جادوگرنیاں حقیقت یافسانہ
15 ویں صدی کے یورپ میں جادوگری کیخلاف کیے جانے والے اقدامات کی ہولناک تفصیل
جادو کیا ہے؟ یہ سوال یقینا ذہنوں میں ایک تجسس ابھارتا ہے۔ جادو ان چند موضوعات میں سے ایک ہے جس کی حقیقت جاننے کا اشتیاق ہمیشہ سے ہی انسان کے لیے دلچسپی کا باعث رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جادو ایک شیطانی علم ہے۔
وہ معاشرے جن میں تعلیم عام نہ ہو، اسی طرح کے توہمات کا شکار رہتے ہیں۔ انسانی فطرت میں حسد و بغض کا جذبہ موجود ہے، جس کی وجہ سے انسان جادو کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کے جتن کرتا ہے یا پھر اپنی ناآسودہ خواہشات کی فوری تکمیل کے در پر رہنے کے سبب کسی شارٹ کٹ یا مختصر راستے کی تلاش اسے اس طرح کے قبیح افعال کی طرف مائل کرتی ہے۔
اسی لیے ہمارے دین اسلام نے، جو دین فطرت ہے، ہمیں یہ تاکید کی ہے کہ ہم حسد، جلن اور بغض وغیرہ جیسی برائیوں سے بچیں اور اسلام کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر چلیں اور صرف اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں کیونکہ سب کچھ کرنے کا حقیقی اختیار تو صرف اسی کے پاس ہے۔اس کے باوجود زمانۂ قدیم سے ہی اکثر لوگ جادو کا علم سیکھنے اور جادوگر بننے کی طرف مائل ہوتے رہے جبکہ دوسری طرف مذہبی طبقات ان کے خلاف صف آرا ہوکر اس کے خاتمے اور معاشرے کو اس کے مضر اثرات سے بچانے کی جدوجہد میں مصروف رہے۔
تاہم اس کشمکش میں ایک دور ایسا بھی آیا جس میں جادو کی روک تھام کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں میں ظلم و زیادتی اور تشدد کا عنصر شامل ہوگیا اور بظاہر ایک اچھے مقصد کے حصول کے نیک کام میں ذاتی منفعت ومفاد جیسے عوامل نے ایک خاص طبقے کو مذہب کا نام استعمال کرکے اپنی حیثیت کو مستحکم کرنے اور خود کو دوسروں سے ممتاز ظاہر کرکے اپنے مفادات کے تحفظ جیسے مقاصد کو حاصل کرنے کی راہ پر گامزن کردیا۔
اس ضمن میں یورپ کی تاریخ کا 15 ویں صدی سے 18 ویں صدی تک کا زمانہ بطور خاص نہایت اہمیت کا حامل ہے جسے ''ارلی ماڈرن یورپ'' (Early Modern Europe) کہا جاتا ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے کہ جب ''مڈل ایجز'' (Middle Ages) کا دور اختتام پذیر جبکہ ''صنعتی انقلاب'' (Industrial Revolution) کے زمانے کا آغاز ہورہا تھا۔ اسی دور میں یورپ بھر میں بالخصوص اور تمام مغربی دنیا میں بالعموم وسیع پیمانے پر یہ خوف اپنے پنجے گاڑنے لگا کہ معاشرے کو شیطانی قوتوں سے شدید خطرات لاحق ہیں، جو اپنے آپ کو منظم کرنے کے لیے کوشاں اور پس پردہ اپنے غلبے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔
عام تاثر یہ تھا کہ عیسائت خطرے میں ہے اور شیطان اپنی آلہ کار عورتوں یعنی جادوگرنیوں کو اس سلسلے میں بروئے کار لاکر اپنا مشن آگے بڑھا رہا ہے۔ اب یہ تو معلوم نہیں کہ اس بات میں کتنی صداقت تھی تاہم اس دور کا مذہبی طبقہ خم ٹھونک کر اس برائی کے سدباب کیلئے میدان میں کود پڑا اور جن لوگوں پر بھی شیطان کا پیروکار اور جادوگر ہونے کا ذرا سا بھی شبہ ہوا یا اس پر ایسا الزام لگا، اس کو سرسری سماعت کی مذہبی عدالتوں سے سولی دیئے جانے یا آگ میں زندہ جلائے جانے کی سزائیں دی جانے لگیں۔
کئی لوگوں کو سنگسار کیا گیا اور بہت سوں کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ ملزموں کی اکثریت یعنی تقریباً 75 فیصد عورتوں پر مشتمل تھی۔ جن کے متعلق خیال تھا کہ وہ جادوگرنیاں ہیں اور اپنے جادو کے ذریعے لوگوں کو بیمار یا زخمی کردیتی ہیں۔ مبینہ طور پر وہ یہ عمل اپنی خفیہ میٹنگز جنہیں ''ویچز سباتھس '' (Witches Sabbaths) کہا جاتا تھا، میں سرانجام دیتی تھیں۔
مذہی عدالتوں کے ذریعے جادوگروں کو دی جانے والی سزاؤں کے ڈانڈے یورپ کی تاریخ کی 12 ویں صدی، جسے ''لیٹ مڈل ایجز'' (Late Middle Ages) کہا جاتا ہے، کے زمانے سے جاملتے ہیں۔ جس میں عیسائیوں کے سب سے بڑے روحانی پیشوا ''پوپ انوسینٹ ہشتم'' (Pope Innocent VIII) نے مذہبی راہنماؤں کو جادوگری کے خلاف اقدامات کے لیے پورے اختیارات دیئے ہوئے اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے احکامات صادر کیے تھے۔ 16 ویں تا 17 ویں صدی کے یورپ میں قدامت پسند عیسائی فرقوں اور ''پروٹیسٹنٹس'' (Protestants) کے درمیان ہونے والی مذہبی فرقہ وارانہ جنگوں کے دوران جادوگری کے سدباب کی کوششیں بھی اپنے عروج کو جاپہنچیں۔ اندازہ ہے کہ 30 تا 60 ہزار افراد جادوگری کے ان مقدمات کی بھینٹ چڑھے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ 1692ء میں صرف امریکی شہر ''سلم'' (Salem) میں ہی درجنوں لوگوں کو جادوگر ہونے کے الزام میں اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اس کے علاوہ قریباً 150 افراد زنداں میں ڈال دیئے گئے۔ امریکی ریاست ''میساچیوسیٹس'' (Massachusetts) کی تاریخ کے اس سیاہ دور میں جادوگری کے الزام میں محض عورتوں کو ہی نشانہ نہیں بنایا گیا (جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے) بلکہ بہت سے مردوں کوبھی شیطان کے چیلے قرار دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ تاہم اس ظلم کا شکار عموماً عورتیں ہی بنیں، جنہیں چڑیل قرار دے کر سولی پر لٹکا دیا یا زندہ جلا دیا گیا۔
دیگر بہت سے افراد فوری مرنے سے تو بچ گئے لیکن ان کی باقی ماندہ زندگیاں قید خانوں میں ہی گزر گئیں۔ یہاں تک کہ ان کو موت نے اس قید سے رہائی دلائی۔افسوسناک بات یہ ہے کہ اس بربریت کی زد میں آنے والے صرف انسان ہی نہ تھے بلکہ جانور بھی اس کی بھینٹ چڑھا دیئے گئے اور ستم ظریفی ملاحظہ کیجئے کہ محض چھوٹے چھوٹے بچوں کی اس گواہی اور بیان دینے پر کہ کتوں نے جادو کے زور پر انہیں کپکپانے اور بعدازاں ان کے جسموں کو پتھر کی طرح سخت بنا دینے پر مجبور کردیا تھا، کئی کتوں کو مار دیا گیا۔ یہ وہی الزام تھا جو اکثر لوگ دوسرے انسانوں پر بھی لگا کر انہیں جادوگر یا جادوگرنی ثابت کرتے تھے۔
ظلم و زیادتی کی انتہا یہ ہے کہ مبینہ جادوگرنی یا وہ لوگ جن پر ملحدانہ عقیدہ رکھنے کا الزام ہوتا تھا، کو ان الزامات کی بنیاد پر سرسری سماعت اور ناکافی ثبوتوں کے باوجود فوراً ہی نظر آتش کردیا جاتا یا سولی پر چڑھا دیا جاتا جبکہ وہ بدنصیب جو اس انجام سے بچ کر قید خانے میں ڈال دیئے جاتے وہ وہیں سسک سسک کر جان دینے پر مجبور ہوجاتے۔
ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ کئی ملزموں کو سنگسار کرکے مار دیا گیا۔محققین کے مطابق اس سب ظلم و ستم کا سبب صرف مذہبی انتہا پسندی ہی نہیں تھی بلکہ اس کے پیچھے نامساعد حالات کی وجہ سے معاشرے میں پائی جانے والی ذہنی کج روی اور بے چینی، ذاتی دشمنیاں اور ضعیف الاعتقادی جیسے عوامل بھی کارفرما تھے، جو لوگوں کو اس بات پر اکساتے تھے کہ وہ کسی پر جادوگر ہونے کا الزام لگا کر اپنا کسی بھی قسم کا ذاتی، معاشی، معاشرتی یا سماجی غبار اس بیہمانہ طریقے سے نکال کر اپنا کلیجہ ٹھنڈا کرسکیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کسی عورت پر جادوگرنی ہونے کا الزام لگانے والی زیادہ تر نوجوان لڑکیاں تھیں۔ اندازہ ہے کہ وہ لڑکیاں ان عورتوں کی شخصیت سے کسی بھی وجہ سے حسد محسوس کرتی تھیں۔
اس موضوع پر تحقیق کرنے والوں کا خیال ہے کہ اس زمانے میں کیونکہ طب نے اتنی ترقی نہیں کی تھی اور شہروں اور قصبوں میں صفائی ستھرائی کی کمی، گندگی، حفظان صحت کے اصولوں کی عدم پاسداری اور سہولیات کے فقدان کے باعث جنم لینے والی بیماریوں مثلاً تشنج اور چیچک وغیرہ کی کیفیات اور علامات کو کسی جادوگر کی کارستانی قرار دے کر کسی پر بھی اس کا الزام دھر دیا جاتا، حالانکہ الزام کے پس پردہ حقائق کچھ اور ہوتے تھے اور یوں وہ غریب مارا جاتا۔
البتہ تصویر کا دوسرا یہ رخ بھی مدنظر رہے کہ یہ یقین سے نہیں کہا جاتا سکتا کہ اس مکروہ الزام کا سامنا کرنے والے تمام افراد ہی بے گناہ ہوتے تھے۔ یقینا ان میں سے کئی درحقیقت شیطان کے پجاری بھی تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ اعتراف بھی کرلیتے تاہم یہ دوسری بات ہے کہ اعتراف کرنے والے اکثر بے گناہ اس لیے بھی ایسا کرتے تھے تاکہ انہیں کم سزا ملے، کیونکہ اپنے آپ کو گناہ گار نہ ماننے والوں کو ساتھ اور بھی زیادہ تشدد اور مارپیٹ ہوتی تھی اور آخر کار انہیں سزا کا سامنا تو کرنا ہی پڑتا تھا۔ اکثر واقعات میں اعتراف جرم کرنے والا اپنے ساتھ کئی دوسرے لوگوں کو بھی ملوث قرار دے کر انہیں بھی پھنسوا دیتا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ وہ ایسا انتقاماً کرتا یا مجبوراً۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ امریکہ کی کئی ریاستوں میں سرکاری طورپر انتظامیہ نے ان جرائم پر 1957ء تک عوام سے معافی نہیں مانگی۔
تاہم ان تمام مظلوموں کو بعدازاں سرکاری سطح پر بے گناہ تسلیم کرکے ناصرف ان کی دوبارہ باعزت تدفین کی گئی بلکہ ان کے لواحقین کو معاوضے بھی ادا کرنے کے اقدامات کیے گئے۔ لگ بھگ اسی زمانے میں انگلستان میں بھی اس پر عمل کیا گیا۔یہ حقیقت بھی تسلیم کی جانی چاہیے کہ جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ اس دور کے ساری مذہبی راہنما ان وحشیانہ اقدامات کے ذمہ دار تھے، تو ایسا نہیں ہے۔ ان مذہبی رہنماؤں میں سے چند ایسے بھی تھے جو باقاعدہ صحیح تفتیش کے بغیر ملزموں کو سزا دینے کے خلاف تھے۔
اس طرح کے واقعات میں ستم بالائے ستم یہ بھی ہوتا تھا کہ ضروری نہیں کہ سب ملزموں کو ان کے خلاف باقاعدہ مقدمہ چلا کر ہی سزا دی گئی ہو اور انصاف کے تقاضے پورے کیے گئے ہوں۔ ایک بوڑھے شخص پر جب جادوگر ہونے کا الزام لگایا گیا تو اس نے اپنے جرم کو ماننے سے انکار کیا لیکن اپنی صفائی میں کچھ بھی نہ کہا۔ ثبوتوں کی عدم دستیابی کے باوجود اس کو مجرم قرار دے دیا گیا اور پتھر مار مار کر سنگسار کردیا گیا۔گو اس دور میں اس الزام کے تحت پھانسی پر لٹکائے جانے والوں، زندہ جلائے جانے والوں یا سنگسار اور قید کیے جانے والوں کی موت کسی المیے سے کم نہیں۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سزا پانے والوں کی نسبت ان ملزموں کی تعداد زیادہ ہے جنہیں معاف کردیا گیا مگر سزا سے بچ جانے والے ان ملزموں میں بھی ان لوگوں کی اکثریت تھی جو کسی نہ کسی طرح قید خانے سے فرار ہوجانے میں کامیاب ہوگئے۔
.zeeshanbaig@express.com.pk
وہ معاشرے جن میں تعلیم عام نہ ہو، اسی طرح کے توہمات کا شکار رہتے ہیں۔ انسانی فطرت میں حسد و بغض کا جذبہ موجود ہے، جس کی وجہ سے انسان جادو کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کے جتن کرتا ہے یا پھر اپنی ناآسودہ خواہشات کی فوری تکمیل کے در پر رہنے کے سبب کسی شارٹ کٹ یا مختصر راستے کی تلاش اسے اس طرح کے قبیح افعال کی طرف مائل کرتی ہے۔
اسی لیے ہمارے دین اسلام نے، جو دین فطرت ہے، ہمیں یہ تاکید کی ہے کہ ہم حسد، جلن اور بغض وغیرہ جیسی برائیوں سے بچیں اور اسلام کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر چلیں اور صرف اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں کیونکہ سب کچھ کرنے کا حقیقی اختیار تو صرف اسی کے پاس ہے۔اس کے باوجود زمانۂ قدیم سے ہی اکثر لوگ جادو کا علم سیکھنے اور جادوگر بننے کی طرف مائل ہوتے رہے جبکہ دوسری طرف مذہبی طبقات ان کے خلاف صف آرا ہوکر اس کے خاتمے اور معاشرے کو اس کے مضر اثرات سے بچانے کی جدوجہد میں مصروف رہے۔
تاہم اس کشمکش میں ایک دور ایسا بھی آیا جس میں جادو کی روک تھام کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں میں ظلم و زیادتی اور تشدد کا عنصر شامل ہوگیا اور بظاہر ایک اچھے مقصد کے حصول کے نیک کام میں ذاتی منفعت ومفاد جیسے عوامل نے ایک خاص طبقے کو مذہب کا نام استعمال کرکے اپنی حیثیت کو مستحکم کرنے اور خود کو دوسروں سے ممتاز ظاہر کرکے اپنے مفادات کے تحفظ جیسے مقاصد کو حاصل کرنے کی راہ پر گامزن کردیا۔
اس ضمن میں یورپ کی تاریخ کا 15 ویں صدی سے 18 ویں صدی تک کا زمانہ بطور خاص نہایت اہمیت کا حامل ہے جسے ''ارلی ماڈرن یورپ'' (Early Modern Europe) کہا جاتا ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے کہ جب ''مڈل ایجز'' (Middle Ages) کا دور اختتام پذیر جبکہ ''صنعتی انقلاب'' (Industrial Revolution) کے زمانے کا آغاز ہورہا تھا۔ اسی دور میں یورپ بھر میں بالخصوص اور تمام مغربی دنیا میں بالعموم وسیع پیمانے پر یہ خوف اپنے پنجے گاڑنے لگا کہ معاشرے کو شیطانی قوتوں سے شدید خطرات لاحق ہیں، جو اپنے آپ کو منظم کرنے کے لیے کوشاں اور پس پردہ اپنے غلبے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔
عام تاثر یہ تھا کہ عیسائت خطرے میں ہے اور شیطان اپنی آلہ کار عورتوں یعنی جادوگرنیوں کو اس سلسلے میں بروئے کار لاکر اپنا مشن آگے بڑھا رہا ہے۔ اب یہ تو معلوم نہیں کہ اس بات میں کتنی صداقت تھی تاہم اس دور کا مذہبی طبقہ خم ٹھونک کر اس برائی کے سدباب کیلئے میدان میں کود پڑا اور جن لوگوں پر بھی شیطان کا پیروکار اور جادوگر ہونے کا ذرا سا بھی شبہ ہوا یا اس پر ایسا الزام لگا، اس کو سرسری سماعت کی مذہبی عدالتوں سے سولی دیئے جانے یا آگ میں زندہ جلائے جانے کی سزائیں دی جانے لگیں۔
کئی لوگوں کو سنگسار کیا گیا اور بہت سوں کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ ملزموں کی اکثریت یعنی تقریباً 75 فیصد عورتوں پر مشتمل تھی۔ جن کے متعلق خیال تھا کہ وہ جادوگرنیاں ہیں اور اپنے جادو کے ذریعے لوگوں کو بیمار یا زخمی کردیتی ہیں۔ مبینہ طور پر وہ یہ عمل اپنی خفیہ میٹنگز جنہیں ''ویچز سباتھس '' (Witches Sabbaths) کہا جاتا تھا، میں سرانجام دیتی تھیں۔
مذہی عدالتوں کے ذریعے جادوگروں کو دی جانے والی سزاؤں کے ڈانڈے یورپ کی تاریخ کی 12 ویں صدی، جسے ''لیٹ مڈل ایجز'' (Late Middle Ages) کہا جاتا ہے، کے زمانے سے جاملتے ہیں۔ جس میں عیسائیوں کے سب سے بڑے روحانی پیشوا ''پوپ انوسینٹ ہشتم'' (Pope Innocent VIII) نے مذہبی راہنماؤں کو جادوگری کے خلاف اقدامات کے لیے پورے اختیارات دیئے ہوئے اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے احکامات صادر کیے تھے۔ 16 ویں تا 17 ویں صدی کے یورپ میں قدامت پسند عیسائی فرقوں اور ''پروٹیسٹنٹس'' (Protestants) کے درمیان ہونے والی مذہبی فرقہ وارانہ جنگوں کے دوران جادوگری کے سدباب کی کوششیں بھی اپنے عروج کو جاپہنچیں۔ اندازہ ہے کہ 30 تا 60 ہزار افراد جادوگری کے ان مقدمات کی بھینٹ چڑھے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ 1692ء میں صرف امریکی شہر ''سلم'' (Salem) میں ہی درجنوں لوگوں کو جادوگر ہونے کے الزام میں اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اس کے علاوہ قریباً 150 افراد زنداں میں ڈال دیئے گئے۔ امریکی ریاست ''میساچیوسیٹس'' (Massachusetts) کی تاریخ کے اس سیاہ دور میں جادوگری کے الزام میں محض عورتوں کو ہی نشانہ نہیں بنایا گیا (جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے) بلکہ بہت سے مردوں کوبھی شیطان کے چیلے قرار دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ تاہم اس ظلم کا شکار عموماً عورتیں ہی بنیں، جنہیں چڑیل قرار دے کر سولی پر لٹکا دیا یا زندہ جلا دیا گیا۔
دیگر بہت سے افراد فوری مرنے سے تو بچ گئے لیکن ان کی باقی ماندہ زندگیاں قید خانوں میں ہی گزر گئیں۔ یہاں تک کہ ان کو موت نے اس قید سے رہائی دلائی۔افسوسناک بات یہ ہے کہ اس بربریت کی زد میں آنے والے صرف انسان ہی نہ تھے بلکہ جانور بھی اس کی بھینٹ چڑھا دیئے گئے اور ستم ظریفی ملاحظہ کیجئے کہ محض چھوٹے چھوٹے بچوں کی اس گواہی اور بیان دینے پر کہ کتوں نے جادو کے زور پر انہیں کپکپانے اور بعدازاں ان کے جسموں کو پتھر کی طرح سخت بنا دینے پر مجبور کردیا تھا، کئی کتوں کو مار دیا گیا۔ یہ وہی الزام تھا جو اکثر لوگ دوسرے انسانوں پر بھی لگا کر انہیں جادوگر یا جادوگرنی ثابت کرتے تھے۔
ظلم و زیادتی کی انتہا یہ ہے کہ مبینہ جادوگرنی یا وہ لوگ جن پر ملحدانہ عقیدہ رکھنے کا الزام ہوتا تھا، کو ان الزامات کی بنیاد پر سرسری سماعت اور ناکافی ثبوتوں کے باوجود فوراً ہی نظر آتش کردیا جاتا یا سولی پر چڑھا دیا جاتا جبکہ وہ بدنصیب جو اس انجام سے بچ کر قید خانے میں ڈال دیئے جاتے وہ وہیں سسک سسک کر جان دینے پر مجبور ہوجاتے۔
ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ کئی ملزموں کو سنگسار کرکے مار دیا گیا۔محققین کے مطابق اس سب ظلم و ستم کا سبب صرف مذہبی انتہا پسندی ہی نہیں تھی بلکہ اس کے پیچھے نامساعد حالات کی وجہ سے معاشرے میں پائی جانے والی ذہنی کج روی اور بے چینی، ذاتی دشمنیاں اور ضعیف الاعتقادی جیسے عوامل بھی کارفرما تھے، جو لوگوں کو اس بات پر اکساتے تھے کہ وہ کسی پر جادوگر ہونے کا الزام لگا کر اپنا کسی بھی قسم کا ذاتی، معاشی، معاشرتی یا سماجی غبار اس بیہمانہ طریقے سے نکال کر اپنا کلیجہ ٹھنڈا کرسکیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کسی عورت پر جادوگرنی ہونے کا الزام لگانے والی زیادہ تر نوجوان لڑکیاں تھیں۔ اندازہ ہے کہ وہ لڑکیاں ان عورتوں کی شخصیت سے کسی بھی وجہ سے حسد محسوس کرتی تھیں۔
اس موضوع پر تحقیق کرنے والوں کا خیال ہے کہ اس زمانے میں کیونکہ طب نے اتنی ترقی نہیں کی تھی اور شہروں اور قصبوں میں صفائی ستھرائی کی کمی، گندگی، حفظان صحت کے اصولوں کی عدم پاسداری اور سہولیات کے فقدان کے باعث جنم لینے والی بیماریوں مثلاً تشنج اور چیچک وغیرہ کی کیفیات اور علامات کو کسی جادوگر کی کارستانی قرار دے کر کسی پر بھی اس کا الزام دھر دیا جاتا، حالانکہ الزام کے پس پردہ حقائق کچھ اور ہوتے تھے اور یوں وہ غریب مارا جاتا۔
البتہ تصویر کا دوسرا یہ رخ بھی مدنظر رہے کہ یہ یقین سے نہیں کہا جاتا سکتا کہ اس مکروہ الزام کا سامنا کرنے والے تمام افراد ہی بے گناہ ہوتے تھے۔ یقینا ان میں سے کئی درحقیقت شیطان کے پجاری بھی تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ اعتراف بھی کرلیتے تاہم یہ دوسری بات ہے کہ اعتراف کرنے والے اکثر بے گناہ اس لیے بھی ایسا کرتے تھے تاکہ انہیں کم سزا ملے، کیونکہ اپنے آپ کو گناہ گار نہ ماننے والوں کو ساتھ اور بھی زیادہ تشدد اور مارپیٹ ہوتی تھی اور آخر کار انہیں سزا کا سامنا تو کرنا ہی پڑتا تھا۔ اکثر واقعات میں اعتراف جرم کرنے والا اپنے ساتھ کئی دوسرے لوگوں کو بھی ملوث قرار دے کر انہیں بھی پھنسوا دیتا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ وہ ایسا انتقاماً کرتا یا مجبوراً۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ امریکہ کی کئی ریاستوں میں سرکاری طورپر انتظامیہ نے ان جرائم پر 1957ء تک عوام سے معافی نہیں مانگی۔
تاہم ان تمام مظلوموں کو بعدازاں سرکاری سطح پر بے گناہ تسلیم کرکے ناصرف ان کی دوبارہ باعزت تدفین کی گئی بلکہ ان کے لواحقین کو معاوضے بھی ادا کرنے کے اقدامات کیے گئے۔ لگ بھگ اسی زمانے میں انگلستان میں بھی اس پر عمل کیا گیا۔یہ حقیقت بھی تسلیم کی جانی چاہیے کہ جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ اس دور کے ساری مذہبی راہنما ان وحشیانہ اقدامات کے ذمہ دار تھے، تو ایسا نہیں ہے۔ ان مذہبی رہنماؤں میں سے چند ایسے بھی تھے جو باقاعدہ صحیح تفتیش کے بغیر ملزموں کو سزا دینے کے خلاف تھے۔
اس طرح کے واقعات میں ستم بالائے ستم یہ بھی ہوتا تھا کہ ضروری نہیں کہ سب ملزموں کو ان کے خلاف باقاعدہ مقدمہ چلا کر ہی سزا دی گئی ہو اور انصاف کے تقاضے پورے کیے گئے ہوں۔ ایک بوڑھے شخص پر جب جادوگر ہونے کا الزام لگایا گیا تو اس نے اپنے جرم کو ماننے سے انکار کیا لیکن اپنی صفائی میں کچھ بھی نہ کہا۔ ثبوتوں کی عدم دستیابی کے باوجود اس کو مجرم قرار دے دیا گیا اور پتھر مار مار کر سنگسار کردیا گیا۔گو اس دور میں اس الزام کے تحت پھانسی پر لٹکائے جانے والوں، زندہ جلائے جانے والوں یا سنگسار اور قید کیے جانے والوں کی موت کسی المیے سے کم نہیں۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سزا پانے والوں کی نسبت ان ملزموں کی تعداد زیادہ ہے جنہیں معاف کردیا گیا مگر سزا سے بچ جانے والے ان ملزموں میں بھی ان لوگوں کی اکثریت تھی جو کسی نہ کسی طرح قید خانے سے فرار ہوجانے میں کامیاب ہوگئے۔
.zeeshanbaig@express.com.pk