چینی قونصل خانے پر پاکستان دشمنوں کی یلغار
دہشت گردی کی اس کارروائی میں چینی قونصل جنرل سمیت تمام عملہ محفوظ رہا۔
کراچی میں گذشتہ روز صبح سویرے بلوچستان لبریشن آرمی سے تعلق رکھنے والے تین دہشت گردوں نے پاک چین دوستی کو سبوتاژ کرنے کے لیے کلفٹن کے علاقے میں واقع چینی سفارت خانے میں داخل ہوکر عملے کو یرغمال بنانے کی کوشش کی تاہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بروقت کارروائی کے نتیجے میں تینوں حملہ آور جاں بحق ہوگئے جب کہ سفارت خانے میں ویزے کے حصول کے لیے آنے والے دو شہریوں اور دو پولیس اہل کاروں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔
کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ کلفٹن کے علاقے میں واقع چینی قونصل خانے پر مسلح افراد کے حملے کو ناکام بنا دیا گیا ہے اور اس کارروائی میں سات افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
ایڈیشنل آئی جی کراچی امیر شیخ کے مطابق حملہ آوروں نے سفارت خانے میں داخل ہونے سے قبل دستی بموں سے حملہ کیا جس کے بعد عمارت کی سیکیوریٹی پر مامور اہل کاروں اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوگیا۔ ان کا کہنا ہے کہ حملہ آور قونصل خانے کے احاطے میں داخل ہونے میں کام یاب ہوگئے تھے لیکن انہیں مرکزی عمارت میں داخل ہونے سے قبل ہی مار دیا گیا۔ ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کے پاس سے دو خودکش جیکٹیں اور اسلحہ برآمد ہوا۔
دہشت گردی کی اس کارروائی میں چینی قونصل جنرل سمیت تمام عملہ محفوظ رہا۔ بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے چینی سفارت خانے پر حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے کہا ''اس حملے میں ہلاک ہونے والے تینوں دہشت گردوں کا تعلق بی ایل کے کے مجید بریگیڈ کے فدائین سے تھا۔''
وزیراعظم عمران خان نے چینی قونصل خانے پر حملے کو پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے خلاف سازش قرار دیتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ ہم سی پیک منصوبے کو ناکام بنانے کی تمام تر کوششوں کو ناکام بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے واقعات سے پاک چین تعلقات کو خراب نہیں کیا جاسکتا۔ وزیراعظم نے چینی سفارت خانے پر حملے کی مکمل تحقیقات اور اس کے پیچھے چھپے عناصر کو بھی بے نقاب کرنے کا حکم بھی دیا۔
دوسری جانب انڈیا نے بھی کراچی میں چینی قونصل خانے پر دہشت گردوں کے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ امریکا کے چارجڈ افیئرز (سی ڈی اے) سفارت کار پال جونز نے اسلام آباد میں قائم امریکی سفارت خانے کی جانب سے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ 'امریکا، کراچی میں قائم چینی قونصل خانے پر حملے کی پُرزور مذمت کرتا ہے۔' بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار کی جانب سے جاری ہونے والے بیان اس کارروائی کی پُرزور مذمت کرتے ہوئے قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کی کسی بھی کارروائی کی کوئی توجیح پیش نہیں کی جاسکتی، اور اس گھناؤنے حملے کے منصوبہ سازوں کو فوراً انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہیے، جب کہ چین نے اپنے سفارت خانے پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے بروقت کارروائی کرنے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سراہتے ہوئے چینی شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کی درخواست کی ہے۔
بیان میں دو پاکستانی پولیس اہل کاروں کی شہادت پر اظہار افسوس کرتے ہوئے واضح کیا کہ پاک چین تعلقات کو نقصان پہنچانے کی ہر کوشش ناکام ہوگی۔ واضح رہے کہ رواں سال فروری میں پاکستان میں چین کے سفیر یاؤ ژینگ نے میڈیا سے گفت گو میں کہا تھا کہ اب سی پیک کو بلوچستان میں متحرک بلوچ علحیدگی پسند تحریک سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ بلوچستان میں متحرک بلوچ کالعدم تنظیمیں نہ صرف سی پیک کے خلاف بیانات دیتی رہی ہیں بلکہ ان کی جانب سے سی پیک منصوبے پر کام کرنے والے مزدوروں پر حملے بھی کیے گئے ہیں۔
اس وقت سی پیک منصوبے پر پاکستان میں تقریباً دس ہزار چینی اور ساٹھ ہزار پاکستانی کام کر رہے ہیں۔ سی پیک منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے چینی اور پاکستانی شہریوں کی جان و مال کا تحفظ حکومت وقت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ کلفٹن کے علاقے میں واقع چینی قونصل خانے پر مسلح افراد کے حملے کو ناکام بنا دیا گیا ہے اور اس کارروائی میں سات افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
ایڈیشنل آئی جی کراچی امیر شیخ کے مطابق حملہ آوروں نے سفارت خانے میں داخل ہونے سے قبل دستی بموں سے حملہ کیا جس کے بعد عمارت کی سیکیوریٹی پر مامور اہل کاروں اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوگیا۔ ان کا کہنا ہے کہ حملہ آور قونصل خانے کے احاطے میں داخل ہونے میں کام یاب ہوگئے تھے لیکن انہیں مرکزی عمارت میں داخل ہونے سے قبل ہی مار دیا گیا۔ ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کے پاس سے دو خودکش جیکٹیں اور اسلحہ برآمد ہوا۔
دہشت گردی کی اس کارروائی میں چینی قونصل جنرل سمیت تمام عملہ محفوظ رہا۔ بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے چینی سفارت خانے پر حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے کہا ''اس حملے میں ہلاک ہونے والے تینوں دہشت گردوں کا تعلق بی ایل کے کے مجید بریگیڈ کے فدائین سے تھا۔''
وزیراعظم عمران خان نے چینی قونصل خانے پر حملے کو پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے خلاف سازش قرار دیتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ ہم سی پیک منصوبے کو ناکام بنانے کی تمام تر کوششوں کو ناکام بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے واقعات سے پاک چین تعلقات کو خراب نہیں کیا جاسکتا۔ وزیراعظم نے چینی سفارت خانے پر حملے کی مکمل تحقیقات اور اس کے پیچھے چھپے عناصر کو بھی بے نقاب کرنے کا حکم بھی دیا۔
دوسری جانب انڈیا نے بھی کراچی میں چینی قونصل خانے پر دہشت گردوں کے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ امریکا کے چارجڈ افیئرز (سی ڈی اے) سفارت کار پال جونز نے اسلام آباد میں قائم امریکی سفارت خانے کی جانب سے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ 'امریکا، کراچی میں قائم چینی قونصل خانے پر حملے کی پُرزور مذمت کرتا ہے۔' بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار کی جانب سے جاری ہونے والے بیان اس کارروائی کی پُرزور مذمت کرتے ہوئے قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کی کسی بھی کارروائی کی کوئی توجیح پیش نہیں کی جاسکتی، اور اس گھناؤنے حملے کے منصوبہ سازوں کو فوراً انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہیے، جب کہ چین نے اپنے سفارت خانے پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے بروقت کارروائی کرنے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سراہتے ہوئے چینی شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کی درخواست کی ہے۔
بیان میں دو پاکستانی پولیس اہل کاروں کی شہادت پر اظہار افسوس کرتے ہوئے واضح کیا کہ پاک چین تعلقات کو نقصان پہنچانے کی ہر کوشش ناکام ہوگی۔ واضح رہے کہ رواں سال فروری میں پاکستان میں چین کے سفیر یاؤ ژینگ نے میڈیا سے گفت گو میں کہا تھا کہ اب سی پیک کو بلوچستان میں متحرک بلوچ علحیدگی پسند تحریک سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ بلوچستان میں متحرک بلوچ کالعدم تنظیمیں نہ صرف سی پیک کے خلاف بیانات دیتی رہی ہیں بلکہ ان کی جانب سے سی پیک منصوبے پر کام کرنے والے مزدوروں پر حملے بھی کیے گئے ہیں۔
اس وقت سی پیک منصوبے پر پاکستان میں تقریباً دس ہزار چینی اور ساٹھ ہزار پاکستانی کام کر رہے ہیں۔ سی پیک منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے چینی اور پاکستانی شہریوں کی جان و مال کا تحفظ حکومت وقت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔