حال سے بے خبر نصاب

ہم نے اپنی درس گاہوں کے دریچے اور دروازے حال کے لیے بند کر رکھے ہیں۔


Sana Ghori June 27, 2013
[email protected]

''سر! یہ اتنے سارے لوگ کون ہیں؟ اور زور زور سے کیا کہہ رہے ہیں؟
''اور وہ جو بینر انھوں نے اُٹھایا ہوا ہے اس پر کیا لکھا ہے۔۔۔۔ دہشت گر۔۔۔''

''نبیل، شارق!۔۔۔۔ کھڑکی بند کرو۔ سب بچے اپنی کتابیں کھولیں۔ آج ہم تحریکِ پاکستان کے بارے میں پڑھیں گے۔''

کھڑکی بند ہو گئی، جس کے اُس طرف دہشت گردی کے خلاف مظاہرہ ہو رہا تھا اور اِس طرف کلاس روم میں حال کی بابت سوال اٹھاتے بچے ماضی کا سبق پڑھنے لگے۔

ہم نے اپنی درس گاہوں کے دریچے اور دروازے حال کے لیے بند کر رکھے ہیں۔ ایسا کیوں ہے۔ تاریخ کا جاننا ضروری ہے، ماضی کی آگاہی لازمی ہے، مگر''ــ بنتی تاریخ '' اور نظر کے سامنے سے گزرتے حالات سے بچوں کو آگاہ کرنا کچھ کم اہمیت کا حامل نہیں۔ کچی عمر کے ناپختہ ذہن آنکھوں میں ابھرتے مناظر، سامنے ہوتے واقعات کے بارے میں کیا، کیوں اور کیسے، جیسے سوال اٹھاتے ہیں، گلی محلے، نکڑ اور چوک پر ان سوالات کے مختلف اور متضاد جواب ملتے ہیں۔ ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز پر لفظوں کی جنگ پختہ ذہنوں کو بھی خلفشار میں مبتلا کر دیتی ہے تو کچے ذہنوں کے استفسار کا کیا جواب دے گی۔ ایسے میں اگر دہشت اور وحشت کا کوئی ہرکارہ، ''پاکستان نہیں بننا چاہیے تھا'' کی بیمار سوچ کا حامل کوئی فرد یا اسلام سے بیزار کوئی گروہ معصوم ذہن کے سوال کو ''تسلی بخش'' جواب دے دے تو یہ ذہن اسی سوچ کا اسیر ہو جاتا ہے۔

درس گاہ ہی وہ جگہ ہے اور نصاب ہی وہ دستاویز، جس کے ذریعے حالاتِ حاضرہ سے واقف کرتے اور حقائق بتاتے ہوئے پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کرتی دہشت گردی جیسے مسئلے پر نسلِ نو کی فکر کو ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے۔

لیکن افسوس ہماری نصابی کتب میں جو چیزیں شامل ہیں، ان میں سے اکثر کا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ سائنس کی دنیا کو لیا جائے تو ہم گراموفون سے آگے نہیں بڑھ پائے، ہمارا نصاب انٹرنیٹ، ٹیبلٹ پی سی جیسی جدید ایجادات کے تذکرے سے خالی ہے، جب کہ آج بچہ بچہ انٹرنیٹ استعمال کر رہا ہے اور کئی جدید ایجادات ننھے ہاتھوں کا کھلونا بن چکی ہیں۔ ہم روشنی کے خط مستقیم میں سفر کی بات کر رہے ہیں، جب کہ چاند پر بستیاں بسانے کا خواب تعبیر پانے کو ہے۔ سائنس کے کتنے ہی انکشافات اور نئے دریافت شدہ حقائق نصابی کتب کا حصہ نہیں بن سکے ہیں۔

شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے اور گاڑیاں چلانے کا تجربہ عام ہے، مگر ہمارے نصاب میں اس توانائی کا کہیں تذکرہ نہیں ملتا۔

فزکس اور کیمسٹری کی دنیاؤں میں ہونے والے تجربات نئے فارمولے وجود میں لا چکے ہیں، جن سے ہمارا طالب علم ناواقف ہے۔

میں نے 1999ء میں بیالوجی کی جو کتاب پڑھی تھی وہ آج بھی ہمارے نصاب کا حصہ ہے، جب کہ آج بائیولوجی کی دنیا میں کتنی ہی حقیقتیں سامنے آ چکی ہیں۔

محمد بن قاسم، ٹیپو سلطان، انگریز راج، تحریک پاکستان سمیت عظیم شخصیات اور اہم ترین تاریخی واقعات کا ذکر اپنی جگہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اپنی قومی تاریخ کا مطالعہ ہمیں اپنی جڑوں سے آشنا کرتا ہے، اپنی غلطیوں سے سیکھنے کا موقع دیتا ہے اور قابل فخر کارناموں پر ناز احساس کمتری سے بچاتا ہے۔ لیکن آنے والی نسل کو ماضی میں گُم اور حال سے بے خبر رکھنا کہاں کی دانش مندی ہے؟

مگر افسوس کے ہمارے اسکولوں کا نصاب، عمومی طور پر، اوراق ماضی کے سوا کچھ نہیں۔ غور طلب پہلو یہ ہے کہ دسویں جماعت تک کے نصاب میں سانحۂ مشرقی پاکستان کے بعد ہمارے ملک میں وقوع پذیر ہونے والے کسی بھی اہم تاریخی واقعے کا ذکر نہیں ہے۔ چند انگریزی اسکولوں کے نصاب میں پاکستان کے ایٹمی قوت بننے کے واقعے کا تذکرہ ملتا ہے، مگر دیگر اسکولوں کی نصابی کتب میں ہمارے ملک کا یہ قابل فخر واقعہ بھی شامل نہیں۔ گلگت بلتستان سمیت شمالی علاقہ جات کو آئینی حیثیت اور نیا اسٹیٹس ملے ہوئے کئی سال ہو چکے ہیں، مگر اس کا کوئی ذکر نصاب میں نہیں۔ ''شمال مغربی سرحدی صوبے'' کے عوام کا دیرینہ مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے اس صوبے کو بے تکے تشخص سے نجات دلا کر ''خیبر پختون خوا'' کا نام دے دیا گیا ہے، مگر افسوس ناک اور مضحکہ خیز امر ہے کہ مارکیٹ میں آج بھی ایسی کتابیں دستیاب ہیں جن میں خیبر پختون خوا کا نام ''صوبہ سرحد'' لکھا ہوا ہے۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سانحہ ہماری تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ اسکولوں کے نصاب میں اس کا تذکرہ تو ملتا ہے مگر وضاحت کے ساتھ نہیں بتایا گیا کہ یہ سانحہ کیوں پیش آیا اور وہ کون سے عوامل تھے جن کی بنا پر قیام پاکستان کی تحریک میں زور شور سے حصہ لینے والے بنگالی صرف پچیس سال میں مغربی پاکستان سے اس قدر بے زار ہو گئے کہ دریاؤں کی سرزمین پر نفرت کی آگ بھڑک اٹھی اور خون پانی ہو کر بہا۔ بات بس اتنی ہے کہ سقوط ڈھاکا کا المیہ ہو، منتخب اور مقبول وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا افسوس ناک واقعہ یا ایٹمی دھماکے کا پاکستانیوں کے سینے فخر سے بھر دینے اور چہرے دمکا دینے والا لمحہ، گزشتہ کوئی چالیس دہائیوں کی تاریخ کے اہم واقعات حکومت میں آنے والوں، وہ آمر ہوں یا منتخب حکمراں، کو ''سوٹ'' نہیں کرتے، چنانچہ نسل نو کو ان سے بے خبر رکھنے کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے کہ انھیں نصاب کا حصہ نہ بنایا جائے۔

افغانستان میں سوویت یونین کی افواج کی آمد ہو یا طالبان حکومت کا قیام اور امریکی یلغار، یہ سارے واقعات براہ راست ہماری زندگیوں، سماج، سیاست پر اثر انداز ہوئے ہیں، لیکن ہمارے اسکولوں کا نصاب ان واقعات کے بھیانک اثرات تو کجا ان واقعات کے تذکرے سے بھی چپ سادھے ہوئے ہے۔

میں جب ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کر رہی تھی تو پاکستان کی تاریخ کے ایسے بہت سے حقائق میرے سامنے آئے جن سے میں ناواقف تھی، جنھیں جان کر میں حیران رہ گئی۔ واضح کردوں کہ یہ حقائق مجھے کسی استاد کے لیکچر میں پتہ نہیں چلے، بل کہ امتحانی گائیڈ کے ذریعے مجھ پر منکشف ہوئے، جو اخبارات میں چھپنے والے آرٹیکلز کے ذریعے مرتب کی گئی تھی۔ حالانکہ ہماری تاریخ سے متعلق یہ حقائق اسکول اور کالج کے نصاب کے ذریعے میرے علم میں آنا چاہیے تھے۔

ماضی قریب کی تاریخ اور حالات حاضرہ کی تشکیل کرنے والے واقعات کا پس منظر اسکولوں کے نصاب میں شامل ہونا ضروری ہے، تا کہ طلبہ اپنے اردگرد ہوتے معاملات کسی حد تک سمجھ سکیں۔ آج دہشت گردی ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ بقول شخصے، ''مجھے یقین ہے کہ جس دن حکومت نے نصاب میں دہشت گردی کا موضوع شامل کر لیا، اس دن ملک میں دہشت گردی ختم ہو جائے گی۔'' اس فقرے میں شاید کچھ غلو ہو، مگر یہ حقیقت ہے کہ اگر اسکولوں کے نصاب میں دہشت گردی کے خلاف شعور اجاگر کرتے مضامین شامل ہوں، ہم دہشت گردی کی جن صورتوں کا شکار ہیں ان کا پس منظر موجود ہو اور دہشت گردی کی بنیاد بننے والے افکار کا رد شامل نصاب ہو، تو اسکول کی سطح ہی پر اس حوالے سے آنے والی نسل کی ذہن سازی کی جا سکتی ہے۔ اس طرح بچوں کے ذہن مسموم کر کے انھیں اپنا آلۂ کار بنانیوالے عناصر کو ناکام بنایا جا سکتا ہے اور ایک ایسی نسل تیار کی جا سکتی ہے جس کے افراد میں اتنا شعور ہو کہ معصوم جانوں سے کھیلنے اور درس گاہوں کو تباہ کر دینے جیسی وحشیانہ حرکتوں کا کوئی جواز ہے نہ ہو سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں