100 دنوں میں عمران خان حکومت کے اچھے کام

عوامی شکایات کے ازالے کے لیے ’’پاکستان سٹیزن پورٹل‘‘ قائم کیا گیا ہے۔

tanveer.qaisar@express.com.pk

وزیر اعظم جناب عمران خان کا دو روزہ دَورئہ ملائشیا کامیاب، بامقصد اور بامعنی رہا ہے۔ ملائشیا کے بزرگ وزیر اعظم ، مہاتر محمد ، سے اُن کی ملاقاتیں بھی خوب رہیں۔دونوں وزرائے اعظموں میں ایک قدرِ مشترک یہ بھی ہے کہ دونوں نے اپنے اپنے ملک میں کرپشن کے خاتمے کے نعروں کی بنیاد پر الیکشن لڑکرکامیابیاں حاصل کیں۔ مہاتر محمد نے ملائشین عوام سے کہا تھا کہ وہ انتخابات میں کامیاب ہو کر اپنی حکومت کے اولین 100دنوں میں 10بڑے کارنامے اور وعدے انجام تک پہچائیں گے۔

مئی 2018ء میں وزیر اعظم بننے کے بعد مہاتر محمد نے اپنے اولین 100دنوں میں صرف دو وعدے پورے کیے اور تین وعدوں کی تکمیل پر زور شور سے کام کا آغاز کیا لیکن باقی پانچ وعدوں کی تکمیل کی طرف ابھی تک کوئی ایک قدم بھی نہیں اٹھایا جا سکا ہے۔اس ناکامی پر مہاتر محمد صاحب کو اپنی اپوزیشن اور عوام کی طرف سے مزاحمت اور ناراضی کا سامنا ہے۔اب مہاتر محمد کو محبوب قرار دینے والے عمران خان کی حکومت کے 100دن بھی مکمل ہُوا چاہتے ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان کے حکومت میں آتے ہی بعض اطراف سے شور مچا تھا :''کچھ بھی نہیں ہو رہا، وعدے فراموش کر دیے گئے ہیں۔''یہ شور خان صاحب تک بھی پہنچااور انھوں نے کہا تھا: مجھے پہلے کم از کم 100دن تودیجیے، پھر میری کارکردگی کا جائزہ لیا جائے۔ مطالبہ تو درست تھا۔اب خان حکومت کے سو دن پورے ہونے پر میزان تھامنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ علامہ اقبال نے ارشاد فرما یا تھا:'' صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم/کرتی ہے ہر زماں جو اپنے عمل کا حساب۔'' چنانچہ ہمیں اپنے حکمرانوں کے اعمال کا حساب کتاب کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔

تحریکِ انصاف کا نہیں بلکہ انصاف کا ترازو تھام کر دیکھا جائے تو کہا جائے گا کہ ان 100دنوں کے دوران ایسے کئی مثبت کام دیکھنے کو ملے ہیں جنہیں پہلے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں تھیں اور ہم یہ سمجھتے تھے کہ یہ کام کم از کم پاکستان میں تو ہو ہی نہیں سکتے۔حیرت ہے کہ لاہور ایسے منہ زور نون لیگی شہر میں ٹریفک میں ڈسپلن آ رہا ہے۔ موٹر سائیکل سڑک کے انتہائی بائیں چلتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ہلمٹ پہننا لازم بن چکا ہے۔ جیب میں گاڑی اور موٹر سائیکل کے مکمل کاغذات اور لائسنس رکھنے کی عادت مستحکم ہو رہی ہیں۔ چھپ کر ٹریفک کی خلاف ورزی کرنے والوں کو گھروں میں ای چالان بھی پہنچنے لگے ہیں۔ ہلمٹ نہ پہننے اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کیے جانے پر ٹریفک اور شاہی پولیس کے عملے کے بھی چالان کاٹے جانے لگے ہیں۔

ایک سوک سینس جگہ بناتی اور پر پھیلاتی نظر آ رہی ہے۔ لاہوریوں اور دیگر شہروں کے باسیوں نے مزاحمت تو بہت کی ہے لیکن دباؤ کے بعد ڈھرے پر آ تے جا رہے ہیں۔اسے خان صاحب حکومت کا کریڈٹ کہنا چاہیے۔ ملک بھر میں ناجائز تجاوزات کرنے والوں اور لینڈ مافیا کے بارے میں یہ خیال مستحکم ہو چکا تھا کہ ان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ وجہ یہ بتائی جاتی تھی کہ ان کے ہاتھ بہت لمبے اور طاقتور ہیں۔ یہ سیاسی جماعتوں میں گہرا رسوخ رکھتے ہیں۔ عمران خان حکومت کے ان اوّلین 100دنوں میں ہم نے لاتعداد ایسے مناظر اور مظاہر ملاحظہ کیے ہیں جن میں کروڑوں ، اربوں کی ناجائز تجاوزات مسمار کر دی گئی ہیں۔ لینڈ مافیا کے زیر قبضہ ریاست کی بہت سی زمین واگزار کروائی جا چکی ہے۔ کئی سیاسی طاقتوروں کے کئی ناجائز پٹرول پمپس بھی اُڑا دیے گئے ہیں۔ کئی منشا بم بھاگتے اور اپنی جانیں بچاتے پھرتے ہیں۔

یہ کارروائیاں بِلا امتیاز ہو رہی ہیں۔ مقتدر پی ٹی آئی کا کوئی رکن اور کارکن بھی اگر ناجائز تجاوز کنندہ اور لینڈ مافیا کا حصہ تھا، اُسے بھی رگڑ دیا گیا ہے۔ چیخیں تو بہت سنائی دی گئی ہیں لیکن کارروائیاں مسدود نہیں ہو سکی ہیں۔عین ممکن ہے کہیں کہیں گندم کے ساتھ گھن بھی پِس گیا ہو لیکن بحثیتِ مجموعی ملک بھر میں عوام نے اس کی تحسین ہی کی ہے۔ اور ابھی لینڈ مافیا کے خلاف، لاہور تاکراچی، یہ کام مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ اربوں روپے کی سرکاری زمینوں کی واگزاری کوئی معمولی کارنامہ ہے؟۔ تجاوزات کے خلاف ان اقدامات کی بنیاد پر اگرچہ بہت سے متاثرین کی طرف سے شکایات اور شکوے بھی سامنے آئے ہیں۔


عمران خان اور اُن کے قریبی رفقا نے ان گزرے 100 دنوں میں اقتصادی پٹڑی سے اُترے وطنِ عزیز کو پھر سے پٹڑی پر چڑھانے کے لیے جن مساعیِ جمیلہ سے کام لیا ہے، ان کا ہم سب نے نظارہ کیا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ملکی معیشت جس پھانس کا شکار بن چکی تھی، اب ریلیف محسوس کررہی ہے۔ خارجہ محاذ پر چین، ملائشیا اور ترکی سے نئے تعلقات استوار کرنے کے اقدامات بروئے کار آئے ہیں۔ خان حکومت کا دعویٰ ہے کہ دَورئہ چین میں معاشی امداد، اسٹریٹجک تعلقات اور سفارتی میدان میں نئی کامیابیاں سمیٹی گئی ہیں۔

متحدہ عرب امارات پچھلے نصف عشرے سے پاکستان سے ناراض تھا۔ اس دوران اُس نے بھارت سے بھی خوب پینگیں بڑھا لی تھیں۔ الحمد للہ، خانصاحب کی حکومت کے ان اوّلین سَو دنوں میں متحدہ عرب امارات کے ساتھ بگڑے تعلقات پھر سے سنور گئے ہیں۔ امارات کا ایک ہائی فائی شاہی وفد اسلام آباد کا دَورہ کر چکا ہے اور جناب وزیر اعظم سے اُس کی وَن آن وَن ملاقاتیں ثمر آور رہی ہیں۔ سعودی عرب کے دارالحکومت، ریاض، میں منعقدہ سرمایہ کاری کانفرنس سے وزیر اعظم عمران خان کاخطاب ایک شاندار ایکسپوژر تھا۔ موعودہ سعودی مالی امداد کی ایک قسط بھی پاکستان پہنچ چکی ہے۔

بھارت کی طرف بھی عمران خان نے دوستی کاہاتھ بڑھایا ہے ۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ فی الحال نریند مودی نے بوجوہ یہ ہاتھ تھامنے سے انکار کر دیا ہے لیکن پاکستان کے حصے میں بہر حال سُرخروئی آئی ہے۔پچھلے آٹھ سال سے پاکستان میں قید افغان طالبان کے مرکزی رہنما، ملّا عبدالغنی برادر، کو رہا کرکے خانصاحب کی حکومت نے ثابت کیا ہے کہ وہ افغانستان کے ساتھ پکّی دوستی بھی چاہتے ہیں اور وہاں کامل قیامِ امن کے خواہاں بھی۔ شرحِ صدر سے کہا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے سَو دنوں میں سفارتی محاذ پر نمایاں جہت اختیار کی ہے۔

وزیر اعظم عمران خا ن نے اپنے وزیروں پر چیک رکھنے کا ایک اصول بھی وضع کیا ہے۔ حکم دیا گیا ہے کہ وہ سال میں صرف تین بار غیر ملکی دَورے کر سکیں گے، اکانومی کلاس میں سفر کریں گے، سینیٹ و اسمبلی سیشنز کے دوران کوئی وزیرادَورہ نہیں کرے گا اور پارلیمانی اجلاسوں کے دوران اسلام آباد میں موجودگی یقینی بنائیں گے۔وفاقی وزیروں اور بیوروکریٹوں پر پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں کہ وہ بیرونِ ملک اپنا میڈیکل علاج نہیں کرا سکیں گے۔

عوامی شکایات کے ازالے کے لیے ''پاکستان سٹیزن پورٹل'' قائم کیا گیا ہے، جہاں ایک منٹ میں 3لاکھ 82ہزار شکایات درج کروانے کا عمل شروع ہو چکا ہے ۔ یہ کوشش موجودہ دَور کی زنجیرِ عدلِ جہانگیری کہی جا سکتی ہے۔اِس سے دکھوں کے مارے عوام کو ریلیف ملنے کی اُمید ہے۔ عوامی دستگیری کی کچھ شکل تو سامنے آسکے گی۔نئے پاکستان میں صدرِ پاکستان، جناب ڈاکٹر عارف علوی، غیر ملکی دَورے پر جاتے ہُوئے اپنے وطن کے ائر پورٹس پر بغیر پروٹوکول امیگریشن کرواتے دکھائی دے رہے ہیں، عام پرواز سے سفر کررہے ہیں اور اپنا بَیگ خود اسکریننگ کروارہے ہیں۔

ریلوے نظام میں بہتری آنے سے گزرے100دنوں میں ایک ارب روپے سے زائد کا منافع کمانے کی خبریں آئی ہیں۔ یقین کرلیں تو اِن سے حوصلہ ملتا ہے۔ بعض اطراف سے اعتراض میں انگلیاں اُٹھائے جانے کے باوجود وزیر مملکت برائے داخلہ، شہر یار آفریدی، قانون کے نفاذ میں بہتری لانے اور تھانوں کی کارکردگی عوام دوست بنانے کے لیے راتوں کو پولیس اسٹیشنوں پر چھاپے ماررہے ہیں۔اِن کے کم از کم یہ مثبت نتائج نکلے ہیں کہ تھانوں میں معصوم شہریوں کو بغیر کسی وجہ کے بند کیے جانے کی حرکات بھی کم ہُوئی ہیں اور تھانیداروں کی غیر قانونی من مانیاں بھی۔پاکستان آبادی کے بحرالکاہل میں ڈُوبا پڑا ہے ۔ ہمارے مسائل بے پناہ ہیں اور وسائل نہائت محدود۔ ایسے ماحول میں عمران خان حکومت نے اپنے اوّلین 100 دنوں میں جوچند اچھے کام کیے ہیں ، ہمیں تنگدلی کے خَول سے باہر نکل کران کی تحسین کرنی چاہیے۔
Load Next Story