گلوبلائزیشن اور امریکی سماجی نظام
ہم ایشیائی ممالک نے جمہوریت تو مستعار لی ہے مگر جمہور اور جمہوریت کا محض ڈھنڈورا ہی پیٹا جاتا ہے۔
جس طرح دنیا ایک دوسرے کے قریب آتی جا رہی ہے، اس کی وجہ سے عالمی تہذیب اور رسم و رواج میں کوئی جنگ نہیں بلکہ ایک آفاقی تمدن کی طرف بڑھ رہی ہے اور ایک دوسرے کو سمجھنے کی ضرورت رہی ہے۔ تہذیب و تمدن میں بھی یگانگت پیدا ہو رہی ہے۔
امریکی قوانین بھی ایسے ہیں جہاں غیر ملکی لوگوں کو بسنے میں کوئی مشکل نہیں، پھر زمینی و معدنی وسائل کے علاوہ نوکری چاکری میں کوئی نسلی اور سیاسی مزاحمت نہیں۔ یہاں کے حکمرانوں کے تعلقات گوکہ امریکی مفاد عامہ کے حق میں ہیں ایسا نہیں کہ یہاں لوگ کسی رنگ و نسل کے خلاف ہیں بلکہ بدھ مت کے رہنما دلائی لامہ جو تبت کے روحانی پیشوا بھی رہے، ان کے بقول یہاں کے لوگوں کو مجموعی طور پر علم کی بھوک ہے اسی لیے وہ ہر تہذیب کی اچھی چیزوں کو جلد اپنا لیتے ہیں، حالانکہ حضرت علیؓ نے بہت پہلے یہ فرمایا تھا کہ علم تمہاری کھوئی ہوئی بھیڑیں ہیں۔ امریکی حاکموں نے جنھوں نے ملک کی بنیاد رکھی انھوں نے عالموں کی قدر و منزلت کی جس کی وجہ سے یہ ملک ترقی کی راہوں پر گامزن ہے۔
یہاں ایک اعلیٰ درجے کے ادب و سائنس سے وابستہ لوگوں سے لے کر علوم فلکیات کے رازوں کو فاش کرنے والوں اور محنت کشوں کی بھی اہمیت ہے اس موقع پر مجھے نبی اکرمؐؐ کا یہ قول یاد آرہا ہے کہ عالِم کی موت، عالَم کی موت ہے۔ لہٰذا ان کی قدر و منزلت کی اہمیت ضروری ہے مگر ہمارے علاقوں میں جمہوریت کا نام و نشان ضرور ہے مگر ہم ایشیائی ممالک نے جمہوریت تو مستعار لی ہے مگر جمہور اور جمہوریت کا محض ڈھنڈورا ہی پیٹا جاتا ہے جب کہ مغربی ممالک اور ترقی یافتہ دنیا ایشیائی ممالک کے اطبا کے نسخہ جات پر ریسرچ کرکے اپنے ملک میں ان پر تجربہ و تحقیق کرکے ان پر عمل پیرا نہیں ہو رہے ہیں۔ یہ سارا عمل ان تیس برسوں میں اس مد کا کوئی بجٹ نہیں جب کہ یورپ اور امریکا کے لوگوں کی سوچ اور عمل میں زبردست تبدیلی پیدا ہوئی ہے۔
گزشتہ دو دہائیوں کے بعد مجھے عملی طور پر یہ دیکھنے اور سمجھنے کا موقعہ ملا کہ یورپ اور امریکا میں خواتین اور حضرات کی سوچ میں انقلابی تبدیلی پیدا ہوئی ہے ، آج سے بیس برس قبل امریکی عورتیں خصوصاً بچوں کی پیدائش اور پرورش میں زیادہ دلچسپی نہ لیتی تھیں اور شادی بیاہ کے عام قدیم رواج کو ترک کر بیٹھی تھیں مگر حالیہ دنوں میں چند شہروں کی صورتحال دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ڈنر میں عورتیں اپنے بچوں کے ہمراہ طعام فرما رہی ہیں وہ بھی ایک دو بچوں کے ہمراہ نہیں بلکہ عموماً چار اور پانچ اور یا سال کے کل تین یا 2 بچوں کے ہمراہ، نیویارک، نیوجرسی، بوسٹن میں کم لیکن امریکا کے چھوٹے شہروں انڈیانا اور شکاگو اور اس کے اردگرد کے شہروں میں 5،6 بچے دیکھنے میں آئے جو حیرت دیکھنے پر ہوئی کہ ایسا تو کراچی شہر میں بھی صرف غریب علاقوں تک محدود ہے البتہ لندن میں بھی چھوٹے بچوں کا رواج ہو چلا ہے ۔
اس صورتحال کی وجہ سے ایک نئی میڈیسن کی شاخ جدید دنیا میں خاصی مقبول ہوچلی ہے جس میں قدرتی غذا پر زور ہے اسے فیملی میڈیسن کے نام سے پکارا جاتا ہے جو اب پاکستان میں بھی متعارف ہوچکی ہے اس میں سوشل سائنس کا خاصہ بڑا حصہ ہے، ایک زمانہ تھا کہ دنیا کے بڑے سائنس دانوں کو یہ فکر ہوچلی تھی کہ دنیا میں قحط سالی نہ پیدا ہوجائے کیونکہ سائنس دانوں کے ہاتھ میں زمین کی تقسیم تو نہیں ہے کیونکہ یہ سیاسی مسئلہ ہے لہٰذا انھوں نے قدرتی (Organic) طریقہ کار کو چھوڑ کر کیمیائی (Inorganic) طریقہ کار سے پھل، سبزیاں اور اناج پیدا کرنا شروع کردیا جو اب پاکستان میں بھی شروع ہوگیا ہے مگر یہاں کوئی ایسا صحت عامہ کا قانون پاس نہیں ہوا جس کی وجہ سے اس سال پاکستان میں پھلوں کی پیداوار میں خصوصاً آم اور پپیتا خاصی مقدار میں فروخت کیا گیا جس کی پہچان بظاہر مشکل ہے مگر یہ پھل خاصے بڑے ہوتے ہیں مگر مٹھاس کم ہوتی ہے جہاں تک فیملی میڈیسن اور جدید تحقیقات کا تعلق ہے اس کے مطابق پتا چلا ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جنیں دماغی طور پر ذہین بتایا گیا ہے کہ جن گھروں میں قدیم کھانے پینے کے رواج ہیں ان گھروں کے لوگ اجتماعی طور پر صحت مند ہیں۔ جہاں ماں باپ اور بچے ایک ساتھ کھانا کھاتے ہیں اور والدین بچوں پر نگاہ رکھتے ہیں۔ ان کو ذہنی امراض نہیں ہوتے۔
لہٰذا اب جدید دنیا نے مشرقی اقدار کو سیکھنا شروع کردیا ہے اور تخریبی ذہن کم پیدا ہوتا ہے جیساکہ امریکا میں تخریب کاری ماضی کے مقابلے کم ہے ، بچے پہلے بے قابو ہوکر تخریب کاری کے مرتکب ہو جاتے تھے اور مختلف مقامات پر فائرنگ کردیتے تھے۔ جن بچوں کی مائیں نو عمری میں ہی بچوں کو نظرانداز کردیتی ہیں اور محض پیسوں کی کمائی اور تفریحات پر زور دیتی ہیں وہ 15 اور سولہ سال کی عمر تک آتے ہی ماں کو نظرانداز کرنا شروع کردیتے ہیں اور نشے کی طرف نہ صرف راغب ہوجاتے ہیں بلکہ والدین کے بھی مخالف ہوجاتے ہیں لہٰذا فیملی کے تصور اور ان کی مشکلات پر قابو پانے کے لیے صحت کے پروگراموں اور طبی مشوروں کو بہت اہمیت دی جا رہی ہے۔
امریکی ریاستوں میں فاسٹ فوڈ پر ایک زمانے میں بڑا زور تھا مگر اب اس کا رواج ختم ہو رہا ہے جب کہ انڈیا اور پاکستان میں فاسٹ فوڈ کو معیار زندگی کا حصہ سمجھا جا رہا ہے 20 برس قبل ہمارے یہاں فاسٹ فوڈ کی لہر آئی تھی لیکن یہ دور زیادہ عرصہ نہیں چل سکا کیونکہ دنیا میں خبروں کا عمل تیز تر ہوچکا ہے۔ امریکی ریاستوں میں نیچرل یعنی قدرتی اجزا کا تصور بہت بڑھ چکا ہے، گزشتہ 10 برس قبل سے یہاں ہومیو پیتھک علاج، حکیمی ادویات، جڑی بوٹی کے اجزا کی مارکیٹ، چائنیز علاج نہ ہونے کے برابر تھی مگر اس ملک کے حکمرانوں میں مشہور ہوگیا ہے کہ اب آئین نو کو اپنانا شروع کردیا ہے جو یہاں کی مضبوط سماجی ارتقا کی سوچ ہے۔
یہاں پر بھارت، پاکستان اور چین کے معالج کا طریقہ علاج پاپولر ہو رہا ہے یعنی علاج میں تنوع موجود ہے۔ اگر ایک طریقہ علاج سے فائدہ نہیں ہو رہا ہے تو دوسرا طریقہ علاج پر بھی لوگ متوجہ ہو رہے ہیں یہاں تک کہ کیلی فورنیا میں یوگا خاصا مقبول ہو رہا ہے مگر بعض بھارتی باشندوں نے یوگا کو مذہبی مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا ہے جو خود اس فن کے لیے غلط ہے ، بہرحال دنیا اب ایک بعض قدرتی اجزا کی جانب متوجہ ہورہی ہے اس میں خواتین نے پہل کی ہے۔
ایک وقت تھا کہ عطار کی دکانیں خالی پڑی رہتی تھیں مگر اب کراچی شہر میں عطار کی دکانوں پر عورتوں کی لائن لگی رہتی ہے اور اپنی پسند کے نسخہ جات بنواتی رہتی ہیں یہی حال کچھ امریکی شہروں میں بھی ہو رہا ہے جس سے انڈین اور پاکستانی دکانوں کی سیل میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ یہاں تک کہ ایک زمانہ تھا بلکہ 80-70 تک امریکی (Hair Oil)سر پر تیل نہیں لگاتے تھے مگر اب عام طور پر باہر نکلتے وقت تو نہیں مگر گھر میں سر پر تیل لگاتے ہیں کیونکہ خصوصاً مردوں میں گنج پن کافی حد تک پھیل گیا ہے اور بغل میں ایلوویرا (گھیوکوار) کا اسپرے خاصا مقبول ہے خصوصاً خواتین میں دیسی جڑی بوٹی کی ادویات اور کاسمیٹک انڈسٹری بھی نیچرل اجزا کے زیر اثر آگئی ہیں۔
امرا نے تو حد ہی کردی، اصلی ریشم کے ملبوسات زیب تن کرنے شروع کردیے ہیں صورتحال اس درجہ بدل چکی ہے کہ ہالی وڈ کی اداکارہ Genith Patrou جینتھ پیٹرو نے ہومیو پیتھک انڈسٹری کے اشتراک سے بیوٹی کریم اور دیگر افزائش حسن کی نیچرل ادویات بنانی شروع کردی ہیں، جو امریکا میں موجود ہیں اس کے علاوہ چین، کوریا، سری لنکا اور دوسرے ایشیائی ممالک کی مصنوعات بھی مارکیٹ پکڑ رہی ہیں البتہ پروڈکشن حسین و جمیل انداز میں پیش کی جا رہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ قدرت نے انسان کی اصلاح کا بیڑہ اٹھالیا ہے اور دنیا انسانی اقدار کی سمت لوٹ رہی ہے اور دنیا ایک نئے عالمی کلچر کی طرف لوٹ رہی ہے ۔
خدا کرے کہ انسانی حقوق اور اقدار فروغ پاتے رہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ دنیا کسی عالمی جنگ کا شکار نہ ہوجائے ایک اور چیز پر نگاہ کرنے کی ضرورت ہے کہ امریکی خواتین کی نوکریوں کا اور کمیونٹی میڈیسن کا اثر یہ پڑے کہ خواتین یہاں9-5 کے بجائے 7 سے 3 بجے کی نوکریاں کر رہی ہیں تاکہ گھر بار کو دیکھ سکیں۔