رجسٹرار نے جسٹس باقر کی زندگی کو خطرے سے متعلق 22 جون کو خط لکھا تھا
دہشت گردوں نے انکشاف کیا تھا کہ جسٹس مقبول باقر ان کی ہٹ لسٹ میں شامل ہیں.
فرقہ وارانہ دہشت گردی کی تازہ لہر کے باعث جسٹس مقبول باقر کی زندگی کو خطرات کے بارے میں متعلقہ حکام کو پیشگی آگاہ کردیا گیا تھا۔
وفاقی وزارت داخلہ نے کچھ روز قبل ملک بھر میں سیکیورٹی پر مامور رینجرز اہلکار واپس لینے کا فیصلہ کیا تھا،جس کے تحت جسٹس مقبول باقر کی سیکیورٹی پر مامور رینجرز اہلکار بھی واپس ہونا تھے تاہم سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مشیر عالم کی ہدایت پر رینجرز اہلکاروں کو واپس نہیں بھیجا گیا۔ چیف جسٹس نے جسٹس مقبول باقر کی سیکیورٹی میں اضافے کی ہدایت کی تھی،اس سلسلے میں قائم مقام رجسٹرار فہیم احمد صدیقی نے 22جون 2013 کو وفاقی وزارت داخلہ اور ڈی جی رینجرز کو ایک خط کے ذریعے آگاہ کیا کہ جسٹس مقبول باقر کی جان کو شدید خطرات لاحق ہیں اور انھیں دہشت گردوں اور کالعدم تنظیموں کی جانب سے مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں، اس ضمن میں ان کی رہائش گاہ اور دوران سفر بھی رینجرز اہلکارسیکیورٹی پر تعینات ہوتے ہیں۔
خط میں کہا گیا تھا کہ گزشتہ دنوں گرفتار ہونے والے بعض دہشت گردوں نے انکشاف کیا تھا کہ جسٹس مقبول باقر ان کی ہٹ لسٹ میں شامل ہیں جبکہ ایک گرفتار دہشت گرد نے ٹی وی چینل پربھی اعتراف کیا تھا کہ جسٹس مقبول باقر کو نشانہ بنانے کیلیے ان کی ریکی کی جارہی ہے اور ان پر ایک حملہ بھی کیا گیا تاہم وہ محفوظ رہے۔ خط میں کہا گیا تھا کہ امن وامان کی مخدوش صورت حال اور فرقہ ورانہ دہشت گردی کی تازہ لہر کے باعث جسٹس مقبنول باقر کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں جسکا کا تقاضا ہے کہ ان کی سیکیورٹی کومزید سخت کیا جائے۔
تاہم سندھ ہائیکورٹ کی راہداریوںمیں یہ بات عام تھی کہ جسٹس مقبول باقر کو کالعدم فرقہ وارانہ تنظیموں کی جانب سے خطرات کا سامنا جون 2011سے ہے ، جب انھوں نے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کے منتظم جج کی حیثیت سے فرقہ وارانہ قتل وغارت میں ملوث ملزم منتظرامام کے طبی معائنے اور طبی سہولتیں فراہم کرنے اور اس کی گرفتاری سے متعلق ڈی آئی جی عبدالمجید دستی اور ڈی آئی جی سلطان خواجہ پر مشتمل اعلی سطح کی انکوائری کا حکم دیاتھا، پولیس کے مطابق ملزم منتظرامام پر کالعدم سپاہ صحابہ کے رہنما مولانا عبدالغفورندیم اور ان کے بیٹے کی ہلاکت اور سعودی قونصل خانے پر حملے کے الزامات تھے۔
وفاقی وزارت داخلہ نے کچھ روز قبل ملک بھر میں سیکیورٹی پر مامور رینجرز اہلکار واپس لینے کا فیصلہ کیا تھا،جس کے تحت جسٹس مقبول باقر کی سیکیورٹی پر مامور رینجرز اہلکار بھی واپس ہونا تھے تاہم سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مشیر عالم کی ہدایت پر رینجرز اہلکاروں کو واپس نہیں بھیجا گیا۔ چیف جسٹس نے جسٹس مقبول باقر کی سیکیورٹی میں اضافے کی ہدایت کی تھی،اس سلسلے میں قائم مقام رجسٹرار فہیم احمد صدیقی نے 22جون 2013 کو وفاقی وزارت داخلہ اور ڈی جی رینجرز کو ایک خط کے ذریعے آگاہ کیا کہ جسٹس مقبول باقر کی جان کو شدید خطرات لاحق ہیں اور انھیں دہشت گردوں اور کالعدم تنظیموں کی جانب سے مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں، اس ضمن میں ان کی رہائش گاہ اور دوران سفر بھی رینجرز اہلکارسیکیورٹی پر تعینات ہوتے ہیں۔
خط میں کہا گیا تھا کہ گزشتہ دنوں گرفتار ہونے والے بعض دہشت گردوں نے انکشاف کیا تھا کہ جسٹس مقبول باقر ان کی ہٹ لسٹ میں شامل ہیں جبکہ ایک گرفتار دہشت گرد نے ٹی وی چینل پربھی اعتراف کیا تھا کہ جسٹس مقبول باقر کو نشانہ بنانے کیلیے ان کی ریکی کی جارہی ہے اور ان پر ایک حملہ بھی کیا گیا تاہم وہ محفوظ رہے۔ خط میں کہا گیا تھا کہ امن وامان کی مخدوش صورت حال اور فرقہ ورانہ دہشت گردی کی تازہ لہر کے باعث جسٹس مقبنول باقر کی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں جسکا کا تقاضا ہے کہ ان کی سیکیورٹی کومزید سخت کیا جائے۔
تاہم سندھ ہائیکورٹ کی راہداریوںمیں یہ بات عام تھی کہ جسٹس مقبول باقر کو کالعدم فرقہ وارانہ تنظیموں کی جانب سے خطرات کا سامنا جون 2011سے ہے ، جب انھوں نے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کے منتظم جج کی حیثیت سے فرقہ وارانہ قتل وغارت میں ملوث ملزم منتظرامام کے طبی معائنے اور طبی سہولتیں فراہم کرنے اور اس کی گرفتاری سے متعلق ڈی آئی جی عبدالمجید دستی اور ڈی آئی جی سلطان خواجہ پر مشتمل اعلی سطح کی انکوائری کا حکم دیاتھا، پولیس کے مطابق ملزم منتظرامام پر کالعدم سپاہ صحابہ کے رہنما مولانا عبدالغفورندیم اور ان کے بیٹے کی ہلاکت اور سعودی قونصل خانے پر حملے کے الزامات تھے۔