اور اب سیاحت بھی
یہ حقیقت تو اپنی جگہ پر مسلّم اور قائم رہتی ہے کہ کوئی سیّاح دس فی صد خطرہ بھی کیوں قبول کرے گا؟
گزشتہ دنوں نانگا پربت کے دامن میں جس طرح سیاحوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا اس کے تما م تر منفی اثرات تو ابھی آہستہ آہستہ کُھلیں گے لیکن جو کچھ ابھی تک سامنے آیا ہے وہ بھی اپنے دامن میں اس قدر اہم اورخوفناک سوالات کو سمیٹے ہوئے ہے کہ جن کا فوری اور تفصیل سے جائزہ لینا از حد ضروری ہے کہ دہشت گردی کی اس واردات کے ڈانڈے بین الاقوامی سطح پر ہمارے خارجہ تعلقات سے جُڑے ہوئے ہیں اور اب یورپی ممالک کے ساتھ ساتھ ہمارے قدیم اور ثابت قدم دوست عوامی جمہوریہ چین اور دیگر دوست ممالک بھی پاکستان کو ایک ''غیر محفوظ ملک'' کہنے اور سمجھنے پر مجبور ہوجائیں گے اور یوں سفارتی سطح پر ہماری پہلے سے کمزور صورتِ حال مزید کمزور ہوجائے گی جو بلاشبہ خطرے کی ایک بلند آہنگ گھنٹی سے کم نہیں۔
جہاں تک موجودہ حکومت کا تعلق ہے یہ اپنی صفائی میں گزشتہ حکومتوں کی کارکردگی اور امریکا کی افغانستان میں مداخلت کے حوالے سے جس قدر بھی دلائل اور ثبوت فراہم کرے امرِ واقعہ یہی ہے کہ اب اس طرح کی وارداتوں کی جواب دہی اُس کو ہی کرنا پڑے گی خود کش حملوں ، دہشت گردی اور تخریب کاری کی نہ ختم ہونے والی ان مسلسل کارروائیوں کے پیچھے کس کا بلکہ کس کس کا ہاتھ ہے اس کے بار ے میں تو حکومتی بیانات اور میڈیا پر کیے جانے والے تجزیوں میں باتیں ہوتی ہی رہتی ہیں جن میں عالمی سطح پر امریکا، بھارت اور اسرائیل کی ایجنسیوں کے رول اور ملکی سطح پر تحریک ِ طالبان پاکستان اور لشکرِ جھنگوی سمیت بہت سی دہشت گرد تنظیموں کا نام لیا جاتا ہے۔ یہ الزامات کس حد تک صحیح ہیں ان کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا لیکن جس بات کا جواب حکومتِ وقت کو دینا ہے اس کا لُبِ لباب یہی ہے کہ دہشت گردوں کے اہداف اور طریقہ ہائے واردات میں تو مسلسل تبدیلیاں دیکھنے میں آرہی ہیں لیکن حکومت کی طرف سے جوابی بیانات میں وہی گھسے پِٹے اعلانات دوہرائے جا رہے ہیں جن کی بے عملی اور فرسودگی روزِ روشن کی طرح عیاں اور روشن ہے ۔ مثال کے طور پر اسی واقعے کے ردِّ عمل کے طور پر جو سرخیاں گزشتہ روز کے اخبارات میں درج کی گئی ہیں وہ کچھ اس طرح سے ہیں۔
پاکستان کا تشخص مجروح کرنے والوں سے رعائت نہیں برتی جائے گی۔ وزیراعظم۔
سیاحوں کے قاتلوں کی فوری گرفتاری کا حکم، مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل۔
نانگا پربت ، دیا میر فیز بند، سیاح نکال لیے گئے۔
فوج نے دیامیر بیس کیمپ کا کنٹرول سنبھال لیا۔
ہیلی کاپٹر کے ذریعے نگرانی ، نانگا پربت ، بونیر ویلی سِیل۔
حملہ آوروں کی تعدا د اٹھارہ (18)تھی۔ ذرایع
قومی پالیسی بنائے بغیر دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔ عمران خان۔
سیاحوں کا قتل، پاکستان سوگ میں ڈوب گیا۔ کامران مائیکل۔
نانگا پربت میں غیر ملکی سیاحوں کا قتل ۔ کراچی اسٹاک شدید مندی کی لپیٹ میں۔
سیاحوں کا قتل ۔ غیر ملکی سرمایہ کاری متاثر ہونے کا خدشہ۔
پاکستان کو دنیا میں بدنام اور تنہا کرنے کی سازش ہے۔ سیاحت کے شعبے پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
اب اس میں اگر برادر ملک چین کی طرف سے اپنے شہریوں کے تحفظ کے حوالے سے دیے گئے بیانات کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ ایک واقعہ اور اس کے اثرات شیطان کی آنت کی طرح پھیلتے ہی چلے جاتے ہیں۔
جہاں تک سیاحت کے حوالے سے اس واقعے کا تعلق ہے تو ہم سب جانتے ہیں کہ گزشتہ کئی برسوں سے کوہ پیمائی کے حوالے سے آنے والے سیاحوں کے علاوہ مشکل ہی سے کوئی غیر ملکی (ملٹی نیشنل کمپنیوں کے نمایندوں اور سرکاری وفود کے ارکان سے قطع نظر) ہمارے کسی ائیر پورٹ پر اترنا پسند کرتا ہے اس صورتِ حال کا سارا بوجھ غیر ملکی اور ملکی ذرایع ابلاغ پر ڈالنا اس لیے مناسب نہیں کہ جہاں سے دھواں اُٹھتا ہے وہاں کہیں نہ کہیں آگ ضرور ہوتی ہے یعنی اگر مان بھی لیا جائے کہ ذرایع ابلاغ بات کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور دس فی صد خطرے کو ستّر فی صد کی سطح پر لے جاتے ہیں تب بھی یہ حقیقت تو اپنی جگہ پر مسلّم اور قائم رہتی ہے کہ کوئی سیّاح دس فی صد خطرہ بھی کیوں قبول کرے گا؟ اس کے پاس تفریح کے لیے ساری دنیا کھلی پڑی ہے جہاں اسے ہر طرح کی سہولتیں اور آزادی بھی حاصل ہے سو امرِ واقعہ یہی ہے کہ اب غیر ملکی لوگ مجبوری کے باوجود بھی کم سے کم ہمارے یہاں آنا پسند کرتے ہیں۔ اب رہی بات اُن دیوانوں کی جن کے دل بوجوہ پاکستان میں موجود کسی مقام سے اٹکے ہوئے ہیں تو اُن کے لیے اس طرح کی خبریں تابوت کے آخری کیل کا کام کرتی ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر دہشت گردوں کے حملے کو آج پانچ برس ہوچلے ہیں لیکن کوئی مستند اور بڑی کرکٹ ٹیم پاکستان کا دورہ کرنے پر راضی نہیں ہوتی اس سے اس کھیل کی معرفت ملک کو پہنچنے والے مالی نقصان اور دیگر اثرات کا اگر اندازہ کیا جائے تو اس کی لپیٹ میں حال ہی میں قومی کرکٹ ٹیم کی انگلینڈ میں ہونے والی چیمپئنز ٹرافی کی کارکردگی بھی آجائے گی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کے متعلقہ اداروں کو سختی سے ہدائت کی جائے کہ وہ اس سانحہ نما واقعے کو اپنے معمول کے مطابق دہشت گردی کے عام واقعات کی ڈھیری میں ڈال کر اس بات کا انتظار نہ کریں کہ گزشتہ واقعات کی طرح یہ معاملہ بھی چند دنوں میں عوام کے حافظے سے نکل جائے گا (یعنی کوئی دوسرا ایسا ہی یا اس سے بھی بڑا واقعہ اس کی جگہ لے لے گا) بلکہ اس پر پوری سنجیدگی اور گہرائی سے غور کیا جائے ۔ اس کے محرکات اور عوامل کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ ان افراد یا تنظیموں کی شناخت بھی کی جائے جو اس میں ملوّث ہیں اورآیندہ کے لیے اس کے سدِّ باب کی خاطر قومی سطح پر ایک ایسی پالیسی وضع کی جائے جس کے ذریعے اس صورتِ حال پر قابو پایا جاسکے۔ یہ مسئلہ صرف سیّاحت کے شعبے میں زرمبادلہ کی کمی کا نہیں (کہ یہ شعبہ تو پہلے ہی تباہ ہوچکا ہے) اصل معاملہ کہیں زیادہ گہرا اور پیچیدہ ہے کہ اس طرح کے واقعات سے نہ صرف ساری دنیا کو ہمارے خلاف مستند اور شر انگیز مواد ملتا ہے بلکہ ہمارے رہے سہے اور بچے کھچے دوست ممالک بھی ایک ایسے منفی روّیئے میں مبتلا ہوتے چلے جائیں گے جو ہمارے سانس لینے کی فضا کو مزید تنگ اور محدود کردے گا۔
جہاں تک موجودہ حکومت کا تعلق ہے یہ اپنی صفائی میں گزشتہ حکومتوں کی کارکردگی اور امریکا کی افغانستان میں مداخلت کے حوالے سے جس قدر بھی دلائل اور ثبوت فراہم کرے امرِ واقعہ یہی ہے کہ اب اس طرح کی وارداتوں کی جواب دہی اُس کو ہی کرنا پڑے گی خود کش حملوں ، دہشت گردی اور تخریب کاری کی نہ ختم ہونے والی ان مسلسل کارروائیوں کے پیچھے کس کا بلکہ کس کس کا ہاتھ ہے اس کے بار ے میں تو حکومتی بیانات اور میڈیا پر کیے جانے والے تجزیوں میں باتیں ہوتی ہی رہتی ہیں جن میں عالمی سطح پر امریکا، بھارت اور اسرائیل کی ایجنسیوں کے رول اور ملکی سطح پر تحریک ِ طالبان پاکستان اور لشکرِ جھنگوی سمیت بہت سی دہشت گرد تنظیموں کا نام لیا جاتا ہے۔ یہ الزامات کس حد تک صحیح ہیں ان کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا لیکن جس بات کا جواب حکومتِ وقت کو دینا ہے اس کا لُبِ لباب یہی ہے کہ دہشت گردوں کے اہداف اور طریقہ ہائے واردات میں تو مسلسل تبدیلیاں دیکھنے میں آرہی ہیں لیکن حکومت کی طرف سے جوابی بیانات میں وہی گھسے پِٹے اعلانات دوہرائے جا رہے ہیں جن کی بے عملی اور فرسودگی روزِ روشن کی طرح عیاں اور روشن ہے ۔ مثال کے طور پر اسی واقعے کے ردِّ عمل کے طور پر جو سرخیاں گزشتہ روز کے اخبارات میں درج کی گئی ہیں وہ کچھ اس طرح سے ہیں۔
پاکستان کا تشخص مجروح کرنے والوں سے رعائت نہیں برتی جائے گی۔ وزیراعظم۔
سیاحوں کے قاتلوں کی فوری گرفتاری کا حکم، مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل۔
نانگا پربت ، دیا میر فیز بند، سیاح نکال لیے گئے۔
فوج نے دیامیر بیس کیمپ کا کنٹرول سنبھال لیا۔
ہیلی کاپٹر کے ذریعے نگرانی ، نانگا پربت ، بونیر ویلی سِیل۔
حملہ آوروں کی تعدا د اٹھارہ (18)تھی۔ ذرایع
قومی پالیسی بنائے بغیر دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔ عمران خان۔
سیاحوں کا قتل، پاکستان سوگ میں ڈوب گیا۔ کامران مائیکل۔
نانگا پربت میں غیر ملکی سیاحوں کا قتل ۔ کراچی اسٹاک شدید مندی کی لپیٹ میں۔
سیاحوں کا قتل ۔ غیر ملکی سرمایہ کاری متاثر ہونے کا خدشہ۔
پاکستان کو دنیا میں بدنام اور تنہا کرنے کی سازش ہے۔ سیاحت کے شعبے پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
اب اس میں اگر برادر ملک چین کی طرف سے اپنے شہریوں کے تحفظ کے حوالے سے دیے گئے بیانات کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ ایک واقعہ اور اس کے اثرات شیطان کی آنت کی طرح پھیلتے ہی چلے جاتے ہیں۔
جہاں تک سیاحت کے حوالے سے اس واقعے کا تعلق ہے تو ہم سب جانتے ہیں کہ گزشتہ کئی برسوں سے کوہ پیمائی کے حوالے سے آنے والے سیاحوں کے علاوہ مشکل ہی سے کوئی غیر ملکی (ملٹی نیشنل کمپنیوں کے نمایندوں اور سرکاری وفود کے ارکان سے قطع نظر) ہمارے کسی ائیر پورٹ پر اترنا پسند کرتا ہے اس صورتِ حال کا سارا بوجھ غیر ملکی اور ملکی ذرایع ابلاغ پر ڈالنا اس لیے مناسب نہیں کہ جہاں سے دھواں اُٹھتا ہے وہاں کہیں نہ کہیں آگ ضرور ہوتی ہے یعنی اگر مان بھی لیا جائے کہ ذرایع ابلاغ بات کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور دس فی صد خطرے کو ستّر فی صد کی سطح پر لے جاتے ہیں تب بھی یہ حقیقت تو اپنی جگہ پر مسلّم اور قائم رہتی ہے کہ کوئی سیّاح دس فی صد خطرہ بھی کیوں قبول کرے گا؟ اس کے پاس تفریح کے لیے ساری دنیا کھلی پڑی ہے جہاں اسے ہر طرح کی سہولتیں اور آزادی بھی حاصل ہے سو امرِ واقعہ یہی ہے کہ اب غیر ملکی لوگ مجبوری کے باوجود بھی کم سے کم ہمارے یہاں آنا پسند کرتے ہیں۔ اب رہی بات اُن دیوانوں کی جن کے دل بوجوہ پاکستان میں موجود کسی مقام سے اٹکے ہوئے ہیں تو اُن کے لیے اس طرح کی خبریں تابوت کے آخری کیل کا کام کرتی ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر دہشت گردوں کے حملے کو آج پانچ برس ہوچلے ہیں لیکن کوئی مستند اور بڑی کرکٹ ٹیم پاکستان کا دورہ کرنے پر راضی نہیں ہوتی اس سے اس کھیل کی معرفت ملک کو پہنچنے والے مالی نقصان اور دیگر اثرات کا اگر اندازہ کیا جائے تو اس کی لپیٹ میں حال ہی میں قومی کرکٹ ٹیم کی انگلینڈ میں ہونے والی چیمپئنز ٹرافی کی کارکردگی بھی آجائے گی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کے متعلقہ اداروں کو سختی سے ہدائت کی جائے کہ وہ اس سانحہ نما واقعے کو اپنے معمول کے مطابق دہشت گردی کے عام واقعات کی ڈھیری میں ڈال کر اس بات کا انتظار نہ کریں کہ گزشتہ واقعات کی طرح یہ معاملہ بھی چند دنوں میں عوام کے حافظے سے نکل جائے گا (یعنی کوئی دوسرا ایسا ہی یا اس سے بھی بڑا واقعہ اس کی جگہ لے لے گا) بلکہ اس پر پوری سنجیدگی اور گہرائی سے غور کیا جائے ۔ اس کے محرکات اور عوامل کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ ان افراد یا تنظیموں کی شناخت بھی کی جائے جو اس میں ملوّث ہیں اورآیندہ کے لیے اس کے سدِّ باب کی خاطر قومی سطح پر ایک ایسی پالیسی وضع کی جائے جس کے ذریعے اس صورتِ حال پر قابو پایا جاسکے۔ یہ مسئلہ صرف سیّاحت کے شعبے میں زرمبادلہ کی کمی کا نہیں (کہ یہ شعبہ تو پہلے ہی تباہ ہوچکا ہے) اصل معاملہ کہیں زیادہ گہرا اور پیچیدہ ہے کہ اس طرح کے واقعات سے نہ صرف ساری دنیا کو ہمارے خلاف مستند اور شر انگیز مواد ملتا ہے بلکہ ہمارے رہے سہے اور بچے کھچے دوست ممالک بھی ایک ایسے منفی روّیئے میں مبتلا ہوتے چلے جائیں گے جو ہمارے سانس لینے کی فضا کو مزید تنگ اور محدود کردے گا۔