سرمایہ داری نظام اور خاندان آخری حصہ
خواتین ہر قسم کا جبر اور اپنے شوہروں کی بددیانتی کو مجبوراً برداشت کیے ہوئے ہوتی ہیں۔
اگر باشعور خواتین کسی بھی سطح پر اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کریں تو ان کو طلاق کی پر اثر دھمکی دی جاتی ہے۔ طلاق خواتین کے خلاف ایسا کارآمد ہتھیار ہے جس کو سماجی، معاشی، ثقافتی نظام نے پاکستان میں ہر سطح پر مضبوطی بخشی ہوئی ہے۔ پاکستان میں ہر قسم کے تشدد کے باوجود بہت سی خواتین اس لیے بھی اپنے لیے آواز بلند نہیں کرتیں کہ ان کے پاس کوئی ایسا مضبوط ذریعہ روزگار نہیں ہوتا کہ وہ اپنی اور اپنے بچوں کی پرورش کر سکیں۔
اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ تمام خواتین پیسے کی مجبوری کی وجہ سے اپنے شوہروں کے ساتھ رہ رہی ہیں، بہت سی خواتین بذات خود سرمایہ دار ہیں، مگر ان کے ہاں خاندانی عزت کا خیال ان کے قدموں کی زنجیر بنا رہتا ہے۔ خواتین ہر قسم کا جبر اور اپنے شوہروں کی بددیانتی کو مجبوراً برداشت کیے ہوئے ہوتی ہیں۔ بہت سی خواتین نے پاکستان میں بھی شادی شدہ زندگی سے باہر مردوں سے تعلقات استوار کر رکھے ہوتے ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ پاکستان جیسے معاشروں میں گند کارپٹ کے نیچے چھپا ہوا ہوتا ہے۔ بہت سے عناصر ہیں جو پاکستان میں خواتین کو ایک ریا کاری کی زندگی گزارنے پر مجبور رکھتے ہیں، مگر برطانیہ میں خواتین پر اس قسم کا کوئی خوف مسلط نہیں کہ طلاق کی صورت میں اس کا اور اس کے بچوں کا کیا ہو گا، کیونکہ برطانوی فلاحی ریاست نے مردوں ہی کو نہیں بلکہ خواتین کو بھی معاشی تحفظ فراہم کر رکھا ہے۔
پاکستان سے آنے والے مردوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ کسی بھی سطح پر برطانوی خواتین سے متاثر ہو کر یا قانونی پیچیدگیوں کی مجبوری کے تحت شادیاں تو کر لیتے ہیں، مگر ان کے ساتھ جب پاکستانی بیویوں ہی کی طرح سلوک کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہاں کی باشعور خواتین جو اپنے انسانی حقوق کا پورا پورا ادراک رکھتی ہیں اپنے شوہروں کا کسی بھی قسم کا جبر برداشت کرنے سے انکار کر دیتی ہیں اور اپنے شوہروں کو ان کے برے رویوں کے نیجے میں گھر سے باہر نکال پھینکتی ہیں، اسی طرح جس طرح پاکستان میں مرد اپنی بیویوں کی کسی بھی بددیانتی کو برداشت نہ کرتے ہوئے طلاق دینے پر تل جاتے ہیں، اسی طرح برطانوی خواتین مردوں کے دوسری خواتین سے تعلق کو ان کو بدکردار سمجھتے ہوئے ان سے الگ ہو جاتی ہیں۔
اس عدم برداشت کی وجہ یہ ہے کہ برطانوی سماج میں خواتین اور مرد معاشی و قانونی سطح پر یکساں مضبوط ہیں، مگر فرق صرف یہ ہے کہ اب اس سماج میں عورت اور مرد مساوی حیثیت میں رہتے ہوئے زندگی کی بساط پر کھیل رہے ہیں، جب کہ پسماندہ معاشروں میں خواتین سے معاشی، قانونی، اخلاقی ہر طرح کی ڈھال چھین لی جاتی ہے اور ازدواجی زندگی کے میدان میں ہر طرح کے ہتھیاروں سے لیس مرد کے مقابل اُتار دیا جاتا تھا۔
اب صورتحال بدل چکی ہے، تناظر کے بدلنے سے مرد کی حیثیت بھی بدل چکی ہے، وہ مرد جو کبھی ہر طرح کا جبر کرنے کا عادی تھا اب بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر سب سے پہلے خواتین کے کردار کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتا ہے، جب کہ بہت سے شادی شدہ لوگ ایسے ہیں جو ساری زندگی ایک ساتھ گزار دیتے ہیں ایک دوسرے سے منافقت کرتے دھوکا دیتے ہوئے، ایسے شادی شدہ لوگ ہی درحقیقت نہ صرف بدکردار ہیں بلکہ ریاکار بھی ہیں، دوہرے مجرم۔ برطانیہ میں مردوں کی حیثیت قانونی و معاشی سطح پر کمزور نہیں ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ مقابل خواتین بھی اتنی ہی مضبوط ہیں جن کو برطانوی نژاد مردوںکی نسبت پاکستانی سمیت ہر اس مرد کو برداشت کرنے میں دقت ہو رہی ہے جس کا تعلق کسی پسماندہ ملک سے ہے۔
مجھے برطانیہ میں رہنے والے مردوں سے ہمدردی ہے جن کو سرمایہ داری نظام نے ازدواجی ریاست کے شاہ سے گدا میں تبدیل کر دیا ہے۔ خاندانی نظام کے بکھر جانے کی دوسری وجوہات بھی یقیناً موجود ہیں، مگر بنیادی وجہ سرمایہ اور قانون ہی ہے۔ اس کا یہ بھی ہرگز مطلب نہیں کہ یہاں خواتین ہی کے تعلقات غیر مردوں سے ہوتے ہیں۔ سوال یہ اُٹھتا ہے کہ آخر وہ کون مرد ہیں جن سے یہ خواتین تعلق بناتی ہیں، یقیناً وہ مرد بھی اپنی ازدواجی زندگی کو توڑنے میں اتنے ہی قصوروار ہوتے ہیں، اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے باہر تعلق بنانے والا مرد بھی ویسا ہی بدکردار ہے جیسا کہ کوئی عورت۔
اور حقیقت تو یہ ہے کہ مرد خصوصاً (سبھی نہیں مگر اکثر) پاکستانی مرد جن کے نزدیک بیوی کے علاوہ گرل فرینڈز بنانا نہ صرف فیشن ہے بلکہ اس کی جتنی بھی بڑی فہرست ہو وہ بدکردار اور جاہل مردوں میں اتنا ہی بڑا مرد سمجھا جاتا ہے، کیونکہ ہمارے مردوں کے مردانگی کی سوتے ہی اسی سوچ سے پھوٹتے ہیں۔ ایسی سرگرمیوں کے نتیجے میں برطانوی خواتین جو اپنے حقوق کا شعور رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی سماجی و ازدواجی زندگی کے فرائض بھی بخوبی ادا کر رہی ہوتی ہیں مرد کی بدکرداریوں کو اسی طرح برا سمجھتی ہیں جس طرح پاکستان میں مرد عورت کی آزادی کو سمجھتے ہیں، لہٰذا بہت سے مردوں کو خواتین خود سے اسی لیے الگ کر دیتی ہیں، مگر بہت سے لوگ خاندانی نظام کی پاسداری کرتے ہوئے ابھی بھی برطانیہ میں زندگی گزار رہے ہیں۔
خاندانی نظام کے بکھرنے میں کوئی ایک وجہ نہیں ہے مگر سرمایہ داری نظام بنیادی وجہ ضرور ہے۔ ایسے میں جو بذاتِ خود ہی ایماندارانہ زندگی گزرانا چاہتے ہیں گزارتے ہیں، اور بہت سے لوگ ایسی اعلیٰ اور اچھی زندگی گزار رہے ہیں، ساتھی سے الگ ہو جانے کا یہ مطلب نہیں کہ خواتین یا ایسے مردوںکا کردار ٹھیک نہیں ہوتا، اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ وہ ریا کاری کی زندگی نہیں گزارنا چاہتے۔ بہرحال خاندانی نظام کی بحالی کی راہ ہموار کرنے کے لیے برطانوی مفکر اور سیاستدان مختلف پالیسیوں پر غور کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے انگلینڈ اور ویلز میں طلاق کی شرح میں 2012ء میں دو فیصد کمی ہوئی ہے۔ مگر یہ وقتی ثابت ہوئی اور انگلینڈ اور ویلز ہی میں ہر برس ایک لاکھ بیس ہزار جوڑے طلاق کا کیس کر رہے ہیں۔
ویلز میں پاکستانیوں کی تعداد بہت کم ہے۔ برطانیہ میں بی بی سی کے مطابق ستر فیصد خواتین ملازمت کرتی ہیں اور مرد اُناسی فیصد ملازمت کر رہے ہیں، ان اعداد وشمار کے مطابق صرف نو فی صد مرد خواتین سے زیادہ ہیں، اس کا مطلب کہ برطانیہ میں ایک طرف تو مردوں کو خواتین کی صورت گھر سے باہر معاشی مراکز میں سخت حلیف کا سامنا ہے تو دوسری طرف گھر میں ایک معاشی و قانونی سطح پر محفوظ بیوی سے زیادہ انسان کا سامنا ہے۔ ضرورتوں اور مجبوریوں کی عدم موجودگی نے میاں بیوی کی نام نہاد محبتوں کا ماسک اُتار دیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مردانہ جبر پر مبنی نام نہاد گولڈن پیریڈ کو یاد کرنے والے فیمی نازی آج ناسٹیلجیا کا شکار ہیں۔ خاندانی نظام کے بکھر جانے میں مرد اور خواتین تو فقط مہرے ہیں جن کو سرمایہ داروں نے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا ہے، جس کے نتیجے میں برطانوی صحت کے قومی ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق ہر چار میں سے ایک انسان ڈپریشن کا شکار ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ہزاروں کی تعداد میں تھیراپی سینٹرز کھل چکے ہیں جو پھر سرمایہ داری ہی کو تقویت دے رہے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ تمام خواتین پیسے کی مجبوری کی وجہ سے اپنے شوہروں کے ساتھ رہ رہی ہیں، بہت سی خواتین بذات خود سرمایہ دار ہیں، مگر ان کے ہاں خاندانی عزت کا خیال ان کے قدموں کی زنجیر بنا رہتا ہے۔ خواتین ہر قسم کا جبر اور اپنے شوہروں کی بددیانتی کو مجبوراً برداشت کیے ہوئے ہوتی ہیں۔ بہت سی خواتین نے پاکستان میں بھی شادی شدہ زندگی سے باہر مردوں سے تعلقات استوار کر رکھے ہوتے ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ پاکستان جیسے معاشروں میں گند کارپٹ کے نیچے چھپا ہوا ہوتا ہے۔ بہت سے عناصر ہیں جو پاکستان میں خواتین کو ایک ریا کاری کی زندگی گزارنے پر مجبور رکھتے ہیں، مگر برطانیہ میں خواتین پر اس قسم کا کوئی خوف مسلط نہیں کہ طلاق کی صورت میں اس کا اور اس کے بچوں کا کیا ہو گا، کیونکہ برطانوی فلاحی ریاست نے مردوں ہی کو نہیں بلکہ خواتین کو بھی معاشی تحفظ فراہم کر رکھا ہے۔
پاکستان سے آنے والے مردوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ کسی بھی سطح پر برطانوی خواتین سے متاثر ہو کر یا قانونی پیچیدگیوں کی مجبوری کے تحت شادیاں تو کر لیتے ہیں، مگر ان کے ساتھ جب پاکستانی بیویوں ہی کی طرح سلوک کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہاں کی باشعور خواتین جو اپنے انسانی حقوق کا پورا پورا ادراک رکھتی ہیں اپنے شوہروں کا کسی بھی قسم کا جبر برداشت کرنے سے انکار کر دیتی ہیں اور اپنے شوہروں کو ان کے برے رویوں کے نیجے میں گھر سے باہر نکال پھینکتی ہیں، اسی طرح جس طرح پاکستان میں مرد اپنی بیویوں کی کسی بھی بددیانتی کو برداشت نہ کرتے ہوئے طلاق دینے پر تل جاتے ہیں، اسی طرح برطانوی خواتین مردوں کے دوسری خواتین سے تعلق کو ان کو بدکردار سمجھتے ہوئے ان سے الگ ہو جاتی ہیں۔
اس عدم برداشت کی وجہ یہ ہے کہ برطانوی سماج میں خواتین اور مرد معاشی و قانونی سطح پر یکساں مضبوط ہیں، مگر فرق صرف یہ ہے کہ اب اس سماج میں عورت اور مرد مساوی حیثیت میں رہتے ہوئے زندگی کی بساط پر کھیل رہے ہیں، جب کہ پسماندہ معاشروں میں خواتین سے معاشی، قانونی، اخلاقی ہر طرح کی ڈھال چھین لی جاتی ہے اور ازدواجی زندگی کے میدان میں ہر طرح کے ہتھیاروں سے لیس مرد کے مقابل اُتار دیا جاتا تھا۔
اب صورتحال بدل چکی ہے، تناظر کے بدلنے سے مرد کی حیثیت بھی بدل چکی ہے، وہ مرد جو کبھی ہر طرح کا جبر کرنے کا عادی تھا اب بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر سب سے پہلے خواتین کے کردار کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتا ہے، جب کہ بہت سے شادی شدہ لوگ ایسے ہیں جو ساری زندگی ایک ساتھ گزار دیتے ہیں ایک دوسرے سے منافقت کرتے دھوکا دیتے ہوئے، ایسے شادی شدہ لوگ ہی درحقیقت نہ صرف بدکردار ہیں بلکہ ریاکار بھی ہیں، دوہرے مجرم۔ برطانیہ میں مردوں کی حیثیت قانونی و معاشی سطح پر کمزور نہیں ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ مقابل خواتین بھی اتنی ہی مضبوط ہیں جن کو برطانوی نژاد مردوںکی نسبت پاکستانی سمیت ہر اس مرد کو برداشت کرنے میں دقت ہو رہی ہے جس کا تعلق کسی پسماندہ ملک سے ہے۔
مجھے برطانیہ میں رہنے والے مردوں سے ہمدردی ہے جن کو سرمایہ داری نظام نے ازدواجی ریاست کے شاہ سے گدا میں تبدیل کر دیا ہے۔ خاندانی نظام کے بکھر جانے کی دوسری وجوہات بھی یقیناً موجود ہیں، مگر بنیادی وجہ سرمایہ اور قانون ہی ہے۔ اس کا یہ بھی ہرگز مطلب نہیں کہ یہاں خواتین ہی کے تعلقات غیر مردوں سے ہوتے ہیں۔ سوال یہ اُٹھتا ہے کہ آخر وہ کون مرد ہیں جن سے یہ خواتین تعلق بناتی ہیں، یقیناً وہ مرد بھی اپنی ازدواجی زندگی کو توڑنے میں اتنے ہی قصوروار ہوتے ہیں، اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے باہر تعلق بنانے والا مرد بھی ویسا ہی بدکردار ہے جیسا کہ کوئی عورت۔
اور حقیقت تو یہ ہے کہ مرد خصوصاً (سبھی نہیں مگر اکثر) پاکستانی مرد جن کے نزدیک بیوی کے علاوہ گرل فرینڈز بنانا نہ صرف فیشن ہے بلکہ اس کی جتنی بھی بڑی فہرست ہو وہ بدکردار اور جاہل مردوں میں اتنا ہی بڑا مرد سمجھا جاتا ہے، کیونکہ ہمارے مردوں کے مردانگی کی سوتے ہی اسی سوچ سے پھوٹتے ہیں۔ ایسی سرگرمیوں کے نتیجے میں برطانوی خواتین جو اپنے حقوق کا شعور رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی سماجی و ازدواجی زندگی کے فرائض بھی بخوبی ادا کر رہی ہوتی ہیں مرد کی بدکرداریوں کو اسی طرح برا سمجھتی ہیں جس طرح پاکستان میں مرد عورت کی آزادی کو سمجھتے ہیں، لہٰذا بہت سے مردوں کو خواتین خود سے اسی لیے الگ کر دیتی ہیں، مگر بہت سے لوگ خاندانی نظام کی پاسداری کرتے ہوئے ابھی بھی برطانیہ میں زندگی گزار رہے ہیں۔
خاندانی نظام کے بکھرنے میں کوئی ایک وجہ نہیں ہے مگر سرمایہ داری نظام بنیادی وجہ ضرور ہے۔ ایسے میں جو بذاتِ خود ہی ایماندارانہ زندگی گزرانا چاہتے ہیں گزارتے ہیں، اور بہت سے لوگ ایسی اعلیٰ اور اچھی زندگی گزار رہے ہیں، ساتھی سے الگ ہو جانے کا یہ مطلب نہیں کہ خواتین یا ایسے مردوںکا کردار ٹھیک نہیں ہوتا، اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ وہ ریا کاری کی زندگی نہیں گزارنا چاہتے۔ بہرحال خاندانی نظام کی بحالی کی راہ ہموار کرنے کے لیے برطانوی مفکر اور سیاستدان مختلف پالیسیوں پر غور کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے انگلینڈ اور ویلز میں طلاق کی شرح میں 2012ء میں دو فیصد کمی ہوئی ہے۔ مگر یہ وقتی ثابت ہوئی اور انگلینڈ اور ویلز ہی میں ہر برس ایک لاکھ بیس ہزار جوڑے طلاق کا کیس کر رہے ہیں۔
ویلز میں پاکستانیوں کی تعداد بہت کم ہے۔ برطانیہ میں بی بی سی کے مطابق ستر فیصد خواتین ملازمت کرتی ہیں اور مرد اُناسی فیصد ملازمت کر رہے ہیں، ان اعداد وشمار کے مطابق صرف نو فی صد مرد خواتین سے زیادہ ہیں، اس کا مطلب کہ برطانیہ میں ایک طرف تو مردوں کو خواتین کی صورت گھر سے باہر معاشی مراکز میں سخت حلیف کا سامنا ہے تو دوسری طرف گھر میں ایک معاشی و قانونی سطح پر محفوظ بیوی سے زیادہ انسان کا سامنا ہے۔ ضرورتوں اور مجبوریوں کی عدم موجودگی نے میاں بیوی کی نام نہاد محبتوں کا ماسک اُتار دیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مردانہ جبر پر مبنی نام نہاد گولڈن پیریڈ کو یاد کرنے والے فیمی نازی آج ناسٹیلجیا کا شکار ہیں۔ خاندانی نظام کے بکھر جانے میں مرد اور خواتین تو فقط مہرے ہیں جن کو سرمایہ داروں نے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا ہے، جس کے نتیجے میں برطانوی صحت کے قومی ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق ہر چار میں سے ایک انسان ڈپریشن کا شکار ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں ہزاروں کی تعداد میں تھیراپی سینٹرز کھل چکے ہیں جو پھر سرمایہ داری ہی کو تقویت دے رہے ہیں۔