’’اسیر شہزادی‘‘ آزاد ہوگئی۔۔۔

باغی، سماج کی ایسی باغی کہ خون کے بہ جائے بغاوت اس کی رگ و پے میں دوڑتی تھی۔

آدم خاکی کے حق میں نغمہ سَرا اور عظمت نِسواں کی علم بَردار شاعرہ اور دانش ورفہمیدہ ریاض جبر کے خلاف مزاحمت کا نشان بنی رہیں گی۔ فوٹو: فائل

اس کا نام ہی فہمیدہ نہیں تھا، وہ تھی بھی فہمیدہ۔ فہم و ادراک میں گُندھی ہوئی، ایسی نہیں تھی وہ کہ آپ جو کہیں وہ سر جھکا کر بس چُپ چاپ مان جائے، نہیں بالکل بھی نہیں، اسے دلیل درکار تھی، دلیل کے بغیر وہ خود اپنی بھی کوئی بات نہیں سنتی تھی۔

سنی سنائی باتوں پر آنکھ بند کرکے ایمان لانے والی نہیں تھی وہ، کسی بھی مسئلے کی تہہ میں اتر کر خود مشاہدہ کرنے والی، چاہے اس میں اسے کتنے ہی خطرات کا سامنا کیوں نہ ہو، ہاں اس نے اس کی قیمت بھی ادا کی تھی کہ بلاقیمت ادا کیے یہ کب کسی کی دست رس میں رہا ہے، تجربات کی بھٹی میں ہر دم پکنے والی فہمیدہ، اس لیے اس کا رنگ ہی چوکھا تھا، ایسا کہ مت پوچھیے۔ باغی، سماج کی ایسی باغی کہ خون کے بہ جائے بغاوت اس کی رگ و پے میں دوڑتی تھی، ایسا لگتا تھا کہ اسے جینے کے لیے کوئی ایسا کام درکار تھا جس کے متعلق لوگ تنہائی میں بھی سوچنے سے خائف ہوجاتے ہوں، ہاں ایسی تھی وہ۔ دیکھیے خود ان کی زبانی سنیے۔

سنگ دل رواجوں کی

یہ عمارتِ کہنہ

اپنے آپ پر نادم

اپنے بوجھ سے لرزاں

جس کا ذرّہ ذرّہ ہے

خود شکستگی ساماں

سب خمیدہ دیواریں

سب جُھکی ہوئی کڑیاں

سنگ دل رواجوں کے

خستہ حال زنداں میں

اک صدائے مستانہ

ایک رقصِ رندانہ

یہ عمارتِ کہنہ ٹوٹ بھی تو سکتی ہے

یہ اسیر شہزادی چھوٹ بھی تو سکتی ہے


دیکھ لیا آپ نے ایسی ہی تھی وہ، ہر پل زمینی خداؤں کے سامنے آوازۂ حق بلند کرنے والی، اور پھر یہ تو ہونا ہی تھا کہ ہوتا آیا ہے یہ کہ اسے دیس نکالا دیا گیا، اس پر زمین تنگ کی گئی، وہ ایک جنگ جُو تھی، اور ہر ایسے محاذ پر اپنے جوہر دکھاتی رہی، جہاں زمینی خدا خلق خدا کے حقوق پامال کر رہے ہوں، جبر کے خلاف ہر پل آمادۂ جنگ۔ دیکھیے کیا یاد آگیا۔

ہوں جب سے آدم خاکی کے حق میں نغمہ سرا

میں دیوتاؤں کے بھپرے ہوئے عتاب میں ہوں

فہمیدہ ریاض 28 جولائی 1946 کو اتر پردیش کے شہر میرٹھ کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ریاض الدین احمد ماہر تعلیم تھے۔ تقسیم کے بعد ان کا خاندان حیدرآباد سندھ میں قیام پذیر ہوا۔ فہمیدہ نے نہ صرف سندھی زبان سیکھی بل کہ سندھی ادب کا گہرا مطالعہ بھی کیا۔ وہ طلبہ کی سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہیں۔

شادی کے بعد فہمیدہ انگلستان چلی گئیں جہاں بی بی سی اردو سروس سے وابستہ ہوگئیں۔ پاکستان واپسی پر انہوں نے ایک پبلشنگ ہاؤس کھولا اور ایک رسالہ ''آواز'' کے نام سے جاری کیا۔ ضیاء الحق کے زمانے میں حکومتی پالیسیوں پر تنقید کے جرم میں ان کو جلاوطن ہونا پڑا۔ فہمیدہ ریاض کی پہلی نظم پندرہ سال کی عمر میں شائع ہوئی۔ بائیس سال کی عمر میں ان کا پہلا شعری مجموعہ منظرعام پر آیا۔

جس میں انہوں نے جنس، تخلیق اور آزادی نسواں کو اپنا موضوع بنایا۔ مرد اور عورت کے باہمی تعلق کی تہہ میں موجود جذباتی رو اور عورت کا استحصال اس کی نظموں کے سلگتے موضوعات ہیں۔ مزاحمت اور سماج کے رسم و رواج و خیالات سے یک سر باغی۔

فہمیدہ ریاض جس قُرب اور کرب سے گزریں اسے من و عن لفظوں میں ڈھالنے کا ہنر جانتی تھیں اور اپنے لفظوں میں پوری کیفیت کو بیان کرنے پر قادر۔ فہمیدہ کی شاعری میں مشرقی عورت کی مجبوریاں بھی نظر آتی ہیں اور اکیسویں صدی کی عورت کی روایات سے آزاد اور خودمختار ہونے کی خواہش بھی۔ ان کا خواب ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں عورت اور مرد کو برابری مل سکے اور خواتین کو ان کے تمام حقوق کیساتھ برابری کی سطح پر تسلیم کیا جائے۔ اس مشن کیلیے انہوں نے دم آخر تک اپنی جدوجہد جاری رکھی۔

انہوں نے شیخ ایاز کے کلام اور مثنوی مولانا روم کا بھی ترجمہ کیا ہے۔ فہمیدہ پروگریسیو رائٹرز ویمن کی بانی تھیں۔ انہوں نے ستارۂ امتیاز اور صدارتی تمغہ حسن کارکردگی برائے ادب بھی حاصل کیے۔

ان کی تصانیف میں بدن دریدہ، قافلے پرندوں کے، یہ خانۂ آب و گل شامل ہیں۔فہمیدہ ہمیشہ جبر کے خلاف مزاحمت کا نشان بنی رہیں گی، انہوں نے جو قندیل روشن کی اس کی روشنی میں مظلوم طبقات اپنا سفر جاری رکھیں گے۔

آؤ اے ہم وطنو رقص کرو

غیظ کا رقص

بکھرتے ہوئے پندار کا رقص

رنج و رسوائی کا

امید نگوں سار کا رقص

پیراہن چاک کرو

مصلحت اندیشی کا
Load Next Story