سردار صاحب کی قربانی

سردار صاحب نے اپنے بچوں کو سرکاری اسکول میں داخل کراکے اپنے حلف کی پاسداری کی ہے۔


Dr Tauseef Ahmed Khan November 24, 2018
[email protected]

سردار احمد نے وزیر تعلیم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سب سے بڑا کارنامہ یہ انجام دیا کہ اپنی صاحبزادی کو پرائیوٹ اسکول سے ہٹاکر حیدرآباد کے سرکاری اسکول میں داخل کرایا، اگرچہ وفاق اور چاروں صوبوں میں قائم ہونے والی حکومتوں کے وزراء نے سرداراحمدکی پیروی نہیں کی ۔ سندھ محکمہ تعلیم کے حالات بہتر نہ ہوسکے۔

محکمہ تعلیم اسکول نہ جانے والے 30 لاکھ سے زائد بچوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنے کے لیے حکمت عملی تیار کرسکا اور نہ ہی محکمہ تعلیم میں مختلف کاموں کے لیے رشوت کی شرح کم ہوسکی۔گزشتہ سال حکومت سندھ نے کراچی کی معروف درسگاہوں عائشہ باوانی اسکول، عائشہ باوانی کالج اور اسلامیہ کالج کی عمارتوں کے مقدمات ہارگئی تھی۔

وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے عائشہ باوانی اسکول، کالج کے طلبہ اور اساتذہ کے شاہراہ فیصل پر احتجاج پر فوری توجہ دی تھی اور سندھ کے قانونی ماہرین نے اعلیٰ عدالتوں میں حکم التواء کے لیے عرض داشتیں داخل کی تھیں مگر پھر شاید یہ وکلاء اپنی عرض داشتوں کی قانونی حیثیت نہ منوا سکے اور حکومت سندھ خاموشی سی ان عمارتوں سے دستبردار ہوگئی اور ان تعلیمی اداروں کو دور قریب اسکولوں کی عمارتوں میں منتقل کردیا گیا۔ حکومت سندھ کے افسروں کی نااہلی یا دیگر مجبوریوں کی بناء پر طالب علم اعلیٰ معیارکی عمارتوں میں تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہوگئے۔

حکومت سندھ کا سب سے بڑا چیلنج اسکول نہ جانے والے بچوں کو تعلیم کی طرف متوجہ کرنے کا ہے۔ غریب والدین بچوں کی تعداد پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے، پھر یہ بچے تھوڑے سے بڑے ہوتے ہیں توگھر کی مخدوش معاشی صورتحال کی بناء پر انھیں اسکولوں میں داخل کرانے کے بجائے کسی کام پر لگا دیا جاتا ہے یا دینی مدرسے کے سپرد کیا جاتا ہے۔ عمومی طور پر لڑکیوں کوگھرکے کام کاج کی ذمے داری دی جاتی ہے۔ یہ عورتیں دیہاتوں میں بھٹوں پرکام کرتی ہیں یا شہروں میں گھروں میں روزگار حاصل کرتی ہیں ۔

لڑکیاں کم عمری میں ان کا ہاتھ بٹانے لگتی ہیں۔ لڑکیوں کو محدود نوعیت کی مذہبی تعلیم ضرور دی جاتی ہے۔ جو بچیاں اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتی ہیں وہ پانچویں جماعت پہنچنے تک اسکول چھوڑ دیتی ہیں۔ لیاری میں قائم غریب آباد گورنمنٹ گرلز سیکنڈری اسکول کی سربراہ میڈم گل رنگ کا کہنا ہے کہ لیاری میں تعلیم مکمل نہ کرنے والی بچیوں کی شرح 30 فیصد کے قریب ہے۔ اب لڑکیوں کی کچھ تعداد خواتین کے مدرسوں میں داخل کی جاتی ہے۔ لڑکے چھوٹے موٹے کاموں سے زندگی کا آغاز کرتے ہیں۔ سندھ میں ایک خاصی بڑی تعداد مدرسوں کا رخ کرتی ہے۔

گزشتہ بیس برس سے کراچی کے علاوہ اندرون سندھ میں بھی مدارس کی تعداد حیرت انگیز طور پر بڑھی ہے۔ مدارس میں بچوں کو مفت رہائش اور تعلیم دی جاتی ہے ۔ جو بچے مدارس سے سند حاصل کرتے ہیں، ان کے لیے ہر محلے میں قائم ہونے والی نئی مساجد میں روزگارکا بندوبست آسانی سے ہوتا ہے۔ جو بچے دیہاتوں میں کھیتوں میں کام کرتے ہیں اور دکانوں اور ورکشاپ میں ہاتھ بٹاتے ہیں ، شہروں میں یہ بچے مختلف نوعیت کے کام انجام دیتے ہیں ۔ اس صدی کے آغاز کے بعد سے فٹ پاتھوں پر رہنے والے لڑکوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔

یہ لڑکے فٹ پاتھوں یا پارکوں میں سوتے ہیں۔ کراچی میں کوڑا چننے والے بچوں کی تعداد ہزاروں سے بڑھ گئی ہے۔ یہ بچے جنسی کاروبارکا حصہ ہوتے ہیں اور جرائم پیشہ افراد کے گروہوں سے منسلک ہوتے ہی منشیات اور نشے کے کاروبار سے منسلک ہو جاتے ہیں۔ سڑکوں اور فٹ پاتھ پر رہنے والی لڑکیوں کی قسمت میں عصمت فروشی کے کاروبار کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوتا۔ حکومت سندھ نے گزشتہ عشروں میں اسکولوں میں کتابیں مفت تقسیم کرنے کی اسکیم شروع کی۔ میٹرک تک کی کتابیں طلبہ کو مفت میں دستیاب ہونے لگیں۔ حکومت نے انٹرکی سطح تک ہر قسم کی فیس ختم کردی۔

حتیٰ کہ بورڈ کی رجسٹریشن فیس بھی معاف کردی گئی اور طالبات کو 3500 روپے وظیفہ دیا جانے لگا، مگر تعلیم حاصل نہ کرنے والے بچوں کی تعداد میں کمی نہ ہوسکی بلکہ کراچی میں سرکاری اسکولوں میں انرولمنٹ کی شرح کم ہوگئی ۔ حکومت سندھ نے غیر حاضر اساتذہ کے خلاف کارروائی کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھایا۔ اسکولوں میں حاضری کے لیے بائیومیٹرک سسٹم نافذ ہوا۔ اب ہر استاد کو اسکول آنے اور جانے کے وقت اس نظام کے ذریعے اپنی موجودگی کو یقینی بنانا ضروری ہوگیا۔

صوبے بھر میں افسروں پر مشتمل انسپکشن ٹیموں نے اسکولوں کا معائنہ کرنا شروع کیا۔ سپریم کورٹ کی ہدایت پر سیشن ججوں کے فرائض میں تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی حاضری کی نگرانی بھی قرار پائی۔ کراچی میں ایک استاد نے بتایا کہ ہیڈ ماسٹر ہر استاد سے ایک ایک ہزار روپے لے کر انسپکشن کمیٹی کے ممبران کو پیش کررہے ہیں۔ اگر کوئی استاد یہ رقم ادا نہ کرتے تو پھر اس کے خلاف منفی رپورٹ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اس طرح اسکولوں میں فرنیچر، پانی کی فراہمی اور بیت الخلاء کی سہولتوں کے لیے رقمیں مختص ہوئیں مگر جب 2018ء کے انتخابات میں جن اسکولوں میں پولنگ اسٹیشن قائم ہوئے وہاں تعینات عملے نے بار بار یہ شکایات کیں کہ ان اسکولوں میں پانی، بجلی اور بیت الخلاء جیسی کوئی سہولت موجود ہی نہیں۔ حتیٰ کہ بعض اسکولوں کی چار دیواری بھی نہیں تھی۔ بتایا گیا ہے کہ یو ایس ایڈ کے تحت چلنے والے پاکستان ریڈنگ پروجیکٹ کے تحت اسکولوں میں آلات وغیرہ فراہم کیے گئے۔ محکمہ تعلیم کی ایک سینئر سپروائزر کا کہنا ہے کہ رشوت اور سفارش کے کلچر نے تعلیمی نظام کی بہتری کی کوششوں کو ناکام بنادیا ہے۔

کراچی کی ساحلی بستی کے سرکاری اسکول کی ایک ہیڈ مسٹریس حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ تدریسی اور غیر تدریسی عملہ کو فرائض میں دلچسپی نہیں۔ جب بھی کسی کارروائی کا امکان ہوتا ہے تو سیاسی مداخلت شروع ہوجاتی ہے۔ اسکولوں میں اساتذہ کی کمی ہے۔ جن اساتذہ کو دور دراز علاقوں میں تعینات کیا جاتا ہے ، ان کا 90 دن کے لیے تبادلہ ہو جاتا ہے۔ کراچی شہرکے کچھ اسکولوں میں اساتذہ کی تعداد زیادہ اور طلبہ کی تعداد کم ہے جب کہ بعض اسکولوں میں طلبہ کی معمولی تعداد ہونے کے باوجود اساتذہ دستیاب نہیں ہیں ۔کراچی میں کئی اسکولوں کو غیر سرکاری تنظیموں نے گود لے لیا ہے۔ ان اسکولوں کے حالات بہتر ہوگئے ہیں۔ کراچی میں سرکاری اسکولوں کی عالیشان عمارتوں کے مقدمات ہارنے کی خبریں اب ذرایع ابلاغ کے لیے بھی اہمیت کی حامل نہیں رہی۔

کلفٹن کے علاقے میں ایک خاتون نے سڑکوں پر رہنے والے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے عبداﷲ شاہ غازی کے مزار کے سامنے پل کے نیچے اسکول کھول لیا۔ پہلے اس اسکول میں پڑھنے والے طلبہ کی تعداد چند تھی پھر سیکڑوں بچے اس اسٹریٹ اسکول میں تعلیم حاصل کرنے لگے۔ سندھ کے محکمہ تعلیم اور اسٹریٹ اسکول کی سربراہ میں اختلافات پیدا ہوئے۔ سپریم کورٹ کی مداخلت پر اس اسکول کو اب عمارت مہیا ہوگئی ہے مگر کیسی عجیب بات ہے کہ حکومت سندھ اسکول نہ جانے والے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کی طرف متوجہ نہ کرسکی۔

سردار صاحب نے اپنے بچوں کو سرکاری اسکول میں داخل کراکے اپنے حلف کی پاسداری کی ہے۔ 18ویں ترمیم کے نفاذ کے بعد تعلیم کے لیے ملنے والے فنڈز میں خاطرخواہ اضافہ ہوا ہے۔ عالمی بینک اور دیگر ادارے بھی فنڈز کی فراہمی کے لیے تیار ہیں۔ اس صورتحال میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں پانی، بجلی اور بیت الخلاء سمیت تمام جدید سہولتیں فراہم کی جائیں۔ ان سہولتوں میں سائنس کے مضامین کے لیے تجربہ گاہ اور لائبریریاں شامل ہوں تاکہ جو بچہ بھی ان تعلیمی اداروں کی عمارتوں میں داخل ہو اس کو عمارت کی خوبصورتی کی بناء پر خوشگوار ماحول میسر ہو۔ طلبہ کو ناشتہ، کھانا اور یونیفارم فراہم کیا جائے۔ غربت کی لکیر کے ساتھ زندگی گزارنے والے خاندانوں کے بچوں کو وظائف دیے جائیں۔

یہ وظائف اس آمدنی کے برابر ہوں جو یہ بچے کام کرکے حاصل کرتے ہیں۔ محکمہ تعلیم میں رشوت کے خاتمے کے لیے سخت ترین اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ حکومت بچوں کے لیے جوسہولتیں فراہم کرے، بچے اس سے خاطرخواہ فائدہ اٹھائیں۔ محکمہ تعلیم بلدیاتی کونسلر کے تعاون سے یہ مہم منظم کرے تاکہ جو بچے اسکول نہیں جاتے انھیں گھروں سے پکڑ کر اسکول داخل کیا جائے۔ سڑکوں پر رہنے والے بچوں کے لیے شیلٹر ہوم بنائے جائیں۔ پولیس اور سماجی بہبود کی تنظیموں کے تعاون سے ایسا لائحہ عمل تیار کیا جائے کہ جو بچے کام کرتے یا بھیک مانگتے نظر آئیں انھیں شیلٹر ہوم بھیج دیا جائے جہاں سے صبح متعلقہ اسکول میں ان کی حاضری یقینی ہوجائے۔ حکومت تمام قومیائے ہوئے تعلیمی اداروں کی عمارتوں کو مارکیٹ ریٹ پر خریدے۔ اس کے لیے باقاعدہ قانون سازی کی جائے۔

21 نومبر کو دنیا بھر میں بچوں کا عالمی دن منایا گیا ۔ بچوں کا تحفظ ان کا تعلیم حاصل کرنا ہے، اگر ایک سال کے دوران پورے صوبے میں اسکول جانے والے بچوں کی تعداد میں 50 فیصد اضافہ ہوجاتا ہے اور اگلے پانچ برسوں میں سندھ میں رہنے والا ہر بچہ اسکول میں داخل ہوجاتا ہے تو پھر یہ سمجھا جائے گا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے صوبے میں انقلاب برپا کردیا ہے، اگر حکومت سندھ یہ ہدف حاصل نہ کر پائی تو سردار صاحب کی یہ قربانی رائیگاں جائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں