مشرف کے ٹرائل پرلبرل اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے تذبذب کا شکار
لبرل کیس کو 12 اکتوبر تک پھیلانا چاہتے ہیں، ن لیگ صرف مشرف تک محدود رہنا چاہتی ہے
سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف کیخلاف 3 نومبر کے اقدامات پر غداری کا کیس بنانے کے حوالے سے ایف آئی اے کی4 رکنی ٹیم بننے پر لبرل اور دائیں بازو کے لوگ کنفیوژ دکھائی دے رہے ہیں۔
پیپلزپارٹی کے رہنما مخدوم امین فہیم اور سابق سربراہ ہیومن رائٹس کیمشن کے بیانات حیران کن ہیں کہ کیس کا آغاز 12اکتوبر 1999ء سے کیا جائے، ان کے علاوہ کچھ اور لبرل شخصیات نے بھی تمام آمروں یا 12اکتوبر سے کیس شروع کرنے کا مطالبہ کرکے مشرف کو بالواسطہ مدد دی ہے جبکہ دوسری طرف چوہدری نثار اور مسلم لیگ کے دیگر رہنمااور کچھ اور دائیں بازو کے لوگ مشرف کا کیس باقی تمام معاملات سے الگ کرنا چاہتے ہیں اور صرف 3 نومبرکے اقدامات پر توجہ مرکوزکرنا چاہتے ہیں۔ پروگریسو اور لبرل دوستوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ 12 اکتوبر1999ء کے ٹیک اوور پر پیپلزپارٹی کا فوری ردعمل مذمت نہیں بلکہ ویلکم تھا۔
پیپلزپارٹی نے1993ء میں نواز شریف کیخلاف ایکشن کی بھی حمایت کی تھی، این آر اوے کالے قانون کا پیپلزپارٹی پارلیمنٹ میں دفاع کرسکی نہ سپریم کورٹ میں۔ اینٹی اسٹیبلشمنٹ کے طور پر ابھرنے والی پیپلزپارٹی نے1988ء کے بعد بہت سے سمجھوتے کیے۔ اب مشرف بینظیر قتل کیس میں بھی مرکزی ملزم ہیں مگر پیپلزپارٹی نے اس معاملے کو بھی دبا دیا ہے، یہاں تک کہ سابق وزیر داخلہ رحمن ملک نے5 سال بعداپنا بیان ریکارڈ کرایا۔ پیپلزپارٹی نے اصغر خان کیس کی روشنی میں اسلم بیگ اور اسد درانی کیخلاف بھی کوئی کارروائی نہیں کی۔ عاصمہ جہانگیر کو3 نومبر کے اقدامات میں ملوث دیگر افرادکیخلاف کارروائی کا مطالبہ کرنا چاہیے ناں کہ12 اکتوبر کا۔ دائیں بازو کے دوست مشرف کے معاملے کودیگر سے الگ کرکے اپنے کچھ دوستوں کو بچانا چاہتے ہیں۔
لبرل اور دایاں بازو آرٹیکل6 کے اس پہلے کیس کو متنازع بنایا چاہتے ہیں، پہلے ایف آئی اے کو غیرجانبدارانہ طور پر انکوائری مکمل کرنا چاہیے، کیس اسی انکوائری کے نتائج پر بنے گا، حکومت اور عدالت کو مشرف کے خدشات پر بھی توجہ دینی چاہیے، جیسے کہ وہ کہہ چکے ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف اور سپریم کورٹ ان کیخلاف ہیں۔ وکلا تحریک میں پیش پیش رہنے والے اور مشرف کی زیادتیوں کا نشانہ بننے والے ججزکو اس کیس کی سماعت کیلیے بننے والے بینچ کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ آمر کیساتھ ویسا سلوک نہ کیا جائے جیسا آمر نے اپنے مخالفوں کیساتھ کیاکیونکہ جمہوریت اور آمریت میں فرق ہونا چاہیے۔
پیپلزپارٹی کے رہنما مخدوم امین فہیم اور سابق سربراہ ہیومن رائٹس کیمشن کے بیانات حیران کن ہیں کہ کیس کا آغاز 12اکتوبر 1999ء سے کیا جائے، ان کے علاوہ کچھ اور لبرل شخصیات نے بھی تمام آمروں یا 12اکتوبر سے کیس شروع کرنے کا مطالبہ کرکے مشرف کو بالواسطہ مدد دی ہے جبکہ دوسری طرف چوہدری نثار اور مسلم لیگ کے دیگر رہنمااور کچھ اور دائیں بازو کے لوگ مشرف کا کیس باقی تمام معاملات سے الگ کرنا چاہتے ہیں اور صرف 3 نومبرکے اقدامات پر توجہ مرکوزکرنا چاہتے ہیں۔ پروگریسو اور لبرل دوستوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ 12 اکتوبر1999ء کے ٹیک اوور پر پیپلزپارٹی کا فوری ردعمل مذمت نہیں بلکہ ویلکم تھا۔
پیپلزپارٹی نے1993ء میں نواز شریف کیخلاف ایکشن کی بھی حمایت کی تھی، این آر اوے کالے قانون کا پیپلزپارٹی پارلیمنٹ میں دفاع کرسکی نہ سپریم کورٹ میں۔ اینٹی اسٹیبلشمنٹ کے طور پر ابھرنے والی پیپلزپارٹی نے1988ء کے بعد بہت سے سمجھوتے کیے۔ اب مشرف بینظیر قتل کیس میں بھی مرکزی ملزم ہیں مگر پیپلزپارٹی نے اس معاملے کو بھی دبا دیا ہے، یہاں تک کہ سابق وزیر داخلہ رحمن ملک نے5 سال بعداپنا بیان ریکارڈ کرایا۔ پیپلزپارٹی نے اصغر خان کیس کی روشنی میں اسلم بیگ اور اسد درانی کیخلاف بھی کوئی کارروائی نہیں کی۔ عاصمہ جہانگیر کو3 نومبر کے اقدامات میں ملوث دیگر افرادکیخلاف کارروائی کا مطالبہ کرنا چاہیے ناں کہ12 اکتوبر کا۔ دائیں بازو کے دوست مشرف کے معاملے کودیگر سے الگ کرکے اپنے کچھ دوستوں کو بچانا چاہتے ہیں۔
لبرل اور دایاں بازو آرٹیکل6 کے اس پہلے کیس کو متنازع بنایا چاہتے ہیں، پہلے ایف آئی اے کو غیرجانبدارانہ طور پر انکوائری مکمل کرنا چاہیے، کیس اسی انکوائری کے نتائج پر بنے گا، حکومت اور عدالت کو مشرف کے خدشات پر بھی توجہ دینی چاہیے، جیسے کہ وہ کہہ چکے ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف اور سپریم کورٹ ان کیخلاف ہیں۔ وکلا تحریک میں پیش پیش رہنے والے اور مشرف کی زیادتیوں کا نشانہ بننے والے ججزکو اس کیس کی سماعت کیلیے بننے والے بینچ کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ آمر کیساتھ ویسا سلوک نہ کیا جائے جیسا آمر نے اپنے مخالفوں کیساتھ کیاکیونکہ جمہوریت اور آمریت میں فرق ہونا چاہیے۔