کرتارپور سرحد کھولنے کا تاریخی فیصلہ
بھارت گرداس پور میں واقع ڈیرہ بابا نانک سے لے کر پاکستان کی سرحد تک سکھ یاتریوں کے لیے راہداری تعمیر کرے گا
آخر کار 22 نومبر گزشتہ جمعرات بھارتی کابینہ نے کرتارپور سرحد کھولنے کی منظوری دے دی۔ یاد رہے کہ یہ تجویز پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی طرف سے گزشتہ اگست میں دی گئی تھی، جب بھارتی کرکٹر اور سیاستدان نوجوت سنگھ سدھو وزیراعظم عمران خان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے اسلام آباد تشریف لائے۔ بھارت وطن واپسی بھارتی شدت پسندوں نے ان کے خلاف پرتشدد مظاہرے کیے حتیٰ کہ ان کا سر کاٹنے والے کے لیے انعام کا اعلان بھی کیا گیا۔ کرتار پور بارڈر کھولنے پر بھارتی حکومت کی طرف سے لیت و لعل اور سرد مہری کا مظاہرہ کیا گیا لیکن معاملہ مذہبی ہونے کی وجہ سے اتنا حساس اور نازک تھا کہ مودی حکومت کو اس دباؤ کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ صرف 3 ماہ بعد بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے میڈیا کو بتایا کہ بھارت گرداس پور میں واقع ڈیرہ بابا نانک سے لے کر پاکستان کی سرحد تک سکھ یاتریوں کے لیے راہداری تعمیر کرے گا۔
بھارتی وزیر داخلہ نے بتایا کہ یہ راہداری منصوبہ تین سے چار کلو میٹر پر مشتمل ہے جس سے سکھ یاتری سال بھر باآسانی ڈیرہ بابانانک صاحب جاسکیں گے۔ بھارتی وزیراعلیٰ پنجاب اس سڑک کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ بھارتی وزیر خزانہ نے کہا کہ کرتار پور راہداری پر ہی ویزا اور کسٹمز کی سہولت ہوگی ۔
وزارت ریلوے ایک ٹرین بھی چلائے گی۔ وزیراعظم مودی کے آفس سے کہا گیا کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ پاکستان اس راہداری کو ہر وقت اور پورا سال کھلا رکھے گا۔ بھارتی دفتر خارجہ کی جانب سے پاکستانی ہائی کمیشن دہلی کو اس حوالے سے خط بھی لکھا گیا ہے جس میں کرتار پور سرحد کھولنے پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا گیا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے بھی بھارتی ہائی کمیشن کو خط لکھا ہے جس میں انھیں آگاہ کیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان 28 نومبر کو راہداری کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ یاد رہے کہ 28 نومبر وہ دن ہے جب عمران حکومت کو سو دن پورے ہوجائیں گے۔
کرتار پور بارڈر کا کھلنا پاکستان کی نیک نامی اور عمران کی مقبولیت میں اضافہ کرے گا۔ گزشتہ ہفتے وزیراعظم عمران خان نے ملائشیا کا دورہ کیا جہاں وزیراعظم مہاتیر کی اہلیہ خاتون اول نے وزیراعظم عمران خان سے ہاتھ ملانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس سے یہ پھر ثابت ہوا کہ عمران صرف پاکستان میں ہی نہیں پوری دنیا کی خواتین میں پاپولر ہیں۔د وزیراعظم مہاتیر محمد کی اہلیہ کا عمران خان سے ہاتھ ملانے کی خواہش کی آرزو کرنا پاکستان کے لیے بڑی عزت اور افتخار کا باعث ہے۔
کانگریس کے رہنما نوجوت سنگھ سدھو نے کرتار پور راہداری کھولنے کے فیصلے کو تہہ دل سے سراہتے ہوئے اپنے پیغام میں عمران خان کا شکریہ ادا کیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ بابا گورونانک کے جنم دن کے موقع پر راہداری کھولنے کے اعلان سے پوری دنیا کے سکھوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اس وقت دنیا میں سکھوں کی تعداد بارہ کروڑ ہے۔ بقول ان کے کرتار پور بارڈر کھولنا اس صدی کی سب سے بڑی خبر ہے جس کا وہ جشن منارہے ہیں۔ پاکستان کو اس کا بہت سیاسی فائدہ حاصل ہوگا۔
جب لاکھوں سکھ بابا گورونانک کی سمادھی حسن ابدال لاہور سمیت مقدس مقامات پر آئیں گے تو دونوں پنجاب سماجی، ثقافتی، لسانی بنیاد پر بہت تیزی سے ایک دوسرے کے قریب آئیں گے تو تعصبات اور دوریاں دور ہوں گی۔ خاص طور پر پاکستانی پنجاب میں فرقہ واریت کی آگ ٹھنڈی پڑجائے گی۔ سیاحت کا فروغ معاشی ترقی لائے گا۔ غربت اور بے روزگاری میں کمی ہوگی۔ کرکٹر نوجوت سدھو اور پاکستانی آرمی چیف کی ''جپھی'' نے تاریخ کا رخ بدل دیا۔ اس کے اثرات نہ صرف پاکستانی اور بھارتی پنجاب پر بلکہ برصغیر پر مستقل اور پائیدار ہوں گے۔ بیچ میں رکاوٹیں ضرور آئیں گی لیکن اس ایک مثبت فیصلے کی ٹھوکر سے گرد راہ ہوتی چلی جائیں گی۔
یاد رہے کہ تقسیم برصغیر کے موقع پر قائداعظم نے سکھوں کے لیڈروں کو پیش کش کی تھی کہ وہ پاکستان میں شامل ہوجائیں۔ اس تجویز کو نہ مان کر انھوں نے بڑی غلطی کی۔ کرتار پور بارڈر کھولنا اسی غلطی کا ازالہ ہے۔ تقسیم سے پہلے لاہور کی آبادی میں مسلمان ہندوؤں سے صرف چند فیصد زیادہ تھے۔
سیکڑوں سال سے آباد پاکستانی پنجاب اور پاکستان سے سکھوں اور ہندوؤں کا انخلا بہت بڑا المیہ تھا۔ نتیجے میں پاکستان اور خاص طور پر پاکستانی پنجاب میں مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی کی فصل کاشت کی گئی جس کا سارا کا سارا فائدہ امریکی سامراج اور مکمل نقصان پاکستان اور پاکستانی قوم کو پہنچا۔ خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال میں یہ ایک معنی خیز اور تاریخی پیش رفت ہے۔ پاکستان اس وقت امریکی کیمپ یا صحیح معنوں میں امریکی غلامی سے نکلنے کی کوشش کررہا ہے، خطے میں نیا اتحاد چین، روس، ایران، پاکستان اور ترکی کی صورت میں تشکیل پارہا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ کی ٹوئٹ ان کی اسی بوکھلاہٹ کا اظہار ہے۔ اس کے جواب میں پاکستانی آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کا یہ کہنا کہ اب وقت آگی ہے کہ پاکستان رائز کرے۔ اسے آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ٹائمنگ ملاحظہ فرمائیں جس دن ٹرمپ کی ٹوئٹ آئی اسی دن پاکستان آئی ایم ایف مذاکرات تعطل کا شکار ہوتے ہوئے ناکام ہو گئے۔
اگست میں پیش گوئی کی تھی کہ اکتوبر نومبر پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے اہم مہینے ہیں۔ بظاہر صورت حال مایوس کن تھی کہ بھارتی کابینہ نے پاکستانی آرمی چیف کی پیشکش اچانک 22 نومبر کو منظور کرلی۔ ذرا غور کریں 26 نومبر 2008ء کو ممبئی دہشت گردی ہوئی جس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی، حالات بد سے بدترین ہوتے چلے گئے لیکن جیسے ہی فیز مکمل ہوا 26 نومبر سے صرف چار دن پہلے برصغیر کے امن پسندوں کو خوش خبری مل گئی۔
بھارتی وزیر داخلہ نے بتایا کہ یہ راہداری منصوبہ تین سے چار کلو میٹر پر مشتمل ہے جس سے سکھ یاتری سال بھر باآسانی ڈیرہ بابانانک صاحب جاسکیں گے۔ بھارتی وزیراعلیٰ پنجاب اس سڑک کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ بھارتی وزیر خزانہ نے کہا کہ کرتار پور راہداری پر ہی ویزا اور کسٹمز کی سہولت ہوگی ۔
وزارت ریلوے ایک ٹرین بھی چلائے گی۔ وزیراعظم مودی کے آفس سے کہا گیا کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ پاکستان اس راہداری کو ہر وقت اور پورا سال کھلا رکھے گا۔ بھارتی دفتر خارجہ کی جانب سے پاکستانی ہائی کمیشن دہلی کو اس حوالے سے خط بھی لکھا گیا ہے جس میں کرتار پور سرحد کھولنے پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا گیا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے بھی بھارتی ہائی کمیشن کو خط لکھا ہے جس میں انھیں آگاہ کیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان 28 نومبر کو راہداری کا سنگ بنیاد رکھیں گے۔ یاد رہے کہ 28 نومبر وہ دن ہے جب عمران حکومت کو سو دن پورے ہوجائیں گے۔
کرتار پور بارڈر کا کھلنا پاکستان کی نیک نامی اور عمران کی مقبولیت میں اضافہ کرے گا۔ گزشتہ ہفتے وزیراعظم عمران خان نے ملائشیا کا دورہ کیا جہاں وزیراعظم مہاتیر کی اہلیہ خاتون اول نے وزیراعظم عمران خان سے ہاتھ ملانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس سے یہ پھر ثابت ہوا کہ عمران صرف پاکستان میں ہی نہیں پوری دنیا کی خواتین میں پاپولر ہیں۔د وزیراعظم مہاتیر محمد کی اہلیہ کا عمران خان سے ہاتھ ملانے کی خواہش کی آرزو کرنا پاکستان کے لیے بڑی عزت اور افتخار کا باعث ہے۔
کانگریس کے رہنما نوجوت سنگھ سدھو نے کرتار پور راہداری کھولنے کے فیصلے کو تہہ دل سے سراہتے ہوئے اپنے پیغام میں عمران خان کا شکریہ ادا کیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ بابا گورونانک کے جنم دن کے موقع پر راہداری کھولنے کے اعلان سے پوری دنیا کے سکھوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اس وقت دنیا میں سکھوں کی تعداد بارہ کروڑ ہے۔ بقول ان کے کرتار پور بارڈر کھولنا اس صدی کی سب سے بڑی خبر ہے جس کا وہ جشن منارہے ہیں۔ پاکستان کو اس کا بہت سیاسی فائدہ حاصل ہوگا۔
جب لاکھوں سکھ بابا گورونانک کی سمادھی حسن ابدال لاہور سمیت مقدس مقامات پر آئیں گے تو دونوں پنجاب سماجی، ثقافتی، لسانی بنیاد پر بہت تیزی سے ایک دوسرے کے قریب آئیں گے تو تعصبات اور دوریاں دور ہوں گی۔ خاص طور پر پاکستانی پنجاب میں فرقہ واریت کی آگ ٹھنڈی پڑجائے گی۔ سیاحت کا فروغ معاشی ترقی لائے گا۔ غربت اور بے روزگاری میں کمی ہوگی۔ کرکٹر نوجوت سدھو اور پاکستانی آرمی چیف کی ''جپھی'' نے تاریخ کا رخ بدل دیا۔ اس کے اثرات نہ صرف پاکستانی اور بھارتی پنجاب پر بلکہ برصغیر پر مستقل اور پائیدار ہوں گے۔ بیچ میں رکاوٹیں ضرور آئیں گی لیکن اس ایک مثبت فیصلے کی ٹھوکر سے گرد راہ ہوتی چلی جائیں گی۔
یاد رہے کہ تقسیم برصغیر کے موقع پر قائداعظم نے سکھوں کے لیڈروں کو پیش کش کی تھی کہ وہ پاکستان میں شامل ہوجائیں۔ اس تجویز کو نہ مان کر انھوں نے بڑی غلطی کی۔ کرتار پور بارڈر کھولنا اسی غلطی کا ازالہ ہے۔ تقسیم سے پہلے لاہور کی آبادی میں مسلمان ہندوؤں سے صرف چند فیصد زیادہ تھے۔
سیکڑوں سال سے آباد پاکستانی پنجاب اور پاکستان سے سکھوں اور ہندوؤں کا انخلا بہت بڑا المیہ تھا۔ نتیجے میں پاکستان اور خاص طور پر پاکستانی پنجاب میں مذہبی جنونیت اور انتہا پسندی کی فصل کاشت کی گئی جس کا سارا کا سارا فائدہ امریکی سامراج اور مکمل نقصان پاکستان اور پاکستانی قوم کو پہنچا۔ خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال میں یہ ایک معنی خیز اور تاریخی پیش رفت ہے۔ پاکستان اس وقت امریکی کیمپ یا صحیح معنوں میں امریکی غلامی سے نکلنے کی کوشش کررہا ہے، خطے میں نیا اتحاد چین، روس، ایران، پاکستان اور ترکی کی صورت میں تشکیل پارہا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ کی ٹوئٹ ان کی اسی بوکھلاہٹ کا اظہار ہے۔ اس کے جواب میں پاکستانی آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کا یہ کہنا کہ اب وقت آگی ہے کہ پاکستان رائز کرے۔ اسے آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ٹائمنگ ملاحظہ فرمائیں جس دن ٹرمپ کی ٹوئٹ آئی اسی دن پاکستان آئی ایم ایف مذاکرات تعطل کا شکار ہوتے ہوئے ناکام ہو گئے۔
اگست میں پیش گوئی کی تھی کہ اکتوبر نومبر پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے اہم مہینے ہیں۔ بظاہر صورت حال مایوس کن تھی کہ بھارتی کابینہ نے پاکستانی آرمی چیف کی پیشکش اچانک 22 نومبر کو منظور کرلی۔ ذرا غور کریں 26 نومبر 2008ء کو ممبئی دہشت گردی ہوئی جس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی، حالات بد سے بدترین ہوتے چلے گئے لیکن جیسے ہی فیز مکمل ہوا 26 نومبر سے صرف چار دن پہلے برصغیر کے امن پسندوں کو خوش خبری مل گئی۔