فہمیدہ ریاض
فہمیدہ ریاض کے نام اور کام سے پہلا تعارف احمد ندیم قاسمی کے ادبی مجلّے ’’فنوں‘‘ کی معرفت 1966ء میں ہوا۔
یہ تو خبریں مل رہی تھیں کہ فہمیدہ ریاض بہت بیمار ہیں لیکن یہ علم نہیں تھا کہ وہ گزشتہ دو ماہ سے لاہور میں اپنی بیٹی کے پاس ہیں جو ہمارے قریب ہی عسکری ون میں رہتی ہے۔ اس بیشتر بے معنی معلومات سے بھری ہوئی دنیا میں اپنے کسی ساتھی لکھاری کے بارے میں یہ خبریں افسوس ناک ہونے کے ساتھ ساتھ تعجب خیز بھی ہیں۔
ان کے جنازے میں کراچی سے خاص طور پر آئی ہوئی فاطمہ حسن نے لاہور کی ادیب برادری پر آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ تنقید تو کی کہ یہاں کسی کو فہمیدہ کی موجودگی اور علالت کا پتہ ہی نہیں تھا لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ کراچی میں عمر کا بیشتر حصہ گزارنے کے باوجود مناسب دیکھ بھال نہ ہو سکنے کی وجہ سے ہی انھیں لاہور آنا پڑا۔ مقصد اس بحث سے کسی خاص شہر یا افراد کو قصوروار ٹھہرانا نہیں بلکہ یہ واضح کرنا ہے کہ عمومی طور پر اب ہمارے معاشرے میں بلا کسی مقصد کے ملنے ملانے اور بیماروں کی عیادت کا وہ رواج بہت کم ہو گیا ہے جو اس کی ایک اہم خوبی اور ہمارے رسول کریمؐ کی محبوب سنت تھی اور یوں ہم زندوں کو چھوڑ کر ایک مردہ پرست معاشرے کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔
جنازے میں شامل بیشتر لکھنے والوں کو بھی میری طرح سے فہمیدہ کی لاہور میں موجودگی کا علم نہ تھا اس کے باوجود ایک دوسرے سے پتہ پوچھتے ہوئے شعر و ادب، صحافت اور ترقی پسندانہ سوچ سے تعلق رکھنے والے بہت سے احباب نماز جنازہ میں شریک ہوئے اور سب نے مل کر اپنے اس باہنر اور غیر معمولی تخلیق کار کو عزت، احترام اور دعائوں کے ساتھ رخصت کیا۔
فہمیدہ ریاض کے نام اور کام سے پہلا تعارف احمد ندیم قاسمی کے ادبی مجلّے ''فنوں'' کی معرفت 1966ء میں ہوا جس میں ہم دونوں نے تقریباً ایک ساتھ چھپنا شروع کیا۔ وہ اس وقت حیدر آباد میں زیر تعلیم تھیں اور اطلاعات کے مطابق برقع پہن کر کالج جایا کرتی تھیں۔ ان کی شاعری میں اس وقت وہ چمک ابتدائی شکل میں تھی جس نے آگے چل کر بہت مختصر عرصے میں پوری ادبی دنیا میں اجالا کر دیا۔
اس زمانے میں براہ راست ملاقات اور ٹیلیفونک گفت و شنید کے واقعے بہت محدود تھے، بلکہ اس کا رواج بھی کم کم تھا۔ کچھ دنوں بعد قاسمی صاحب نے بتایا کہ فہمیدہ کی شادی ہو گئی ہے اور وہ اپنے شوہر (جن کا نام غالباً صابر تھا) کے ساتھ لندن منتقل ہو گئی ہیں۔ کچھ عرصے کے بعد ان کی وہ نظم ''لائو ہاتھ اپنا لائو ذرا'' شائع ہوئی جس میں انھوں نے اپنے ماں بننے کے تجربے اور عورت کے ان احساسات کو نظم کیا۔ جن میں وہ ایک انسانی وجود کو اپنے پیٹ کے اندر پال رہی ہوتی ہے۔
یہ نظم اس قدر مؤثر اور اپنے موضوع کے اعتبار سے ایسی چونکانے والی تھی کہ اس نے دیکھتے ہی دیکھتے فہمیدہ ریاض کو شہرت اور مقبولیت کی ایسی منازل پر پہنچا دیا جو بیشتر لکھاریوں کو عمر بھر حاصل نہیں ہوتیں۔ انہی دنوں میں اس کا پہلا شعری مجموعہ ''پتھر کی زبان'' شائع ہوا جس میں کئی ایسے جنسی استعارے بہت آزادی اور فراوانی سے استعمال کیے گئے تھے جو اس وقت تک کی نسائی شاعری میں خال خال ہی پائے جاتے تھے۔ پھر معلوم ہوا کہ ان کی ازدواجی زندگی کچھ مسائل کا شکار ہے اور وہ شوہر سے علیحدگی کے بعد کراچی آ گئی ہیں جس کی تصدیق اس زمانے کے مقبول انگریزی ہفت روزہ MAG کے ٹائٹل سے ہوئی جس میں ان کی انٹرویو کے درمیان لی گئی ایک ایسی تصویر شائع کی گئی تھی جس میں انھوں نے ہونٹوں میں سگریٹ دبا رکھا تھا۔
یہ بہت چونکا دینے والی تصویر تھی کہ اس زمانے میں اول تو بہت کم خواتین سگریٹ نوشی کرتی تھیں لیکن اس کا اس طرح سے جارحانہ اظہار صرف انگریزی فلموں میں ہی دیکھنے میں آتا تھا۔ جب کہ ان کے متعلقہ انٹرویو میں بھی جگہ جگہ خواتین کے حقوق اور اظہار کی آزادی کا ایسا پرجوش تذکرہ تھا جو اس مختلف اور نئی فہمیدہ ریاض کو سامنے لا رہا تھا جو آگے چل کر ان کی پہچان بنا۔
ان سے براہ راست اور بالمشافہ پہلی ملاقات ریڈیو پاکستان لاہور کے ایک پروگرام میں ہوئی۔ بہت محبت اور اپنائیت سے ملیں، میرے پاس ان دنوں ویسپا سکوٹر ہوتا تھا۔ کہنے لگیں مجھے سرور سکھیرا کے رسالے ''دھنک'' کے دفتر جانا ہے آپ مجھے وہاں چھوڑ دیں رستے میں باتیں بھی کرتے چلیں گے۔ پہلی ملاقات کے مخصوص حجاب کی وجہ سے میں ان سے ان کی ذاتی زندگی، ٹوٹی ہوئی شادی اور موجودہ مصروفیات کے بارے میں کھل کر بات نہ کر سکا۔ لیکن بعد کی ملاقاتوں میں کئی باتوں کی وضاحت ہو گئی۔
اس دوران میں انھوں نے ایک سندھی نوجوان سے شادی کر لی اور ایک نیم ادبی نیم سیاسی قسم کے رسالے کی ادارت بھی شروع کر دی تھی۔ ضیاء الحق کے مارشل لائی دور میں یہ رسالہ مالی مشکلات کا شکار ہو گیا اور فہمیدہ کی سیاسی مصروفیات نے اس کی ادبی مصروفیات پر غالب آنا شروع کر دیا۔
پھر معلوم ہوا کہ وہ یک دم احتجاجاً ملک چھوڑ کر بھارت چلی گئی ہیں۔ جہاں اندرا گاندھی نے انھیں جامعہ ملیہ میں Poetess in the Campus کا عہدہ دے دیا ہے۔ وہیں بھارت کے پہلے ادبی دورے کے دوران ان سے ملاقات ہوئی اور میں نے کھل کر ان کی اس ''نقل مکانی'' پر اپنے اختلاف کا اظہار کیا جس پر وہ بار بار مجھے یہی کہتی رہیں کہ میں آپ کو اس کی وجوہات علیحدگی میں تفصیل سے بتائوں گی لیکن اس کا کبھی موقع نہ بن سکا اور وہ اس واقعے کے چند سال بعد دوبارہ پاکستان واپس آ گئیں اور تقریباً تیس مزید برس زندہ رہیں۔
اس دوران میں نے بہت کچھ لکھا، شاہ عبداللطیف بھٹائی، شیخ ایاز اور ایرانی شاعرہ فروغ فرخ زاد کے تراجم کے علاوہ بہت سی ادبی اصناف میں قلمکاری کی لیکن میں نے محسوس کیا کہ اب ان کے سیاسی اور Feminist نظریات ان کے لیے بہت اہم ہو گئے ہیں۔ جس کا اظہار ان کی اپنی شاعری میں بھی مرکزی موضوع کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
ضروری نہیں ہوتا کہ آپ اپنے کسی دوست کی ہر بات سے اتفاق کریں سو اس سے قطع نظر اس بات سے اختلاف ممکن نہیں کہ فہمیدہ ریاض اپنے دور کی ایک نمائندہ اور بڑی قلمکار تھیں۔ ان کی نثر ہو یا نظم دونوں کا ایک اپنا انداز اور معیار تھا اور جب بھی پاکستان اور اردو زبان میں بہادر، پر جوش اور اپنے نظریات پر قائم رہنے والی اہم خواتین کا ذکر ہو گا تو ادیب برادری سے فہمیدہ ریاض کا نام یقینا پہلی صف میں پایا جائے گا۔ وہ ادا جعفری، زہرہ نگاہ اور کشور ناہید کے بعد اور پروین شاکر سے پہلے کی نسل کی سب سے بڑی شاعرہ تھیں اور یقینا ان کی کمی دیر تک محسوس کی جائے گی۔
ان کے جنازے میں کراچی سے خاص طور پر آئی ہوئی فاطمہ حسن نے لاہور کی ادیب برادری پر آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ تنقید تو کی کہ یہاں کسی کو فہمیدہ کی موجودگی اور علالت کا پتہ ہی نہیں تھا لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ کراچی میں عمر کا بیشتر حصہ گزارنے کے باوجود مناسب دیکھ بھال نہ ہو سکنے کی وجہ سے ہی انھیں لاہور آنا پڑا۔ مقصد اس بحث سے کسی خاص شہر یا افراد کو قصوروار ٹھہرانا نہیں بلکہ یہ واضح کرنا ہے کہ عمومی طور پر اب ہمارے معاشرے میں بلا کسی مقصد کے ملنے ملانے اور بیماروں کی عیادت کا وہ رواج بہت کم ہو گیا ہے جو اس کی ایک اہم خوبی اور ہمارے رسول کریمؐ کی محبوب سنت تھی اور یوں ہم زندوں کو چھوڑ کر ایک مردہ پرست معاشرے کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔
جنازے میں شامل بیشتر لکھنے والوں کو بھی میری طرح سے فہمیدہ کی لاہور میں موجودگی کا علم نہ تھا اس کے باوجود ایک دوسرے سے پتہ پوچھتے ہوئے شعر و ادب، صحافت اور ترقی پسندانہ سوچ سے تعلق رکھنے والے بہت سے احباب نماز جنازہ میں شریک ہوئے اور سب نے مل کر اپنے اس باہنر اور غیر معمولی تخلیق کار کو عزت، احترام اور دعائوں کے ساتھ رخصت کیا۔
فہمیدہ ریاض کے نام اور کام سے پہلا تعارف احمد ندیم قاسمی کے ادبی مجلّے ''فنوں'' کی معرفت 1966ء میں ہوا جس میں ہم دونوں نے تقریباً ایک ساتھ چھپنا شروع کیا۔ وہ اس وقت حیدر آباد میں زیر تعلیم تھیں اور اطلاعات کے مطابق برقع پہن کر کالج جایا کرتی تھیں۔ ان کی شاعری میں اس وقت وہ چمک ابتدائی شکل میں تھی جس نے آگے چل کر بہت مختصر عرصے میں پوری ادبی دنیا میں اجالا کر دیا۔
اس زمانے میں براہ راست ملاقات اور ٹیلیفونک گفت و شنید کے واقعے بہت محدود تھے، بلکہ اس کا رواج بھی کم کم تھا۔ کچھ دنوں بعد قاسمی صاحب نے بتایا کہ فہمیدہ کی شادی ہو گئی ہے اور وہ اپنے شوہر (جن کا نام غالباً صابر تھا) کے ساتھ لندن منتقل ہو گئی ہیں۔ کچھ عرصے کے بعد ان کی وہ نظم ''لائو ہاتھ اپنا لائو ذرا'' شائع ہوئی جس میں انھوں نے اپنے ماں بننے کے تجربے اور عورت کے ان احساسات کو نظم کیا۔ جن میں وہ ایک انسانی وجود کو اپنے پیٹ کے اندر پال رہی ہوتی ہے۔
یہ نظم اس قدر مؤثر اور اپنے موضوع کے اعتبار سے ایسی چونکانے والی تھی کہ اس نے دیکھتے ہی دیکھتے فہمیدہ ریاض کو شہرت اور مقبولیت کی ایسی منازل پر پہنچا دیا جو بیشتر لکھاریوں کو عمر بھر حاصل نہیں ہوتیں۔ انہی دنوں میں اس کا پہلا شعری مجموعہ ''پتھر کی زبان'' شائع ہوا جس میں کئی ایسے جنسی استعارے بہت آزادی اور فراوانی سے استعمال کیے گئے تھے جو اس وقت تک کی نسائی شاعری میں خال خال ہی پائے جاتے تھے۔ پھر معلوم ہوا کہ ان کی ازدواجی زندگی کچھ مسائل کا شکار ہے اور وہ شوہر سے علیحدگی کے بعد کراچی آ گئی ہیں جس کی تصدیق اس زمانے کے مقبول انگریزی ہفت روزہ MAG کے ٹائٹل سے ہوئی جس میں ان کی انٹرویو کے درمیان لی گئی ایک ایسی تصویر شائع کی گئی تھی جس میں انھوں نے ہونٹوں میں سگریٹ دبا رکھا تھا۔
یہ بہت چونکا دینے والی تصویر تھی کہ اس زمانے میں اول تو بہت کم خواتین سگریٹ نوشی کرتی تھیں لیکن اس کا اس طرح سے جارحانہ اظہار صرف انگریزی فلموں میں ہی دیکھنے میں آتا تھا۔ جب کہ ان کے متعلقہ انٹرویو میں بھی جگہ جگہ خواتین کے حقوق اور اظہار کی آزادی کا ایسا پرجوش تذکرہ تھا جو اس مختلف اور نئی فہمیدہ ریاض کو سامنے لا رہا تھا جو آگے چل کر ان کی پہچان بنا۔
ان سے براہ راست اور بالمشافہ پہلی ملاقات ریڈیو پاکستان لاہور کے ایک پروگرام میں ہوئی۔ بہت محبت اور اپنائیت سے ملیں، میرے پاس ان دنوں ویسپا سکوٹر ہوتا تھا۔ کہنے لگیں مجھے سرور سکھیرا کے رسالے ''دھنک'' کے دفتر جانا ہے آپ مجھے وہاں چھوڑ دیں رستے میں باتیں بھی کرتے چلیں گے۔ پہلی ملاقات کے مخصوص حجاب کی وجہ سے میں ان سے ان کی ذاتی زندگی، ٹوٹی ہوئی شادی اور موجودہ مصروفیات کے بارے میں کھل کر بات نہ کر سکا۔ لیکن بعد کی ملاقاتوں میں کئی باتوں کی وضاحت ہو گئی۔
اس دوران میں انھوں نے ایک سندھی نوجوان سے شادی کر لی اور ایک نیم ادبی نیم سیاسی قسم کے رسالے کی ادارت بھی شروع کر دی تھی۔ ضیاء الحق کے مارشل لائی دور میں یہ رسالہ مالی مشکلات کا شکار ہو گیا اور فہمیدہ کی سیاسی مصروفیات نے اس کی ادبی مصروفیات پر غالب آنا شروع کر دیا۔
پھر معلوم ہوا کہ وہ یک دم احتجاجاً ملک چھوڑ کر بھارت چلی گئی ہیں۔ جہاں اندرا گاندھی نے انھیں جامعہ ملیہ میں Poetess in the Campus کا عہدہ دے دیا ہے۔ وہیں بھارت کے پہلے ادبی دورے کے دوران ان سے ملاقات ہوئی اور میں نے کھل کر ان کی اس ''نقل مکانی'' پر اپنے اختلاف کا اظہار کیا جس پر وہ بار بار مجھے یہی کہتی رہیں کہ میں آپ کو اس کی وجوہات علیحدگی میں تفصیل سے بتائوں گی لیکن اس کا کبھی موقع نہ بن سکا اور وہ اس واقعے کے چند سال بعد دوبارہ پاکستان واپس آ گئیں اور تقریباً تیس مزید برس زندہ رہیں۔
اس دوران میں نے بہت کچھ لکھا، شاہ عبداللطیف بھٹائی، شیخ ایاز اور ایرانی شاعرہ فروغ فرخ زاد کے تراجم کے علاوہ بہت سی ادبی اصناف میں قلمکاری کی لیکن میں نے محسوس کیا کہ اب ان کے سیاسی اور Feminist نظریات ان کے لیے بہت اہم ہو گئے ہیں۔ جس کا اظہار ان کی اپنی شاعری میں بھی مرکزی موضوع کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
ضروری نہیں ہوتا کہ آپ اپنے کسی دوست کی ہر بات سے اتفاق کریں سو اس سے قطع نظر اس بات سے اختلاف ممکن نہیں کہ فہمیدہ ریاض اپنے دور کی ایک نمائندہ اور بڑی قلمکار تھیں۔ ان کی نثر ہو یا نظم دونوں کا ایک اپنا انداز اور معیار تھا اور جب بھی پاکستان اور اردو زبان میں بہادر، پر جوش اور اپنے نظریات پر قائم رہنے والی اہم خواتین کا ذکر ہو گا تو ادیب برادری سے فہمیدہ ریاض کا نام یقینا پہلی صف میں پایا جائے گا۔ وہ ادا جعفری، زہرہ نگاہ اور کشور ناہید کے بعد اور پروین شاکر سے پہلے کی نسل کی سب سے بڑی شاعرہ تھیں اور یقینا ان کی کمی دیر تک محسوس کی جائے گی۔