آپؐ کا احساس تعلیم

آپ جاپان کی مثال لیں، تیسری جماعت تک وہ بچوں کو صرف ایک مضمون سکھاتے ہیں وہ صرف’’اخلاقیات‘‘ اور ’’آداب‘‘ ہیں۔


علی احمد ڈھلوں November 21, 2018
[email protected]

لاہور: آج 12ربیع الاول ہے، مسلمانوں کی تیسری عید مبارک ہے، گلی گلی میں شایان شان انداز میں اس دن کو منایا جا رہا ہے۔ ہر طرف چراغاں کیا گیا ہے تاکہ حضورؐ کی ولادت باسعادت کو عقیدت کے ساتھ منایا جا سکے۔ ملت کا ہر فرد اس طرف کوشاں ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ بھرپور انداز میں اس دن کو منا کر آپؐ کی خوشنودی حاصل کر سکے۔

لیکن حیرت ہے کہ کوئی شخص اُن کی دی ہوئی تعلیمات پر چلنے کو تیار نہیں، آپ ؐنے کہا جھوٹ نہ بولو، کسی کا حق نہ مارو، وعدہ خلافی نہ کرو، امانت میں خیانت نہ کرو، ملاوٹ نہ کرو، یتیم کا حق کھانے سے باز رہو، مسکین کی خدمت کرو، بڑوں کا احترام کرو اور چھوٹوں کے ساتھ ادب سے بات کرو، کسی کا حق نہ مارو، کسی کو نقصان نہ پہنچائو، چوری نہ کرو، کرپشن نہ کرو، کسی کے حق پر ڈاکہ نہ ڈالو وغیرہ مگر مجال ہے کہ ہم ان تعلیمات پر کبھی عمل پیرا ہوئے ہوں۔ حد تو یہ ہے کہ مذکورہ بالا تمام باتیں ''کفار'' نے ''چوری'' کر لیں اور ہم محروم رہ گئے ہیں۔ سچ بولنے سے لے کر کسی کی حق تلفی نہ کرنے تک جیسے تمام اصول غیروں نے اپنا لیے اور ہم اُن سے محروم رہ گئے ہیں۔ یہ سب کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟ اور کب ہوا؟

ایک وقت تھا جب ابن الہیشم، جابر بن حیان، جابر بن سنان، الخوارزمی، الکندی، الفارابی، البیرونی، ابن سینا، عمر خیام اور ابن خلدون جیسے مسلمان سائنسدان ایجادات کرتے، تھیوریاں پیش کرتے تو دنیا اُس سے مستفید ہوتی تھی لیکن آج کے جدید دور میں دنیا ایجادات کر رہی ہے اور مسلمان اُس کے سب سے بڑے صارف بنے ہوئے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوا کہ ہم آپسی لڑائیوں میں اُلجھ گئے، فرقہ بندیوں میں پڑ گئے، اور خاص طور پر آخری چار سو سالوں میں ہم مزید زوال پذیر ہو گئے۔

اس قدر زوال پذیر کہ اسلام کے ظہور پذیر ہونے سے لے کر 1500ء تک یعنی پہلے ہزار سال میں ہم نے کم و بیش ایک ہزار سائنسدان پیدا کیے جب کہ آخری چار پانچ سو سال میں ہم نے محض 8 یا 10 سائنسدان پیدا کیے۔ ہماری تعلیم میں وہ جدت نہیں رہی جس کی وجہ سے آج مغرب ہم پر غالب آ گیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اس سارے عمل میں ہم اسلام کو قصور وار ٹھہراتے ہیں کہ اسلام میں دنیاوی تعلیم کا تصور نہیں ہے۔ یہ سراسر غلط مفروضہ قائم کر لیا گیا ہے۔ حالانکہ آپؐ نے دین کے ساتھ دنیاوی تعلیم پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔

ہم اکثر جنگ بدر کے حوالے سے پڑھتے ہیں، جنگ بدر کے جنگی قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کے بارے میں کسے علم نہیں۔ قرآن کریم میں ہے۔''تو آپؐ معاف فرماتے رہئے ان کو اور درگزر فرمایئے۔ بے شک اللہ تعالیٰ محبوب رکھتا ہے احسان کرنے والوں کو۔''حضورؐ نے اسیران بدر کو صحابہ میں تقسیم کر کے انھیں آرام سے رکھنے کا حکم دیا۔ صحابہ کرام نے اپنے محبو ب قائد کے فرمان پر اس حد تک عمل کیا کہ خود کھجوریں اور سوکھی روٹی کھا کر قیدیوں کو کھانا کھلایا۔ یہ قیدی صحابہ کے حسن سلوک سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ان میں بہت سے مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ ان قیدیوں کے بارے میں حضور ؓ نے صحابہ کرام سے مشورہ طلب فرمایا تو حضرت ابو بکر صدیق نے فدیہ لے کر چھوڑ دینے کا مشورہ دیا۔

آپ ؐ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے اتفاق کرتے ہوئے اسیرانِ جنگ سے فدیہ لے کر چھوڑ دیا۔ جوقیدی غریبی کی وجہ سے فدیہ نہیں دے سکے اور وہ پڑھے لکھے تھے، تو آپؐ نے انھیں پڑھانے کے عوض رہا کرنے کا حکم فرمایا۔ تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اس سے مسلمان لگائیں۔ حالانکہ یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ وہ کافر تھے اور اسلام کی تعلیمات سے بالکل نابلد تھے، پھر بھی آپؐ نے دنیاوی تعلیم کا احساس کرتے ہوئے صحابہ کو دنیاوی تعلیم سے بھی روشناس کروایا تا کہ وہ زندگی کے کسی عمل میں پیچھے نہ رہ جائیں۔ افسوس کہ آج بھی مسلمان تعلیم میں پیچھے ہیں۔ طرح طرح کے جھگڑوں میں پڑ کر وقت کو برباد کر رہے ہیں۔ اسی ماحول کی عکاسی اقبالؒ نے کیا خوب کی ہے کہ

ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم

کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ

ہمارے لیے حضور کی زندگی ہر شعبے میں راہِ عمل اور راہِ نجات ہے۔ ہم تمام مسلمانوں کو حضورؐ کو ہی رول ماڈل بنانا چاہیے۔ پھر یہ کہ ''علم حاصل کرو خواہ اس کے لیے تمہیں چین بھی جانا پڑے'' اس حدیث میں کتنی بڑی صداقت ہے، اس کا علم آپ کو یہ حقیقت جان کر ہو گا کہ جدید اقوام کی تمام تر ترقی اور خوشحالی کا راز علم اور صرف علم ہے۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ ہم باتیں تو ''اسلامی جمہوریہ پاکستان'' کی کرتے ہیں لیکن ہم نے آپؐ کی تعلیمات کو یکسر بھلا دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر پاکستان میں دی جانے والی تعلیم کا موازنہ دنیا سے کیا جائے تو پاکستان 125 ویں نمبر پر ہے جب کہ بھارت 103 اور بنگلہ دیش 111 ویں نمبر پر ہے۔ جب کہ اس کے برعکس فن لینڈ دنیا کی معیاری تعلیم کے حوالے سے پہلے نمبر پر ہے جہاں تعلیمی ادارے حکومت کے زیر سایہ چلتے ہیں، فن لینڈ کے تعلیمی ادارے میں طالب علموں کو کتابی کیٹرا بنانے کے بجائے ان کو پریکٹیکل ہنر سکھایا جاتا ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ فن لینڈ کا معیاری تعلیمی نظام دنیا بھر میں ماڈل سمجھا جاتا ہے۔

جہاں تمام شہری ایک جیسی تعلیم حاصل کرتے ہیں چاہے کوئی نچلے طبقے سے تعلق رکھتا ہو یا منہ میں سونے کی چمچ لے کر پیدا ہوا ہو۔ تعلیمی نظام کسی میں کوئی فرق نہیں کرتا۔ اسی لیے اس ملک کے شہر اور دیہات میں بسنے والوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں۔ سب کو ایک ہی سی تعلیم دی جاتی ہے۔ فن لینڈ نے امریکا جیسے سپرپاور کو بھی تعلیمی میدان میں چت کر دیا ہے۔

جب کہ ہم ابھی تک اپنے مسئلوں سے ہی باہر نہیں نکل پا رہے۔ اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق پاکستان کی شرح خواندگی 60 فیصد سے 58 فیصد پر پہنچ چکی ہے۔ طالب علموں کی ایک بڑی تعداد اساتذہ کے تشدد یا والدین کی عدم دلچسپی کے وجہ سے اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔ بات پاکستان کے تعلیمی معیار کی ہو تو، پاکستان میں دو تعلیمی نظام بستے ہیں۔ ایک وہ تعلیمی نظام ہیں جہاں اچھی تعلیم کے ساتھ ساتھ اچھا تعلیمی نصاب بچوں کو پڑھایا جاتا ہے مگر یہ وہ ادارے ہیں جہاں ماہانہ فیس اتنی زیادہ ہے کہ غریب لوگ اتنے پیسوں میں پورا مہینہ گھر کا چولہا جلاتے ہیں۔ ان اداروں میں بچوں کو پریکٹکل ورک بھی سکھایا جاتا ہے مگر وہ بھی انٹرنیشنل معیار پر پورا نہیں اترتا۔ لیکن اس تعلیمی نظام سے بہت بہتر ہے جو غریب کے بچوں کو دیا جاتا ہے۔

پاکستانی حکومت بھی بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرتی ہے، مگر اس تعلیم کا معیار نہ ہونے کے برابر ہے، اسی لیے سرکاری اسکولوں کے اساتذہ بھی ان بچوں کا خوب فائدہ اٹھاتے ہیں جہاں بچوں کو مار مار کر پڑھایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ڈھائی کروڑ بچے اسکول نہیں جاتے۔ بلوچستان وہ واحد صوبہ ہے جہاں سب سے کم بچے اسکول جاتے ہیں، پورے صوبے میں صرف چند سو بچے سرکاری اسکولوں سے ایف اے، ایف ایس سی کر رہے ہیں؟ جب کہ باقی صوبوں میں بھی پڑھائی کے معیارات اس قدر خوش آیند نہیں ہیں کہ انھیں زیر بحث لایا جا ئے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم رٹا سسٹم سے باہر نکلیں، تعلیم میں دلچسپی پیدا کریں اور تعلیمی نظام میں جدت لائیں گے تو یقینا یہ کامیاب ہو گا۔ میں نے فن لینڈ کی بات کی تھی تو وہاں پر صرف 19 بچوں پر ایک ٹیچر اور دنیا میں سب سے لمبی '' بریک'' بھی وہیں ہوتی ہے،بچے اپنے اسکول ٹائم کا 75 منٹ صرف بریک میں گزارتے ہیں۔

دوسرے نمبر پر57 منٹ کی بریک نیو یارک کے اسکولوں میں ہوتی ہے، جب کہ پاکستان میں والدین کو پتہ لگ جائے کہ پڑھانے کے بجائے طویل بریک اسکول میں ہوتی ہے تو والدین ایسے اسکولوں سے بچے اُٹھا لیں۔ ان ملکوں میں سات سال سے قبل کوئی بچہ اسکول نہیں جاتا اور ان بچوں کے لیے کوئی اسکول نہیں ہے، پندرہ سال سے قبل بچے سے اسکولوں میں کوئی باقاعدہ امتحان بھی نہیں جس میں ماں، باپ اور اساتذہ بچے کی نیند حرام کریں۔ بچوں پر کھیلنے، بھاگنے پر پابندی لگ جائے، دروازے اور کھڑکیاں بند کر کے بچوں کو گھروں میں نظر بند کر دیا جائے۔

گھروں میں آنے والے مہمانوں سے بھی ملنے اور بات کرنے پر پابندی ہو، گھروں میں بچوں کے لیے کرفیو اور مارشل لاء کی کیفیت پیدا کر دی جائے اور معصوم بچوں کی سیکھنے اور پڑھنے کی صلاحیتیں سلب کر دی جائیں۔ وہاں پورے ملک میں طلبہ اور طالبات کے لیے ایک ہی امتحان ہوتا ہے، ریاضی کے استاد سے پوچھا ،آپ بچوں کو کیا سکھاتے ہیں، وہ مسکراتے ہوئے بولے ''میں بچوں کو خوش رہنا اور دوسروں کو خوش رکھنا سکھاتا ہوں، کیونکہ اس طرح وہ زندگی کے ہر سوال کو با آسانی حل کر سکتے ہیں۔ آپ جاپان کی مثال لیں، تیسری جماعت تک وہ بچوں کو صرف ایک مضمون سکھاتے ہیں وہ صرف''اخلاقیات'' اور ''آداب'' ہیں۔

حضرت علیؓ نے فرمایا جس میں آداب نہیں اس میں دین نہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ جاپان والوں کو حضرت علیؓ کا قول کہاں سے ملا اور مسلمانوں و پاکستانیوں کو حضرت علیؓ کا قول معلوم کیوں نہیں؟۔ یا پھر اس پر عمل کیوں نہیں؟ یا پھر ہمیں معلوم ہی نہیں کہ آپ ؐ کو تعلیم کے حوالے سے کس قدر شدید احساس تھا جس سے ہم آج بھی بے خبر نظر آتے ہیں!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |