سندھ کالے یرقان کی لپیٹ میں

دنیا میں آگاہی پھیلانے اور اس کے تدارک و علاج کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات اور فنڈنگ ہو رہی ہے۔



صدیوںمشہور ہے کہ بہادر لوگ ''خاصہ جگر '' رکھتے ہیں اور اہلیان ِ سندھ کا ماضی گواہ ہے کہ وہ صدیوں سے مزاحمت کی علامت بن کر جیتے آئے ہیں ۔اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے توسندھ میں عشروں سے لوگوں کے جگر خراب کرنے کی حکومتی سازش کی بُو آرہی ہے ۔ شاید وہ چاہتی ہے کہ اہلیان ِ سندھ کے پاس وہ ''جگرا'' ہی نہ رہے جس کی بنیاد پر وہ برداشت اورمزاحمتی شناخت کی حامل قوم کے طور پر مشہور ہے۔

یہ بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جگر کی بیماری ہیپاٹائٹس C- سندھ بھر میں تیزی سے پھیلتی جارہی ہے اور یہ بیماری قدرتی نہیں لگ رہی ، یہ تو انتظامی غفلت اور معاشرتی و غذائی تباہ کاریوں کا نتیجہ ہے ۔ جسے اگر حکومت چاہے تو آسانی سے کنٹرول کرسکتی ہے لیکن سندھ کے دیگر مسائل کی طرح اس مرض کی جانب بھی روایتی چشم پوشی و لاپرواہی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے ۔ کالا یرقان جو آج کل ہیپاٹائٹس C- کے نام سے مشہور مرض کی شکل اختیار کرچکا ہے۔

ماہر ڈاکٹروں کی جانب سے اس مرض کے ہونے کے بنیادی اسباب آلودہ اور غیرمعیاری پانی و دوسری غذائی اشیاء بالخصوص گھی و تیل کا بڑے پیمانے پر استعمال بتائے جاتے ہیں ۔ صوبہ میں عطائی ڈاکٹرز ، نائی ، غیر معیاری اور جعلی ادویات بھی اس بیماری کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کررہی ہیں ۔

دنیا بھر میں ہیپا ٹائٹس سی کے مریضوں کی تعداد 35کروڑ ہے جب کہ یہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے خصوصاً ترقی پذیر ممالک میں یہ مرض تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ پاکستان میں اس مرض سے متاثر مریضوں کا درست ڈیٹا موجود نہیں لیکن مختلف سرویز کی بنیاد پر اندازاً ڈھائی کروڑ لوگ اس مرض کا شکار بتائے جارہے ہیں ۔بروقت علاج نہ ہونے سے اس سے جگر کا کینسر بھی بڑھتا جا رہا ہے۔

پاکستان میں یہ متاثرہ خون لگوانے ، غیر فطری و غیر محفوظ جنسی عمل ، انجیکشن لگوانے کے دوران استعمال شدہ سرنج کے استعمال ، استعمال شدہ بلیڈ کے استعمال کان،ناک اور دانتوں کے علاج میں استعمال ہونیوالے غیرمحفوظ و غیرمعیاری آلات کے استعمال، ناک کان چھدواتے وقت استعمال شدہ سوئی کے استعمال اور ہسپتالوں میں آپریشن تھیٹر میں غیر محفوظ آلات و ماحول سے زچگی کے دوران ماں سے نومولود بچے میں پھیلنے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔ لیکن اس کے پھیلاؤ کو صرف تھوڑی سی احتیاط اور نظم و ضبط کی حامل زندگی گذارنے سے روکاجاسکتا ہے ۔

گڈ گورننس یعنی اچھی طرز ِ حکمرانی سے اس مرض پر باآسانی قابو پایا جاسکتا ہے ۔ لیکن صوبہ سندھ میں صحت و صفائی کی بدترین صورتحال امراض کو پھیلانے کا باعث بن رہی ہے اور خیر سے سندھ میں بیڈ گورننس یعنی خراب طرز حکمرانی تو دنیا پر آشکار ہو ہی چکی ہے بلکہ اس میں تو ریکارڈز قائم کرنے کے مقابلے زوروں پر ہیں ۔ کیا شہری و صوبائی حکومت اور کیا وفاقی حکومت ، سب کے سب اس کے ذمے دار ہیں ۔ یوں تو ملک بھر میں لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں لیکن صوبہ سندھ میں تو لوگ غلاظت ملا پانی پینے پر مجبور ہیں ۔

اسی طرح سندھ میں محکمہ صحت کی کارکردگی بھی تسلی بخش نہیں ہے ۔ ہسپتالوں میں ادویات اور سہولیات کی عدم دستیابی کا شور بڑے پیمانے پر برپا ہے ہی مگر ضلعی ہسپتالوں کی صوبہ بھر میں زبوں حال عمارتیں اور وارڈوں میں جانوروں کے ڈیرے دیکھ کر تو قدیم انڈس سولائیزیشن کی شناخت والی اس قوم کی گردن مارے شرم کے صرف جھکتی نہیں بلکہ گھٹنوں سے لگ جاتی ہے ۔ویسے تو یہ مرض صوبہ بھر میں پھیلا ہوا ہے لیکن پس ماندہ علاقوں ، گوٹھوں اور غریب و کچی بستیوں میں یہ مرض تیزی سے پھیل رہا ہے ۔لوگوں میں علاج کرانے کی مالی استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے ان علاقوں میں یہ مرض ایک ''خاموش قاتل '' کی طرح لوگوں کو موت کے شکنجے میں کستا جارہا ہے ۔

اس مرض کو روکنے اور اس سے بچاؤ کے لیے ''ہیپاٹائٹس سے پاک سندھ پروگرام ''کے نام سے ہیپا ٹائٹس سے بچاؤ اور کنٹرول کا پروگرام صوبہ میں شروع کیا گیا تھا۔ جس کے تحت 48مراکز قائم کیے گئے ۔ اس پروگرام کے لیے WHO، یونیسیف ، UNODCو دیگر بین الاقوامی اداروں کے ساتھ ساتھ انڈس ہسپتال ، انٹیگریٹڈ ہیلتھ سروسز (IHS)، امن فاؤنڈیشن ، مرف و دیگر قومی اداروں و سماجی تنظیموں کا تعاون حاصل تھا ۔

یہ پروگرام ضلع ، تعلقہ اور دیہی صحت مراکز تک پھیلا ہوا تھا۔ اس کے تحت مفت تشخیص و علاج بمع مفت ادویات کی فراہمی کا بندوبست تھا۔ لیکن کوئی خاطر خواہ نتائج نہ دے سکا ۔ جس کی بنیادی وجہ بھی خراب طرز ِ حکمرانی ہے جس کی وجہ سے نہ درست نگرانی ہوتی اور نہ ہی عوام کی اس مرض کی تشخیص و علاج تک آسان رسائی کا ماحول و نظام تشکیل دیا جا سکا۔ یہ پروگرام صرف کچھ لوگوں کو وراثت میں دیا گیا وہ پروگرام بن کر رہ گیا جو ذاتی مراسم اور سفارشی پرچیوں پر چلنے لگا ، پھر سرکاری محکموں میں موجود رشوت ستانی اور بدعنوانی کے باعث بھی اس پروگرام کے تحت ملنے والی ادویات اور مفت سہولیات پر بھی رقوم بٹوری جانے لگیں ۔

یہاں تک کہ ادویات نجی میڈیکل اسٹورز پر فروخت ہونے لگیں یا پھر گوداموں میں رکھے رکھے Expire ہو گئیں ۔یہ صورتحال 10سال سے جاری اس پروگرام کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ پروگرام میں بدعنوانی اور نااہلی کی انتہا کی بنیاد پر عالمی اداروں نے اس کی فنڈنگ روک دی۔ جس کے بعد کچھ عرصہ صوبائی بجٹ پر اس پروگرام کو چلایا گیا مگر اس کے انتظامی اُمور ویسے کے ویسے رکھے گئے یعنی حکومت نے محدود بجٹ کا تو انتظام کردیا مگر مانیٹرنگ و ایڈمنسٹریشن سے متعلق اُمور پر کوئی توجہ نہ دینے کی اپنی روایت کو برقرار رکھا ۔ جس کے باعث یہ پروگرام عوام کو کوئی بھی ریلیف دینے سے قاصر رہا ہے ۔ جب کہ رواں سال مئی میں اس پروگرام کو باضابطہ بند کرنے کا اعلان کیا گیا اور اس کا بجٹ AKUHکو دینے کا اعلان ہوا جو ابتدائی طور پر دو اضلاع میں یہ سہولیات فراہم کرے گا جسے بعد میں صوبہ بھر میں پھیلانے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے ۔

ہیپا ٹائٹس ایک عالمی مسئلہ ہے ۔جس کے لیے دنیا میں آگاہی پھیلانے اور اس کے تدارک و علاج کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات اور فنڈنگ ہو رہی ہے ۔ WHOکی جانب سے 2030تک اس مرض کو ختم کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے ۔جس کے لیے ہمیں اقوام ِ عالم کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوکر اپنے ملک بالخصوص صوبہ سندھ میں جنگی بنیادوں پر اقدامات کرکے اس مرض پر قابو پانا ہوگا۔ حکومت کو ہیپاٹائٹس کے مفت اسکریننگ کو عام و لازمی کرنا چاہیے تاکہ اس مرض میں مبتلا افراد کی بروقت تشخیص ہوسکے اور پھر ''ہیپا ٹائٹس سے پاک سندھ پروگرام'' کو تعلقہ سطح پر اس طرح مؤثر و عام کیا جائے جس سے ہر مریض باآسانی فیض یاب ہوسکے ۔ جس کے لیے صرف بجٹ مختص کرنا ہی کافی نہیں ہوگا بلکہ ڈاکٹروں ، عملے اور انتظامات کی سخت مانیٹرنگ کا نظام بھی ترتیب دیا جائے ورنہ شاید 21ویں صدی کے اس جدید میڈیکل دور میں بھی اس مرض سے ہونیوالی اموات 19ویں صدی میں پھیلنے والی بیماری طاعون سے مرنیوالوں کی تعداد سے تجاوز نہ کرجائے ۔

اس لیے ہمیں بھی دیگر ملکوں و اقوام کی طرح سنجیدہ کوششیں کرنی ہوں گی تو شاید ہم اپنی قوم کے نصف حصے کو موت کے شکنجے سے آزادی دلاپائیں۔ حالانکہ ہمارے یہاں ہر سال یونیورسٹیز سے ہزاروں کی تعداد میں ڈاکٹرز پیدا ہورہے ہیں لیکن انسانی فلاح و خدمت کا جذبہ کہیں نظر نہیں آرہا ۔ ہم بحیثیت قوم بھی اس مرض سے جنگ کرکے اس کو مات دے سکتے ہیں ۔لیکن اس کے لیے ایسے کرداروں کی ضرورت ہے جو ملک و ملت اور انسانی تحفظ کے جذبہ سے سرشار ہوں۔اس کے لیے کوڑھ کے مرض سے ڈاکٹر رتھ فاؤ اور گردوں کی بیماریوں سے مسلسل حالت جنگ میں رہنے والے ڈاکٹر ادیب رضوی جیسے کردار ہمارے لیے مشعل ِ راہ ہیں ۔ورنہ تو ہماری یہ حالت ہے کہ جگر کی پیوندکاری ہمارے یہاں نیا نیا کام ہے جو ابھی تک درست و عام نہیں ہوسکا ہے جب کہ یہ کام ہمارے پڑوسی ممالک بھارت و چین میں کئی عشروں سے کامیاب و عام ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں