دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جدوجہد

دہشت گردوں نے نانگا پربت پر کارروائی کی اور غیر ملکیوں کی ہلاکت کی بدنامی سے ملکی وقار اور نیک نامی پر سیاہی پھیر دی۔

سندھ ہائیکورٹ کے سینئرجج جسٹس مقبول باقر کو دہشت گردی کا سامنا اس وقت سے تھا جب وہ انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالتوں کے جج کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے تھے۔ فوٹو: فائل

ملک پر امن انتقال اقتدار کے باوجود دہشتگردی کے مسلسل حصار میں ہے ۔ یکے بعد دیگرے ہولناک واقعات کے باعث ملکی معیشت ، جمہوری عمل اور عوام کی زندگیوں کو لاحق خطرات کے سدباب کے لیے سیکیورٹی کے انتظامات پر عوامی شکوک و شبہات کا سیل رواں ہے، سنجیدہ اور فہمیدہ آئینی، قانونی اور سماجی حلقوں کا اصرار ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کافی حوصلہ افزا تادیبی اقدامات ضرور کیے ہیں ، مثلاً فوجی کارروائی کے نتیجے میں 15دہشت گردوں کی شناخت ہوچکی ہے اورآیندہ 48 گھنٹوں میں انھیں گرفتار کر لیا جائے گا۔

اسی اسپرٹ اور مشترکہ انسدادی جذبہ کی ضرورت ہے تاکہ دہشتگرد ریاست کو نقصان پہنچانے کے کسی گمان یا غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔ اس وقت وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی اولین ذمے داری ہے کہ وہ قومی سلامتی ، ملکی یکجہتی قانون کی حکمرانی اور عوام کی زندگیوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کو یقینی بنائیں اور اپنے ٹارگٹ اور جارحانہ اہداف کے تحت دہشت گردی اور داخلی انارکی کے خاتمے کے لیے عوامی امنگوں کی صحیح ترجمانی کریں کیونکہ دہشت گرد ریاستی رٹ کو جس دیدہ دلیری اور '' چہ دلاور است دزدے'' کے سے انداز میں چیلنج کررہے ہیں اس کا ایک ہی منہ توڑ جواب ہے کہ تمام فورسز مشترکہ لرزہ خیز اینٹی ٹیررازم حکمت عملی تیار کریں اور دہشت گردوں کے خلاف اعلان جنگ کریں۔

انتہا پسند بیگناہ شہریوں کی ہلاکت کے بعد اب غیر ملکیوں کو ٹارگٹ کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور باقاعدہ اسکواڈ تشکیل دیے جارہے ہیں۔ ان ہلاکت خیز کارروائیوں اور سنگین لاقانونیت کے خلاف بند باندھنے کے جرات مندانہ کمانڈو ایکشن کی نہ صرف ضرورت ہے بلکہ دہشت گردی کے ملک گیر اعصاب شکن اور مذموم نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے ابھی یا پھر کبھی نہیں(Now or never)کی حکمت عملی ناگزیر ہے جس کے بغیر اس عفریت کا مقابلہ کرنا آسان نہیں رہیگا۔

دہشت گردوں نے نانگا پربت پر کارروائی کی اور غیر ملکیوں کی ہلاکت کی بدنامی سے ملکی وقار اور نیک نامی پر سیاہی پھیر دی ، گزشتہ روز کراچی میں سندھ ہائی کورٹ کے سینئر جج جسٹس مقبول باقر کی گاڑی کے قریب بم دھماکا کیا جس کے نتیجے میں ان کے سیکیورٹی اسکواڈ میں شامل 6 پولیس،2 رینجرز کے اہلکار اور جسٹس مقبول باقر کے ڈرائیور جاں بحق ہوگئے۔تحریک طالبان پاکستان نے اس واقعے کی ذمے داری قبولی کرلی جب کہ کوئٹہ اور اندرون صوبہ بلوچستان میں فائرنگ اور ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں 2 سیکیورٹی فورسز اہلکاروں سمیت 4 افراد جاں بحق اور 6 زخمی ہوگئے، مسلح افراد تبلیغی جماعت کے8ارکان کو اغوا کرکے لے گئے۔ پولیس کے مطابق بدھ کوکوئٹہ کے علاقہ ہنہ اوڑک کے میدان سے ایک نامعلوم شخص کی لاش ملی جس کے سر پر زخم کے نشانات تھے ۔


ادھر صوبہ خیبر پختونخوا کے شہروں بنوں، اور پشاور میں بم دھماکوں اور حملوں کے نتیجہ میں قبائلی سردار سمیت 4 افراد ہلاک ہوگئے، موٹر سائیکل سواروں کی فائرنگ سے ایس ایچ او جاں بحق ہوا۔ مینگورہ کے علاقہ طاہرآباد میں سادہ کپڑوں میں ملبوس کمیونٹی پولیس اہلکاروں کی تلاشی لینے پر مسلح افرادنے فائرنگ کردی،ایک پولیس اہلکار جاں بحق دوسرا شدید زخمی ہوگیا،اس طرح دیگر وارداتوں کو شامل کیا جائے تو صورتحال کے تصور سے لوگوں کے دل دہل جاتے ہیں ۔ملک خوف و ہراس کی لپیٹ میں ہے۔سندھ حکام کا کہنا ہے کہ مقبول باقر کو دھمکیاں ایک کالعدم تنظیم کی جانب سے مل رہی تھیں ۔

ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق سندھ ہائیکورٹ کے سینئرجج جسٹس مقبول باقر کو دہشت گردی کا سامنا اس وقت سے تھا جب وہ انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالتوں کے جج کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے تھے، اس دوران انھوں نے ولی بابر قتل کیس،نیٹوفورسز کی سپلائی کے ٹھیکیدار شوکت آفریدی کے اغوا اور قتل کے ساتھ ساتھ کالعدم سپاہ صحابہ کے رہنماؤں کے قتل کے ملزمان کے ریمانڈ اور ان کے مقدمات میں تفتیشی افسران کو خصوصی توجہ دینے کی ہدایات کیں تاہم بدھ کو سندھ ہائیکورٹ کی راہداریوں میں یہ بات کہی جارہی تھی کہ جسٹس مقبول باقر کو دہشتگردی کا سامنا جون 2011سے اس وقت شروع ہوا جب انھوں نے کالعدم سپاہ صحابہ کے ایک رہنما اور ان کے بیٹے کی ہلاکت اور کراچی میں واقع سعودی قونصل خانے پر حملے کے مقدمات میں ملوث ملزم منتظرامام کے طبی امداد اور معائنے کا حکم دیا تھا۔

ایڈیشنل آئی جی کراچی نے جسٹس مقبول باقر پر دہشت گرد حملے کے واقعے کی تحقیقات کے لیڈی آئی کی ساؤتھ زون کی سر براہی میں 6 رکنی خصوصی تفتیشی ٹیم تشکیل دے دی ہے جس کے سربراہ ڈی آئی کی ساؤتھ زون ڈاکٹر امیر شیخ ہوں گے۔ ترجمان سندھ پولیس کے مطابق ایڈیشنل آئی جی کراچی نے جوائنٹ انٹرو گیشن ٹیم کی تشکیل اور ملزمان کی گرفتاری میں مدد دینے والے شہری کے لیے دس لاکھ روپے انعام کی سفارش کی ہے۔ایس ایس پی سی آئی ڈی فنانشل کرائم یونٹ راجا عمر خطاب نے جائے وقوع پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کو اس بات کا اچھی طرح علم تھا کہ جسٹس مقبول باقر کس راستے سے عدالت جاتے ہیں، جسٹس مقبول باقر کو کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی ، تحریک طالبان اور دیگر کالعدم تنظیموں کی جانب سے دھمکیاں ملی تھیں۔

حکو مت سندھ دہشت گردی کی ایسی سرگرمیوں پر کنٹرو ل کر نے کے لیے مر بو ط حکمت ِعملی بنا رہی ہے۔ وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان کی ہدایت پر سپریم کورٹ،اسلام آباد ہائیکورٹ اور ضلعی عدالتوں کے ججز کی سیکیورٹی سخت کردی گئی، وفاقی پولیس ذرایع کے مطابق کراچی میںسندھ ہائیکورٹ کے جج پرحملہ کے بعدوزیرداخلہ نے آئی جی اسلام آباد بنیامین خان اورچیف کمشنراسلام آبادکوجج صاحبان کی سیکیورٹی فول پروف بنانے کا حکم دیا جس کے بعدآئی جینے ڈی آئی جی سیکیورٹی طاہرعالم خان کوسیکیورٹی ہائی الرٹ کرنیکاحکم دیا، ادھرمحکمہ داخلہ پنجاب نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے سامنے لائے گئے سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر لاہور سمیت صوبہ بھر کے 26اضلاع کو حساس قرار دیتے ہوئے سرکاری املاک، اہم سیا سی و دینی شخصیات، سرکاری ٹرانسپورٹ، بزرگ ہستیوں کے مزارات ،مساجد، مدارس، غیر مسلموں کی عباد ت گاہوں کی سیکیورٹی انتظامات کوروزانہ کی بنیاد پر اپ گریڈ کرنے ، تھانوں کی سطح پر سرپرائز چیکنگ اور گشت کے معاملات کو بہتر بنانے کے احکامات جاری کر دیے ہیں ۔

بلاشبہ جسٹس مقبول باقر کے سیکیورٹی قافلہ پر حملہ بدترین دہشت گردی ہے تاہم صورتحال کی سنگینی اس امر کی متقاضی ہے کہ حکمراں جماعت ،اپوزیشن ، دیگر چھوٹی بڑی سیاسی و جمہوری قوتیں اورِ پوری سول سوسائٹی دہشت گردی کے خلاف ایک ہوجائے ، یہ وقت فروعی مسائل میں الجھنے کا نہیں ، دہشت گرد تنظیموں کی حکمت عملی کو اگر سیاست دان باہمی چپقلش اور ذاتی الزامات کے شور میں آسان بنانے کی روش پر گامزن رہے تو اس ملک کا پھر اﷲ ہی حافظ ہے۔ اس لیے ہر ذی شعور اور محب وطن پاکستانی کا فرض ہے کہ وہ دہشت گردی کی تباہ کاریون کا ادراک کرے اور امن و امان کی بحالی میں حکومت کی مدد کرے ۔ میڈیا بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرے ،ایسے بیانات کی اشاعت سے گریز لازم ہے جس کا مقسد صرف گند اچھالنا ہو۔ملک خطرات میں گھرا ہوا ہے، ہوشمندی سے کام لینا چاہیے تاکہ پاکستان کی سلامتی ،خود مختاری اور عوام کے خلاف کوئی سازش کامیاب نہ ہو۔
Load Next Story