کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کی ابتر صورت حال
شہر میں اب بڑی بسوں کے بجائے ہر روٹ پر چنگ چی رکشے اور 6 سے 11 سیٹوں والے رکشے چل رہے ہیں.
یہ امر خوش آیند ہے کہ حکومت سندھ نے کراچی میں ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر بنانے کے لیے فوری طور پر 200 بسیں چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کے لیے نئے مالی سال کے بجٹ میں 10 ارب روپے مختص کیے جائیں گے۔ دو سو نئی بسیں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت خریدی جائیں گی اور اس سال اگست میں چلنا شروع ہو جائیں گی۔ مزید برآں حکومت سندھ اندرون سندھ کے حیدرآباد، سکھر، میرپورخاص، لاڑکانہ، گھوٹکی، تھرپارکر، ٹنڈو محمد خان، خیرپور سمیت دیگر اضلاع میں آیندہ 2 سال میں 500 بڑی بسیں چلائے گی۔ ان بسوں کو ایک خودکار اتھارٹی کے ماتحت چلایا جائے گا۔
کراچی کا شمار دنیا کے بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ کراچی میں امن و امان کی مخدوش صورت حال، سڑکوں کی خستہ حالی، تجاوزات کی بھرمار، ہڑتالوں اور احتجاج کے دوران پبلک ٹرانسپورٹ کو نذر آتش کرنے اور محکمہ ٹرانسپورٹ کی عدم دلچسپی کے سبب ٹرانسپورٹرز نے پبلک ٹرانسپورٹ کے شعبے میں سرمایہ کاری بند کر دی ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر شہر میں ٹرانسپورٹ کا شعبہ مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے۔ 2000ء تک کراچی میں بسوں، منی بسوں اور کوچز کی تعداد 20 ہزار تھی جو اب کم ہوکر 13 ہزار رہ گئی ہے۔
شہر میں اب بڑی بسوں کے بجائے ہر روٹ پر چنگ چی رکشے اور 6 سے 11 سیٹوں والے رکشے چل رہے ہیں اور ان کی تعداد روز بروز بڑھنے کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے۔ پہلے یومیہ بس اور منی بس مالکان کو 1200 سے 1500 روپے کی بچت ہوتی تھی، تاہم اب سی این جی بحران اور دیگر وجوہات کی بنا پر ٹرانسپورٹرز بسیں اور منی بسیں اسکریپ والوں کو فروخت کر رہے ہیں۔ کراچی میں یومیہ 10 بسیں اور منی بسیں اسکریپ میں فروخت کی جا رہی ہیں اور اگر یہی صورت حال رہی تو رواں سال کے آخر تک کراچی میں بسوں اور منی بسوں کی تعداد کم ہو کر 10 ہزار تک رہ جائے گی۔
2000ء سے پہلے کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ کے شعبے میں ہر سال ایک ارب روپے کی سرمایہ کاری کی جاتی تھی۔ تاہم اب کراچی کے حالات اور ٹرانسپورٹ کے شعبے میں بدحالی کے باعث سرمایہ کاری کا عمل رک گیا ہے۔ جو گاڑیاں 10 سے 20 لاکھ روپے میں خریدی گئی تھیں وہ مختلف وجوہات کی بنا پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی ہیں اور اب یہ گاڑیاں اسکریپ میں 3 لاکھ روپے میں فروخت کی جا رہی ہیں۔
سروے رپورٹ کے مطابق کراچی میں امن و امان کی مخدوش صورت حال کی وجہ سے 30 فیصد علاقوں میں رات 10 بجے کے بعد بڑی بسیں، منی بسیں اور کوچز چلنا بند ہو جاتی ہیں، جس کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان علاقوں میں اورنگی ٹاؤن، ماڑی پور، بلدیہ ٹاؤن، سائٹ، منگھو پیر، شیر شاہ، لیاری، گلشن حدید، سرجانی ٹاؤن، سہراب گوٹھ، گلستان جوہر سمیت دیگر علاقے شامل ہیں۔ ان علاقوں میں بڑی پبلک ٹرانسپورٹ بند ہونے کی وجہ سے عوام اب چنگ چی رکشہ اور 6 سے 11 سیٹ والے رکشوں میں سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق کراچی میں گزشتہ 20 سال میں ہڑتالوں اور احتجاج کے دوران شر پسند عناصر نے 5 ہزار بسوں، منی بسوں اور کوچز کو نذر آتش کیا۔ جس کی وجہ سے ٹرانسپورٹرز کو 10 سے 15 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد کے صدر ارشاد بخاری کے مطابق 1993ء سے اب تک 2500 بڑی بسیں، 1500 منی بسیں اور 1000 کے قریب کوچز جلائی گئیں، جو گاڑیاں جلائی گئیں اس کے بعد ان کے مالکان نے دوبارہ نئی گاڑیاں نہیں خریدی ہیں۔
یاد رہے کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کی جانب سے مالی سال 2008-09ء میں ٹرانسپورٹ کے شعبے میں کی جانے والی کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری دیر پا ثابت نہ ہو سکی اور بھاری سرمایہ ڈوب گیا۔ عوام کی سہولت کے لیے شروع کی جانے والی پبلک ٹرانسپورٹ سروس کے ایم سی حکام کی عدم توجہی کے باعث بند ہو گئی ہے۔ تمام گرین بسیں مختلف ڈپوز پر کھڑی کر دی گئیں ہیں۔ ایسے میں کے ایم سی حکام کی جانب سے 30 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کو نقصان پہنچنے پر کسی قسم کی تحقیقات کا بھی اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ کالعدم شہری حکومت کے دونوں ادوار میں شہر میں گرین بسوں کے نام پر پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت متعارف کرائی گئی تھی جو سٹی گورنمنٹ کے ادوار ختم ہوتے ہی بند ہو گئی۔ ایک رپورٹ کے مطابق پہلے دور میں شروع کی جانے والی گرین بس سروس پر کالعدم شہری حکومت سمیت کسی ادارے کی جانب سے کوئی سرمایہ کاری نہیں کی گئی تھی۔ مگر دوسرے دور میں شروع کی جانے والی گرین بس سروس پر کے ایم سی کی جانب سے کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کی گئی تھی۔
کالعدم شہری حکومت کے محکمہ ٹرانسپورٹ کی جانب سے اس انویسٹمنٹ پر اعتراضات کیے گئے تھے مگر کے ایم سی کے ذمے داران کی جانب سے دباؤ پر محکمے کے حکام نے خاموشی اختیار کر لی تھی۔ کے ایم سی کی جانب سے ابتدا میں اس منصوبے پر کام کرنے والے ٹرانسپورٹرز کے لیے ماہانہ کم و بیش 50 لاکھ روپے کی سبسڈی بھی دی جاتی رہی ہے۔ ان نقصانات کے علاوہ 75 بسوں کی خریداری سمیت شہر کے مختلف حصوں میں بنائے جانے والے بس اسٹاپ اور ان پر لگنے والے اشتہارات کی مد میں کمپنیوں کو دی جانے والی چھوٹ کی مد میں بھی پہلے کالعدم شہری حکومت اور بعد ازاں کے ایم سی کو کروڑوں روپے کے نقصان کا سامنا ہے۔ دستیاب اطلاعات کے مطابق مذکورہ پروجیکٹ جولائی 2008ء میں شروع کیا گیا تھا۔
جس میں کے ایم سی کی جانب سے 300 ملین کی سرمایہ کاری کی گئی تھی۔ پبلک ٹرانسپورٹ اسکیم کے تحت بنائے جانے والے بس شیلٹر بی او ٹی کی بنیاد پر پرائیویٹ پارٹیوں نے بنائے تھے۔ جن کو اس کے عوض 12 برس تک اشتہارات کی مد میں رعایت دی جانی تھی۔ بس پروجیکٹ تقریباً بند ہو گیا ہے، تاہم بس شیلٹر کے حوالے سے لوکل ٹیکس ڈپارٹمنٹ خاموش ہے۔ اگر حکومت تعاون کرے اور ٹرانسپورٹ کے مسائل حل کرے تو کراچی میں ٹرانسپورٹ کا شعبہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔