علامہ محمد اقبال اور اُن کا بُت

ہمیں کِسی بھی شخصیت کا بُت بنا کر اُسے پوجنے کی بجائے اُسے اُس کی خامیوں اور کمزوریوں سمیت قبول کرنا چاہئے


ذیشان حیدر November 24, 2018
غالی مداحوں نے اقبال کا جو بُت بنا کر لوگوں کے سامنے پیش کیا وہ مبالغے پر مبنی تھا۔ فوٹو: انٹرنیٹ

ہند کے لوگ مزاجاً انتہا پسند واقع ہوئے ہیں۔ (یہاں ہند سے مراد برصغیر پاک و ہند ہے) یہ ہمیشہ اِنتہا کو پہنچنے کی جُستجو میں ہوتے ہیں۔ چاہے وہ انتہا نیکی میں ہو یا بدی میں۔ میانہ روی اور اعتدال ان کی فطرت میں نہیں ہے۔ یہی فطری انتہا پسندی ہند کے لوگوں کی پسند اور ناپسند میں بھی واضح نظر آتی ہے۔ اِن کے لیے دو ہی پیمانے ہیں۔ جس شخص میں اِنہیں کوئی خوبی نظر آجائے، یہ اُسے اُس کی رد و قدح کے باوجود اُسے وہ مقام دِلانے پر مُصر ہوتے ہیں جو خود اُس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ اور جس شخص میں انہیں کوئی بُرائی دِکھائی دے جائے اُسے یہ ذلالت کی گہرائیوں تک پہنچا کر ہی دم لیتے ہیں۔ اِن دونوں انتہاؤں کے درمیان کی کوئی صورت ہند کے لوگوں کو قابلِ قبول نہیں۔

ایسی ہی ایک انتہا پسندی کا سامنا ہمیں اس وقت کرنا پڑتا ہے جب موضوعِ گفتگو "علامہ محمد اقبال" ہوتے ہیں۔ علامہ صاحب کی تعظیم و اکرام کے لیے کافی تھا کہ وہ ایک سچے مسلمان تھے۔ پابندِ صوم و صلوٰۃ تھے۔ باقاعدگی سے قرآنِ پاک پڑھا کرتے تھے۔ ہندی قوم کی زبوں حالی کے بارے میں فکرمند رہتے تھے اور اسی خستہ حال قوم میں ایک نیا جذبہ جگانے کے لیے اُنہوں نے اپنی شاعری کا استعمال کیا۔

یہ تھے ایک جیتے جاگتے حقیقی علامہ محمد اقبال جن کی ذات میں موجود خوبیاں اُنہیں تاریخ میں مقام دِلوانے کے لیے کافی تھیں۔ یہ اقبال وہ اقبال تھے جو کہ اِنسان تھے اور جن کی ذات اور فکر و فلسفے میں غلطی کا امکان بھی ہے اور اِن سے اختلاف کی گنجائش بھی ہے۔ لیکن اقبال کے ساتھ سب سے بڑا ظلم اُن لوگوں نے کیا جنہوں نے اُنہیں کوئی فرشتہ یا کوئی قلندر یا کوئی معصوم عن الخطا ہستی ثابت کرنے کی کوشش کی۔

اُن غالی مداحوں نے اقبال کا جو بُت بنا کر لوگوں کے سامنے پیش کیا وہ مبالغے پر مبنی تھا۔ وہی اقبال کتابوں کے نصاب کے راستے لوگوں کے اذہان تک پہنچایا گیا جو کہ اُن کے لاشعور کا حصہ بن گیا۔ اب لوگ اُس بُت کے ٹوٹنے تو درکنار، اُس کو ہلکی سی ضرب لگنے پر تلملا اُٹھتے ہیں اور بات بہت آگے تک نکل جاتی ہے۔

ایک زبان کے لکھاریوں کی تحاریر اور شاعرانہ کلام دوسری زبانوں میں ترجمہ ہوتا آیا ہے اور اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ بشرطیکہ یہ بات بتا دی جائے کہ یہ فلاں شاعر کی نظم یا نثرپارے کا ترجمہ ہے۔ لیکن ہمارے ہاں اگر کِسی کو یہ بتایا جائے کہ اقبال کی مشہورِ زمانہ نظم "بچے کی دعا" جو کہ تقریباً تمام پاکستانی اسکولز کی مارننگ اسمبلی کا حصہ ہے، ایک انگریز ناول نگار اور شاعر Matilda Benthams Edvards کی نظم child's hymn کا منظوم ترجمہ ہے، تو کوئی ماننے کو تیار ہی نہیں ہوگا۔

کوئی نہیں مانے گا کہ یہ علامہ اقبال ہی تھے جنہوں نے ملکہ وکٹوریہ کی وفات کو اپنی ایک نظم میں برصغیر پر سے "سایہِ خداوندی" اُٹھ جانے سے تشبیہ دی۔ کون یقین کرے گا کہ اقبال ایک طویل عرصہ تک "وطن پرستی" کے حامی رہے جس کے زیرِ اثر اُنہوں نے وہ ترانہ لکھا جو آج تک بھارت میں زبان زدِ عام ہے:

سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی، یہ گلستان ہمارا


اور ایسی ہی ایک اور نظم میں اقبال فرماتے ہیں

وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں


پھر کُچھ عرصہ بعد وہی اقبال اپنے نظریہ وطنیت کے برعکس مولانا حسین احمد مدنی کو "سرود بر سرِ منبر کہ ملت از وطن است" کہتے ہوئے پائے گئے۔

آج اگر کِسی کو یہ بتایا جائے کہ علامہ اقبال انیسویں صدی کے آواخر اور بیسویں صدی کے اوائل برسوں میں مرزا غلام احمد قادیانی اور اُسکی "جماعتِ احمدیہ" سے بھی متاثر رہے ہیں (جس کا اعتراف اُنہوں نے خود اپنے خطوط میں کیا ہے) تو عین ممکن ہے کہ سُننے والا ہاتھا پائی پر اُتر آئے۔ لیکن حقائق کو جُھٹلایا نہیں جا سکتا۔ اُنہیں بہرحال تسلیم کرنا پڑتا ہے۔

میرا مقصد علامہ اقبال کی ہِجو کہنا نہیں ہے۔ میں خود اُن سے بہت زیادہ متاثر ہوں۔ سیاسیات کا طالبعلم ہونے کی حیثیت سے اُن کی پیش کردہ "قوم" کی تعریف سے اختلاف بھی ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ ہمیں کِسی بھی شخصیت کا بُت بنا کر اُسے پوجنے کی بجائے اُسے اُس کی خامیوں اور کمزوریوں سمیت قبول کرنا چاہئے۔ اُنہیں فرشتہ یا کوئی مافوق الفطرت شے ثابت کرنے کی بجائے ہمیں چاہیے کہ ہم اُنہیں ایک خطاکار اِنسان ہی سمجھیں اور اپنی فہم و فراست کو کام میں لا کر اُن کی تعلیمات سے استفادہ کریں۔ ہمارے لیے بھی یہی بہتر ہے اور قوی امکان ہے کہ اُن شخصیات کی منشاء بھی یہی ہوگی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں