نبی آخرالزماں کی حیات طیبہ پہلاحصہ
پیدائش سے قبل آپؐ کی والدہ ماجدہ بی بی آمنہ کو خواب میں آپؐ کا اسم گرامی محمدؐ اور احمدؐ رکھنے کی بشارت دی گئی۔
ربیع الاول وہ مقدس مہینہ ہے، جب اللہ کے آخری پیغمبر یعنی محمد مصطفی، احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، دنیا میں رونق افروز ہوئے۔
عبداللہ بن عبدالمطلب کی شادی خانہ آبادی ہمراہ بی بی آمنہ بنت وہب بن عبد مناف، سردار قبیلہ بنی زہرہ سے ہوئی۔ اس وقت ان کی عمر 25 سال تھی۔ ازدواجی زندگی کے چند مہینے بعد تجارت کی غرض سے فلسطین کے شہر غزہ گئے۔ واپسی پر جب مدینہ پہنچے تو علیل ہو گئے۔ بیماری روز بروز زور پکڑتی چلی گئی، ایک مہینے اپنے ددھیال بنی عدی بن بخار میں قیام کے بعد اللہ کو پیارے ہو گئے۔
والد کے انتقال کے بعد حضور، پُرنور بطن مادر سے دنیا میں تشریف لائے ماہ، ربیع الاول، دن پیر اور وقت صبح صادق کا تھا۔ مشہور و معروف قول یہ ہے کہ آپؐ 12 ربیع الاول کو پیدا ہوئے۔ بعض اہل تحقیق نے آپؐ کی ولادت باسعادت کا شمسی سال، ماہ اور تاریخ 23 اپریل 571 قرار دی ہے۔
پیدائش سے قبل آپؐ کی والدہ ماجدہ بی بی آمنہ کو خواب میں آپؐ کا اسم گرامی محمدؐ اور احمدؐ رکھنے کی بشارت دی گئی۔ پیدائش کے بعد کچھ دنوں تک ابولہب کی لونڈی ثوبیہ نے آپؐ کو دودھ پلایا۔ دستور عرب کے مطابق ولادت کے بعد آپؐ کی پرورش حلیمہؓ بنت ابی ذویب نے کی جن کا تعلق قبیلہ ہوازن کی شاخ بنی سعد بن بکر سے تھا۔ ابھی آپؐ کو حلیمہ سعدیہ کے ہاں رہتے ہوئے دو سال اور تقریباً تین مہینے ہی گزرے تھے کہ آپؐ کے ساتھ شقِ صدر کا واقعہ پیش آیا۔ ولادت کے بعد رضاعت کا چار سالہ زمانہ آپؐ نے حلیمہ سعدیہ کے قبیلہ ہوازن میں گزارا۔ صحرائی فضا، صحبت اور ماحول کی وجہ سے آپؐ کا جسم نہایت تندرست اور زبان نہایت فصیح تھی۔
چار سال کے بعد آپؐ اپنی والدہ ماجدہ کے پاس آ گئے، جب آپؐ کی عمر مبارک چھ سال ہوئی، تو آپؐ کی والدہ، آپؐ کے ددھیال کو ان کے پوتے کی چاند جیسی نشانی دکھانے کے لیے مدینہ لے گئیں۔ والد ماجد کی قبر کی زیارت بھی کرائی۔ ایک ماہ قیام کے بعد واپس مکہ آتے ہوئے بمقام ابوا آپؐ کی والدہ ماجدہ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ آپؐ کنیز اُم ایمن کے ساتھ مکہ واپس آئے۔ اس طرح صرف دو سال آپؐ کو ماں کی مامتا دیکھنا نصیب ہوئی۔ در یتیم کے سر سے والد ماجد کا سایہ تو ولادت سے پہلے ہی اٹھ چکا تھا۔ چھ سال کی عمر میں سایہ مامتا بھی سر سے اٹھ گیا۔
والدہ بی بی آمنہ کے انتقال کے بعد آپؐ کی پرورش آپؐ کے دادا عبدالمطلب نے کی۔ دادا نے آپؐ کو اولاد کی طرح پالا اور پیار کیا۔ دادا کی وفات کے بعد آپؐ کی کفالت کا بار آپؐ کے حقیقی چچا جناب ابو طالب نے برداشت کیا اور صلہ رحمی کا حق خوب نبھایا۔ ابو طالب کو تجارت کی غرض سے شام کا سفر پیش آیا۔ عارضی داغ مفارقت کے احساس سے آپؐ کا چہرہ مبارک افسردہ ہو گیا اور نرگسی آنکھوں میں آنسو ڈگمگانے لگے۔ آپؐ کے دل کی کلی بے کلی ابو طالب سے دیکھی نہ گئی اور آپؐ کو اپنے ساتھ لے گئے۔ تجارتی قافلے نے بصریٰ پہنچ کر، بحیرا نامی راہب کے معبدکے قرب و جوار، پڑاؤ ڈالا۔ قافلے کو دیکھ کر خلاف معمول بحیرا اپنے صَومَعے سے باہر آیا اور آپؐ کو نظر بھر کر دیکھا اور آپؐ کے ''سیدالمرسلین، نبی آخرالزماں'' ہونے کی پیش گوئی کی۔ اس وقت آپؐ کی عمر مبارک بارہ سال تھی۔
محرم، رجب، ذی قعد اور ذی الحجہ، ماہ حرام کہلاتے ہیں جن میں لڑنا فجور (منع) ہے۔ چار لڑائیاں جو حرام مہینوں میں ہوئیں وہ حرب فجار کے نام سے موسوم ہوئیں، اس وقت آپؐ کی عمر مبارک 20 سال تھی۔ جنگ سے تنگ آ کر خاندان ہاشم کے سربراہ زبیر بن عبدالمطلب نے امن و صلح کی تجویز پیش کی جس کو قریش کے تمام قبیلوں نے بنظر تحسین سراہا۔ عبداللہ بن جدعان کے دولت کدہ پر نشست ہوئی اور ایک معاہدہ ہوا جس کا نام حلف الفضول رکھا گیا، اس معاہدے میں آپؐ نے بھی شرکت کی۔
20 اور 25 سال کی عمر میں آپؐ کی صداقت، امانت، دیانت، شجاعت، قیادت اور خدمت خلق کی نہاں خوبیاں آپؐ کے قبیلۂ قریش پر روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی تھیں۔ آپؐ کی نیک شہرت اور پاکیزہ سیرت کی بنا پر حضرت خدیجہؓ نے آپؐ سے تجارتی شرکت کی درخواست کی جسے آپؐ نے منظور فرما لیا۔ اس وقت آپؐ کی عمر مبارک 25 سال تھی۔ شام کے سفر میں میسرہ شب و روز آپؐ کے ساتھ سائے کی طرح رہا۔ ہر زاویۂ نگاہ سے آپؐ کی صورت اور سیرت کو دیکھا، جانچا، تولا اور پرکھا نتیجتاً آپؐ کے محاسن اخلاق کی زلفوں کا اسیر ہو گیا۔ خدیجہؓ کے سامنے آپؐ کی نیک نفسی، پاکیزگی، سنجیدگی، دانشمندی، ایمانداری، بردباری غرض یہ کہ ایک ایک خوبی کے بیان میں خوب قصیدے پڑھے۔
بقول ابن اسحق آپؓ نے خود حضورؐ سے براہ راست اور بقول ابن سعد اپنی سہیلی نفیسہ بنت منیہ کے ذریعے شادی کی خواہش کا اظہار کیا۔ شرفؐ کے لیے جب شرفؓ کی طرف سے شادی کی پیش کش ہوئی تو شرافت محمدیؐ بخوشی اس پیش کش کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو گئی۔ خدیجہؓ کی طرف سے ان کے چچا عمرو بن اسد اور آپؐ کی طرف سے آپؐ کے چچاؤں حضرت حمزہ اور جناب ابو طالب نے اس تقریب سعید میں شرکت کی۔ ان کے علاوہ شادی میں حضرت ابو بکرؓ اور قریش کی اہم شخصیات نے بھی شرکت کی۔ مہر میں آپؐ نے 20 اونٹ دیے، بعض روایات میں 400 دینار اور 500 درہم کا ذکر بھی ملتا ہے۔ اس وقت آپؐ کی عمر 25 سال اور حضرت خدیجہؓ کی عمر 40 سال تھی۔
آپؐ سے شادی سے پہلے خدیجہؓ کی دو مرتبہ شادی ہو چکی تھی۔ آپؐ کے صلب سے خدیجہؓ کے بطن سے دو صاحبزادے اور چار صاحبزادیاں پیدا ہوئیں جن کے نام (1)۔القاسم۔ (2)۔عبداللہ۔(3) حضرت ام کلثوم۔ (4)۔حضرت فاطمہؓ خاتون جنت۔ سوائے حضرت ابراہیمؓ کے جو ماریہ قبطیہؓ کے شکم سے پیدا ہوئے آپؐ کی تمام اولاد حضرت خدیجہؓ کے بطن سے ہی ہوئیں، یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ 25 سال پرسکون اور پرمسرت ازدواجی زندگی بسر کرنے کے بعد خدیجہؓ 65 سال کی عمر میں اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ اس وقت آپؐ کی عمر مبارک 50 سال تھی۔ شادی کے بعد حضورؐ نے زیدؓ بن حارثہ کو خدیجہؓ کے گھر دیکھا۔ اس کے اخلاق، آداب، عادات و اطوار سے بے حد متاثر ہوئے اور ان کو خدیجہؓ سے مانگ لیا۔ اس وقت زیدؓ کی عمر 15 سال تھی۔
کچھ عرصے بعد ان کے والد اور چچا انھیں لینے کے لیے آپؐ کے پاس آئے۔ آپؐ کے محاسن اخلاق دیکھ کر زیدؓ آپؐ کا بندۂ بے دام بن چکا تھا۔ والد اور چچا کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا اور غلام محمدؐ بن کر رہنا اور جینا پسند کیا۔ آپؐ نے زیدؓ کو آزاد کر دیا اور اعلان عام کیا کہ ''لوگو! گواہ رہو آج سے زیدؓ میرا بیٹا ہے، یہ میری وراثت کا حقدار ہے۔'' جس ناز و پیار کے ساتھ آپؐ کو آپ کے چچا نے پرورش کیا تھا وہ حسین لمحات اور احسانات کی یادیں آپؐ کے دل پر نقش تھیں۔ شدید گرانی اور کثیر العیالی کی وجہ سے جب مالی پریشانی کے مبہوت سایوں نے ان کو چاروں طرف سے گھیر لیا تو آپ کا جذبہ صلہ رحمی تڑپ اٹھا ، حضرت علیؓ کو اپنے ہاں لے آئے۔ آپؐ نے اور حضرت خدیجہؓ نے ان کی پرورش اس طرح کی جس طرح اپنی صلبی اولاد بلکہ ان سے بھی زیادہ بڑھ کر عزیز رکھا۔ اس طرح بچپن ہی سے حضرت علیؓ نے آپؐ کی آغوش رحمت میں پرورش پائی اس وقت حضرت علیؓ مشکل سے 5 سال کے ہوں گے۔
(جاری ہے )