جسٹس مقبول باقر پرحملے سے ریڈزون میں ناقص سیکیورٹی انتظامات بے نقاب

صوبائی حکومت ہر سال ایک ارب روپے رینجرزکو دے رہی ہے۔لیکن یہ بھی توقعات پرپورااترنے میں ناکام رہی.


مظہر عباس June 27, 2013
صوبائی حکومت ہر سال ایک ارب روپے رینجرزکو دے رہی ہے۔لیکن یہ بھی توقعات پرپورااترنے میں ناکام رہی. فوٹو آن لائن

کراچی میں سب سے محفوظ تصورکیے جانیوالے علاقے ریڈ زون میں سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس مقبول کے قافلے پر ریموٹ کنٹرول بم حملے نے علاقے کے محفوظ ہونے کے حوالے سے تمام دعووں کو بے نقاب کردیا۔

حملے میں پولیس اہلکاروں سمیت 9 لوگ مارے گئے جبکہ خوش قسمتی سے جسٹس مقبول بچ گئے۔جج پر حملے کو عدالتی نظام پر حملے کے مترادف سمجھا گیا اور حملے کے فوری بعد وکلاء ہڑتال پر چلے گئے، پورے ملک میں وکلاء اور ججز میں خوف کی لہر دوڑگئی۔ پچھلے 5 ماہ میںکراچی میںکئی وکلاء کو قتل کیا گیا لیکن ہائیکورٹ کے جج پر ہونیوالاحملہ زیادہ سنجیدہ معاملہ ہے۔ابھی تک سندھ حکومت امن و امان کی خراب صورتحال سے نمٹنے کیلیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کرسکی۔ مسئلے پرآل پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ ابھی تک صرف میڈیاکی توجہ حاصل کرنے کا ذریعہ ہی لگا ہے ورنہ حکومت اور اسمبلی کو کسی اے پی سی کی ضرورت نہیںکیوں کہ انھیں تمام فیصلوں کا مینڈیٹ حاصل ہے۔لگتا ہے کہ سیکیورٹی ایجنسیز اس قابل نہیںکہ وہ ممکنہ حملوں کے خدشات سے حکومت کو آگاہ کرسکیں۔

خودکش حملوں سے نمٹنے کیلیے کچھ نہیںکیا جاسکتا لیکن یہاں معاملہ مختلف ہے اور مذکورہ جج کو لمبے عرصے سے ایسے حملے کے خطرے کا سامنا تھا۔کیوں سیکیورٹی ایجنسیزکسی ممکنہ کار یا موٹر سائیکل بم حملے کے بارے میں اندازہ نہ لگا سکیں۔ جسٹس باقر کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ معمول کی طرح سندھ ہائیکورٹ جا رہے تھے،بم کو موٹرسائیکل پر نصب کیا گیا تھا۔دہشت گرد جنھوں نے ریموٹ کنٹرول کا بٹن دبایا،اسی وقت کا انتظار کررہے تھے۔یہ ہائیکورٹ کے کسی جج پر پہلا بڑا حملہ ہے اور اسے بہت منصوبہ بندی سے انجام دیا گیا۔جہاں تک وکلاء پر حملوں کا تعلق ہے تو صرف کراچی میں ہی پچھلے کچھ ماہ میںکئی وکلا کو قتل کیا گیا ہے۔جب جسٹس مقبول پر حملہ کیا گیا اس وقت وہ قائمقام چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کے فرائض انجام دے رہے تھے کیونکہ چیف جسٹس مشیر عالم اسلام آباد میں تھے۔

اس طرح یہ حملہ عدالتوں کیلیے اور بھی زیادہ تشویشناک ہے،اب وکلاء اور ججز کا اعتماد بحال کرنا ضروری ہے جو اس وقت ان حملوں کا نشانہ ہیں۔ پولیس جسٹس باقر کو لاحق خطرات بارے تفتیش میں مصروف ہے۔ہائیکورٹ کے جج پر حملے نے تمام ججز میں دہشت کی فضا پیداکردی ہے۔انسداد دہشتگردی کی عدالتوں میں تعینات ججزکو پہلے ہی ایسے حملوں کے خطرات کا سامنا ہے۔ انسداد دہشتگردی کی عدالتیں ریڈ زون میں ہیں لیکن لوکل ہونیکے سبب سب سے زیادہ غیرمحفوظ ہیں۔دوسروں کی نسبت ججزکو نشانہ بنانا اس لیے بھی آسان ہے کہ ان کے عدالت آنے جانے کے اوقات ایک جیسے رہتے ہیں۔وہ عام طور پرگھروں سے 8 سے 30:8 پر نکلتے ہیں۔پولیس،انٹیلی جنس ادارے اس بات سے آگاہ تھے کہ دہشتگرد کوئی بھی کاروائی کرسکتے ہیں۔جس طرح کا سیکیورٹی اسکواڈ ایک جج کو دیا جاتا ہے اس میں ممکن ہے کہ اسے کسی خودکش یا ریموٹ کنٹرول حملے کا نشانہ بنایا جائے۔حملے سے قبل دہشت گردوں نے ان کے روٹ کی مکمل ریکی کی۔

تفتیش کاروں کو یہ معلوم کرنا ہوگاکہ جسٹس باقر کا روٹ کتنی مرتبہ تبدیل کیا گیا۔صبح کے اوقات کے علاوہ ان کے روٹ میں تجاوزات کے باعث بہت زیارہ رش ہوتا ہے۔وہ ایریا جسے سب سے زیادہ محفوظ خیال کیا جاتا ہے اور جہاں ٹریفک کا بہائو نارمل ہونا چاہیے،لیکن یہ علاقہ ناکوں کی وجہ سے بہت زیادہ گنجان بن چکا ہے۔اس علاقے میں واقع سندھ ہائیکورٹ،سندھ اسمبلی،گورنر ہائوس،چار فائیو اسٹار ہوٹل،امریکی قونصلیٹ،کور کمانڈر اور انٹیلی جنس کے دفاتر،رینجرز ہیڈ کوارٹر،اسٹیٹ گیسٹ ہائوس،کراچی جمخانہ،سندھ کلب،کراچی کلب اور کراچی پریس کلب کی عمارتیں ناقص سیکورٹی انتظامات کی وجہ سے عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ماضی میں یہاں درجنوں خودکش اورکار بم حملے ہوئے جن میں ایک امریکی سفارتی اہلکار، 11 فرانسیسی انجینیئرز ہلاک ہوئے،ایک سابق کورکمانڈرکو بھی نشانہ بنایا گیا اسکے باوجود اس علاقے کی سیکورٹی سخت نہیں کی گئی اور نہ ہی ٹریفک کے بہائو کو بہتر بنایا گیا۔

سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے بعد فیصلے میں حکومت، پولیس اور سیکورٹی اداروںکو امن وامان بہتر بنانیکے احکامات دیئے تھے۔وزیراعلی قائم علی شاہ نے حلف اٹھانے کے بعد اپنے حکم میںکہا تھا کہ جس علاقے میں ٹارگٹ کلنگ ہوگی اس علاقے کا ایس ایچ او اس کا ذمے دار ہوگا۔لیکن ابھی تک کسی بھی ایس ایچ او سے اس بارے سوال نہیںکیا گیا جبکہ ٹارگٹ کلنگ کراچی بھرمیں ہورہی ہے۔سندھ حکومت نے بجٹ میں47ارب امن وامان کے قیام کیلئے مختص کئے ہیں۔ ہر سال اس رقم میں اضافہ ہوتا ہے۔اندازے کے مطابق پچھلے پانچ سالوں میںاس مد میں دو کھرب روپے خرچ کئے گئے لیکن نتیجہ صفرکا صفر ہی رہا۔رقم میں اضافے کیساتھ ٹارگٹ کلنگ اورخودکش حملوں میں مارے جانیوالے افرادکی تعداد میں ہی اضافہ ہوتا رہا۔

صوبائی حکومت ہر سال ایک ارب روپے رینجرزکو دے رہی ہے۔لیکن یہ بھی توقعات پرپورااترنے میں ناکام رہی۔ایک جج پر حملے کو عدالتی نظام پر حملے کے طور پر لیا جانا چاہیئے۔اگلے کچھ دنوں تک ریڈ زون میں سیکورٹی انتظامات سخت ہوسکتے ہیں لیکن پھر یہ معمول کی کاروائی بن جائیگی یہاں تک کہ ہم پھر ایک ایسے ہی حملے کی خبر سنیں گے۔یہی وہ طریقہ ہے جسکے ذریعے حکومت،پولیس اور سیکورٹی ادارے پچھلے دو سال سے دہشتگردی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں