’’مالیاتی شمولیت‘‘ اور حکومت کا پختہ عزم

مالیاتی شمولیت کے لیے یہ اقدام اسٹیٹ بینک اور پی ٹی اے کی منصوبہ بندی سے ممکن ہوا۔


اکرام سہگل November 24, 2018

ہزاروں افراد کو روزگار کی فراہمی کی وجہ سے راقم تنخواہ دار طبقے کو درپیش روزمرہ مسائل سے اچھی طرح آگاہ ہے، خاص طور پر یہ مسائل نچلے طبقے کے تنخواہ داروں کے لیے کئی گنا بڑھ جاتے ہیں، جنھیں ''بلیو کالر ورکر'' کہا جاتا ہے۔ چاہے بلیو کالر ہوں یا وہائٹ کالر ورکرز، 80فی صد تنخواہ دار طبقے کی تنخواہیں ہر مہینے کی 22سے 25 تاریخ تک خرچ ہوچکی ہوتی ہیں۔

وہائٹ کالر ورکر مالیاتی اداروں کی مدد حاصل کرکے اپنی ماہانہ تنخواہ کی بنیاد پر قلیل مدتی قرضے حاصل کرلیتے ہیں۔ دو وقت کی روٹی پوری کرنے کے لیے نچلے تنخواہ دار طبقے کو دو سے تین ہزار کا قرض لینا پڑتا ہے اور اس کے لیے وہ عموماً سود پر قرض دینے والوں سے رجوع کرتے ہیں۔

بے حساب لکھت پڑھت اور کاغذی کارروائی سے گبھرا کر ناخواندہ افراد آج بھی بینک اکاؤنٹ کھلوانے سے ہچکچاتے ہیں۔ اس کے علاوہ مالیاتی ادارے غریب اور کم آمدن طبقے کو ''رسک'' سمجھتے ہیں کیوں کہ ان سے بہت کم آمدن اور منافع کی گنجائش نکلتی ہے۔

انفرادی طور پر صارفین کو خدمات کی فراہمی کے اوقات سے ہٹ کر پاکستان کی 85 فی صد آبادی بینکاری نظام کا حصہ نہیں ، جنھیں ''اَن بینکڈ پاپولیشن'' بھی کہا جاتا ہے، یہ صورت حال آیندہ حکومتوں کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ یوٹیلٹی بلوں، اسکول فیس وغیرہ جمع کرانے کے لیے لگنے والی لمبی قطاریں ان کے مسائل میں مزید اضافہ کرتی ہیں۔ قرض اور مسائل کی دلدل میں دھنستے ہوئے عام آدمی کی نجات کے لیے کسی نہ کسی کو تو قدم بڑھانے ہوں گے۔

بینکاری نظام سے باہر آبادی کے مسائل دور کرنے ، شدید غربت کے خاتمے اور اجتماعی بہبود کے لیے عالمی بینک نے عالمی سطح پر کچھ اہداف مقرر کیے جس میں 2020تک ''یونیورسل فنانشل ایکسیس'' یا عالمی سطح پر مالیاتی نظام تک ہر ایک کی رسائی کا ہدف بھی شامل ہے۔

غربت کے خاتمے کے لیے عالمی بینک کی جانب سے ''مالیاتی شمولیت'' یا "Financial Inclusion" کے عنوان سے کیے جانے والے اقدامات کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے پوری توجہ کے ساتھ آگے بڑھایا۔ مالیاتی شمولیت کے سلسلے میں تیزی سے بہتری لانے والے ممالک نے ، دیگر اقدامات کے ساتھ، اس حوالے سے ''موبائل فنانشل سروسز'' کے کلیدی کردار کو بھی تسلیم کیا ہے۔

ہمارے تنخواہ دار طبقے کی مالی پریشیانیاں اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ ہمیں اب ٹیکنالوجی کی جانب رُخ کرنا چاہیے۔ مقامی سطح پر ایک جدید ڈیجیٹل سویچ تیار کروا کر ہم نے اسٹیٹ بینک سے ایک PSO/PSP لائسنس حاصل کرلیا۔ اس لائسنس کو مزید تقویت دینے کے لیے ''موبائل وائلٹ'' کے لیے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی میں تھرڈ پارٹی سروس پروائڈر(TPSP)کے لیے بھی درخواست دے دی۔ ایک بار یہ کام کرنا شروع کردے تو کم تنخواہ والے ''آسان موبائل اکاؤنٹس'' (اے ایم اے) پر اپنا موبائل وائلٹ اکاؤنٹ کھلوا سکیں گے۔ مالیاتی شمولیت کے لیے یہ اقدام اسٹیٹ بینک اور پی ٹی اے کی منصوبہ بندی سے ممکن ہوا اور ''اَن بینکڈ'' آبادی کو بینکاری نظام میں شامل کرنے کے لیے ورلڈ بینک نے اس کے لیے معاونت فراہم کی۔ حسن اتفاق یہ ہے کہ نادرا کی الیکٹرانک ڈاکومنٹیشن کے سبب یہ کام بہ آسانی ممکن ہوا اور نادرا اس کے لیے تعریف کا مستحق ہے۔

ٹیلکوز نے ہماری کثیر آبادی کو یہ پلیٹ فورم مہیا کرنے کے لیے قابل تحسین کردار ادا کیا، اس وقت پورے ملک میں 12کروڑ سے زائد موبائل ٹیلی فون صارفین ہیں۔ رقوم کی منتقلی کے لیے ٹیلکوز کے اس اقدام کے بعد ''اَن بینکڈ'' صارفین بھی اس کے ممکنہ صارفین بن چکے ہیں۔ رقم کی منتقلی کو مزید باسہولت بنانے کے لیے اسٹیٹ بینک نے ٹیلکوز کو بینک کھولنے کی اجازت بھی دی، تین ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں نے کام یابی سے بینکس کا آغاز بھی کردیا ہے۔

موبائل صارفین کی غالب اکثریت فون کو موسیقی سننے، واٹس ایپ ، ٹیکس میسیجز، گیمز، رقم کی منتقلی وغیرہ کے لیے استعمال کرتی ہے اور اس کی شرح 95فی صد تک جا پہنچتی ہے، یہ سرمایہ کاری پر اچھے منافعے کا ذریعہ ہے۔ پانچ کروڑ آسان موبائل اکاؤنٹس کے امکانات ہیں جس کے نتیجے میں ٹیلکوز کا منافع کئی گنا بڑھ جائے گا۔

تاہم پہلے سے قائم کمرشل بینکوں کی رسائی بڑھنے سے بھی منافع اندازوں سے بڑھے گا۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے انھیں اپنے بینک بنانے کی رعایت ملنے سے ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ اپنی بینکاری نظام کی وسعت اور عالمی پھیلاؤ اور تجربے کے ساتھ متعدد بینکس ٹیلکوز کے ممکنہ ''لازمی'' صارفین اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ کثیر منافع کمانے کے باوجود کارپوریٹ سوشل رسپانسبلٹی کی سرگرمیوں کو وہ ترجیح حاصل نہیں، جیسی ہونی چاہیے، حال ہی میں ایک ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی کے قابل چیف ایگزیکٹیو نے ایک پبلک پریزینٹیشن میں اس کا اعتراف بھی کیا۔

ٹیلکوز کو آسان موبائل اکاؤنٹس کو قومی ذمے داری تصور کرنا چاہیے، ملک کے غریب عوام کو قرض کے چنگل سے چھڑانے اور محنت کی کمائی کو کار آمد مقاصد پر صرف کرنے کے لیے مدد فراہم کرنا ایک قومی فریضہ ہے۔ دراصل کمرشل بینک اور مالیاتی اداروں کی شمولیت سے ''آسان موبائل اکاؤنٹس'' سے حاصل ہونے والے منافع میں وہ بھی شریک ہوجائیں گے اور ساتھ ہی انھیں 12کروڑ پاکستانی موبائل صارفین کے ڈیٹا تک بھی رسائی حاصل ہوجائے گی۔

المیہ یہ ہے کہ فیس بک والے معاملے کی طرح مالی امور سے متعلق تفصیلی معلومات ڈیٹا جمع کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں کے پاس بھی چلا جائے گا۔ ہمیں اس بات پر اعتماد ہے کہ ہمارے خفیہ ادارے اس صورت حال سے غافل نہیں ہوں گے۔

پاکستان میں ''ایک ہزار موبائل ٹاؤرز'' کی خریداری کے لیے ملائیشیا کی ایک فرنٹ کمپنی کے ذریعے بھارت نے ایک معاہدہ کرنے کی کوشش کی تھی، جسے ناکام بنا دیا گیا۔ اس منصوبے کے پیچھے کون سا بھارتی ٹائیکون تھا؟ اور اس شخص کے بی جی پی کی حکومت سے کیا روابط ہیں؟ اور اسی طرح ''را'' سے اس کے تعلقات کی نوعیت کیا ہے؟ کیا آپ تصور بھی کرسکتے ہیں کہ اس ذریعے سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کو ''ہائبرڈ وار فیئر'' کے طور پر پاکستان کے خلاف کس طرح استعمال کیا جاسکتا تھا؟ سوشل میڈیا کو پہلے ہی اثر پذیری کے لیے ایک ہتھیار بنا دیا گیا ہے، یہ قومی سلامتی کے لیے خوف ناک خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔

غیر ملکی اعلی عہدوں پر فائز افراد کو اپنے مفادات زیادہ عزیز ہوتے ہیں اور اس میں کوئی حیران کن بات نہیں۔ کاروباری دنیا کے حقائق مختلف ہوتے ہیں، چاہے وہ ہمیں کتنے ہی ناپسند کیوں نہ ہوں۔تاہم تقریباً سبھی ایگزیکٹیو پاکستانی ہیں ، یقینی طور پر وہ پاکستان کے قومی مفاد کا بھی تحفظ کریں گے۔

اگرچہ ٹیلی کمیونیکیشن کی کمپنیاں منی لانڈرنگ میں شریک نہیں۔ ایف آئی اے کی لاہور میں کی گئی کارروائی قابل تحسین ہے، جس میں موبائل سموں کے ذریعے منی لانڈرنگ کرنے والے 2000افراد کو بے نقاب کیا گیا۔ یہ دیگ کے چند دانے ہیں۔ ایسی کارروائی پر ایف آئی اے کی صرف تحسین نہیں ہونی چاہیے بلکہ پی ٹی اے اور اسٹیٹ بینک کی پابندی کے مطابق پانچ مرتبہ 25ہزار روپے کی منتقلی کرنے والی سموں کی تحقیقات کے لیے ان کی حوصلہ افزائی بھی ضروری ہے۔ قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے اس پر کڑی نگرانی رکھنے کی ضرورت ہے۔

گورنر اسٹیٹ بینک نے حال ہی میں وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کو ''مالیاتی شمولیت'' سے متعلق ایک تفصیلی بریفنگ دی۔ اسد عمر نے اس معاملے کو ترجیحی بنیادوں پر دیکھنے اور عمران خان کے ''سوروزہ منصوبے'' میں شامل کروانے کی یقین دہانی کروائی۔ اسٹیٹ بینک اور پی ٹی اے کے مشترکہ اقدامات کی تحسین کی۔ دو معمولی تبدیلیوں کی نشاندہی کے ساتھ 18اکتوبر کو وزیر خزانہ نے ''اے ایم اے پائلٹ پراجیکٹ'' کے آغاز کا اعلان کیا۔

اجلاس کے بعد گورنر اسٹیٹ بینک نے ''پائلٹ پراجیکٹ'' کی منظوری کی تصدیق کی اور کہا کہ اے ایم اے کو جنوری 2019تک کمرشلی لانچ کردیا جائے گا۔ اسد عمر نے پس ماندہ طبقے کو بینکاری خدمات تک رسائی دینے کے پختہ حکومتی عزم کا اظہار کیا اور طارق باجوہ نے بھی اس کی بھرپور تائید کی۔ اسٹیٹ بینک، پی ٹی اے اور ٹیلی کمیونیکیشن کی کمپنیوں کو اس سلسلے میں ہونے والے اقدامات کے تسلسل کے لیے یقینی بنانا ہوگا کہ عمران خان کی حکومت میں ان کی کاوشوں میں حائل رکاوٹیں نہ ڈالی جاسکیں اور ملک کے 85فی صد غریب اور پس ماندہ افراد کو یہ سہولت میسر آئے،آج بھی جنھیں بینکاری نظام تک رسائی حاصل نہیں۔

(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔