خطرناک حملے اور زخموں کے باوجود جسٹس مقبول باقر نہیں گھبرائے
حواس برقرار رکھے، تمام زخمیوں کی منتقلی تک آغاخان اسپتال جانے سے انکار کردیا
سندھ ہائیکورٹ کے سینئر جج جسٹس مقبول باقر انتہائی خطرناک حملے کا شکار ہونے کے باوجود خوف یا گھبراہٹ کا شکار نہیں ہوئے بلکہ زخمی ہونے کے باوجود انھوں نے اپنے حواس برقرار رکھے۔
ان کے عملے کے ایک رکن محمد عامر ملک نے ایکسپریس کو بتایا کہ دھماکے کی آواز سنتے ہی وہ دوڑتا ہوا جائے حادثہ پر پہنچا، وہاں افراتفری مچی ہوئی تھی۔ اتفاقاً قریب ہی سے ایک ایمبولینس گزر رہی تھی جسے روکا گیا اورجسٹس مقبول باقر کو سول اسپتال پہنچایاگیا۔ جسٹس مقبول باقر کے چہرے اور ٹانگوں پر شدید زخم آئے تھے ، انھیں سول اسپتال میں ابتدائی طبی امداد فراہم کی گئی، اس دوران سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس سجاد علیشاہ ،جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس عزیزالرحمن شیخ بھی سول اسپتال پہنچ گئے تھے۔ ہائیکورٹ کے افسران نے ابتدائی طبی امداد کے بعد جسٹس مقبول باقر کو آغا خان اسپتال منتقل کرنے کے انتظامات کیے تاہم فاضل جسٹس نے انکارکرتے ہوئے موقف اختیارکیاکہ جب تک ان کے عملے کا ایک ایک فرد آغا خان اسپتال منتقل نہیں ہوجاتا وہ منتقل نہیں ہونگے۔
بعدازاں تمام زخمیوںسمیت جسٹس مقبول باقر کو نجی اسپتال منتقل کردیاگیا۔ جسٹس مقبول باقر دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر عمومی طور پر راستے تبدیل کرتے ہوئے ہائیکورٹ پہنچتے تھے تاہم غیر معمولی طور پروہ اس ہفتے صدر کی جانب سے آئے ، ہائیکورٹ ذرائع کے مطابق وہ صدر میں واقع کالج میں اپنے بیٹے علی چھوڑتے ہوئے صدر سے سیدھے ہائیکورٹ آرہے تھے ۔
لیکن خوش نصیبی سے وہ بدھ کو کار میں عقبی نشست پر دائیں جانب بیٹھے جبکہ بائیں جانب بیٹھنا انکا معمول تھاتاہم بدقسمتی سے انکے بائیں جانب رینجرز اہلکار دھماکے کا شکار ہوگیا۔عملے کے افراد بھی جسٹس مقبول باقر سے انتہائی محبت کرتے ہیں جس کا اندازہ حوالدار ملک شوکت کے عمل سے ہوتا ہے۔ حوالدار ملک شوکت روزانہ جسٹس مقبول باقر سے پہلے عدالت پہنچ جاتا ہے اوران کے ذاتی استعمال کی اشیا کا جائزہ لے کر ان کا چیمبر سیٹ کرتاہے۔
بدھ کو بھی وہ جسٹس مقبول باقر کے چیمبر میں اپنے فرائض انجام دے رہا تھا، ان کے کانوائے میں شامل گاڑیوں کے سائرن کی آواز سے اسے اندازہ ہوگیا کہ جسٹس مقبول باقر عدالت پہنچنے والے ہیں اور وہ چیمبر کے دروازے کی جانب چل پڑا، تاہم اچانک اسکے کانوں میں دھماکے کی آواز آئی اور سائرن کی آواز بند ہوگئی۔ملک شوکت کی چھٹی حس نے کام کیا اور دھماکے کی آواز کی سمت دوڑنے لگا، اس دوران اس نے اسی عدالت میں کام کرنیوالے اپنے بیٹے کو بھی آواز دے کر بتایا کہ ''صاحب تے حملہ ہوگیااے '' تاہم جب حوالدار شوکت جائے حادثہ پر پہنچا تو جسٹس مقبول باقر کو گاڑی سے نکال کر ایمبولینس میں منتقل کردیاگیا تھا۔ حوالدار شوکت نے اپنے ساتھی ڈرائیور محمد سلیم ،گن مین خالد محمود اوررینجرز اہلکار کی لاشیں نکالنے میں ریسکیواداروں کی مدد کی ۔
ان کے عملے کے ایک رکن محمد عامر ملک نے ایکسپریس کو بتایا کہ دھماکے کی آواز سنتے ہی وہ دوڑتا ہوا جائے حادثہ پر پہنچا، وہاں افراتفری مچی ہوئی تھی۔ اتفاقاً قریب ہی سے ایک ایمبولینس گزر رہی تھی جسے روکا گیا اورجسٹس مقبول باقر کو سول اسپتال پہنچایاگیا۔ جسٹس مقبول باقر کے چہرے اور ٹانگوں پر شدید زخم آئے تھے ، انھیں سول اسپتال میں ابتدائی طبی امداد فراہم کی گئی، اس دوران سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس سجاد علیشاہ ،جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس عزیزالرحمن شیخ بھی سول اسپتال پہنچ گئے تھے۔ ہائیکورٹ کے افسران نے ابتدائی طبی امداد کے بعد جسٹس مقبول باقر کو آغا خان اسپتال منتقل کرنے کے انتظامات کیے تاہم فاضل جسٹس نے انکارکرتے ہوئے موقف اختیارکیاکہ جب تک ان کے عملے کا ایک ایک فرد آغا خان اسپتال منتقل نہیں ہوجاتا وہ منتقل نہیں ہونگے۔
بعدازاں تمام زخمیوںسمیت جسٹس مقبول باقر کو نجی اسپتال منتقل کردیاگیا۔ جسٹس مقبول باقر دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر عمومی طور پر راستے تبدیل کرتے ہوئے ہائیکورٹ پہنچتے تھے تاہم غیر معمولی طور پروہ اس ہفتے صدر کی جانب سے آئے ، ہائیکورٹ ذرائع کے مطابق وہ صدر میں واقع کالج میں اپنے بیٹے علی چھوڑتے ہوئے صدر سے سیدھے ہائیکورٹ آرہے تھے ۔
لیکن خوش نصیبی سے وہ بدھ کو کار میں عقبی نشست پر دائیں جانب بیٹھے جبکہ بائیں جانب بیٹھنا انکا معمول تھاتاہم بدقسمتی سے انکے بائیں جانب رینجرز اہلکار دھماکے کا شکار ہوگیا۔عملے کے افراد بھی جسٹس مقبول باقر سے انتہائی محبت کرتے ہیں جس کا اندازہ حوالدار ملک شوکت کے عمل سے ہوتا ہے۔ حوالدار ملک شوکت روزانہ جسٹس مقبول باقر سے پہلے عدالت پہنچ جاتا ہے اوران کے ذاتی استعمال کی اشیا کا جائزہ لے کر ان کا چیمبر سیٹ کرتاہے۔
بدھ کو بھی وہ جسٹس مقبول باقر کے چیمبر میں اپنے فرائض انجام دے رہا تھا، ان کے کانوائے میں شامل گاڑیوں کے سائرن کی آواز سے اسے اندازہ ہوگیا کہ جسٹس مقبول باقر عدالت پہنچنے والے ہیں اور وہ چیمبر کے دروازے کی جانب چل پڑا، تاہم اچانک اسکے کانوں میں دھماکے کی آواز آئی اور سائرن کی آواز بند ہوگئی۔ملک شوکت کی چھٹی حس نے کام کیا اور دھماکے کی آواز کی سمت دوڑنے لگا، اس دوران اس نے اسی عدالت میں کام کرنیوالے اپنے بیٹے کو بھی آواز دے کر بتایا کہ ''صاحب تے حملہ ہوگیااے '' تاہم جب حوالدار شوکت جائے حادثہ پر پہنچا تو جسٹس مقبول باقر کو گاڑی سے نکال کر ایمبولینس میں منتقل کردیاگیا تھا۔ حوالدار شوکت نے اپنے ساتھی ڈرائیور محمد سلیم ،گن مین خالد محمود اوررینجرز اہلکار کی لاشیں نکالنے میں ریسکیواداروں کی مدد کی ۔