امریکا کو اپنا دشمن نہ بنائیے

غیرت کاتقاضہ ہے کہ ہم امریکی مطالبات نہ مانیں۔ہمیں امریکی امدادکی کوئی ضرورت نہیں ہے"وغیرہ وغیرہ۔


راؤ منظر حیات November 24, 2018
[email protected]

قومیں اپنی خوبیوں کے سہارے قائم ودائم رہتی ہیں۔ ترقی کرتی ہیں۔دنیاکے ہراہم معاملے پر اثر اندازہوتی ہیں۔ اس کے متضاد،ناکام اورکمزور ریاستیں اپنی خامیوں سے صرفِ نظرکرکے صرف اور صرف واویلامچاتی ہیں۔ہردم گریہ کرتی ہیں۔

مگر ایک کام ہرگز ہرگز نہیں کرتیں، اور وہ ہے اپنی خامیوں کوپہچان کرانھیں ٹھیک کرنے کی کوشش۔یہی عمل لوگوں کے اندربھی بدرجہ اَتم موجود ہوتا ہے۔ ناکام لوگ دوسروں پر تنقید اور طنزکے علاوہ کچھ نہیں کرپاتے۔ دیکھا جائے،توکامیاب ہونے اورناکام رہنے کی وجوہات ٹھوس ہوتی ہیں۔ہرایک کی سمجھ میں آنے والی۔مگرہمارے جیسے خطوں میں انھیں جذباتیت کاغلاف پہناکر،حقیقت سے بہت دور کردیا جاتا ہے۔

اگرکوئی انکادرست ذکربھی کرے تواسے بے حد تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہمارے خمیرمیں یہ بیٹھ چکاہے کہ دنیا ہمارے خلاف صرف اس لیے ہے کہ ہم منفردلوگ ہیں۔یہ ایک مفروضہ بھی ہے اور جھوٹ بھی۔ طویل عرصہ پہلے،ہم طاقتور تھے، بہترین تھے۔مگراس کی وجوہات تھیں۔ قدرتی عمل کے مطابق ہمارا شخصی اورقومی رویہ، اس وقت کی اقوام سے بہتر تھا۔ مگرآج صورتحال بالکل مختلف ہے۔

پچھلے تین دن سے امریکی صدرٹرمپ کی ایک ٹویٹ پرطویل بحث جاری ہے۔سیاسی اورمیڈیاکے ارسطو،جواب میں قیامت برپاکررہے ہیں۔کوئی یہ نہیں سوچ رہاکہ اس ٹویٹ کے متن کوٹھنڈے دل سے پڑھے،تجزیہ کرے اور پھر اس پراپناردِعمل پیش کرے۔اس کے برعکس ترکی بہ ترکی جواب دیے جارہے ہیں۔ٹویٹ درٹویٹ کاسلسلہ جاری ہے۔ ساتھ ساتھ کچھ ایسے جملے بھی کہے جارہے ہیں، جنکو سنتے سنتے بال سفیدہوچکے ہیں۔مثلاً"امریکا اور پاکستان کے تعلقات برابری کی بنیادپرہونے چاہئیں۔

غیرت کاتقاضہ ہے کہ ہم امریکی مطالبات نہ مانیں۔ہمیں امریکی امدادکی کوئی ضرورت نہیں ہے"وغیرہ وغیرہ۔ان میں سے کئی جملوں میں کچھ صداقت بھی موجودہے۔مگرکوئی سوچنے اور سمجھانے کے لیے تیارنہیں کہ ان جملوں کوسچ ثابت کرنے کے عملی تقاضے کیاہیں۔اردومیڈیابالخصوص جذباتیت کی اس فضاکوبڑھاوادیتاہے جہاں دلیل کوپیش کرناکم سے کم گوارا کیاجاتاہے۔انگریزی میڈیاقدرے بہترہے۔مگرمسئلہ یہ ہے کہ انگریزی اخبارپڑھنے والے حددرجہ کم ہیں۔ان کی تعدادمسلسل گھٹ رہی ہے۔چنانچہ اب ساری ذمے داری اردواخبارات پرآن پڑی ہے کہ وہ قوم کوحقیقت کی دنیاسے آشنا رکھیں۔ردِعمل اورمحض ردِعمل سے باہر نکالیں۔ بتائیں کہ ہرعمل کاردِعمل ہوتاہے۔اصل چیزعمل ہے۔ بین الاقوامی تعلقات میں بھی اورذاتی حیثیت میں بھی۔

پہلانکتہ تویہی ہے کہ قوموں کے باہمی معاملات، سرِعام زیربحث نہیں رکھے جاتے۔یہ انتہائی سنجیدگی سے، شورشرابے سے دور،تسلی سے طے کیے جاتے ہیں۔ انکاذکر تک نہیں کیاجاتا۔امریکا ابھی تک دنیاکاطاقت ورترین ملک ہے۔اس کی اقتصادی،فنی،سماجی اورعسکری طاقت دنیا کے ہر ملک سے زیادہ ہے۔چین تمام ترقی کے باوجود،اس منزل پر نہیں پہنچ سکا،جہاں امریکا ستربرس سے براجمان ہے۔ چینی معیشت،امریکا کی معیشت سے تقریباً نصف ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عسکری معاملات میں بھی امریکا سے بہت پیچھے ہے۔

یہ سچ دونوں ممالک کومعلوم ہے۔آج تک چین کے کسی رہنمانے یہ نہیں کہاکہ ہماراملک اُبھرتی ہوئی گلوبل طاقت ہے۔ بلکہ انکاردِعمل حددرجہ محتاط ہے۔وہ اپنے ملک میں بھی اپنی ترقی کاذکرتک نہیں کرتے۔وہ صرف ایک کام کرتے ہیں کہ"باتیں بہت کم اورکام بہت زیادہ"۔ایک دوسرے کے سخت ترین حریف ہونے کے باوجودوہ ردِعمل میں نہیں جاتے۔خاموش رہتے ہیں۔اپنے باہمی تعلقات کو جذباتی تقاریراورجملوں سے زیربارنہیں کرتے۔اگر آپکو یقین نہیں آتا، تو آپ چین جاکراس بات کوپرکھ لیں۔

مگرپاکستان ایک انتہائی جذباتی بلکہ غیرحقیقی دنیامیں سانس لے رہاہے۔جذباتیت کواس قدر مضبوط کردیاگیا ہے کہ حقیقت کی طرف نظردوڑانے کی جسارت کرناکافی مشکل ہے۔امریکا اورہمارے باہمی تعلقات کبھی بھی برابری کی سطح کے نہیں تھے۔ نصف دہائی بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ ہم ان تنازعات میں پڑگئے جوہمارے قومی مفادات کے عین خلاف تھے۔صدرایوب کے دورمیں پشاورسے امریکی طیارے، روس پرپروازکرواکے جاسوسی کاکام کرتے تھے۔ پتہ اس وقت چلاجب روسیوں نے ایک طیارہ مارگرایا اور ان کے پائلٹ گرفتارکرلیے گئے۔اس کے بعدجوکچھ بھی ہوا، سب کے علم میں ہے۔مگرسوال یہ اُٹھتاہے کہ صدرایوب کے زمانے میں ہماری روس سے کیادشمنی تھی۔مقابلہ تو امریکا اور روس کے باہمی کشیدہ تعلقات کاتھا۔

ہم اس میں فریق کیونکربن گئے۔کسی کے پاس اس نکتہ پرمدلل بحث کرنے کے لیے وقت نہیں ہے۔ بھٹو کو بالاخر کیا ضرورت تھی کہ وہ افغان باغی قیادت کوپاکستان بلواکرانھیں ہرقسم کی سہولتیں فراہم کرتا۔جنرل ضیاء الحق کی افغان پالیسی اسطرح کی کیوں تھی کہ اس نے خطرناک ترین جنگ میں ہمیں ایندھن بناڈالا۔ امریکا نے پیسے اوراسلحہ دیکرہماری زبان بند کر دی۔ ہم ایک المناک جنگ کاباقاعدہ حصہ بن گئے جوآج ہمارے ملک کوآگ کی طرح جلارہی ہے۔امریکا پیسہ حاصل کرنے کے جنون میں ہم دیوانوں کی طرح ہروہ کام کرتے رہے جو ہمارے قومی مفادات کے بالکل برعکس تھے۔سیاسی وزراء اعظم بھی صرف اور صرف غیرملکی مفادات کودیکھتے رہے۔ رہی سہی کسر پرویزمشرف کی محیرالعقول پالیسی نے پوری کردی۔ ہم افغانستان کی جنگ کواپنے گھر میں لے آئے۔یہ معرکہ ابھی تک جاری ہے۔

قومی مفادتویہ تھاکہ ہم ایک پُرامن اورترقی یافتہ ملک بنتے۔اقتصادی طاقت بنتے۔مثالی ترقی کرتے۔ مگرہم نے سات دہائیوں میں بدامنی اور بدحالی کو باقاعدہ پالاپوسا ہے۔ہروہ کام کیاہے جس سے ہمارے معاملات مکمل طورپر ابتلامیں رہیں۔ امریکا کے ساتھ تعلقات میں بھی ہم اس سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرپائے جووقت کاتقاضہ تھا۔مگریہاں ایک تلخ بات کرنی بے حدضروری ہے۔امریکا ہمیں ایک "کلائنٹ اسٹیٹ" کا درجہ دیتاہے۔یعنی کوئی بھی کام کروانا تو،توپیسے فراہم کرکے ہماری استطاعت کو خرید لیا جاتا ہے۔ جب وہ مشکل کام مکمل ہوجاتاہے توپھرتعلقات بھی واجبی سے رہ جاتے ہیں۔

اگرکوئی دوبارہ معاملہ ہوجائے تو امریکی ہمیں پھرسے پیسے میں تول دیتے ہیں۔ہم ان کا ہرکام معاوضہ لے کرکرنے کے لیے تیارہوجاتے ہیں۔ افغانستان میں بتیس سال سے جنگ اسی لین دین کی بنیادپرہورہی ہے۔ورنہ افغانستان سے ہماری کیا دشمنی ہے۔مگرآج صرف اورصرف ہمارے ردِعمل کی بدولت افغانستان ہمیں ہرمسئلہ کی بنیاد سمجھتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ جس وقت امریکی ڈالروں کی بارش ہوتی ہے تواس وقت ہمارے قومی مفادات کو فراموش کیوں کردیاجاتاہے۔قومی غیرت کے فلسفہ کوپسِ پشت کیوں ڈال دیاجاتاہے۔پوری قوم کو ختم نہ ہونے والی جنگ کی آگ میں کیوں جھونک دیاجاتاہے۔

سچ تویہ ہے کہ ہمارے انتہائی غیرمحفوظ حکمران، اپنی حکومت کوقائم ودائم رکھنے کے لیے امریکا کے لیے وہ تمام مشکل کام کرتے رہے جوانھیں نہیں کرنے چاہیے تھے۔ امریکیوں کو پتہ ہے کہ اس قوم کوپیسہ دیکر ہرکام کروایا جا سکتا ہے۔ اس کی عملی مثالیں موجود ہیں۔مگریہ ادنیٰ بات ہم تسلیم کرنے کی اخلاقی جرات نہیں رکھتے۔ہم مکمل طور پر افسانوی کیفیت میں سانس لے رہے ہیں۔عوام کے سامنے اصل حقائق کو لانے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔انھیں بھرپور طریقے سے چھپاتے ہیں۔یہ بہت عرصے تک کامیاب پالیسی تھی۔ مگر ڈونلڈٹرمپ،ہربات،بدتمیزی کی حد تک سامنے کرنے کا عادی ہے۔الیکشن میں اس کی کامیابی کی ایک وجہ اسکامنہ پھٹ ہونابھی ہے۔ ٹرمپ امریکی نفسیات سے مکمل طورپر واقف ہے۔ ہروہ بات کرتاہے جواس کے سفید فام متوسط درجے کے امریکی شہریوں کوبہترلگے۔

بنیادی طورپروہ Cohesive اپروچ پریقین نہیں رکھتا۔اس کی ہر تقریر اور عمل Divisive طرز کاہے۔اس نے امریکی عوام کوبھی ہر سطح پرتقسیم کردیا ہے۔ اس طرح کے صاحبِ طرز سیاستدان نے جوبات کی ہے،وہ اس کی شخصیت کے عین مطابق ہے۔ مگرکیاوہ ٹویٹ مکمل طور پرجھوٹ ہے۔ یااس تحریرکے جملے مکمل طور پرسچ ہیں۔ میرا خیال ہے بین الاقوامی معاملات میں سچ اورجھوٹ کچھ نہیں ہوتا۔ دیکھنایہ ہوتاہے کہ طاقتور فریق کیاکہہ رہاہے۔اس کی بات پریقین کیاجاتا ہے۔ ہمارا موجودہ رویہ بھی اسی ترتیب سے دیکھا جارہاہے۔ہماری تمام ترقربانیوں اور نقصانات کو نظر اندازکیاجارہاہے۔مگرحتمی سوال ہے کہ ایساکیوں ہورہا ہے۔ صر ف اسلیے کہ عرصہ درازسے ہماری خارجہ پالیسی ہمارے اپنے قومی مفادات کے خلاف رہی ہے۔

پوری دنیا جانتی ہے کہ ہم کیاکیاکرتے رہے ہیں۔ کس کس سطح پراپنے مفادات کوبہت کم قیمت پر فروخت کیا ہے۔ہم کافی حدتک سچاہونے کے باوجود دنیا کے لیے قابل اعتمادفریق نہیں ہیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم سے انتہائی ادنیٰ کام کرواکر ہمیں سزاکے طورپر اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ کوئی اہم ملک ہماری بات سننے کے لیے تیارنہیں۔ اگر پوری سوسائٹی یاسماج میں کوئی شخص دلیل سے بات کرنے کی کوشش کرے، تواس سے"حب الوطنی" کا سرٹیفکیٹ واپس لیا جاسکتا ہے۔ خوف کی وجہ سے سچ بولنابھی بہت مشکل ہے۔

تمام ترمشکلات کے باوجود عملیت پسندی یہی ہے کہ پاکستان اور امریکا بند کمرے میں سنجیدگی سے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ایک دوسرے کانکتہ ِنظر سمجھیں۔ اپنے ملکی مفادات کوسامنے رکھ کرمعاملہ فہمی سے کام لیں۔ باہمی اعتماد کو واپس لانے کی کوشش کریں۔یہ حد درجہ مشکل کام ہے۔اس کے لیے ٹھنڈے مزاج کے قومی رہنماہونے چاہیے۔ کسی بھی صورت میں امریکا کواپنادشمن بنانادرست نہیں ہے۔ امریکا آج بھی ہمیں ناقابل یقین حدتک نقصان پہنچا سکتا ہے۔ مشکل صورتحال ہوش کاتقاضہ کرتی ہے۔جوش کا نہیں، امریکا کواپنادشمن بناناقطعاًمناسب نہیں ہے!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں