’’عورت کے مکمل انسانی وجود کو تسلیم کیا جائے‘‘

( 1993ء میں لندن یونیورسٹی میں دیے گئے فہمیدہ ریاض کے ایک لیکچر سے اقتباسات)

( 1993ء میں لندن یونیورسٹی میں دیے گئے فہمیدہ ریاض کے ایک لیکچر سے اقتباسات)۔ فوٹو: فائل

فیمنزم ایک ایسی اصطلاح ہے جس کا مطلب لوگ اپنی اپنی طرح سمجھتے رہتے ہیں، مگر میں نے جب بھی اسے استعمال کیا ہے، یا کہا ہے کہ میں '' فیمنسٹ '' ہوں تو ہر بار میرے ذہن میں اس کا یہی مطلب رہا ہے کہ عورت کے مکمل انسانی وجود کو تسلیم کیا جائے اور اس کے کسی بھی پہلو کو کچل کر نابود کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔

ایک سطح پر اس میں عورت کے وجود کی ''لامحدودیت'' کا پہلو پنہاں ہے۔ عورت ''انسان '' کا نسوانی روپ ہے۔ اس کے امکانات بھی لامحدود ہیں۔ مگر دوسری سطح پر اس کے مضمرات ان تمام حقوق سے آملتے ہیں جو کسی بھی معاشرے میں، کوئی بھی مرد اپنے لیے روا گردانتا ہے۔ جب معاشرہ عورت کی عقل و دانش کی نفی کرتا ہے تو اسے فیصلہ سازی میں شامل نہیں کرتا، اسے اختیارات نہیں دیتا۔

ایسے معاشرے میں عورت کی حیثیت بھیڑ بکریوں اور گایوں کی ہوتی ہے جن کو انسان کچھ فائدے اٹھانے کے لیے پالتا ضرور ہے لیکن انہیں وہ اپنا جیسا نہ سمجھ سکتا ہے اور نہ ان سے برابری کا سلوک کر سکتا ہے۔ برصغیر میں مسلمان معاشرے کی تاریخ ہمیں ہرگز یہ نہیں بتاتی کہ ہمارے اجداد عورت کے مکمل انسانی وجود کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ صدیوں پہلے بھی وہ عورت کے شعور اس کے فہم و ذکاوت اور اس کی صلاحیت پر یقین کرتے تھے اور اعلیٰ سے اعلیٰ اختیارات مکمل اعتماد کے ساتھ اس کے سپرد کر سکتے تھے۔

ہمارا مقصد برصغیر کے مسلمان معاشرے میں عورت کی کمتر حیثیت کی مکمل نفی نہیں ہے۔ عورت پر کم تر حیثیت پوری دنیا میں تھوپی گئی اور برصغیر کے مسلم معاشرہ کو بھی اس میں استثنیٰ نہیں ہے۔ جس طرح دوسرے سماجوں میں اس ناانصافی کے خلاف ردعمل ہوا ہے اسی طرح برصغیر کے مسلم معاشرے میں عورت کے مکمل انسانی وجود کو تسلیم کرنے کے روشن شواہد پائے جاتے ہیں۔

یہ نشانیاں ہمارے اجداد کا ورثہ ہیں اور ہمارے شعور میں اس طرح گہری پیوست ہیں کہ مثال کے طور پر آج برصغیر میں کوئی تعلیم یافتہ مسلمان مرد یا عورت نہ ہوں گے جو ''رضیہ سلطانہ '' کا نام نہ جانتے ہوں۔ جب دہلی کے سلطان التمش نے تین بیٹوں کے موجود ہوتے ہوئے اپنی غیر شادی شدہ جواں سال بیٹی رضیہ کو سلطنت دہلی کا سلطان نامزد کر دیا تھا۔ اس کی وجہ اس نے یہ بتائی تھی کہ اس کے بیٹے نالائق ہیں اور امور سلطنت سنبھالنے کے اہل نہیں ہیں جب کہ رضیہ اعلیٰ تعلیم سے بہرہ ور ہے۔

سلطنت کے امور اور فن حرب میں طاق ہے اور منصف مزاج ہے۔ رضیہ کا عورت ہونا اس اہم فیصلے میں حائل نہ ہوا تھا۔ دہلی کے سلطان کی حیثیت سے ایک جواں سال عورت رضیہ کی نامزدگی سے تیرھویں صدی عیسوی میں ترکوں کی فکر کی تازگی اور قوت کی نشان دہی ہوتی ہے۔

یہ بات قابل غور ہے کہ رضیہ کی وراثت پر التمش کے وزراء نے اتفاق کیا تھا اور اس کے دربار سے منسلک علمائے دین اور قاضیوں نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔ برصغیر میں مسلمانوں کی تہذیب مغلیہ دور میں اپنے عروج تک پہنچی تھی۔ اس سلطنت کے بانی بابر کی تاج پوشی ان کے آبائی وطن فرغانہ میں اس وقت ہوئی تھی جب کہ بابر صرف گیارہ برس کا تھا۔ اس کے تمام امور کا انتظام بابر کی نانی احسان دولت بیگم کرتی تھیں۔ بابر کی تاج پوشی کے چند ماہ بعد امراء میں بغاوت پھوٹ نکلی تھی۔ اس ناز ک وقت میں احسان بیگم آخری وقت تک اپنے نواسے کی مشیر رہیں۔

بابر نے ان کے لیے لکھا۔ '' میری نانی بے مثال شخصیت تھیں۔ وہ اتنی دانش مند اور دور اندیش تھیں کہ خاندان بھر میں ان کا ثانی نہ تھا۔ میرے زیادہ تر معاملات ان کے مشورے سے ہی طے ہوتے ہیں۔ احسان دولت بیگم کی وفات کے بعد مشاورت اور رہنمائی کا یہ کردار مغل بادشاہ ہمایوں کی بڑی بہن خانزادہ بیگم کو ملا جنہوں نے اس خانوادے میں اختلاف طے کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔


شہنشاہ اکبر نے اپنے خاندان کی ایک خاتون بدر النساء بیگم کو کابل کا گورنر مقرر کیا تھا۔ اکبر ہی کے دور میں ایک خاتون جان بیگم کو تفسیر قرآن لکھنے پر پانچ ہزار دینار شہنشاہ ہندوستان کی جانب سے انعام میں دیے گئے۔ زیادہ تر معاشروں میں یہ رواج نہ جانے کب سے چلا آرہا ہے کہ عورتوں کو مذہبی معاملات سے دور رکھا جاتا ہے۔ شہنشاہ جہانگیر کی ملکہ نور جہاں کا نام برصغیر کے باسیوں کے لیے اجنبی نہیں۔ وہ اپنی پر وقار اور دلکش شخصیت کے باعث شاعروں کا موضوع سخن بھی رہی ہیں۔

تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ وہ جہانگیر کے ساتھ باضابطہ فرماں روائی میں شریک تھیں۔ شاہی فرامین پر جہانگیر کے ساتھ نور جہاں کی مہر اور دست خط بھی ثبت ہوتے تھے۔ جہانگیر کے زمانے کے چاندی اور سونے کے سکوں پر نورجہاں کا نام بھی کندہ کیا جاتا تھا۔ مغل شہنشاہوں کے کوائف کا مطالعہ کرنے سے ایسی کئی خواتین کے نام سامنے آتے ہیں جن کو باغات، زمینیں، سرائیں اور جاگیریں، خود ان کے نام سے دی گئیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مغل دور میں عورت کی ذاتی ملکیت کا تصور راسخ تھا۔ بابر کی دختر اور ہمایوں کی بہن گل بدن بیگم کا تحریر کردہ ہمایوں نامہ اس دور میں مغل خواتین کی علوم و فنون پر دست رس کا ثبوت ہے۔ شاہ جہاں اور ملکہ ممتاز بیگم کی دختر جہاں آرا ء کا علم و فضل ایک عالم میں شہرت رکھتا ہے۔ ان کی تحریر کردہ چشتی سلسلے کے بزرگوں کا تذکرہ ''مونس الاروح '' آج بھی محققین کے لیے ایک نہایت کار آمد کتاب ہے۔ مغل شہزادیوں میں زیب النساء مخفی ایک نامور اور صاحب دیوان شاعرہ گزری ہیں۔

ان کی فارسی غزلیات اعلیٰ پائے کی تھیں۔ اس طرح دکن کی چاند بی بی ہمارے شعور کا حصہ ہیں جو بیجا پور کی سلطان تھیں اور جنہوں نے مغلوں کی یلغار کے خلاف بے مثال شجاعت سے اپنی سلطنت کا دفاع کیا تھا۔

فیمنزم یا عورتوں کی تحریک کیا ہے؟

یہ تاریخی عمل کا ایک روشن پہلو ہے کہ صدیاں گزرنے کے ساتھ ساتھ، خلق خدا کے ساتھ انصاف کرنے کا تصور زیادہ اجاگر ہوتا گیا اور اسلامی انصاف پسندی نے اور پھر برطانوی ''قانون کی حکم رانی '' کے تصور نے برصغیر کے مسلمانوں کے شعور میں گہری جڑیں پکڑ لیں۔ آج پاکستانی عورت اس وسیع و عمیق پس منظر کے سامنے کھڑی اپنے حال اور مستقبل کے بارے میں غوروفکر کر رہی ہے۔فسانہ آزاد کے کرداروں میں ہمیں جو مسلمان عورتیں نظر آتی ہیں وہ اس وقت کے مسلمان معاشرے اور اس میں رواں خیالات کی ترجمانی کرتی ہیں۔ سو دیکھئے کہ اس قصے میں میاں آزاد جن پہلی خاتون کے عشق میں مبتلا ہوتے ہیں وہ ہی فیمنسٹ ہیں بل کہ ان کی والدہ بھی فیمنسٹ ہیں۔

میاں آزاد ناول کی ہیروئن (یا قصہ اول کی ہیروئن) حسن آراء سے جب ملتے ہیں تو وہ اخبار پڑھ رہی ہوتی ہیں۔ اپنی والدہ کے بارے میں وہ آزاد سے کہتی ہے۔

''اماں کہتی ہیں، جو شریف زادہ تم کو پسند ہو اسی کے ساتھ نکاح کردوں گی۔ مگر پڑھا لکھا ہو، اعلیٰ خاندان ہو، گو اس بات پر لوگ ہم پر ہنسیں گے مگر تم کسی سے ذکر نہ کرنا۔''

تاریخ ہمیشہ ایک سیدھے رستے پر سفر کرتی ہے۔ دور حاضر کے آغاز سے مسلم ممالک اور برصغیر کا مسلم معاشرہ جس کشمکش کا شکار ہو گیا ہے اور اس میں عورت کے مکمل انسانی وجود کو تسلیم کرنے اور اس کا احترام کرنے کے خلاف جو مزاحمت نظر آرہی ہے وہ تاریخ کے کسی ایسے پیچیدہ راستے سے گزر رہی ہے جو ماضی کی بہتر اقدار کی نفی کر تا ہے۔ آج یہ اہم ضرورت ہے کہ ہم اپنے مسلم تشخص کو درست سیاق و سباق میں دیکھ سکیں اور ان چراغوں کو نہ بجھنے دیں جو ہمارے اجداد اور بزرگوں نے روشن کیے تھے۔
Load Next Story