اوراقِ زیست کی جھلکیاں
وہ ضیاء الحق کا دور تھا۔ حکومتی پالیسیوں پر تنقید کے ’’جرم‘‘ میں کئی مقدمات بنے۔
MOSCOW:
فہمیدہ ریاض 28 جولائی 1946 کو میرٹھ کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ شعور کی آنکھ حیدرآباد، سندھ میں کھولی، جہاں اُن کے والد، ریاض الدین معروف ماہر تعلیم، نور محمد صاحب کے قائم کردہ ہائی اسکول سے وابستہ تھے۔ انھوں نے ہی اپنی بیٹی کے دل میں کتابوں سے محبت کا دیا روشن کیا۔
پانچ برس کی تھیں کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ اس سانحے کے بعد والدہ، حُسنہ بیگم نے، جو تعلیم یافتہ خاتون تھیں، خاندان کو سنبھالا۔ مشکلات کے باوجود اولاد کو زیورتعلیم سے آراستہ کیا۔ بچپن میں وہ تھوڑی تنہائی پسند تھیں۔ مطالعے کا شوق وراثت میں ملا۔ ہائی اسکول کے زمانے میں اُردو اور فارسی کے کلاسیکل شعراء و ادباء کا مطالعہ شروع ہوا۔
سندھی لٹریچر بھی جم کر پڑھا۔ زندگی کے نئے گوشے آشکار ہوئے۔ ریڈیو پاکستان، حیدرآباد کے لیے صداکاری کی، اسکرپٹ لکھے۔زبیدہ گورنمنٹ کالج، حیدرآباد کے زمانے میں طلبا سیاست کی جانب مائل ہوئیں۔ ذہن لیفٹ کے نظریات سے لگا کھاتا تھا۔ ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن (جو بعد میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن ہوگئی) کے پلیٹ فورم سے ایوب مخالف تحریک میں حصہ لیا۔ یونیورسٹی آرڈیننس کے خلاف تقریریں بھی کیں، نظمیں بھی لکھیں۔ گریجویشن کرلیا، تو پولیٹیکل سائنس میں ایم اے کرنے کے لیے سندھ یونیورسٹی کا رخ کیا۔ 1967 میں شادی ہوگئی، اور لندن چلی گئیں۔
اْدھر ایک لائبریری میں کام کیا، ایک انشورنس کمپنی سے وابستہ رہیں، بی بی سی کی اردو سروس سے منسلک رہیں۔ فلم تیکنیک میں لندن سے ڈپلوما بھی کیا۔ 73ء میں واپس آئیں۔ ادیبوں کا ایک فورم بنانے کے لیے رسالہ ''آواز'' شروع کیا۔
وہ ضیاء الحق کا دور تھا۔ حکومتی پالیسیوں پر تنقید کے ''جرم'' میں کئی مقدمات بنے۔ انھوں نے جلاوطنی اختیار کرلی، اور بھارت چلی گئیں۔ ''آواز'' بند ہوا۔ 81ء تا 87ء وہاں رہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی سے وابستگی رہی۔ آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ سے جڑی رہیں۔ بے نظیر بھٹو کے دور میں وہ چیئرپرسن نیشنل بک کونسل آف پاکستان اور منسٹری آف کلچر کی کنسلٹنٹ رہیں۔ 96ء میں ''وعدہ'' کے نام سے ایک این جی او بنائی۔ بعد کے برسوں میں بھی اُنھیں سیاسی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اگست 2009 میں انھیں تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔
(نوٹ: فہمیدہ ریاض کا یہ انٹرویو 24 جنوری 2016 کو ''روزنامہ ایکسپریس'' میں شایع ہوا تھا)
فہمیدہ ریاض 28 جولائی 1946 کو میرٹھ کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ شعور کی آنکھ حیدرآباد، سندھ میں کھولی، جہاں اُن کے والد، ریاض الدین معروف ماہر تعلیم، نور محمد صاحب کے قائم کردہ ہائی اسکول سے وابستہ تھے۔ انھوں نے ہی اپنی بیٹی کے دل میں کتابوں سے محبت کا دیا روشن کیا۔
پانچ برس کی تھیں کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ اس سانحے کے بعد والدہ، حُسنہ بیگم نے، جو تعلیم یافتہ خاتون تھیں، خاندان کو سنبھالا۔ مشکلات کے باوجود اولاد کو زیورتعلیم سے آراستہ کیا۔ بچپن میں وہ تھوڑی تنہائی پسند تھیں۔ مطالعے کا شوق وراثت میں ملا۔ ہائی اسکول کے زمانے میں اُردو اور فارسی کے کلاسیکل شعراء و ادباء کا مطالعہ شروع ہوا۔
سندھی لٹریچر بھی جم کر پڑھا۔ زندگی کے نئے گوشے آشکار ہوئے۔ ریڈیو پاکستان، حیدرآباد کے لیے صداکاری کی، اسکرپٹ لکھے۔زبیدہ گورنمنٹ کالج، حیدرآباد کے زمانے میں طلبا سیاست کی جانب مائل ہوئیں۔ ذہن لیفٹ کے نظریات سے لگا کھاتا تھا۔ ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن (جو بعد میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن ہوگئی) کے پلیٹ فورم سے ایوب مخالف تحریک میں حصہ لیا۔ یونیورسٹی آرڈیننس کے خلاف تقریریں بھی کیں، نظمیں بھی لکھیں۔ گریجویشن کرلیا، تو پولیٹیکل سائنس میں ایم اے کرنے کے لیے سندھ یونیورسٹی کا رخ کیا۔ 1967 میں شادی ہوگئی، اور لندن چلی گئیں۔
اْدھر ایک لائبریری میں کام کیا، ایک انشورنس کمپنی سے وابستہ رہیں، بی بی سی کی اردو سروس سے منسلک رہیں۔ فلم تیکنیک میں لندن سے ڈپلوما بھی کیا۔ 73ء میں واپس آئیں۔ ادیبوں کا ایک فورم بنانے کے لیے رسالہ ''آواز'' شروع کیا۔
وہ ضیاء الحق کا دور تھا۔ حکومتی پالیسیوں پر تنقید کے ''جرم'' میں کئی مقدمات بنے۔ انھوں نے جلاوطنی اختیار کرلی، اور بھارت چلی گئیں۔ ''آواز'' بند ہوا۔ 81ء تا 87ء وہاں رہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی سے وابستگی رہی۔ آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ سے جڑی رہیں۔ بے نظیر بھٹو کے دور میں وہ چیئرپرسن نیشنل بک کونسل آف پاکستان اور منسٹری آف کلچر کی کنسلٹنٹ رہیں۔ 96ء میں ''وعدہ'' کے نام سے ایک این جی او بنائی۔ بعد کے برسوں میں بھی اُنھیں سیاسی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اگست 2009 میں انھیں تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔
(نوٹ: فہمیدہ ریاض کا یہ انٹرویو 24 جنوری 2016 کو ''روزنامہ ایکسپریس'' میں شایع ہوا تھا)