اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہو گا
بلوچستان میں پہلے نہتے پاکستانی شہریوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی تھی.
کچھ دکھ انسان اپنے ہاتھوں سے کماتا ہے اور کچھ دکھ تقدیر کی وجہ سے نصیب بن جایا کرتے ہیں۔ ن لیگ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ چل رہا ہے۔ ہنی مون دور تحریک انصاف کے دھرنوں کی نذر ہوا، حکومتی محبت کی ابتدائی پینگیں بجٹ میں عوامی توقعات کے یکسر خلاف جا نے سے پھیکی پڑیں اور جب حکومتی طمطراق اور اختیارات سے کھیلنے اور ''کھلانے'' کے دن آئے تو بدامنی کے طوفان سے سب کچھ اتھل پتھل ہو گیا۔ کراچی کے دگرگوں حالات کی بنا پر پہلے ہی قوم تشویش میں مبتلا ہے تو بلوچستان کے حالات میں بدامنی کی بڑھتی گرمی نے حکومت کو مزید مسائل میں ڈال دیا ہے۔
بلوچستان میں پہلے نہتے پاکستانی شہریوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی تھی، اب پاکستان کے رہبر اور پاکستانی قوم کے ہیرو کے آخری دنوں کی رہائش گاہ کو اڑا دیا گیا ہے، قوم کے رہبر، قوم کے ہیرو اور قوم کے محسن کی یادگار کے ساتھ ایسا سلوک؟ زمینی حقائق کیا کہ رہے ہیں؟ زمینی حقائق کتنے تلخ ہیں؟ کل تک ان کے منہ پر ہم ہاتھ رکھ دیا کر تے تھے جو چیختے تھے کہ خدارا! بلوچستان پر توجہ دو، خدارا! بلوچستان کے حالات کی درستی کی سبیل نکالو، خدارا! بلوچستان کے مسائل سے نظریں نہ چراؤ۔ لیکن؟ محب وطن حلقے بڑبڑاتے رہے اور اختیار کے مالک اپنے مفادات اور مفادات کی خوش نما ''مصلحت کوشی'' کی چادر اوڑھے سوتے رہے۔
بلوچستان میں مارا ماری کب سے جاری ہے؟ بلوچستان میں احساس محرومی کا راگ کب سے الاپا جا رہا ہے؟ بلوچستان میں مسخ شدہ لاشوں کے تحفے کب سے قوم کا مقدر ہیں؟ دن، مہینوں اور مہینے اب سال میں ڈھل چکے ہیں لیکن بلوچستان کی فکر بروقت کسی نے نہ کی۔ خطرناک سے خطرناک زخم بھی مندمل ہو سکتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ اس پر بروقت مطلوبہ مرہم لگا دیا جائے۔ کیا بلوچستان کے حالات کا ہم نے بروقت ادراک کیا؟ کیا بلوچستان کے خراب ہوتے حالات کو بہتر بنانے کی کوئی بروقت سبیل ہم نے کی؟ کل تک افغانستان میں دہشت گرد ایسی آزادانہ کارروائیاں کرتے پھر رہے تھے اور آج پاکستان کی جان بلوچستان، کے پی کے اور کراچی میں لا قانونیت کا بازار گرم ہے۔
وزیر داخلہ بلوچستان میں پے در پے دہشت گردی کے واقعات پر بغیر کسی '' فل اسٹاپ'' کے برس پڑے۔ ان کا برسنا بے جا نہیں بالکل بجا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے آخر کیا کر رہے ہیں؟ دشمنوں پر کڑی نظر رکھنے کی تنخواہ وصول کر نے والے ادارے کیوں بے خبر ہیں؟ پتہ تو چلے بلوچستان میں کون انارکی پھیلا رہا ہے؟ اس کے مقاصد کیا ہیں؟ وہ چاہتا کیا ہے؟ وہ ہے کون؟ ان تمام تر سوالوں کے جوابات کے لیے ہم ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ کوئی کسی کا نام لیتا ہے، تو کوئی دوسرے کا نام لیتا ہے۔
دشمن کون ہے؟ اس کا بسیرا زمین پر ہے یا آسمان پر؟ کون ہمارے پیاروں کو نگل رہا ہے؟ سوالات کی ایک بوچھاڑ ہے جو برابر جاری ہے اور ہر ایک کی زبان پر یہ سوال رقص کرتے با آسانی محسوس بھی کیے جا سکتے ہیں، حکومت پر، حکومتی اداروں پر، ان کے کردار پر، استعداد کار پر اور ان کے فرائض کی بجا آوری پر۔ کہانی میں کہاں ''بریک'' آتا ہے؟ مٹھی بھر عناصر کیسے دہشت پھیلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ حکومت اور حکومتی ناک کے عین نیچے بسیرا کرنے والے ادارے کیا کر رہے ہیں؟ دراصل! حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنی پالیسیوں کی از سر نو منصوبہ بندی کرنا ہو گی۔ جو اس زعم میں مبتلا تھے کہ حکومت کی تبدیلی سے بدامنی ختم ہو جائے گی۔ بلوچستان، کے پی کے اور کراچی کے حالات آئینہ کی طرح ان کے سامنے ہیں۔
نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ یہ کہ حکومتوں کی تبدیلی سے حالات میں بہتری کی توقع نہیں، پھر؟ ہمیں حکومتی سطح پر اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لانی ہو گی؟ تمام تر ذمے داری حکومت پر ڈال کر ہم ''کنارے'' نہیں لگ سکتے۔ جہاں حکومت کو اپنی پالیسیوں میں توازن اور اعتدال، چابک دستی اور حب الوطنی کے اوصاف ڈالنے ہوں گے، وہیں ہر سیاسی جماعت، ہر سیاست دان، ہر طبقہ فکر، ہم اور آپ سب نے اس بدامنی کے خاتمے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ سب کچھ عوام پر چھوڑ دینے سے، سب کچھ حکومت پر ڈال دینے اور ملک کے حالات سے بے حسی اختیار کرنے سے حالات امن کی ڈگر پر نہیں آ سکتے اور نہ لائے جا سکتے ہیں۔
دہشت گردی سے جان چھڑانی ہے، خود کو اور قوم کو محفوظ رکھنا ہے، اگر اپنی آنے والی نسلوں کو پرامن ملک اور پرامن معاشرہ دے کر جانا ہے تو ہم سب جہاں جہاں ہیں، ہر ایک کو اپنا حصہ اس ناسور سے خلاصی کے لیے ڈالنا ہو گا۔ ون وے ٹریفک کا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہیں۔ اگر محض ملکی حالات صرف ہمارے رونے دھونے سے، محض ہماری ہاہاکار اور ہماری چیخ و پکار سے ٹھیک ہو سکتے، تو کب کے ٹھیک ہو چکے ہوتے۔
بدامنی کے باب میں الزامات اور پوائنٹ اسکورنگ کی سیاست سے نکل کر کام کرنا ہو گا، اور ہر ایک کو کرنا ہو گا، ورنہ جس طرح سے تازی تازی گزشتہ ہونے والی حکومت کے دور میں بدامنی ہمارا مقدر تھی، آنے والے پانچ سال میں بھی بدامنی ہمارے گھروں کی مکین رہے گی۔ شور سے اور گھن گرج سے کچھ ہو سکتا تو گزشتہ پانچ سال میں یہ ناسور کب کا ملک سے ختم ہو چکا ہوتا۔ امن کی فاختہ کی پرواز کی آرزو اس وقت ہی حقیقت کا روپ دھار سکتی ہے، جب حکومت، اپوزیشن اور عوام، سب مل کر دہشت گردی کے اس عفریت کے خلاف مل کر لڑیں گے۔