بارے آموں کا کچھ بیاں ہوجائے
اب بھی صدر زرداری کی طرف سے آموں کی پیٹیوں کا شکریہ لے د ے کے انھوں نے ہی ادا کیا ہے۔
بارے آموں کا کچھ بیاں ہوجائے۔ آج کا ہمارا موضوع تو کچھ اور تھا مگر برادرم عبدالقادر حسن کا کالم پڑھ کر ہماری نیت بدل گئی۔ بلکہ قلم خود بخود آموں کے مضمون پر رواں ہو گیا۔ اصل میں ہم جو ایک زمانے سے عبدالقادر حسن کے کالم کے قاری اور مداح چلے آتے ہیں اس میں آموں کا بہت عمل دخل ہے۔ اس زمانے میں جب نواب زادہ نصراللہ خاں کی طرف سے ان کے باغ کے آموں کے ٹوکرے انھیں موصول ہوتے تھے وہ کس ذوق و شوق سے ان ٹوکروں کا ذکر کرتے اور تہہ دل سے ان کا شکریہ ادا کرتے تھے۔ نواب زادہ صاحب آموں کے ٹوکرے تو اور اخبار نویسوں کو بھی بھیجتے ہوں گے اور بھیجتے تھے مگر دوسرے سانس ڈکار ہی نہیں لیتے تھے۔ اس کا اعتراف اور ساتھ میں شکریہ عبدالقادر حسن کی روایت چلی آتی تھی۔ اسی حساب سے ہم ان کی قسمت پر رشک کرتے چلے آئے تھے۔ یہ ہمارا طور تھا۔
اب بھی صدر زرداری کی طرف سے آموں کی پیٹیوں کا شکریہ لے د ے کے انھوں نے ہی ادا کیا ہے۔ زرداری صاحب کے منظور نظر تو اور کالم نویس بھی ہیں۔ مگر کسی کو بھی توفیق نہیں ہوئی کہ پھوٹے منہ سے شکریے کے دو حرف کہہ دے۔ مگر زرداری صاحب نے جس دریا دلی سے عبدالقادر حسن کو آموں سے شرابور کیا ہے اسی دریا دلی سے انھوں نے ان پر شکریے کے ڈونگرے برسائے ہیں۔
ایسے شکریے میں آخر کیا مضائقہ ہے۔ ایسے شکریے تو ہمارے تہذیبی روایت کا حصہ چلے آتے ہیں۔ آم تو خیر بہت ذائقہ دار تحفہ ہے، غالب نے تو اپنے ممدوح کا بیسنی روٹی موصول ہونے پر بھی تہہ دل کے ساتھ شکریہ ادا کیا تھا؎
نہ پوچھ اس کی حقیقت حضور والا نے
مجھے جو بھیجی ہے بیسن کی روغنی روٹی
نہ کھاتے گیہوں نکلتے نہ خلد سے باہر
جو کھاتے حضرت آدم یہ بیسنی روٹی
اور ہاں آموں ہی کے حوالے سے ہمیں ایک اور تاریخی شکریہ یاد آیا۔ علامہ اقبال کو اسی موسم میں اکبر الٰہ آبادی کی طرف سے لنگڑے آموں کی ایک پیٹی موصول ہوئی تھی۔ اب ذرا علامہ صاحب کی سنئے:
''آموں کی کشش، کششِ علم سے کچھ کم نہیں۔ یہ بات بلا مبالغہ عرض کرتا ہوں کہ کھانے پینے کی چیزوں میں صرف آم ہی ایک ایسی شے ہے جس سے مجھے بہت محبت ہے۔ گزشتہ سال مولانا اکبر نے مجھے لنگڑا آم بھیجا تھا۔ میں نے پارسل کی رسید اس طرح لکھی؎
اثر یہ تیرے اعجاز مسیحائی کا ہے اکبرؔ
الٰہ آباد سے لنگڑا چلا لاہور تک پہنچا
ہاں یاد آیا۔ وہ جو ہم ابھی نواب زادہ نصراللہ خاں کے باغ کے آموں کا ذکر کر رہے تھے۔ ان دنوں ہم روزنامہ مشرق سے وابستہ تھے۔ بابائے جمہوریت کی طرف سے آئے دن بیانات جاری ہوتے تھے۔ ان سارے بیانات کو زمانے کی گائے چر گئی۔ جو چیز ہمیں یاد رہ گئی ہے وہ ان کے باغ کے وہ آم ہیں جن کے چنیدہ دانوں پر عبدالقادر حسن کے نام کی مہر لگی ہوئی تھی۔ ہاں یاد آیا کہ انھیں برسوں میں ایک زمانہ ایسا آیا کہ پنجاب کی گورنری پر ملتان کی ایک شخصیت مامور ہوئی۔ پھر ایسا ہوا کہ آموں کی فصل آنے پر ان کے باغ کے آم اخباروں کے دفتروں میں بھی پہنچے۔ کچھ دانوں پر ہماری مہر لگی ہوئی تھی۔ آم ایک تو ملتان کے اور پھر گورنر صاحب کے باغ کے۔ لذیز سے لذیز تر ہو گئے مگر افسوس کہ ان کی گورنری بھی لمبی نہیں کھنچی اور ہمارے بھی مشرق میں وہ آخری ایام تھے۔
ہاں لیجیے اسی زمانے میں پنجاب کا اقتدار میاں نواز شریف کے پاس آ گیا۔ انھوں نے بھی گورنری رسم کی پیروی کی۔ وہ آم بھی اچھے تھے مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔ ملتان کے آموں کا تو ذائقہ ہی اور تھا۔ اب میاں صاحب کے ارسال کردہ آموں کا ذائقہ کیسا ہوتا ہے یہ ہم عطاء الحق قاسمی سے پوچھ کر بتائیں گے۔ بلکہ اب تو خود قاسمی اس حیثیت میں ہیں کہ اپنے مداحوں کو آموں کے تحفہ سے نوازیں۔ ہماری لاہور آرٹ کونسل کی چیئرمینی بھی کوئی چھوٹا موٹا عہدہ نہیں ہے۔ یہ پنجاب کی دنیائے ادب و فنون کی گورنری ہے۔
لیجیے بات عبدالقادر حسن کے کالم سے چلی تھی۔ کہاں سے کہاں نکل گئی۔ مگر ہم نے پورے کالم پر کہاں بات کی۔ کالم کی دم کو پکڑا اور لگا کہ یہ سارا کالم اپنی دم میں ہے۔ مگر خیر ہم نے پورا کالم بھی پڑھا ہے ،کوئی لازم نہیں کہ آپ ایک کالم نگار کے ہر بیان سے اتفاق کریں۔ دوستوں کے کالم اس طرح پڑھتے ہیں جیسے اس زمانے میں جب چسنی آم ہی اصلی آم کی حیثیت رکھتا تھا (قلمی آموں نے تو اب زور باندھا ہے۔) ہم آم چوسا کرتے تھے۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ میٹھے آم چوستے چوستے کوئی کھٹا آم بیچ میں آ گیا تو اسے اٹھا کر الگ رکھ دیا۔ بس میٹھے آموں سے غرض رکھی۔ سو اس کالم کو بھی ہم نے لطف لے کر پڑھا اور کتنے بیانات پر کالم نگار کو دل ہی دل میں داد بھی دی۔ باقی وہ بیانات جو کھٹے آموں کے ذیل میں آتے تھے ان پر نظر ڈالتے ہوئے جلدی آگے گزر گئے۔
اس کالم سے اس بات کا پتہ چلا کہ سب ڈکٹیٹر برے ہوتے ہیں مگر ہر برا ڈکٹیٹر اپنے دور میں اکا دکا ایسے کام کر جاتا ہے کہ جن کا بعد میں اچھے لفظوں میں ذکر کیا جا سکتا ہے اور تو اور ضیاء الحق کے دفتر سے بھی ایسے کام برآمد کیے جا سکتے ہیں جیسا کہ عبدالقادر حسن نے برآمد کیے ہیں۔ صرف پرویز مشرف کے سلسلہ میں فی الحال اس کے ایسے کاموں سے صرف نظر کرنا ہو گا۔ کیا کیا جائے اس نے تو خود آ بیل مجھے مار کی مثل کے تحت آج کی سیاست میں سینگ پھنسا دیے ہیں۔ ڈکٹیٹروں کے اچھے کام اگر وہ اس سے سرزد ہوئے ہیں تو وہ اس وقت یاد کیے جاتے ہیں جب خود وہ دور قصۂ ماضی بن چکا ہوتا ہے۔
لو ہم کس قصے میں پڑگئے۔ اس کالم نے بھی ہمیں صرف اس حساب سے پکڑا تھا کہ وہ ہمیں اس فصل کا کالم نظر آیا۔
ویسے تو کالم نگار بالعموم فصلی کالم ہی لکھتے ہیں لیکن پھل پھول کی فصلوں سے انھیں دلچسپی نہیں ہوتی۔ عبدالقادر حسن کم از کم ایک فصل کو تو یاد رکھتے ہیں۔ آموں کی فصل کو۔ اور اس فصل کو کیسے یاد نہیں رکھیں گے۔ زرداری صاحب کی طرف سے انھیں آموں کی اتنی پیٹیاں موصول ہوئی ہیں کہ خود ان کے لفظوں میں ''زرداری صاحب نے تو میرے گھر میں آموں کا ڈھیر لگا دیا۔''
عبدالقادر حسن، یہ سارے آم تم اکیلے کھاؤ گے۔ کچھ خدا کا خوف کرو اور اپنے پیٹ پر رحم کرو۔