جسٹس مقبول باقر کوجون2011سے دہشتگردی کاسامناہے

ولی بابراورنیٹوسپلائی ٹھیکیدارکے قتل،کالعدم تنظیم کے کیس میں احکام جاری کرچکے ہیں

جسٹس مقبول کی رہائش گاہ پرراکٹ حملے کامنصوبہ بھی بنایاگیاتھالیکن ملزمان پکڑے گئے فوٹو: فائل

ISLAMABAD:
سندھ ہائیکورٹ کے سینئر جج جسٹس مقبول باقرکودہشت گردی کاسامنا اس وقت سے ہے ۔

جب وہ انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالتوںکے جج کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے تھے ،اس دوران انھوں نے ولی بابرقتل کیس،نیٹوفورسزکی سپلائی کے ٹھیکیدارشوکت آفریدی کے اغوااور قتل کے ساتھ ساتھ کالعدم سپاہ صحابہ کے رہنمائوں کے قتل کے ملزمان کے ریمانڈاوران کے مقدمات میں تفتیشی افسران کوخصوصی توجہ دینے کی ہدایات کیں تاہم بدھ کو سندھ ہائیکورٹ کی راہداریوں میں یہ بات کہی جارہی تھی کہ جسٹس مقبول باقر کو دہشتگردی کا سامناجون 2011سے اس وقت شروع ہوا ۔




جب انھوں نے کالعدم سپاہ صحابہ کے رہنما عبدالغفور ندیم اور ان کے بیٹے کی ہلاکت اورکراچی میں واقع سعودی قونصل خانے پر حملے کے مقدمات میں ملوث ملزم منتظرامام کے طبی امداد اور معائنے کا حکم دیا جس پرمبینہ طور پر پولیس نے تشدد کیا تھا،اس کے علاوہ جسٹس مقبول باقر نے منتظرامام کی گرفتاری کی تحقیقات کیلیے ڈی آئی جی عبدالمجیددستی اور ڈی آئی جی سلطان خواجہ پرمشتمل2رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی،اس کے بعدجسٹس مقبول باقرکی سیکیورٹی میں اضافہ کردیاگیا۔

اس کے ساتھ ساتھ انسداددہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کے منتظم جج کی حیثیت سے ملزمان کے ریمانڈکے فیصلے کا اختیارخصوصی عدالتوں کے تمام ججوں کو تفویض کردیاگیا۔ ذرائع کے مطابق اس وقت سندھ ہائیکورٹ نے موقف اختیارکیاتھا کہ ہائیکورٹ میں ججوںکی کمی ہے اس لیے ہائیکورٹ کے جج کو مجسٹریسی کے اختیارات استعمال کرنے کی ضرورت نہیں، تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ اصل حقیقت یہ تھی کہ جسٹس مقبول باقر کے لیے خطرات پیداہوچکے تھے، کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے متعدد گرفتارملزمان نے بھی تفتیش کے دوران انکشاف کیاکہ جسٹس مقبول باقر کی رہائش گاہ پر راکٹ حملے کامنصوبہ بھی بنایاگیاتھاتاہم ملزمان گرفتارہوگئے تھے۔
Load Next Story