ایمپریس مارکیٹ کراچی کی اصل شکل
قیام پاکستان تک ہندوستانی باشندوں کا ایمپریس مارکیٹ میں داخلہ ممنوع تھا۔
رام دین پانڈے انیسویں صدی کے عظیم انقلابی تھے۔ 1857ء میں جب دہلی میں ہندوستانی شہریوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کے خاتمے کے لیے جنگ آزادی کا آغازکیا اور بوڑھے بادشاہ بہادر شاہ ظفرکو دوبارہ تخت پر بٹھا دیا، تو رام دین پانڈے کراچی میں برطانوی فوج میں تعینات تھے، انھوں نے کراچی سے انگریزوں کے خاتمے کا منصوبہ بنایا۔
انقلابیوں نے طے کیا کہ ملیرکینٹ چھاؤنی میں موجود انگریز سپاہیوں اور افسروں کوگرفتارکیا جائے گا۔ کراچی کا انتظام چلانے والے انگریز افسروں کو معزول کیا جائے گا۔ انگریز حکومت کے مخبروں نے اس کارروائی کی اطلاع انگریز سرکار کو فراہم کی، یوں انگریز حکومت نے رام دین پانڈے اور ان کے 15 ساتھیوں کوگرفتارکیا۔
صدرکے علاقے میں ایک وسیع میدان تھا۔ رام پانڈے اور ان کے ساتھیوں کو توپ پر باندھ کر اڑا دیا گیا، کراچی کے شہری رام پانڈے کو نہیں بھولے۔ لوگ اچانک آتے، اس میدان میں دیے اور موم بتیاں جلاتے،کچھ لوگ پھول چھوڑ جاتے، انگریز انتظامیہ نے محسوس کیا کہ یہ میدان ہندوستانی انقلابیوں کی یادگار بنایا جا رہا ہے۔ معروف محقق اور بلاگر اختر بلوچ لکھتے ہیں کہ انگریز انتظامیہ نے اس میدان میں ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی پر ایک شاندار مارکیٹ تعمیرکر دی۔
قیام پاکستان تک ہندوستانی باشندوں کا ایمپریس مارکیٹ میں داخلہ ممنوع تھا۔ پاکستان بننے کے بعد کراچی کی آبادی تیزی سے بڑھی۔ برسر اقتدار حکومتوں نے کراچی آنے والے لوگوں کی آبادکاری کے لیے نئی بستیوں کی منصوبہ بندی کی اور بہت سی نئی آبادیاں قائم ہوئیں، مگر ایوب خان کے دور سے قوانین کو نظراندازکرتے ہوئے تعمیرات کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایمپریس مارکیٹ کے سامنے ایک گول مارکیٹ کی عمارت تعمیر ہوئی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ بلدیہ کراچی اس عمارت کی تعمیرکی ذمے دار تھی، پھر اس عمارت میں تعمیر کی جانے والی دکانوں کو کرا ئے پر دیا گیا۔ جنرل یحییٰ خان کے دور میں صدر اور اطراف کے علاقے سے ہٹائے جانے والے ہاکروں کی آبادکاری کے لیے بلدیہ کراچی نے عمر فاروقی مارکیٹ تعمیر کی۔ کراچی میں پیدا ہونے والے سعید عثمانی بتاتے ہیں کہ ایک شام کے اخبارکا دفتر صدر ریگل کے علاقے میں ہے۔
اس اخبار نے تجاوزات کے خاتمے کے خلاف بھرپور مہم چلائی تھی جس پر بلدیہ نے ایمپریس مارکیٹ کے سامنے یہ نئی عمارت تعمیرکی اور کرایہ داروں سے معاہدے کیے۔ ان معاہدوں کے تحت انتہائی کم کرایہ مقرر ہوا۔ بعض صحافی کہتے ہیں کہ بعد میں بلدیہ کے افسروں کی ملی بھگت سے کرائے نہیں بڑھے۔ ہر دور میں ایمپریس مارکیٹ اور اطراف کے علاقوں میں تجاوزات قائم ہوئیں۔ دکانداروں، ریسٹورینٹ اور بینکوں نے فٹ پاتھوں پر قبضہ کر لیا، بے شمار ہاکروں نے اپنے اسٹال بنائے۔
ایم کیو ایم کی غیر سرکاری ریاست میں چائنا کٹنگ رائج ہوئی۔ بہت سی چھوٹی چھوٹی دکانیں بن گئیں۔ اختر بلوچ اپنے بلاگ میں لکھتے ہیں کہ اس پورے علاقے میں کئی کئی منزلہ عمارتیں بن گئیں جن میں دکانیں اور دفاتر کے علاوہ رہائشی فلیٹ بھی شامل تھے، یوں صدر میں پیدل سفرکرنے والوں کے لیے فٹ پاتھ کی تلاش مشکل ہو گئی، یہ لوگ سڑکوں پر چلنے پر مجبور ہوئے۔ جب قائد اعظم کے مزار کے عقب سے کاریڈور III تعمیر ہوا تو صدر اور ٹاور جانے کے لیے ایک اعلیٰ معیار کی سڑک تعمیر ہوئی۔
یہ سابق ناظم مصطفی کمال کا کارنامہ تھا کیونکہ اس سڑک کی تعمیر کی بناء پر لائنز ایریا میں آباد کئی ہزار مکینوں کو اپنے گھر چھوڑنے پڑے مگر جب سڑک ایمپریس مارکیٹ کے قریب پہنچتی ہے تو پھر ریگل جانے والی سڑک پر اتنی زیادہ غیر قانونی دکانیں اور اسٹال قائم تھیں کہ سڑکوں کے اطراف اتنی زیادہ کاریں اور موٹر سائیکلیں کئی کئی لائنوں میں کھڑی رہتی تھیں کہ جو سفر پیپلز پارٹی کے سیکریٹریٹ کے سامنے سے شروع ہو کر سابقہ صدر دواخانہ پر اختتام پذیر ہوتا تھا اس کا دورانیہ 10 منٹ پر محیط ہوتا تھا مگر ریگل کے چوراہے تک پہنچنے میں ایک گھنٹے سے زیادہ کا وقت صرف ہوتا تھا، یوں ریگل اور ٹاور تک جانے والے ایک متبادل راستے کا مقصد ختم ہو چلا تھا۔
کراچی کے تنازعات کی رپورٹنگ کرنے والے ایک سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ صدر اور اطراف کے علاقے میں غیر قانونی تعمیرات اور اسٹالوں کے تحفظ کے لیے سالانہ ایک ارب سے زائد رقم وصول کی جاتی تھی۔ یہ رقم اسٹیک ہولڈرز میں تقسیم ہوتی تھی۔ رقم وصول کرنے والے بڑے اسٹیک ہولڈرز میں بلدیہ کراچی کے اہلکار، پولیس اور سیاسی جماعتوں کے کارکن شامل ہیں۔ وہ صحافی مزید بتاتے ہیں کہ کراچی ضرب عضب آپریشن کے بعد اب اسٹیک ہولڈرز کی ترتیب میں بھی تبدیلی ہوئی ہے۔
یہ بات لطیفے کے طور پر مشہور ہے کہ ایک لسانی تنظیم کے اہلکار فطرہ اور زکوۃ کی رقم باقاعدگی سے وصول کرتے تھے۔ ایک کارکن نے ایک غیر مسلم دکاندار سے بھی زکوۃ اور فطرے کی رقم لے لی۔ جب کسی نے توجہ دلائی کہ غیر مسلمان سے اس مد میں رقم نہیں لی جا سکتی تو اس تنظیم کے عہدیدار نے کہا کہ انشاء اﷲ آیندہ سال یہ شخص مسلمان ہو جائے گا۔
ہر سال دو سال بعد صدر اور اطراف کے علاقے سے تجاوزات کے خاتمے کی تحریک شروع ہوتی تھی۔ بلدیہ کراچی والے ٹرک لاتے، پولیس والے اپنے اسکواڈ کو چوکس کرتے، کچھ سڑکوں پر احتجاج ہوتا، اخبارات میں ہنگامہ آرائی کی خبریں چلتیں اور پھر آپریشن اچانک رک جاتا۔ عمومی طور پرکسی نئی حکومت کے آغاز پر یا کسی بہت بڑے نئے افسرکی تعیناتی پر اس طرح کی مہمیں چلائی جاتیں مگر پھر معاملات پرسکون ہو جاتے۔
رپورٹروں کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ نئے ریٹ مقررکرنے کے لیے ہوتا، یوں 80ء کی دہائی سے جوان ہونے والی نسل ایمپریس مارکیٹ، صدر اور اطراف کے علاقے کی حقیقی شکل دیکھنے سے محروم ہو گئی اور آج کراچی میں 30 سال کی عمر تک پہنچنے والوں کی یاد داشتوں میں یہ بات شامل ہی نہیں کہ یہ علاقہ حقیقی طور پر کیسا تھا۔ مظہر عباس یوں تو حیدرآباد میں پیدا ہوئے مگر زندگی کا ایک حصہ کراچی میں گزارا۔ بائیں بازوکی طلبہ تحریک سے آزادئ صحافت اور صحافیوں کے حالت کار کی تحریکوں میں متحرک رہے۔ مظہر عباس نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز کراچی سے شام کے اخبار میں رپورٹنگ سے کیا۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار ہفتے میں دو دن کراچی رجسٹری میں مقدمات کی سماعت کرتے ہیں۔ ان مقدمات میں انسانی حقوق سے متعلق مقدمات بھی شامل ہوتے ہیں۔ مظہر عباس سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور چیف جسٹس سے استدعا کی کہ صدر میں ایمپریس مارکیٹ کے علاقے سے تجاوزات ختم ہونی چاہیئیں۔ ایمپریس مارکیٹ کو اس کی اصل شکل میں بحال کرایا جائے۔ پہلی دفعہ کراچی میں تجاوزات کے خاتمے کا منظم آپریشن ہوا۔
صدر ایمپریس مارکیٹ کا علاقہ اپنی اصل شکل میں بحال ہوا، مگر اس آپریشن کے نتیجے میں 10 ہزار خاندان دربدر ہو گئے۔ دکانداروں کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔ بلدیہ کراچی کی مارکیٹوں کے دکانداروں کا کہنا ہے کہ وہ باقاعدہ کرایہ ادا کرتے ہیں اور کبھی بھی وہ عدم ادائیگی کے جرم کے مرتکب نہیں ہوئے۔ ملک میں رائج کرایہ داری کے قانون کے تحت باقاعدہ عدالتی فیصلے کے بغیر انھیں بے دخل نہیں کیا جا سکتا۔
میئرکراچی وسیم اختر کہتے ہیں کہ بلدیہ نے یہ معاہدے منسوخ کر دیے ہیں مگر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان دکانداروں کو متبادل جگہ فراہم کی جائے گی۔ کراچی کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی شکیل سلاوٹ کا کہنا ہے کہ سابق ناظم مصطفے کمال کے دور نظامت میں اس علاقے سے چند سو میٹر دور پارکنگ پلازہ کی کئی منزلہ عمارت تعمیر ہوئی تھی۔ ناقص منصوبہ بندی کی بناء پر یہ عمارت گاڑیوں کی پارکنگ کے لیے مکمل طور پر استعمال نہیں ہو رہی۔ اس عمارت کو بے دخل ہونے والے دکانداروں کو دینا چاہیے۔ اس شہرکی اکثریت کو یقین نہیں ہے کہ مستقبل میں اس علاقے میں تجاوزات قائم نہیں ہوں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس دفعہ تو سپریم کورٹ کے خوف سے یہ آپریشن مکمل ہوا مگر جلد ہی یہ علاقہ پھر تجاوزات کی لپیٹ میں آ جائے گا۔
ایک شہری کا کہنا ہے کہ پولیس اور بیوروکریسی تقریباً ایک ارب روپے سالانہ کا نقصان کیسے برداشت کرے گی؟ بعض ناقدین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ چیف جسٹس کو اس علاقے میں ان ناجائز سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرنے والے افسران کے خلاف بھی کارروائی کرنی چاہیے اور کراچی کے تمام علاقوں میں بغیرکسی امتیازکے یہ آپریشن ہونا چاہیے۔
جدوجہد آزادی کی اہمیت کو محسوس کرنے والے اکابرین کا یہ متفقہ مطالبہ ہے کہ ایمپریس مارکیٹ کے سامنے جو پارک تعمیر ہو گا، اس کو عظیم انقلابی رام دین پانڈے کے نام سے منسوب کیا جائے۔
انقلابیوں نے طے کیا کہ ملیرکینٹ چھاؤنی میں موجود انگریز سپاہیوں اور افسروں کوگرفتارکیا جائے گا۔ کراچی کا انتظام چلانے والے انگریز افسروں کو معزول کیا جائے گا۔ انگریز حکومت کے مخبروں نے اس کارروائی کی اطلاع انگریز سرکار کو فراہم کی، یوں انگریز حکومت نے رام دین پانڈے اور ان کے 15 ساتھیوں کوگرفتارکیا۔
صدرکے علاقے میں ایک وسیع میدان تھا۔ رام پانڈے اور ان کے ساتھیوں کو توپ پر باندھ کر اڑا دیا گیا، کراچی کے شہری رام پانڈے کو نہیں بھولے۔ لوگ اچانک آتے، اس میدان میں دیے اور موم بتیاں جلاتے،کچھ لوگ پھول چھوڑ جاتے، انگریز انتظامیہ نے محسوس کیا کہ یہ میدان ہندوستانی انقلابیوں کی یادگار بنایا جا رہا ہے۔ معروف محقق اور بلاگر اختر بلوچ لکھتے ہیں کہ انگریز انتظامیہ نے اس میدان میں ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی پر ایک شاندار مارکیٹ تعمیرکر دی۔
قیام پاکستان تک ہندوستانی باشندوں کا ایمپریس مارکیٹ میں داخلہ ممنوع تھا۔ پاکستان بننے کے بعد کراچی کی آبادی تیزی سے بڑھی۔ برسر اقتدار حکومتوں نے کراچی آنے والے لوگوں کی آبادکاری کے لیے نئی بستیوں کی منصوبہ بندی کی اور بہت سی نئی آبادیاں قائم ہوئیں، مگر ایوب خان کے دور سے قوانین کو نظراندازکرتے ہوئے تعمیرات کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایمپریس مارکیٹ کے سامنے ایک گول مارکیٹ کی عمارت تعمیر ہوئی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ بلدیہ کراچی اس عمارت کی تعمیرکی ذمے دار تھی، پھر اس عمارت میں تعمیر کی جانے والی دکانوں کو کرا ئے پر دیا گیا۔ جنرل یحییٰ خان کے دور میں صدر اور اطراف کے علاقے سے ہٹائے جانے والے ہاکروں کی آبادکاری کے لیے بلدیہ کراچی نے عمر فاروقی مارکیٹ تعمیر کی۔ کراچی میں پیدا ہونے والے سعید عثمانی بتاتے ہیں کہ ایک شام کے اخبارکا دفتر صدر ریگل کے علاقے میں ہے۔
اس اخبار نے تجاوزات کے خاتمے کے خلاف بھرپور مہم چلائی تھی جس پر بلدیہ نے ایمپریس مارکیٹ کے سامنے یہ نئی عمارت تعمیرکی اور کرایہ داروں سے معاہدے کیے۔ ان معاہدوں کے تحت انتہائی کم کرایہ مقرر ہوا۔ بعض صحافی کہتے ہیں کہ بعد میں بلدیہ کے افسروں کی ملی بھگت سے کرائے نہیں بڑھے۔ ہر دور میں ایمپریس مارکیٹ اور اطراف کے علاقوں میں تجاوزات قائم ہوئیں۔ دکانداروں، ریسٹورینٹ اور بینکوں نے فٹ پاتھوں پر قبضہ کر لیا، بے شمار ہاکروں نے اپنے اسٹال بنائے۔
ایم کیو ایم کی غیر سرکاری ریاست میں چائنا کٹنگ رائج ہوئی۔ بہت سی چھوٹی چھوٹی دکانیں بن گئیں۔ اختر بلوچ اپنے بلاگ میں لکھتے ہیں کہ اس پورے علاقے میں کئی کئی منزلہ عمارتیں بن گئیں جن میں دکانیں اور دفاتر کے علاوہ رہائشی فلیٹ بھی شامل تھے، یوں صدر میں پیدل سفرکرنے والوں کے لیے فٹ پاتھ کی تلاش مشکل ہو گئی، یہ لوگ سڑکوں پر چلنے پر مجبور ہوئے۔ جب قائد اعظم کے مزار کے عقب سے کاریڈور III تعمیر ہوا تو صدر اور ٹاور جانے کے لیے ایک اعلیٰ معیار کی سڑک تعمیر ہوئی۔
یہ سابق ناظم مصطفی کمال کا کارنامہ تھا کیونکہ اس سڑک کی تعمیر کی بناء پر لائنز ایریا میں آباد کئی ہزار مکینوں کو اپنے گھر چھوڑنے پڑے مگر جب سڑک ایمپریس مارکیٹ کے قریب پہنچتی ہے تو پھر ریگل جانے والی سڑک پر اتنی زیادہ غیر قانونی دکانیں اور اسٹال قائم تھیں کہ سڑکوں کے اطراف اتنی زیادہ کاریں اور موٹر سائیکلیں کئی کئی لائنوں میں کھڑی رہتی تھیں کہ جو سفر پیپلز پارٹی کے سیکریٹریٹ کے سامنے سے شروع ہو کر سابقہ صدر دواخانہ پر اختتام پذیر ہوتا تھا اس کا دورانیہ 10 منٹ پر محیط ہوتا تھا مگر ریگل کے چوراہے تک پہنچنے میں ایک گھنٹے سے زیادہ کا وقت صرف ہوتا تھا، یوں ریگل اور ٹاور تک جانے والے ایک متبادل راستے کا مقصد ختم ہو چلا تھا۔
کراچی کے تنازعات کی رپورٹنگ کرنے والے ایک سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ صدر اور اطراف کے علاقے میں غیر قانونی تعمیرات اور اسٹالوں کے تحفظ کے لیے سالانہ ایک ارب سے زائد رقم وصول کی جاتی تھی۔ یہ رقم اسٹیک ہولڈرز میں تقسیم ہوتی تھی۔ رقم وصول کرنے والے بڑے اسٹیک ہولڈرز میں بلدیہ کراچی کے اہلکار، پولیس اور سیاسی جماعتوں کے کارکن شامل ہیں۔ وہ صحافی مزید بتاتے ہیں کہ کراچی ضرب عضب آپریشن کے بعد اب اسٹیک ہولڈرز کی ترتیب میں بھی تبدیلی ہوئی ہے۔
یہ بات لطیفے کے طور پر مشہور ہے کہ ایک لسانی تنظیم کے اہلکار فطرہ اور زکوۃ کی رقم باقاعدگی سے وصول کرتے تھے۔ ایک کارکن نے ایک غیر مسلم دکاندار سے بھی زکوۃ اور فطرے کی رقم لے لی۔ جب کسی نے توجہ دلائی کہ غیر مسلمان سے اس مد میں رقم نہیں لی جا سکتی تو اس تنظیم کے عہدیدار نے کہا کہ انشاء اﷲ آیندہ سال یہ شخص مسلمان ہو جائے گا۔
ہر سال دو سال بعد صدر اور اطراف کے علاقے سے تجاوزات کے خاتمے کی تحریک شروع ہوتی تھی۔ بلدیہ کراچی والے ٹرک لاتے، پولیس والے اپنے اسکواڈ کو چوکس کرتے، کچھ سڑکوں پر احتجاج ہوتا، اخبارات میں ہنگامہ آرائی کی خبریں چلتیں اور پھر آپریشن اچانک رک جاتا۔ عمومی طور پرکسی نئی حکومت کے آغاز پر یا کسی بہت بڑے نئے افسرکی تعیناتی پر اس طرح کی مہمیں چلائی جاتیں مگر پھر معاملات پرسکون ہو جاتے۔
رپورٹروں کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ نئے ریٹ مقررکرنے کے لیے ہوتا، یوں 80ء کی دہائی سے جوان ہونے والی نسل ایمپریس مارکیٹ، صدر اور اطراف کے علاقے کی حقیقی شکل دیکھنے سے محروم ہو گئی اور آج کراچی میں 30 سال کی عمر تک پہنچنے والوں کی یاد داشتوں میں یہ بات شامل ہی نہیں کہ یہ علاقہ حقیقی طور پر کیسا تھا۔ مظہر عباس یوں تو حیدرآباد میں پیدا ہوئے مگر زندگی کا ایک حصہ کراچی میں گزارا۔ بائیں بازوکی طلبہ تحریک سے آزادئ صحافت اور صحافیوں کے حالت کار کی تحریکوں میں متحرک رہے۔ مظہر عباس نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز کراچی سے شام کے اخبار میں رپورٹنگ سے کیا۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار ہفتے میں دو دن کراچی رجسٹری میں مقدمات کی سماعت کرتے ہیں۔ ان مقدمات میں انسانی حقوق سے متعلق مقدمات بھی شامل ہوتے ہیں۔ مظہر عباس سپریم کورٹ میں پیش ہوئے اور چیف جسٹس سے استدعا کی کہ صدر میں ایمپریس مارکیٹ کے علاقے سے تجاوزات ختم ہونی چاہیئیں۔ ایمپریس مارکیٹ کو اس کی اصل شکل میں بحال کرایا جائے۔ پہلی دفعہ کراچی میں تجاوزات کے خاتمے کا منظم آپریشن ہوا۔
صدر ایمپریس مارکیٹ کا علاقہ اپنی اصل شکل میں بحال ہوا، مگر اس آپریشن کے نتیجے میں 10 ہزار خاندان دربدر ہو گئے۔ دکانداروں کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا۔ بلدیہ کراچی کی مارکیٹوں کے دکانداروں کا کہنا ہے کہ وہ باقاعدہ کرایہ ادا کرتے ہیں اور کبھی بھی وہ عدم ادائیگی کے جرم کے مرتکب نہیں ہوئے۔ ملک میں رائج کرایہ داری کے قانون کے تحت باقاعدہ عدالتی فیصلے کے بغیر انھیں بے دخل نہیں کیا جا سکتا۔
میئرکراچی وسیم اختر کہتے ہیں کہ بلدیہ نے یہ معاہدے منسوخ کر دیے ہیں مگر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان دکانداروں کو متبادل جگہ فراہم کی جائے گی۔ کراچی کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی شکیل سلاوٹ کا کہنا ہے کہ سابق ناظم مصطفے کمال کے دور نظامت میں اس علاقے سے چند سو میٹر دور پارکنگ پلازہ کی کئی منزلہ عمارت تعمیر ہوئی تھی۔ ناقص منصوبہ بندی کی بناء پر یہ عمارت گاڑیوں کی پارکنگ کے لیے مکمل طور پر استعمال نہیں ہو رہی۔ اس عمارت کو بے دخل ہونے والے دکانداروں کو دینا چاہیے۔ اس شہرکی اکثریت کو یقین نہیں ہے کہ مستقبل میں اس علاقے میں تجاوزات قائم نہیں ہوں گی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس دفعہ تو سپریم کورٹ کے خوف سے یہ آپریشن مکمل ہوا مگر جلد ہی یہ علاقہ پھر تجاوزات کی لپیٹ میں آ جائے گا۔
ایک شہری کا کہنا ہے کہ پولیس اور بیوروکریسی تقریباً ایک ارب روپے سالانہ کا نقصان کیسے برداشت کرے گی؟ بعض ناقدین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ چیف جسٹس کو اس علاقے میں ان ناجائز سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرنے والے افسران کے خلاف بھی کارروائی کرنی چاہیے اور کراچی کے تمام علاقوں میں بغیرکسی امتیازکے یہ آپریشن ہونا چاہیے۔
جدوجہد آزادی کی اہمیت کو محسوس کرنے والے اکابرین کا یہ متفقہ مطالبہ ہے کہ ایمپریس مارکیٹ کے سامنے جو پارک تعمیر ہو گا، اس کو عظیم انقلابی رام دین پانڈے کے نام سے منسوب کیا جائے۔