پروفیشنل مس کنڈکٹ کی کوئی سزا نہیں ہے
آپ وکلاء کو دیکھ لیں۔ قانون کا تعلیم یافتہ یہ طبقہ معاشرے میں کیسی روایات قائم کر رہا ہے۔
پاکستان میں پروفیشنل لوگوں کے کوڈ آف کنڈکٹ کے بحران نے ہماری پڑھی لکھی آبادی کو بھی تہذیب سے دور کردیا ہے۔ مخصوص شعبوں کے پروفیشنلز کو جہاں ملک کی تعمیر و ترقی اور معاشرہ کی بہتری کے لیے تعمیری کردار ادا کرنا تھا وہ اب اپنی تمام تر تعلیم کے باوجود معاشرے کی زبوں حالی کا باعث ہیں۔ معاشرہ ان پڑھ لوگوں کی جہالت کا متحمل ہو سکتا ہے، اس کا جواز بھی موجود ہے لیکن جہاں پڑھے لکھے بد تہذیب ہو جائیں اس معاشرہ کی بہتری اور ترقی کی امیدیں ناامیدی میں بدل جاتی ہیں۔
آپ وکلاء کو دیکھ لیں۔ قانون کا تعلیم یافتہ یہ طبقہ معاشرے میں کیسی روایات قائم کر رہا ہے۔ فیصل آباد کا حالیہ واقعہ نہ تو پہلا ہے اور نہ ہی آخری ہے۔ بلکہ یہ ایسے ہی ان گنت واقعات کا تسلسل ہے۔ وکلاء گردی ایک عام فہم بات بن گئی ہے۔ اس میں سے خبریت ہی ختم ہو گئی ہے۔ لوگ جس طرح معاشرہ کی باقی بری روایات کے عادی ہو چکے ہیں ایسے ہی معاشرے نے کہیں نہ کہیں وکلاء گردی کو بھی قبول کر لیا ہے۔
سوال یہ ہے یہ کیوں ہے۔ صرف اس لیے کہ پاکستان میں وکلا کا کوئی کوڈ آف کنڈکٹ موجود نہیں ہے۔ بار کونسلز وکلا کے کوڈ آف کنڈکٹ کو نافذ کرنے میں ناکام ہو گئی ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ پاکستان میں وکلاء کے کوڈ آف کنڈکٹ کو درست کرنے کی اشد ضرورت ہے اور اس ضمن میں یہ بھی سو چنے کی ضرورت ہے کہ ایک وکیل ہی دوسرے وکیل کا احتساب کیسے کر سکتا ہے۔ اس ضمن میں نئے نظام کی ضرورت ہے۔ جس میں عام آدمی کے حقوق کا بھی تحفظ ہو اور سخت کوڈ آف کنڈکٹ بھی نافذ کیا جا سکے۔
جواب الجواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ عام آدمی سمیت کوئی بھی کسی بھی وکیل کے خلاف بار کونسل میں شکایت کر سکتا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ضمن میں بار کونسلز کی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے اور عرف عام میں یہی تاثر ہے کہ کچھ نہیں ہوتا اور بار کونسلز اپنے وکیل بھائی کا ہی ساتھ دیتی ہیں۔ اسی طرح ملک میں ڈاکٹرز کا بھی کوئی کوڈ آف کنڈکٹ موجود نہیں۔ ڈاکٹر اور مریض کے رشتے میں عدم توازن ہے۔ ڈاکٹرز کی اپنی تنظیمیں ڈاکٹرز کے کوڈ آف کنڈکٹ کو نافذ کرنے میں بھی مکمل طورپر ناکام ہو گئی ہیں۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ڈاکٹرز بھی وکلاء، تاجر تنظیموں کی طرح ہڑتال کرتے ہیں۔ فیسوں میں ہوش ربا اضافے پر کوئی قدغن نہیں۔ ڈاکٹر کے مس کنڈکٹ کی کوئی سزا نہیں ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ سرکاری اور پرائیویٹ اسپتالوں میں بعض ڈاکٹر کسی دکھیارے کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔ ان کا رویہ کسی جلاد سے کم نہیں ۔ مریضوں سے پیسے بٹورنے تو الگ بات غلط تشخیص اور علاج میں غفلت جیسے سنگین معاملات پر بھی کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔
ڈاکٹرز کی تنظیمیں بس معاملے پر مٹی ڈالنے اور معاملہ رفع دفع کرنے کا کام ہی کرتی ہیں۔ ہیلتھ کئیر کمیشن کی کارکردگی بھی کوئی تسلی بخش نہیں۔ پاکستان میں ڈاکٹری کا پیشہ صرف اور صرف پیسہ کمانے کا ذریعہ رہ گیا ہے۔ پروفیشنل کوڈ آف کنڈکٹ کی کمی نے ڈاکٹروں کو پیسہ کمانے والی مشین بنا دیا ہے۔ یہ پڑھے لکھے تہذیب یافتہ امیر و غریب مریضوں کو ان کی حیثیت سے قطع نظر لوٹتے ہیں اور معاشرہ ان بے بس ہے۔
ملک میں انصاف کے نظام میں بہت سی خامیاں ہیں ۔ مقدمات میں تاخیر پر کوئی احتساب ممکن نہیں۔ تاریخ پر تاریخ پر کوئی باز پرس نہیں۔ غلط فیصلے پر بھی کوئی نہیں پوچھتا۔ جج کام کرے تو اس کی مرضی نہ کرے تو بھی اس کی مرضی۔ کیس سنے تو اس کی مرضی نہ سنے تو اس کی مرضی۔ سپریم جیوڈیشل کونسل میں تک کسی عام سائل کی رسائی نہیں ہے۔
اسی طرح انجینئرز کے اندر بھی احتساب کا نظام باقی شعبوں کی طرح نہیں ہے۔ ملک کی تعمیر اور ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والا یہ شعبہ بھی شتر بے مہار ہو چکا ہے۔ سرکاری اداروں میں انجینئرز کی نا اہلی اور کرپشن کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ جیسے باقی شعبوں میں اندھیر نگری چوپٹ راج ہے ویسے ہی اس شعبہ میں بھی کچھ کم نہیں ہے۔
بیوروکریسی کے اندر بھی کوڈ آف کنڈکٹ کی شدید کمی ہے۔ بیوروکریٹ کام کرے تو اس کی مرضی نہ کرے تو بھی اس کی مرضی۔ آپ کی درخواست سن لے تو اس کی مرضی نہ سنے تو اس کی مرضی۔ سفارش سن لے تو اس کی مرضی وہ بھی نہ سنے تو بھی اس کی مرضی۔
پولیس میں نچلے سطح پر برائے نام ہی سہی لیکن کچھ نہ کچھ احتساب کا نظام موجود ہے۔ سی ایس ایس سے آئے افسران نچلے عملے کو احتساب کے نام پر رگڑتے رہتے ہیں۔ شکایت پرایکشن لے بھی لیتے ہیں اور نہیں بھی لیتے۔یہ بھی ان کی مرضی ہے۔ لیکن پولیس میں کسی اعلیٰ افسر کے احتساب کا کوئی نظام نہیں حالانکہ استحصال شروع ہی اعلیٰ افسران سے ہونا چاہیے لیکن وہاں تو کسی کی شکایت بھی نہیں کی جا سکتی۔حتیٰ کے اراکین اسمبلی کا بھی کوئی کوڈ آف کنڈکٹ نہیں ہے۔
اراکین اسمبلی پارلیمنٹ میں کوئی کردار ادا کریں یا نہ کریں، ان کی مرضی پر منحصر ہے۔ وہ اجلاس میں جائیں تو ان کی مرضی نہ جائیں تو ان کی مرضی۔ اجلاس میں حاضری لگا کر نکل جائیں تو ان کی مرضی ۔ بولیں تو ان کی مرضی نہ بولیں تو ان کی مرضی۔ قانون سازی میں حصہ لیں تو ان کی مرضی۔نہ لیں تو ان کی مرضی۔
عوام کی بات کرے تو ان کی مرضی ذاتی مفادات کی خاطر خاموش سیاست شروع کر دے تواس کی مرضی۔ ٹھیکے میں پیسے بنائے تواس کی مرضی نہ بنائے تواس کی مرضی۔ پارلیمنٹ میں گالیاں دے تواس کی مرضی۔ نہ دے تواس کی مرضی۔ کسی بھی قسم کا کوئی کوڈ آف کنڈکٹ نہیں ہے۔ کہیں کوئی شکایت نہیں کی جا سکتی۔ اراکین پارلیمنٹ کی کارکردگی جانچنے کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ ان کے اندر احتساب کا بھی کوئی نظام موجود نہیں۔
نیب جس کا کام ہی احتساب کرنا ہے۔ اس کے اندر بھی احتساب کو کوئی نظام نہیں۔ باقی شعبوں کی طرح نیب بھی اپنے اندر احتساب کا نظام قائم کرنے میں ناکام نظر آرہا ہے۔ ایک انکوائری کو اسپیڈ لگی ہوئی ہے۔ ایک انکوائری سو چکی ہے۔ ایک میں گرفتاریاں ہی گرفتاریاں ہیں۔ ایک میں سکون ہی سکون ۔ کوئی کسی سے کوئی سوال نہیں کر سکتا۔ ملک میں صحافیوں کے احتساب کا بھی کوئی نظام نہیں ہے۔ صحافتی تنظیمیں بھی دیگر پیشہ ور تنظیموں کی طرح صحافیوں کے مس کنڈکٹ پر احتساب میں ناکام ہو چکی ہیں۔
اس طر ح یہ چند شعبے ہیں جن کا مثال کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ تقریبا ہر چھوٹے بڑے پروفیشل شعبے میں ایسی ہی صورتحال ہے۔ملک میں پڑھے لکھے لوگوں نے لوٹ مچائی ہوئی ہے ۔ ان پڑھ بیچارہ تو اس ملک میں غلامی کی زندگی گزار رہا ہے۔ پروفیشل کوڈ آف کندکٹ کی کمی نے اس ملک کو مس کندکٹ کا جنگل بنا دیا ہے۔ کسی بھی شعبہ میں احتساب کا کوئی نظام نہیں۔ دودھ کی رکھوالی پر بلیاں بیٹھی ہیں۔ چور ہی چوروں کے احتساب پر بیٹھے ہیں۔ ہم پیشہ بھائی بھائی نے ملک کو پڑھے لکھے ڈاکوئوں کا جنگل بنا دیا ہے۔
آپ وکلاء کو دیکھ لیں۔ قانون کا تعلیم یافتہ یہ طبقہ معاشرے میں کیسی روایات قائم کر رہا ہے۔ فیصل آباد کا حالیہ واقعہ نہ تو پہلا ہے اور نہ ہی آخری ہے۔ بلکہ یہ ایسے ہی ان گنت واقعات کا تسلسل ہے۔ وکلاء گردی ایک عام فہم بات بن گئی ہے۔ اس میں سے خبریت ہی ختم ہو گئی ہے۔ لوگ جس طرح معاشرہ کی باقی بری روایات کے عادی ہو چکے ہیں ایسے ہی معاشرے نے کہیں نہ کہیں وکلاء گردی کو بھی قبول کر لیا ہے۔
سوال یہ ہے یہ کیوں ہے۔ صرف اس لیے کہ پاکستان میں وکلا کا کوئی کوڈ آف کنڈکٹ موجود نہیں ہے۔ بار کونسلز وکلا کے کوڈ آف کنڈکٹ کو نافذ کرنے میں ناکام ہو گئی ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ پاکستان میں وکلاء کے کوڈ آف کنڈکٹ کو درست کرنے کی اشد ضرورت ہے اور اس ضمن میں یہ بھی سو چنے کی ضرورت ہے کہ ایک وکیل ہی دوسرے وکیل کا احتساب کیسے کر سکتا ہے۔ اس ضمن میں نئے نظام کی ضرورت ہے۔ جس میں عام آدمی کے حقوق کا بھی تحفظ ہو اور سخت کوڈ آف کنڈکٹ بھی نافذ کیا جا سکے۔
جواب الجواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ عام آدمی سمیت کوئی بھی کسی بھی وکیل کے خلاف بار کونسل میں شکایت کر سکتا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ضمن میں بار کونسلز کی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے اور عرف عام میں یہی تاثر ہے کہ کچھ نہیں ہوتا اور بار کونسلز اپنے وکیل بھائی کا ہی ساتھ دیتی ہیں۔ اسی طرح ملک میں ڈاکٹرز کا بھی کوئی کوڈ آف کنڈکٹ موجود نہیں۔ ڈاکٹر اور مریض کے رشتے میں عدم توازن ہے۔ ڈاکٹرز کی اپنی تنظیمیں ڈاکٹرز کے کوڈ آف کنڈکٹ کو نافذ کرنے میں بھی مکمل طورپر ناکام ہو گئی ہیں۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ڈاکٹرز بھی وکلاء، تاجر تنظیموں کی طرح ہڑتال کرتے ہیں۔ فیسوں میں ہوش ربا اضافے پر کوئی قدغن نہیں۔ ڈاکٹر کے مس کنڈکٹ کی کوئی سزا نہیں ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ سرکاری اور پرائیویٹ اسپتالوں میں بعض ڈاکٹر کسی دکھیارے کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔ ان کا رویہ کسی جلاد سے کم نہیں ۔ مریضوں سے پیسے بٹورنے تو الگ بات غلط تشخیص اور علاج میں غفلت جیسے سنگین معاملات پر بھی کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔
ڈاکٹرز کی تنظیمیں بس معاملے پر مٹی ڈالنے اور معاملہ رفع دفع کرنے کا کام ہی کرتی ہیں۔ ہیلتھ کئیر کمیشن کی کارکردگی بھی کوئی تسلی بخش نہیں۔ پاکستان میں ڈاکٹری کا پیشہ صرف اور صرف پیسہ کمانے کا ذریعہ رہ گیا ہے۔ پروفیشنل کوڈ آف کنڈکٹ کی کمی نے ڈاکٹروں کو پیسہ کمانے والی مشین بنا دیا ہے۔ یہ پڑھے لکھے تہذیب یافتہ امیر و غریب مریضوں کو ان کی حیثیت سے قطع نظر لوٹتے ہیں اور معاشرہ ان بے بس ہے۔
ملک میں انصاف کے نظام میں بہت سی خامیاں ہیں ۔ مقدمات میں تاخیر پر کوئی احتساب ممکن نہیں۔ تاریخ پر تاریخ پر کوئی باز پرس نہیں۔ غلط فیصلے پر بھی کوئی نہیں پوچھتا۔ جج کام کرے تو اس کی مرضی نہ کرے تو بھی اس کی مرضی۔ کیس سنے تو اس کی مرضی نہ سنے تو اس کی مرضی۔ سپریم جیوڈیشل کونسل میں تک کسی عام سائل کی رسائی نہیں ہے۔
اسی طرح انجینئرز کے اندر بھی احتساب کا نظام باقی شعبوں کی طرح نہیں ہے۔ ملک کی تعمیر اور ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والا یہ شعبہ بھی شتر بے مہار ہو چکا ہے۔ سرکاری اداروں میں انجینئرز کی نا اہلی اور کرپشن کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ جیسے باقی شعبوں میں اندھیر نگری چوپٹ راج ہے ویسے ہی اس شعبہ میں بھی کچھ کم نہیں ہے۔
بیوروکریسی کے اندر بھی کوڈ آف کنڈکٹ کی شدید کمی ہے۔ بیوروکریٹ کام کرے تو اس کی مرضی نہ کرے تو بھی اس کی مرضی۔ آپ کی درخواست سن لے تو اس کی مرضی نہ سنے تو اس کی مرضی۔ سفارش سن لے تو اس کی مرضی وہ بھی نہ سنے تو بھی اس کی مرضی۔
پولیس میں نچلے سطح پر برائے نام ہی سہی لیکن کچھ نہ کچھ احتساب کا نظام موجود ہے۔ سی ایس ایس سے آئے افسران نچلے عملے کو احتساب کے نام پر رگڑتے رہتے ہیں۔ شکایت پرایکشن لے بھی لیتے ہیں اور نہیں بھی لیتے۔یہ بھی ان کی مرضی ہے۔ لیکن پولیس میں کسی اعلیٰ افسر کے احتساب کا کوئی نظام نہیں حالانکہ استحصال شروع ہی اعلیٰ افسران سے ہونا چاہیے لیکن وہاں تو کسی کی شکایت بھی نہیں کی جا سکتی۔حتیٰ کے اراکین اسمبلی کا بھی کوئی کوڈ آف کنڈکٹ نہیں ہے۔
اراکین اسمبلی پارلیمنٹ میں کوئی کردار ادا کریں یا نہ کریں، ان کی مرضی پر منحصر ہے۔ وہ اجلاس میں جائیں تو ان کی مرضی نہ جائیں تو ان کی مرضی۔ اجلاس میں حاضری لگا کر نکل جائیں تو ان کی مرضی ۔ بولیں تو ان کی مرضی نہ بولیں تو ان کی مرضی۔ قانون سازی میں حصہ لیں تو ان کی مرضی۔نہ لیں تو ان کی مرضی۔
عوام کی بات کرے تو ان کی مرضی ذاتی مفادات کی خاطر خاموش سیاست شروع کر دے تواس کی مرضی۔ ٹھیکے میں پیسے بنائے تواس کی مرضی نہ بنائے تواس کی مرضی۔ پارلیمنٹ میں گالیاں دے تواس کی مرضی۔ نہ دے تواس کی مرضی۔ کسی بھی قسم کا کوئی کوڈ آف کنڈکٹ نہیں ہے۔ کہیں کوئی شکایت نہیں کی جا سکتی۔ اراکین پارلیمنٹ کی کارکردگی جانچنے کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ ان کے اندر احتساب کا بھی کوئی نظام موجود نہیں۔
نیب جس کا کام ہی احتساب کرنا ہے۔ اس کے اندر بھی احتساب کو کوئی نظام نہیں۔ باقی شعبوں کی طرح نیب بھی اپنے اندر احتساب کا نظام قائم کرنے میں ناکام نظر آرہا ہے۔ ایک انکوائری کو اسپیڈ لگی ہوئی ہے۔ ایک انکوائری سو چکی ہے۔ ایک میں گرفتاریاں ہی گرفتاریاں ہیں۔ ایک میں سکون ہی سکون ۔ کوئی کسی سے کوئی سوال نہیں کر سکتا۔ ملک میں صحافیوں کے احتساب کا بھی کوئی نظام نہیں ہے۔ صحافتی تنظیمیں بھی دیگر پیشہ ور تنظیموں کی طرح صحافیوں کے مس کنڈکٹ پر احتساب میں ناکام ہو چکی ہیں۔
اس طر ح یہ چند شعبے ہیں جن کا مثال کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ تقریبا ہر چھوٹے بڑے پروفیشل شعبے میں ایسی ہی صورتحال ہے۔ملک میں پڑھے لکھے لوگوں نے لوٹ مچائی ہوئی ہے ۔ ان پڑھ بیچارہ تو اس ملک میں غلامی کی زندگی گزار رہا ہے۔ پروفیشل کوڈ آف کندکٹ کی کمی نے اس ملک کو مس کندکٹ کا جنگل بنا دیا ہے۔ کسی بھی شعبہ میں احتساب کا کوئی نظام نہیں۔ دودھ کی رکھوالی پر بلیاں بیٹھی ہیں۔ چور ہی چوروں کے احتساب پر بیٹھے ہیں۔ ہم پیشہ بھائی بھائی نے ملک کو پڑھے لکھے ڈاکوئوں کا جنگل بنا دیا ہے۔