صحافی کے قتل کے باوجود سعودی عرب اہم اتحادی رہے گا ٹرمپ
مفروضے کی بنیاد پر سعودی عرب سے اربوں ڈالر کے معاہدے ختم کرکے عالمی معیشت کو تباہ نہیں کرسکتے، ٹرمپ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ سعودی عرب امریکا کا اہم اتحادی ہے اور یہ اتحاد برقرار رہے گا۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق صحافی جمال خاشقجی کے سعودی قونصل خانے میں قتل پر بار بار موقف تبدیل کرنے والے صدر ٹرمپ بالآخر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے حق میں ڈٹ گئے اور سعودی عرب کی قیادت کے خلاف مزید اقدامات نہ اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
پریس بریفنگ کے درمیان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے صحافی کے قتل سے متعلق سعودی ولی عہد واقف ہوں لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ ولی عہد اس سارے معاملے سے بالکل بےخبر ہوں اس لیے محض مفروضوں کی بناء پر اربوں ڈالر کے عسکری معاہدے ختم کر کے عالمی معیشت کو تباہ نہیں کر سکتے کیونکہ اس صورتحال سے روس اور چین بھی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔
ادھر امریکی سینیٹرز نے صدر ٹرمپ سے صحافی کے قتل میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ملوث ہونے کی تحقیقات کروانے کا مطالبہ کر دیا۔ سینیٹر لِنزے گراہم نے سعودی شاہی خاندان سمیت قتل میں ملوث تمام افراد کے خلاف سخت پابندیاں لگانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے امریکی سینیٹرز کی کمیٹی کے مطالبے پر صدر ٹرمپ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ عالمی دباؤ کے باوجود امریکا سعودی عرب کے ساتھ تعلقات خراب نہیں کرے گا، صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ولی عہد کا کردار تاحال غیر واضح ہے۔
دوسری جانب ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے ٹرمپ کے بیان کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران پر تنقید کرنے کے لیے امریکا سعودی عرب کے ظلم و بربریت کو درست قرار دینے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔ اس سے دو ظالموں کا گٹھ جوڑ ثابت ہوگیا۔
واضح رہے کہ امریکی تفتیشی ادارے سی آئی اے نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ صحافی کے قتل کا حکم سعودی ولی عہد نے دیا تھا جب کہ ترک صدر نے بھی قتل کا حکم سعودی اعلیٰ سطح سے آنے کا عندیہ دیا تھا۔ ترکی خاشقجی کے قتل کی تحقیقات میں سعودی عرب کے تعاون سے مطمئن نہیں اور اقوام متحدہ سے مدد مانگنے پر غور کررہا ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق صحافی جمال خاشقجی کے سعودی قونصل خانے میں قتل پر بار بار موقف تبدیل کرنے والے صدر ٹرمپ بالآخر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے حق میں ڈٹ گئے اور سعودی عرب کی قیادت کے خلاف مزید اقدامات نہ اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
پریس بریفنگ کے درمیان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے صحافی کے قتل سے متعلق سعودی ولی عہد واقف ہوں لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ ولی عہد اس سارے معاملے سے بالکل بےخبر ہوں اس لیے محض مفروضوں کی بناء پر اربوں ڈالر کے عسکری معاہدے ختم کر کے عالمی معیشت کو تباہ نہیں کر سکتے کیونکہ اس صورتحال سے روس اور چین بھی فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔
ادھر امریکی سینیٹرز نے صدر ٹرمپ سے صحافی کے قتل میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ملوث ہونے کی تحقیقات کروانے کا مطالبہ کر دیا۔ سینیٹر لِنزے گراہم نے سعودی شاہی خاندان سمیت قتل میں ملوث تمام افراد کے خلاف سخت پابندیاں لگانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے امریکی سینیٹرز کی کمیٹی کے مطالبے پر صدر ٹرمپ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ عالمی دباؤ کے باوجود امریکا سعودی عرب کے ساتھ تعلقات خراب نہیں کرے گا، صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ولی عہد کا کردار تاحال غیر واضح ہے۔
دوسری جانب ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے ٹرمپ کے بیان کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایران پر تنقید کرنے کے لیے امریکا سعودی عرب کے ظلم و بربریت کو درست قرار دینے کی پوری کوشش کر رہا ہے۔ اس سے دو ظالموں کا گٹھ جوڑ ثابت ہوگیا۔
واضح رہے کہ امریکی تفتیشی ادارے سی آئی اے نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ صحافی کے قتل کا حکم سعودی ولی عہد نے دیا تھا جب کہ ترک صدر نے بھی قتل کا حکم سعودی اعلیٰ سطح سے آنے کا عندیہ دیا تھا۔ ترکی خاشقجی کے قتل کی تحقیقات میں سعودی عرب کے تعاون سے مطمئن نہیں اور اقوام متحدہ سے مدد مانگنے پر غور کررہا ہے۔