کرتارپور راہداریپاک بھارت تعلقات کا نیا باب

عمران خان کرتار پور بارڈرکھول کر12کروڑ نانک پیروکاروں کے لیے تبدیلی لائے ہیں


Editorial November 26, 2018
عمران خان کرتار پور بارڈرکھول کر12کروڑ نانک پیروکاروں کے لیے تبدیلی لائے ہیں۔ فوٹو: فائل

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج اور بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ امریندر سنگھ کو کرتار پور راہداری کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں شرکت کی دعوت دے دی تاہم سشما سوراج نے تقریب میں شرکت سے معذرت کرتے ہوئے دو رکنی بھارتی وفد بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان28 نومبر کو راہداری کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔

ایک طویل عرصے سے جاری پاک بھارت تناؤ اور کشیدگی کی اس فضا میں کرتار پور سرحد کھولنے کا فیصلہ تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوگا' امید ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان سردمہری کی برف پگھلانے میں یہ راہداری اہم کردار ادا کرے گی اور دونوں کو ایک بار پھر ایک دوسرے کے قریب لانے اور باہمی تنازعات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔ پاکستان نے سکھ یاتریوں کی سہولت کے لیے کرتار پور سرحد کھولنے کی تجویز دی تھی جسے بھارت نے قبول کر لیا اور دونوں جانب سے مذاکرات کے بعد اس کوریڈور کو تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھارتی ہم منصب سشما سوراج، وزیر اعلیٰ بھارتی پنجاب کیپٹن امریندر سنگھ اور سابق بھارتی کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو کو تقریب میں شرکت کے لیے دعوت نامے ارسال کر دیے ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے کہا ہمارا مثبت طرزعمل اور خلوص نیت پوری دنیا کے سامنے ہے، وزیر اعظم عمران خان نے منصب سنبھالنے کے بعد اپنی اولین تقریر میں بھارت کو مل بیٹھنے کی دعوت دی تھی، ہم آج بھی اسی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کرتار پور راہداری کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں شرکت کرتیں تو یہ زیادہ خوش کن مرحلہ ہوتا اور دونوں ممالک کی جانب سے گرم جوشی اور محبت کا نیا باب رقم ہوتا مگر بھارتی حکومت نے دانستہ وزیر خارجہ سشما سوراج کو روک کر دوستی کے اس ماحول کو گرہن لگا دیا ہے۔

اپنے ٹویٹر پیغام میں سشما سوراج نے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں 28 نومبر کو منعقد ہونے والی کرتارپور راہداری کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی دعوت پر شکر گزار ہوں' میں الیکشن مہم و دیگر مصروفیات کی وجہ سے مقررہ تاریخ کو کرتارپور کا سفر نہیں کر سکتی، بھارتی حکومت کی نمایندگی وزیر خوراک ہرسمرت کور بیدل اور وزیر مملکت ایچ ایس پوری کریں گے۔ سشما سوراج نے کہا کہ امید ہے پاکستان راہداری کی تعمیر تیز رفتاری سے کرے گا۔ لاکھوں سکھ کرتارپور سرحد کھلنے کے بے تابی سے منتظر ہیں جس کا اظہار نوجوت سنگھ سدھوکے اس بیان سے ہوتا ہے کہ بھارتی حکومت نے انھیں جانے دیا تو وہ تقریب میں ضرور جائیں گے، اس تاریخی موقع کا حصہ بننا ان کے لیے فخر کا باعث ہو گاْ

عمران خان کرتار پور بارڈرکھول کر12کروڑ نانک پیروکاروں کے لیے تبدیلی لائے ہیں، یہ فاصلہ مٹانے اور پل بنانے کا راستہ ہے اب امن وامان ہونا چاہیے اور خون خرابہ بند ہونا چاہیے، اب مانگنے کے لیے کچھ رہا ہی نہیں اب صرف شکر ادا کرنا ہے۔ کرتارپور وہ مقام ہے جہاں سکھوں کے پہلے گرونانک دیو جی نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے تھے۔ یہ سکھ مذہب کے بانی گرونانک دیو کی رہائش گاہ اور جائے وفات ہے۔ گرونانک نے اپنی زندگی میں دنیا بھر کا سفر کیا اور کرتار پور میں انھوں نے اپنی زندگی کے18برس گزارے جو کسی بھی جگہ ان کے قیام کا سب سے لمبا عرصہ ہے' یہیں گردوارے میں ان کی سمادھی ہے جو سکھوں کے لیے ایک مقدس مقام کی حیثیت رکھتی ہے۔

ہندوستان کی تقسیم کے وقت گردوارہ دربار صاحب پاکستان کے حصے میں آیا' دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کے باعث طویل عرصے تک یہ گردوارہ بند رہا۔یہ گردوارہ تحصیل شکر گڑھ کے چھوٹے سے گاؤں کوٹھے پنڈ میں دریائے راوی کے مغربی جانب واقع ہے۔ بھارتی سکھ یاتریوں کو کرتارپور میں واقع دربار صاحب گردوارہ میں پہنچنے کے لیے پہلے لاہور اور پھر تقریباً تین گھنٹے میں130کلو میٹر کا سفر طے کر کے نارووال پہنچنا پڑتا ہے جب کہ یہ دربار بھارتی حدود سے کرتارپور تک 3سے 4کلو میٹر دوری پر ہے۔یہ سرحد کھولنے کی تجویز پاکستان نے دی تھی ۔

جس کی بعدازاں بھارتی کابینہ نے منظوری دے دی تھی۔ بھارتی وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے میڈیا کو بتایا تھا کہ بھارتی حکومت ریاست پنجاب کے ضلع گرداسپور میں ڈیرہ بابا نانک سے پاکستان کی سرحد تک سڑک تعمیر کرے گی جس کا مقصد سکھ یاتریوں کو سہولت فراہم کرنا ہے جو پاکستان میں گردوارہ دربار صاحب کرتارپور کی زیارت کے لیے جانا چاہتے ہیں۔ کرتارپور سرحد کھولنا ایک تاریخ ساز فیصلہ ہے امید ہے یہ راہداری دونوں ملکوں کے درمیان سلگتی نفرت کی آگ کو ٹھنڈا کرنے میں مثالی کردار ادا کرے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔