بنانا بنانا ہے تو بنانا بنا دے
جیل میں تم جرم بے گناہی کی سزا کاٹ رہے ہو۔ اب ان سے اس وطن کے لاڈلوں کے مزید لاڈلے بنانے کے لیے چندہ مانگا جائے۔
محمد شاہ رنگیلا بھی تھاعیاش بھی تھا فحاش، طوائف شناس سب کچھ تھا، تو اگر اس کی شامت اعمال نے صورت نادر گرفت کی تو کچھ بات بھی تھی، لیکن ہم نہ تو رنگ گیلے ہیں نہ زنگ گیلے بلکہ رنگ اور زنگ اور زن کو بھی چھوڑیے صرف ''گیلے '' بھی نہیں صرف زمین میں گڑے ہوئے کیلے ہیں، اچھے اور برے اعمال تو کیا ہم سرے '' اعمال '' ہی نہیں رکھتے صرف عمال کے اعمال کے رد عمل ہیں تو پھر کیوں
شامت الجمال ما صورت لیڈر گرفت
یعنی آں منسٹر و کونسلر گرفت
کہ روز کوئی نیا نیا محکمہ یا ادارہ یا کمیٹی یا کمیشن یا وفد وجود میں آتا ہے، ادارے بنائے جاتے ہیں ان میں نئے نئے درد کے پیوند لگائے جاتے ہیں جن کا مجموعی نام نوالوں کے لیے '' منہ ''بنانے کی انڈسٹری ہے اور یہ کام ستر سال کے قلیل عرصے سے جاری ہے ۔ قلیل اس لیے کہ ابھی تو اس ملک کے دودھ کے دانت بھی نہیں نکلے ہیں، وہ نکلیں گے، ٹوٹیں گے پھر کھانے کے دانت اُگیں گے پھر ان میں کیڑے لگیں گے کیوٹیاں پڑیں گی اور '' درد '' اٹھے گا۔
اور ان ستر سال کے قلیل عرصے میں اتنا کچھ بنایا گیا ہے ۔ محکمے ادارے ، عمارتیں اور سب سے زیادہ '' باتیں '' کہ ہم بجا طور پر اسے '' بنانا '' اسٹیٹ کہہ سکتے ہیں وہ والا '' بنانا '' اسٹیٹ نہیں یہ اپنا خاص الخاص اردو '' بنانا اسٹیٹ '' اور اس بنانا اسٹیٹ میں اتنا زیادہ '' بنانا '' ہوتا ہے کہ بنانا بھی حیران بنا رہ جائے۔ حساب لگا لیجیے کہ یہاں صرف بنانا ہی بنانا ہے اور اس بنانے کے ہنر میں ہم اتنے ماہر ہو چکے ہیں کہ جب کوئی کچھ بھی نہ بنا رہا ہو تب بھی وہ کچھ نہ کچھ بلکہ بہت کچھ بنا رہا ہوتا ہے ۔
اُلو اور اُلوکے پٹھے بنانے کا کام تو اب پرانا اور نہ ہونے کے برابر رہ گیا تھا کہ جتنے بھی اُلو تھے وہ بھی اُلو بن چکے تھے اور جو پٹھے تھے وہ الوؤں سے پہلے بن چکے ہیں ۔ وہ نوشیروان عادل کا قصہ تو آپ نے سنا ہوگا، کہتے ہیں عادل بننے سے پہلے وہ انصاف دار تھا جو بھی چیز سامنے آتی تھی اسے نصف نصف کرکے انصاف قائم کر دیتا ۔ آدمی ہو شہر ہو یا گاؤں سب کو یکساں طور پر نصف نصف کرنے کے بعد جب ملک کی آبادی نصف رہ گئی تو ایک دن ایک وزیر نے خود اسے بناتے ہوئے عادل بنایا ۔ وہ یوں کہ جس درخت کے نیچے وہ دونوں دوران سفر بیٹھے تھے اس پر دو اُلو بھی بیٹھے گپ شپ کرتے تھے ۔ وزیر کو پرندوں کی بولی سمجھ میں آتی تھی۔ اس نے وزیر سے پوچھا یہ الّو کیا بول رہے ہیں۔ وزیر نے کہا حضور یہ دونوں اُلّواپنے پھٹے اور پٹھی کی شادی کا معاملہ ڈسکس کر رہے ہیں۔
پٹھے کا باپ جو خود کبھی پٹھا تھا پٹھی کے باپ سے کہہ رہا ہے کہ اپنی پٹھی میرے پٹھے کے عقد میں دے دو۔ جواب میں پٹھی کا باپ کہہ رہا ہے کہ مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن تم معاوضے میں بیس ویران بستیاں دوگے۔ اس پر پٹھے کا باپ خوش ہو کر کہہ رہا ہے کہ یوں تو کوئی بات نہیں تم بیس ویران بستیاں مانگ رہے ہو میری طرف سے سو ویران بستیاں پیش ہیں کہ جب تک نوشیروان بادشاہ ہے کم از کم ویران بستیوں کی تو کوئی کمی ہی نہیں ہو سکتی۔ یہ سن کر نوشیروان نے انصاف چھوڑ کرعدل اختیار کیا اور عادل تخلص پا لیا ۔
ہمارا بھی تجربہ ہے پرندوں کی زبان پر ہمیں اچھا خاصا عبور ہے اس لیے جانتے ہیں کل ہی دو چار الّو اپنے پٹھوں سے کہہ رہے تھے کہ جب تک یہ بنانا اسٹیٹ ہے اُلوؤں کی قلت کبھی نہیں پڑسکتی ۔
غالباً یہ بات بنانے والوں کو بھی پہنچی ہے اس لیے اب انھوں نے اُلّوؤں کے بجائے '' ڈیم '' بنانا شروع کر دیے جس پر باتیں بنانے کا کام شروع ہو چکا ہے ۔ اور بہت جلد یہی د وچار صدیوں میں ڈیم بن جائیں گے کیونکہ الّو یعنی فول تو پہلے ہی سے موجود ہیں ۔
ویسے کبھی کبھی ہمیں خیال آتا ہے کہ کہیں چندے کے دھند ے کے لیے کوئی اور محکمہ الگ سے نہ بنایا جائے کیونکہ آخر نوالے تو ہوں گے اور اگر منہ نہ ہوں گے تو وہ یونہی ضایع ہو جائیں گے اس لیے بہتر یہی ہے کہ پہلے ہی سے منہ بنائے جائیں اور بنانا اسٹیٹ میں کچھ بھی بنایا جا سکتا ہے اور اس کام یعنی نوالوں کے لیے منہ بنانے کاکام تو ہم ستر سال سے برابر کیے جا رہے ہیں ۔
ویسے کبھی کبھی ہم بھی کوشش کرتے ہیں کوئی بنانے والی بات سن کر سہنے کے لیے '' منہ '' بناتے ہیں لیکن ہنسنے کے بجائے رونا نکل آتا ہے لگتا ہے ابھی ہم کچے بنانا ہیں یا ہماری مشین میں کوئی فالٹ ہے لیکن ہم اسے کسی کو بتا بھی نہیں سکتے کہ انصاف کو عدل بنانے والوں نے سن لیا تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے ۔
پھر ہم رونا چاہیں گے اور نکلے گا ہنسنا
تازہ ترین ہنسنے کی کوشش جب ہم نے کی اوررونا نکل آیا ۔ وہ یہ تھی کہ بیرون ملک پاکستانی ڈیم بنانے کے لیے دل کھول کر چندہ دیں ۔
اب آپ ہی بتائیں کہ اس پر ہنسنے کے لیے منہ بنائیں یا رونے کے لیے۔
جن بدنصیبوں کو دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں ۔ یعنی یہاں اس ملک اس مٹی اور اس نظام نے انھیں روٹی تک دینے سے انکار کیا اور وہ روتے روتے اپنی مٹی اپنی ماں اور اپنی جنم بھومی کو چھوڑ کر دیار غیر میں مارے مارے پھرتے ہیں اورکبھی حکومت نے یہ تک نہیں پوچھا کہ تم پر کیا گزری اور کیا گزررہی ہے، ریگستانوں اور شیوخ کے شبستانوں میں تمہارا خون پسینہ کہاں کہاں بکھرا ہے ۔
جیل میں تم جرم بے گناہی کی سزا کاٹ رہے ہو۔ اب ان سے اس وطن کے لاڈلوں کے مزید لاڈلے بنانے کے لیے چندہ مانگا جائے۔ جہاں تک باتیں بنانے کی صنعت ہے وہ اس کے لیے باقاعدہ بڑے بڑے مشاہروں پر وزیر رکھے گئے ہیں ۔