خان صاحب بھی نوازشریف کی ڈگر پر

خان صاحب کویاد رکھنا ہوگاکہ نواز شریف کے راستے پر چلنے والے کی منزل کا نواز شریف کی منزل سے مختلف ہونا قرینِ قیاس نہیں


سلمان نثار شیخ November 23, 2018
میاں صاحب کے حال سے سبق سیکھنے کی بجائے عمران خان ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ فوٹو: انٹرنیٹ

عمران خان سمجھ رہے ہیں کہ انہیں نواز شریف کے تجربات سے سیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں، کیونکہ وہ نواز شریف سے ایک بالکل مختلف سیاستدان ہیں۔ تاہم جب بھی کبھی کوئی انسان یا سیاستدان اپنی انفرادیت کا دعویٰ کرتا ہے تو ہمیں بے اختیار یہ شعر یاد آ جاتا ہے:

پھر سے تنہاء کر گیا تجھ کو منفرد رہنے کا شوق
اب اکیلے بیٹھ کر یادوں کے منظر دیکھنا


نوازشریف کی ضدی طبیعت کی کہانی بہت پرانی ہے۔ چوہدری شجاعت حسین، چوہدری نثار علی خان، شہباز شریف، بیگم کلثوم نواز مرحومہ اور میاں محمد شریف مرحوم تک ان کے بہت سے چاہنے والے، دوست اور خیرخواہ ہمیشہ انہیں سمجھاتے رہے کہ میاں صاحب آہستہ! میاں صاحب پیار سے! میاں صاحب سنبھل کے! میاں صاحب تحمل! میاں صاحب تدبر! میاں صاحب تفکر! لیکن میاں صاحب اپنی افتاد طبع پر قابو نہ پا سکے۔ وہ اپنی طبیعت کے بے لگام گھوڑے کو نکیل نہ ڈال سکے۔ یا شاید پہلے میاں شریف کی وفات، پھر بیگم کلثوم نواز کی علالت، برطانیہ منتقلی و وفات، مریم نواز کی عملی سیاست میں آمد اور ان کا ''کٹورے میں کٹورا بیٹا باپ سے بھی گورا'' کی مثل پر پورا اترنا، شہباز شریف کا لاہور میں پنجاب حکومت اور مقامی سیاسی و انتظامی معاملات میں بری طرح مصروف ہونا، جاوید ہاشمی اور چوہدری شجاعت حسین کا ن لیگ سے چلے جانا، سید ظفر علی شاہ اور ان جیسے دیگر لیگی اکابرین کا تھک جانا اور اپنے دور افتادہ علاقوں میں جا کر گوشہ نشین ہو جانا اور چوہدری نثار کا زود رنج ہونا وہ عوامل تھے کہ جو بتدریج میاں صاحب کو بردبار، متحمل مزاج، زیرک، جہاں دیدہ اور فہمیدہ و سنجیدہ احباب سے دور کرتے گئے۔ اور میاں صاحب دن بدن مریم نواز اور ان کے جارح مزاج، غیرفہمیدہ، غیرسنجیدہ، مشتعل مزاج، باتونی، غیرمنظقی، اواہی تواہی مارنے کے مشتاق اور بعید نظری و عمیق فکر سے عاری دانیال عزیز، طلال چوہدری، مریم اورنگزیب، عابد شیر علی، رانا ثناء اللہ اور اسی طرح کے دیگر افراد میں گھرتے چلے گئے، اور بالآخر وہ ایک ایسے مقام پر پہنچ گئے کہ جس کے متعلق اس کے سوا اور کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ

سواد زندگانی میں اک ایسی شام آتی ہے
جو خالی ہاتھ آتی ہے

خیر! اب میاں صاحب حکومت میں نہیں ہیں۔ چنانچہ ان کے پاس کافی وقت ہے، اپنے آپ کو پھر سے یکجاء کرنے کا، اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا ازسرنو جائزہ لینے کا اور اپنے معاملات کو درست کرنے کا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مشکلات کو آسان کرے!

لیکن اس وقت جو صاحب میاں صاحب کے حال سے سبق سیکھنے کی بجائے ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں، وہ ہیں وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب۔ جہانگیر ترین نااہل ہو کر دور ہو گئے۔ جمائمہ خان، جسٹس (ر) وجیہ الدین، مخدوم جاوید ہاشمی، حامد خان، اکبر ایس بابر، ناصر درانی، فوزیہ قصوری اور ان جیسے بے شمار فہمیدہ، سنجیدہ اور اپنے اپنے شعبوں میں طاق افراد ایک ایک کرکے یا تو خان صاحب کو چھوڑ گئے ہیں اور یا پھر ان سے دور دور رہنے لگے ہیں۔ جبکہ فواد چوہدری، فیاض الحسن چوہان، عامر لیاقت حسین، فردوس شمیم نقوی، مراد سعید، فیصل واوڈا، عمران اسمٰعیل، عثمان بزدار، محمود خان، عثمان ڈار، ہارون اختر اور اسی طرح کے دیگر جارح طبعیت، مشتعل مزاج یا سوچنے سے زیادہ بولنے کے شوقین یا سیاسی تدبر سے عاری یا نا اہل یا اوسط ذہنیت کے حامل افراد بتدریج ان کے گرد جمع ہوتے جا رہے ہیں۔

خان صاحب کو یاد رکھنا ہوگا کہ نواز شریف کے راستے پر چلنے والے کی منزل کا نواز شریف کی منزل سے مختلف ہونا قرینِ قیاس نہیں۔ وقت پر راستہ بدل لینے والے بیچ منجدھار پھنس جانے والوں سے کہیں بہتر ہوتے ہیں۔ ورنہ پھر سلیم کوثر تو کہہ ہی چکے ہیں کہ

کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے

عمران خان فاسٹ باؤلر تھے۔ گھٹنے کی انجری کے بعد میڈیم پیسر ہوگئے۔ خان صاحب مشتعل مزاج انقلابی سیاستدان تھے۔ عملی سیاست کی غلام گردشوں پر چڑھتے چڑھتے جب ان کی سانس پھول گئی تو انہوں نے اصول تیاگنے اور سمجھوتے کرنے شروع کر دیئے۔ لوگ سمجھے جوانی چلی گئی۔ اونٹ پہاڑ تلے آ گیا۔ پتہ چل گیا دال گلنی آسان نہیں۔ کتابی باتیں ختم ہوگئیں۔ کچھ دیر میں مزید سنبھل جائیں گے۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ خان صاحب کا ابتدائی امیج پلے بوائے کا تھا۔ پھر جمائمہ سے شادی ہوگئی۔ لوگ سمجھے چلو اب لڑکا بیاہا گیا، اب ذمہ داریاں پڑیں گی تو نچلا ہو کر بیٹھ جائے گا لیکن ایسا نہ ہوا۔ مگر پھر بھی دھواں نہ اٹھا، کیونکہ جمائمہ وضع دار خاتون تھیں۔ رکھ رکھاؤ والی اور حیا والی۔ انہیں اپنی عزت ہی کا نہیں دوسروں کی عزت کا بھی بہت خیال تھا۔ چنانچہ خان صاحب سے جب نبھائی نہ گئی اور انہوں نے اپنی شریکۂ حیات کو عقد سے آزاد کر دیا تب بھی جمائمہ نے چُپ توڑی نہ وضع داری چھوڑی، اور نہ خان صاحب کا احترام کرنے کی روایت توڑی۔ مگر خان صاحب کی ریش ڈرائیونگ جاری رہی۔ بیچ دھرنے کے بیاہ رچا لیا اور سانحہ اے پی ایس کے چند ہی دن بعد اس کا اعلان فرما دیا، اور وہ بھی خبر لیک کروا کے اور اچھی خاصی خاک اڑوا کر... اور پھر جس کو بیاہ کر لائے، اس کو نہ اپنے مطابق ڈھال سکے اور نہ خود کو اس کے مطابق ڈھال سکے اور آؤٹ ہو گئے۔

پھر خاک اڑی اور خوب اڑی۔ ریحام برستی رہیں اور خان صاحب کے حمایتی ان پر برستے رہے۔ لیکن خان صاحب خاموش رہے اور خاموشی سے ایک بار پھر کام دکھا دیا۔ اگرچہ اب کی بار بھی مس ہینڈلنگ کی روایت تو برقرار رکھی لیکن اس بار ان کا انتخاب ایک بالکل مختلف نوعیت کا تھا۔ ایک دیندار خاتون! ایک روحانی شخصیت سے عقد نکاح کیا۔ مزاروں کے چکر لگائے۔ اولیاء اللہ کی چوکھٹوں پر ماتھا ٹیکا۔ الیکشن جیتا۔ وکٹری سپیچ میں ماضی بُھلانے کی بات کی۔ تحمل سے بات کی۔ محبت سے بات کی۔ لوگ سمجھے ذمہ داری پڑتے ہی خان صاحب کا اشتعال جاتا رہا ہے۔ انہوں نے بڑی بڑی باتیں کرنا، دوسروں کو برا بھلا کہنا، سخت الفاظ کا استعمال کرنا، بڑھکیں مارنا وغیرہ وغیرہ چھوڑ دیا ہے۔ انہیں محدود مینڈیٹ ملا ہے اور وہ جان گئے ہیں کہ انہیں عاجزی، انکساری اور بردباری سے معاملات چلانا ہوں گے۔ ان کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے اور وہ اسے

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا

کے مصداق نبھانے کیلئے تیار ہیں۔

لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے پہلے احتجاج کے دوران کی گئی اپنی اشتعالی تقریر سے لے کر آج تک خان صاحب نے تحمل، عاجزی، بردباری، معاملہ فہمی اور دانش مندی کو اپنے قریب پھٹکنے تک نہیں دیا۔ وہ کہتے تھے خودکشی کر لوں گا لیکن کبھی کسی سے بھیک مانگنے نہیں جاؤں گا، لیکن اب وہ بھیک ملنے پر قوم کو مبارکباد دے رہے ہیں۔ اب سوال بہت سادہ ہے۔ جب آپ باہر والوں کی منتیں کر سکتے ہیں، خوشامد کر سکتے ہیں، ان کے ساتھ عاجزی سے پیش آ سکتے ہیں تو پھر اپنوں کے ساتھ معاملہ فہمی کا راستہ کیوں نہیں اپنا رہے؟ قرآن کہتا ہے '' اپنے خیمے کی طنابیں مضبوط رکھو''۔ ابن خلدون اس حکم سے اپنا نظریہ عصبیہ اخذ کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اوپر والے نے بڑی وضاحت سے بتا دیا ہے کہ خارجی سکیورٹی داخلی سکیورٹی پر منحصر ہے۔ یعنی بیرونی حملوں سے محفوظ رہنا ہے تو پہلے اپنا گھر مضبوط بنانا ہوگا۔ اگر خان صاحب پارلیمان کی بڑی سیاسی جماعتوں سے لڑیں گے تو وہ سب مل کر خان صاحب کی اتحادی جماعتوں کو توڑنے کی کوشش کریں گی۔ اگر حکومت کی ایک بھی اتحادی جماعت روٹھ گئی تو کیا ہوگا؟ عقلمند کےلیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے اور ناعاقبت اندیشوں کیلئے سب کچھ ناکافی ہوتا ہے۔

اگر صرف اختر مینگل ہی روٹھ گئے اور مولانا اور دیگر چھوٹی جماعتوں کے ساتھ مل کر بلوچستان حکومت گرانے میں کامیاب ہوگئے تو پھر مرکز میں تبدیلی کا بگل بھی بج جائے گا۔ تبدیلی کا آغاز ہمیشہ بلوچستان ہی سے ہوا کرتا ہے۔ اگر خان صاحب نے عوام کے دلوں میں گھر کرنا ہے، انہیں یہ یقین دلانا ہے کہ وہ دیگر جماعتوں سے مختلف ہیں تو انہیں عوام کو کوئی ریلیف دینا ہوگا، انہیں اچھی حکمرانی کرکے دکھانا ہوگی، عوام تک اپنی حکومت کے ثمرات پہنچانے ہوں گے، ملکی نظام کی درستی کے اقدامات کرنے ہوں گے۔ اور وہ یہ سب کچھ اسی صورت میں کر سکیں گے جب اقتدار ان کے پاس ہوگا۔ اگر اقتدار ہی نہ رہا تو پھر وہ اپنے سیاسی دشمنوں کو جیلوں میں بھر کر یا انہیں تڑیاں لگا کر آخر کیا حاصل کر لیں گے؟ لوگ آئندہ الیکشن میں انہیں ووٹ دینے سے قبل یہ نہیں دیکھیں گے کہ انہوں نے کتنے لوگ پس زندان منتقل کیے، بلکہ یہ دیکھیں گے کہ انہوں نے ان کی زندگیوں میں کتنی آسانیاں پیدا کیں۔

اور پھر اگر خان صاحب نے اقتدار میں آنے سے پہلے کرپٹ عناصر کی بیخ کنی کا وعدہ کیا تھا اور احتساب کے عمل کو جاری رکھنے کا وعدہ کیا تھا تو انہیں تو خدا کا شکر اور پی پی پی اور ن لیگ کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ جنہوں نے پارلیمان سے اٹھارہویں ترمیم منظور کرائی اور نیب کو انتظامیہ سے الگ خودمختار ادارہ بنا کر ان کو ایک ایسی اسپیس مہیا کر دی کہ جس کے طفیل وہ خاموشی سے حکومت کر سکتے ہیں اور نیب سیاسی عدم مداخلت کی یقین دہانی پا کر اپنی کرپشن ممخالف مہم کو جاری رکھ سکتی ہے۔ جب خان صاحب کا نیب سے تعلق ہی نہیں تو پھر وہ باہر جاتی گیند کو شارٹ مارنے کی کوشش میں اسٹمپ آؤٹ کیوں ہونا چاہتے ہیں؟ کیا شریکۂ حیات کا تصوف اُن کو عجز و تحمل سے سرفراز کرنے میں ناکام رہا ہے؟ یا فواد چوہدری اور فیاض الحسن چوہان کی صحبت بابرکت انہیں سلطان راہی مرحوم کا روپ دینے میں کامیاب ہو رہی ہے؟

غالب یاد آ گئے! سبحان اللہ!

ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسہ مرے آگے

ویسے بات یہاں تک ہے تو پھر بھی قابل فہم ہے کہ معرکۂ خیر و شر ازل سے جاری ہے، لیکن اگر بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ

میر کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا

تو پھر واقعی یہ تشویشناک امر ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں