسلح محافظ مقرر کرنا پڑے لیکن حملہ آور ان محافظوں کو بھی حملوں کا شکار بناتے رہے۔ اس وجہ سے عالمی صحت ادارے کے افسران دنیا بھر کو پولیو کی بیماری سے پاک کرنے کا اعلان کرتے رہے مگر پاکستان کے بعض علاقے بدستور اس مہلک بیماری کی لپیٹ میں رہے۔

اب عالمی ادارہ صحت کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک کو پولیو سے پاک کرنے کی مہم کی کامیابی طے شدہ وقت کے مطابق نہیں ہو گی بلکہ اس میں ابھی مزید عرصہ لگے گا۔


عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان کے علاوہ نائیجیریا اور افغانستان سے بھی ماحولیاتی نمونے حاصل کیے گئے ہیں جہاں پولیو وائرس کا ٹائپ ون ابھی تک پایا جاتا ہے اور متذکرہ ممالک میں پولیو کے کیسز میں کمی کے بجائے الٹا اضافہ نوٹ کیا گیا ہے جس کی بڑی وجہ عسکریت پسندی اور ان صوبوں کے دور دراز کے علاقوں تک رسائی میں درپیش دشواریاں ہیں نیز دیگر بنیادی سہولتوں کا فقدان بھی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق افغانستان میں سب سے زیادہ مشکلات درپیش ہیں۔ وہاں تو پولیو کے مریضوں کی تعداد پہلے کی نسبت دو گنا ہو چکی ہے۔ پاکستان میں مئی 2018ء سے کئی لاکھ کے لگ بھگ بچوں کو پولیو ویکسین نہیں دی جا سکی جس کے نتیجے میں یہاں پولیو کے مریضوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس کا بھی بنیادی طور پر افغانستان ہو گا جہاں سے پاکستان کے خلاف خطرناک تخریبی کارروائیاں عمل میں لائی جاتی ہیں۔

لہٰذا ضروری ہے کہ دونوں ملکوں کے صاحبان اختیار اس فوری توجہ کے نہایت اہم مسئلہ پر باہمی طور پر مل جل کر مقابلہ کرنے کی کوشش کریں۔ پولیو کا خاتمہ وقت کی ضرورت ہے۔
Load Next Story