انسانی اعضاء کی خرید و فروخت کا دھندا

انسانی اعضاء کی غیر قانونی پیوندکاری کو گلوبلائزیشن کی وجہ سے بڑھاوا ملا ہے۔


Editorial November 25, 2018
انسانی اعضاء کی غیر قانونی پیوندکاری کو گلوبلائزیشن کی وجہ سے بڑھاوا ملا ہے۔ فوٹو: فائل

انسانی اعضاء کی خرید و فروخت اگرچہ ہمارے ملک میں سختی سے غیر قانونی اور قابل تعدیب کام ہے مگر اس کے باوجود چُھپ چُھپا کر یہ غیر قانونی دھندہ بدستور جاری و ساری ہے جس کے ملزم اس وقت گرفت میں آتے ہیں جب پیوند کاری میں اناڑی پن کی وجہ سے یا بے احتیاطی کے نتیجے میں کسی مریض کی جان چلی جاتی ہے۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں یہ دھندا بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔

بتایا گیا ہے کہ انسانی اعضاء کی غیر قانونی پیوندکاری کو گلوبلائزیشن کی وجہ سے بڑھاوا ملا ہے جس میں ایک طرف غریب ترین لوگ اپنے جسمانی اعضاء فروخت کرتے ہیں جنھیں بالعموم امیر ترین لوگ خرید لیتے ہیں۔ یہ خریدے اور فروخت کیے جانے والے مال کی قلت اور دوسری طرف سے استحصال کا ایسا ہولناک نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ جسے افسوسناک ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔

ورلڈ ہیلتھ اسمبلی نے 2010 میں اپنے رکن ممالک پر زور دیا تھا کہ وہ انسانی اعضاء کی مجرمانہ خرید و فروخت کو روکنے کے لیے سخت انتظامات کریں جس کی وجہ سے کئی بے گناہ انسانی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ حکومت کو اس حوالے سے لوگوں میں شعور بیدار کرنے کے لیے مہم شروع کرنی چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔