کارکردگی میں تسلسل کا فقدان
پاکستان ٹیسٹ ٹیم کا تجرباتی دور کب ختم ہوگا؟
یونس خان اور مصباح الحق پاکستانی بیٹنگ کے اہم ستون تھے، دونوں نے کئی بار عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شکستوں کا رخ موڑ کر فتوحات کا راستہ بنایا۔
ملک کیلیے 10ہزار رنز اور 30 سنچریاں بنانے والے پہلے یونس خان کی موجودگی میں قومی ٹیم نے پاکستان اور یو اے ای سے باہر 24 میچ جیتے، ان میں سینئر بیٹسمین نے 94.20 کی شاندار اوسط سے 2826 رنز سکور کئے تھے، یونس خان نے مصباح الحق کی شراکت میں 68.36 کی اوسط سے 3213 رنز جوڑے، دونوں بیٹسمینوں کی مئی 2016ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد بیٹنگ لائن کے دباؤ میں حوصلہ ہار جانے کی کئی مثالیں تسلسل کے ساتھ سامنے آتی رہی ہیں، سرفراز احمد کی قیادت میں کھیلے جانے والے پہلے ہی ٹیسٹ میں نوجوان کندھے توقعات کا بوجھ اٹھانے میں ناکام رہے۔
ابوظبی میں کھیلے جانے والے اس میچ میں پاکستان کو سری لنکا نے صرف 136 رنز کا ہدف دیا لیکن پوری ٹیم صرف 114 رنز پر ڈھیر ہو گئی، لیفٹ آرم سپنر رنگنا ہیراتھ نے 6 وکٹیں حاصل کرتے ہوئے ایک ناقابل یقین فتح اپنی ٹیم کی جھولی میں ڈال دی، انھوں نے پہلی اننگز میں بھی 5 شکار کئے تھے، بیٹنگ لائن کی کارکردگی میں عدم تسلسل بعد ازاں دیگر میچز میں بھی نظر آیا لیکن رواں سیریز میں ابوظبی ٹیسٹ میں نیوزی لینڈ کے ہاتھوں شکست نے کمزوریاں مزید آشکار کردیں، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پہلی اننگز میں 153 پر ڈھیر ہونے والے کیویز میچ جیت پائیں گے لیکن پاکستانی بیٹنگ لائن نے اچھا موقع گنواتے ہوئے صرف 74 رنز کی برتری حاصل کی۔
بولرز نے اپنا کام کر دکھایا اور اور پاکستان کو صرف 176 رنز کا ہدف ملا، چوتھے روز کی ابتدا میں ہی ملنے والے صدمات سے سنبھلنے کے بعد اسد شفیق اور اظہر علی نے وکٹ پر قیام کرتے ہوئے پاکستان کو فتح کی امید بھی دلائی لیکن دونوں سینئر کا کردار ادا نہ کر پائے، پہلی کی طرح دوسری اننگز میں بھی اسد شفیق نے ففٹی مکمل کرنے سے پہلے ہی وکٹ گنوادی، بابراعظم گھبراہٹ میں رن آؤٹ کیا ہوئے بیٹسمین کریز پر رکنا ہی بھول گئے۔
اظہر علی کو ٹیل اینڈرز کی وکٹیں بچاتے ہوئے خود رنز بنانا تھے لیکن انہوں نے یہ ذمہ داری اٹھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی، سخت دباؤ کا شکار ناتجربہ کار بیٹسمین یا تو دفاعی خول سے باہر نہ نکلے یا پھر ایسے سٹروکس کھیلے جو نہ ضرورت تھے، نہ مجبوری، آخر میں اپنی مزاحمت خود ہی بے کار کرتے ہوئے اظہرعلی نے وکٹ کی قربانی پیش کر دی۔
یونس خان اور مصباح الحق کے بعد شروع ہونے والے دور میں ٹیسٹ فارمیٹ کے ناتجربہ کار کپتان سرفراز احمد کو بیٹنگ لائن کیلئے سینئرز اظہر علی، اسد شفیق اور محمد حفیظ کی خدمات میسر تھیں، تینوں کو نہ صرف کہ اپنی کارکردگی سے مثال بننا بلکہ جونیئرز کو بھی ساتھ لے کر چلنا تھا، ان میں سے محمد حفیظ تو بولنگ ایکشن مسائل کی وجہ سے ٹیم میں مستقل جگہ بنانے میں ناکام رہے، کم بیک پر آسٹریلیا کے خلاف ایک اچھی اننگز ضرور کھیلی، اس کے بعد ان کی طرف سے کوئی بڑا سکور دیکھنے میں نہیں آیا۔
نیوزی لینڈ کے خلاف 2ٹیسٹ میچز کی 3اننگز میں ان کی فارم بحال نہ ہوسکی، یونس خان اور مصباح الحق کی ریٹائرمنٹ کے بعد ابوظبی ٹیسٹ تک اسد شفیق نے 590 اور اظہر علی نے 422 رنز بنائے، اس دوران پاکستانی بیٹسمین صرف 3 سنچریز بناسکے، ان میں سے ایک گزشتہ سال اسد شفیق نے سری لنکا کے خلاف بنائی تھی، گزشتہ ماہ آسٹریلیا کے خلاف دبئی ٹیسٹ میں محمدحفیظ اور حارث سہیل تھری فیگر اننگز کھیلنے میں کامیاب ہوئے، اس کارکردگی سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یونس خان اور مصباح الحق کے ساتھ بطور جونیئر کھیلتے ہوئے بہتر کھیل پیش کرنے والے خود سینئر بنے تو توقعات کا بوجھ اٹھانے میں ناکام رہے۔
سینئرز کی رہنمائی میں کئی بار میچ کا نقشہ بدل دینے والی اننگز کھیلنے والے کپتان سرفراز احمد کی اپنی پرفارمنس بھی بری طرح متاثر ہوئی،کیویز کے خلاف دبئی ٹیسٹ میں اوپنرز کی وکٹیں جلد گرنے کے بعد اظہرعلی اور حارث سہیل نے اننگز کو سہارا دیا لیکن طویل فارمیٹ میں ایک سیشن میں سامنے آنے والی خامیوں پر دوسرے میں قابو پانا اور بیٹنگ و بولنگ دونوں میں تسلسل کے ساتھ کارکردگی دکھانا ضروری ہوتا ہے،ٹیسٹ کرکٹ کا یہ مزاج سمجھنے اور اس کے مطابق ثابت قدمی کا مظاہرہ کرکے ہی میچ جیتے جاسکتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں ایسے بیٹسمینوں کا قحط پڑ گیا کہ جو سنچریز اور ڈبل سنچریز کے ساتھ فتوحات کا رستہ بناسکیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پی ایس ایل سے پاکستان کو محدود اوورز کی کرکٹ کے لیے ٹیلنٹ میسر آیا ہے،ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی رنگینیوں میں اتنی کشش ہے کہ ٹیسٹ فارمیٹ کے بہترین بولرز میں شمار ہونے والے محمدعباس بھی کلر کٹ اور وائٹ بال کرکٹ کے بغیر اپنے کیریئر کو ادھورا سمجھتے ہیں، پی ایس ایل میں عزت دولت اور شہرت سب کچھ ہے۔
دوسری جانب طویل فارمیٹ کے ڈومیسٹک مقابلے روکھے پھیکے اور ایک رسمی کارروائی نظر آتے ہیں، سسٹم کے ساتھ اتنی بار چھیڑ چھاڑ کے باوجود کرتا دھرتا کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچ سکے،اس بار قائد اعظم ٹرافی میں 4روزہ اور ون ڈے ایونٹ ساتھ ساتھ جاری رکھے گئے، بہرحال نوجوان کرکٹرز کی نظریں اب چوکوں، چھکوں پر ہوتی ہیں،10گیندوں پر 20رنز کی اننگز ٹی ٹوئنٹی میچ جتوانے کے لیے کافی ہوتی ہے،پیسہ بھی ہاتھ آتا ہے،ٹیسٹ میچ میں میراتھن اننگز کھیلنے کیلئے درکار فٹنس کا معیار برقرار رکھنے کی بھی فکر نہیں ہوتی، طویل فارمیٹ میں اپنی کارکردگی میں تسلسل لانا ہے تو ڈومیسٹک کرکٹ کو مسابقتی اور پرکشش بنانا پڑے گا، نئے ٹیلنٹ کی تلاش کے ساتھ اس کو نکھارنے کے لیے مواقع بھی پیدا کرنا ہوں گے۔
ملک کیلیے 10ہزار رنز اور 30 سنچریاں بنانے والے پہلے یونس خان کی موجودگی میں قومی ٹیم نے پاکستان اور یو اے ای سے باہر 24 میچ جیتے، ان میں سینئر بیٹسمین نے 94.20 کی شاندار اوسط سے 2826 رنز سکور کئے تھے، یونس خان نے مصباح الحق کی شراکت میں 68.36 کی اوسط سے 3213 رنز جوڑے، دونوں بیٹسمینوں کی مئی 2016ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد بیٹنگ لائن کے دباؤ میں حوصلہ ہار جانے کی کئی مثالیں تسلسل کے ساتھ سامنے آتی رہی ہیں، سرفراز احمد کی قیادت میں کھیلے جانے والے پہلے ہی ٹیسٹ میں نوجوان کندھے توقعات کا بوجھ اٹھانے میں ناکام رہے۔
ابوظبی میں کھیلے جانے والے اس میچ میں پاکستان کو سری لنکا نے صرف 136 رنز کا ہدف دیا لیکن پوری ٹیم صرف 114 رنز پر ڈھیر ہو گئی، لیفٹ آرم سپنر رنگنا ہیراتھ نے 6 وکٹیں حاصل کرتے ہوئے ایک ناقابل یقین فتح اپنی ٹیم کی جھولی میں ڈال دی، انھوں نے پہلی اننگز میں بھی 5 شکار کئے تھے، بیٹنگ لائن کی کارکردگی میں عدم تسلسل بعد ازاں دیگر میچز میں بھی نظر آیا لیکن رواں سیریز میں ابوظبی ٹیسٹ میں نیوزی لینڈ کے ہاتھوں شکست نے کمزوریاں مزید آشکار کردیں، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پہلی اننگز میں 153 پر ڈھیر ہونے والے کیویز میچ جیت پائیں گے لیکن پاکستانی بیٹنگ لائن نے اچھا موقع گنواتے ہوئے صرف 74 رنز کی برتری حاصل کی۔
بولرز نے اپنا کام کر دکھایا اور اور پاکستان کو صرف 176 رنز کا ہدف ملا، چوتھے روز کی ابتدا میں ہی ملنے والے صدمات سے سنبھلنے کے بعد اسد شفیق اور اظہر علی نے وکٹ پر قیام کرتے ہوئے پاکستان کو فتح کی امید بھی دلائی لیکن دونوں سینئر کا کردار ادا نہ کر پائے، پہلی کی طرح دوسری اننگز میں بھی اسد شفیق نے ففٹی مکمل کرنے سے پہلے ہی وکٹ گنوادی، بابراعظم گھبراہٹ میں رن آؤٹ کیا ہوئے بیٹسمین کریز پر رکنا ہی بھول گئے۔
اظہر علی کو ٹیل اینڈرز کی وکٹیں بچاتے ہوئے خود رنز بنانا تھے لیکن انہوں نے یہ ذمہ داری اٹھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی، سخت دباؤ کا شکار ناتجربہ کار بیٹسمین یا تو دفاعی خول سے باہر نہ نکلے یا پھر ایسے سٹروکس کھیلے جو نہ ضرورت تھے، نہ مجبوری، آخر میں اپنی مزاحمت خود ہی بے کار کرتے ہوئے اظہرعلی نے وکٹ کی قربانی پیش کر دی۔
یونس خان اور مصباح الحق کے بعد شروع ہونے والے دور میں ٹیسٹ فارمیٹ کے ناتجربہ کار کپتان سرفراز احمد کو بیٹنگ لائن کیلئے سینئرز اظہر علی، اسد شفیق اور محمد حفیظ کی خدمات میسر تھیں، تینوں کو نہ صرف کہ اپنی کارکردگی سے مثال بننا بلکہ جونیئرز کو بھی ساتھ لے کر چلنا تھا، ان میں سے محمد حفیظ تو بولنگ ایکشن مسائل کی وجہ سے ٹیم میں مستقل جگہ بنانے میں ناکام رہے، کم بیک پر آسٹریلیا کے خلاف ایک اچھی اننگز ضرور کھیلی، اس کے بعد ان کی طرف سے کوئی بڑا سکور دیکھنے میں نہیں آیا۔
نیوزی لینڈ کے خلاف 2ٹیسٹ میچز کی 3اننگز میں ان کی فارم بحال نہ ہوسکی، یونس خان اور مصباح الحق کی ریٹائرمنٹ کے بعد ابوظبی ٹیسٹ تک اسد شفیق نے 590 اور اظہر علی نے 422 رنز بنائے، اس دوران پاکستانی بیٹسمین صرف 3 سنچریز بناسکے، ان میں سے ایک گزشتہ سال اسد شفیق نے سری لنکا کے خلاف بنائی تھی، گزشتہ ماہ آسٹریلیا کے خلاف دبئی ٹیسٹ میں محمدحفیظ اور حارث سہیل تھری فیگر اننگز کھیلنے میں کامیاب ہوئے، اس کارکردگی سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یونس خان اور مصباح الحق کے ساتھ بطور جونیئر کھیلتے ہوئے بہتر کھیل پیش کرنے والے خود سینئر بنے تو توقعات کا بوجھ اٹھانے میں ناکام رہے۔
سینئرز کی رہنمائی میں کئی بار میچ کا نقشہ بدل دینے والی اننگز کھیلنے والے کپتان سرفراز احمد کی اپنی پرفارمنس بھی بری طرح متاثر ہوئی،کیویز کے خلاف دبئی ٹیسٹ میں اوپنرز کی وکٹیں جلد گرنے کے بعد اظہرعلی اور حارث سہیل نے اننگز کو سہارا دیا لیکن طویل فارمیٹ میں ایک سیشن میں سامنے آنے والی خامیوں پر دوسرے میں قابو پانا اور بیٹنگ و بولنگ دونوں میں تسلسل کے ساتھ کارکردگی دکھانا ضروری ہوتا ہے،ٹیسٹ کرکٹ کا یہ مزاج سمجھنے اور اس کے مطابق ثابت قدمی کا مظاہرہ کرکے ہی میچ جیتے جاسکتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں ایسے بیٹسمینوں کا قحط پڑ گیا کہ جو سنچریز اور ڈبل سنچریز کے ساتھ فتوحات کا رستہ بناسکیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پی ایس ایل سے پاکستان کو محدود اوورز کی کرکٹ کے لیے ٹیلنٹ میسر آیا ہے،ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی رنگینیوں میں اتنی کشش ہے کہ ٹیسٹ فارمیٹ کے بہترین بولرز میں شمار ہونے والے محمدعباس بھی کلر کٹ اور وائٹ بال کرکٹ کے بغیر اپنے کیریئر کو ادھورا سمجھتے ہیں، پی ایس ایل میں عزت دولت اور شہرت سب کچھ ہے۔
دوسری جانب طویل فارمیٹ کے ڈومیسٹک مقابلے روکھے پھیکے اور ایک رسمی کارروائی نظر آتے ہیں، سسٹم کے ساتھ اتنی بار چھیڑ چھاڑ کے باوجود کرتا دھرتا کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچ سکے،اس بار قائد اعظم ٹرافی میں 4روزہ اور ون ڈے ایونٹ ساتھ ساتھ جاری رکھے گئے، بہرحال نوجوان کرکٹرز کی نظریں اب چوکوں، چھکوں پر ہوتی ہیں،10گیندوں پر 20رنز کی اننگز ٹی ٹوئنٹی میچ جتوانے کے لیے کافی ہوتی ہے،پیسہ بھی ہاتھ آتا ہے،ٹیسٹ میچ میں میراتھن اننگز کھیلنے کیلئے درکار فٹنس کا معیار برقرار رکھنے کی بھی فکر نہیں ہوتی، طویل فارمیٹ میں اپنی کارکردگی میں تسلسل لانا ہے تو ڈومیسٹک کرکٹ کو مسابقتی اور پرکشش بنانا پڑے گا، نئے ٹیلنٹ کی تلاش کے ساتھ اس کو نکھارنے کے لیے مواقع بھی پیدا کرنا ہوں گے۔