فیصل آبادلٹریری فیسٹیول

ملک میں انگریزی سننے اور پڑھنے والے کم ہوتے جارہے ہیں


راؤ منظر حیات November 26, 2018
[email protected]

LONDON: جمعہ سے شروع ہرکرہفتے کی رات تک چلنے والایہ لٹریری میلہ،کمال کاتھا۔پختگی،آرٹ،تہذہب اوررنگوں کا ایک نایاب نمونہ جودیکھنے والے کی آنکھوں اوردل کو مسخر کر دیتاہے۔پانچ برس سے مسلسل منعقدہونیو الافیسٹیول حددرجہ منفرداورخوبصورت تقریب تھی۔بے حد کامیاب اور لوگوں کے شعورپردستک دینے والی آواز۔

سب سے پہلے تواہلیان فیصل آبادکاذکر کرنا چاہوں گا۔آرٹس کونسل کاہال بھرپورطریقے سے بھراہوا تھا۔ ہر عمر اورہرطبقے سے تعلق رکھنے والے مرداورخواتین شانہ بشانہ براجمان تھے۔جولوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ادبی شعورمیں فیصل آباد کسی دوسرے شہرسے کمتر یاپیچھے ہے،اسے اس ادبی فیسٹیول کوضروردیکھناچاہیے تھا۔دعویٰ سے عرض کرسکتاہوں کہ فیصل آبادکسی بھی لحاظ سے کسی بھی شہرسے شعورمیں ہرگزہرگز کمزور نہیں ہے۔جس یکسوئی،محبت اورتمیزسے سامعین نے سب کوسنا،سوالات کیے،آنے والے مہمانوں کوعزت دی،اس سے یہی ثابت ہوتاہے کہ فیصل آباد،ادب دوستی میں کسی سے پیچھے نہیں ہے۔اسکوصرف ایک صنعتی شہرگرداننااس خطہ سے ناواقف ہونے کی علامت ہے۔

فیسٹیول کے وہ منتظمین جنہوں نے اس تقریب میں حددرجہ محنت کی،شب وروز ایک کیے،وسائل مہیاکیے،تمام مبارک بادکے مستحق ہیں۔ جس اخلاص سے محض چندافرادمالی وسائل مہیاکرتے ہیں اورکرتے جارہے ہیں،بذات خودایک خوبصورت عمل ہے۔ اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے بہرحال کم ہے۔اس میں مصدق ذوالقرنین کاذکرکرناضروری ہے۔ ان کی اہلیہ کی محنت کاذکربھی اَزحد ضروری ہے۔مصدق انٹرلوپ کے مالک ہیں۔کیڈٹ کالج حسن ابدال میں مجھ سے دوبرس سینئرتھے۔آج وہ دنیا میں انٹرلوپ جیسے کامیاب ترین ادارے کے روح رواح ہیں۔

میں نے یہ بھی دیکھاکہ جس توانائی سے مصدق اوردیگر چند کاروباری اداروں نے اس تقریب کوہرسال کامیابی سے منعقدکرنے کابیٹرا اُٹھایاہواہے،وہ جذبہ اَزحدخالص اور نادرہے۔اس بھرپورتقریب کو منعقد کرنے میں بہت سی خواتین نے اَزحدمحنت کی ہے،اس میں میری اہلیہ،توشیبا، شیبا اور دیگرخواتین شامل ہیں۔انتظامی لحاظ سے توشیباہربارکمال کرتی ہے۔مہمانوں کے لیے تمام جزئیات کامیابی سے طے کرنا،ان کی خاطرتواضع کرنا، عزت سے فیصل آبادلانا اور پھر واپس بھجوانا،اس مشکل ترین انتظامی کام میں توشیباکمال مہارت حاصل کرچکی ہے۔ بالکل اسی طرح کینرڈکالج کے شعبہ اردوکی ہیڈ،محترمہ شیبا صاحبہ نے بھی بھرپوراندازسے اس میلہ کو اپنایا ہوا ہے۔

شیبا صاحبہ،میرے قریبی دوست اصغرندیم سیدکی اہلیہ ہیں۔ دیکھاجائے توان تمام اورچند خواتین جنکانام نہیں جانتا، تقریب کوحددرجہ کامیاب بنانے میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ عرض کرتاچلوں کہ فیصل آباد لٹریری فیسٹیول کا لاہور اور کراچی میں منعقدکردہ ادبی تقریبات سے موازنہ نہیں کرنا چاہیے۔اس لیے کہ آنے والے مہمانوں کی اکثریت انھی بڑے شہروں میں رہتی ہے۔لاہوراورکراچی میں ان معزز مہمانوں کاآنا،نسبتاًآسان ہے۔مگرفیصل آباد فیسٹیول میں کمال بات یہ ہے کہ کراچی،اسلام آباد،لاہور اوردیگرتمام شہروں سے نہ صرف ادبی شخصیات بھرپورطریقے سے آتی ہیں،بلکہ فاصلہ بے معنی ہوجاتاہے۔یہ اس تقریب کی کامیابی کی ایک بہت بڑی دلیل ہے۔

جمعہ کی شام کوشروع ہونے والی افتتاحی تقریب میں شامل نہ ہوپایا۔اس لیے کہ لاہورمیں کچھ ذاتی مصروفیات تھیں۔ مگرہفتہ والے دن دوپہرکوآرٹس کونسل پہنچاتوہال تک رسائی کافی مشکل تھی۔ ہر طرف لوگ ہی لوگ تھے۔علم دوستی کایہ عالم تھاکہ ہال کے باہر،لوگ کرسیوں پرٹی وی اسکرین پربھی اندر ہونے والی تقریب کو بھرپور طریقے سے دیکھ رہے تھے۔ بڑی بڑی اسکرینوں پرہال میں منعقدہونے والی تقاریب، باہربھی اسی طرح نشرہورہی تھیں۔ لوگ بڑے آرام وسکون سے بیٹھ کرہرشخصیت سے ہونے والی بات چیت کوسن رہے تھے، محظوظ ہورہے تھے۔بہرحال اب اندرکاحال سنیے۔جب میں پہنچا تومدیحہ گوہرکی یادمیں دن کی دوسری یاتیسری تقریب ہورہی تھی۔ان کے شوہر، شاہد ندیم،بیٹی سویراندیم اور بیٹاسٹیج پربیٹھے ہوئے تھے۔

سوال وجواب کا سلسلہ جاری تھا۔ ندیم صاحب بتارہے تھے کہ مدیحہ پوری زندگی کمزورطبقے کے حقوق کے لیے لڑتی رہی اور پسے ہوئے طبقے کے مسائل کو ڈرامہ کی شکل میںعوام کے سامنے پیش کرتی رہی۔ اجوکا تھیٹرکا ذکر رہا۔پاک بھارت تعلقات کوانسانی سطح پرایک دوسرے کے قریب کرنے کی جوکوشش اجوکا تھیٹرنے کی،وہ قابل ستائش ہے۔ مدیحہ گوہر کے صاحبزادے نے امن کے لیے جو کوشیشیں،ان کی والدہ مدیحہ نے کیں،انھیںبھرپورطریقے سے بیان کیا۔انڈیامیں جب ان کی ایک تقریب میں بی جے پی کے چندشرپسندوں نے ہلٹربازی کی۔ ان کوصرف یہ کہاگیاکہ آپ بیٹھ کریہ ڈرامہ دیکھ لیں۔اس کے بعدفیصلہ خودکرلیجئے کہ یہ امن کے بڑھاواکے لیے ہے یااس کے کوئی اور مقاصدہیں۔بی جے پی کے درجن بھرلوگ،تین گھنٹے بیٹھ کر ڈرامہ دیکھتے رہے۔

اختتام پرمنتظمین کو مبارکباد دیکر خاموشی سے واپس چلے گئے۔مدیحہ گوہرنے جس طرح ڈرامہ کے میڈیم کوامن کے لیے استعمال کیا،وہ اپنی مثال آپ ہے۔ خدا،انھیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ اس کے بعدانگریزی ناول، شاعری اورکہانیوں پر سیشن ہوا۔ حارث خلیق اور منا ملک اس کی روح رواں تھے۔ معلوم ہوا کہ نہ صرف اردو،بلکہ انگریزی میں بھی ہمارے لکھاری اور شاعرکسی سے کم نہیں ہیں۔ خوبصورت بات یہ بھی تھی کہ جس توجہ سے سامعین اردو زبان سے منسلک افراد کو سنکر تعریف کررہے تھے،بالکل اسی توجہ سے انگریزی کوبھی پرکھ رہے تھے۔ حیرت انگیزبات تھی۔میرے لیے کافی حدتک اجنبی بھی۔کیونکہ اکثرگمان کیاجاتاہے کہ ملک میں انگریزی سننے اور پڑھنے والے کم ہوتے جارہے ہیں۔ مگر وہاں تو ماحول ہی کچھ اور تھا۔

کشورناہیدسے مکالمہ حددرجہ جاندار تھا۔ کشور ناہید بذات خوداپنے خیالات سے جڑی ہوئی ایک عظیم خاتون ہے۔نحیف سی نظرآنے والی کشورہرگزہرگزکمزورنہیں ہے۔ ان مشکل معاملات پربھی کھل کربات کرنے کی جرات رکھتی ہے جسکاذکرتک کرتے ہوئے بڑے بڑے لوگوں کے پسینے نکل آتے ہیں۔خواتین کے حقوق،ان کے ساتھ یکساں سلوک، اقلیتوں کے ساتھ نارواسلوک کاتدارک،ان کے لیے برابری کی سطح پربہترین سلوک،پسے ہوئے طبقوں کی حمایت میں آواز اُٹھانااورمذہبی شدت پسندی کے خلاف جس طرح کشور ناہیدکام کررہی ہے، حیرت انگیزحدتک بہادرانہ اور منفرد ہے۔کشورناہیدصرف معتوب طبقوں کی ہی آواز نہیں، بلکہ ان لوگوں کی آوازبھی ہے جودل ہی دل میں حساس معاملات پر کڑھتے رہتے ہیں۔

مگرجرات اظہارنہیں رکھتے۔ کشور ناہید چٹان کی طرح اپنے خیالات پرپہرادے رہی ہے۔ ان کے ساتھ تقریباًایک گھنٹے کی نشست کمال تھی۔محترم اصغرندیم سیدصاحب کی کہانیوں کی نئی کتاب، کہانی مجھے ملی، بھی اسی نشست میں سامنے آئی۔سیدصاحب کے متعلق کچھ بھی لکھناکم ازکم میرے لیے بہت مشکل ہے۔ وہ جتنا بڑا لکھاری ہے اتناہی بڑاانسان بھی ہے۔اصغرندیم سیدکی لکھی ہوئی ایک کہانی جس میں پشاورکے اے پی ایس کے شہیدبچوں کے چھوٹے چھوٹے اعضاء کومائیں پہچان کرلیجاتی ہیں،اس نشست کانقطہِ عروج تھا۔جب اصغرندیم سیداس کہانی کوپڑھ رہے تھے تواکثرلوگوں کی آنکھوں میں آنسوتھے۔سیدصاحب کوخداسلامت رکھے۔یہ نایاب انسان ہے۔اسطرح کے لوگ کم سے بھی کم ترہوتے جارہے ہیں۔

عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کے ساتھ بھی ایک جاندارسیشن تھا۔حال ہی میں انکااپریشن ہواہے۔خداانھیں صحت کاملہ دے۔نقاہت کے باوجود،لاہورسے فیصل آبادآئے۔ ان کا بیٹاسانول بھی ساتھ تھا۔عطاء اللہ کافیصل آبادسے بھرپور تعلق ہے جوبہت کم لوگوں کومعلوم ہے۔بلکہ میرے علم میں بھی نہیں تھا۔ساٹھ کی دہائی میں،عطاء لائل پورمیں ایک سرکاری کالج میں زیرِتعلیم رہے۔اسے عرفِ عام خالصہ کالج کہاجاتاہے۔اسی شہرمیں ایک محنت کش کے روپ میںبھی روزی کماتے رہے۔عطاء اللہ نے جب اپنے فنی سفر کا ذکر کیا۔اپنے والد،والدہ اورہمشیرگان کاذکرکررہے تھے،تو اکثر ان کی آنکھوں میں بادل آجاتے تھے۔خاموش ہوجاتے تھے۔ والدہ کے ذکرپران کی آنکھوں سے آنسونکل آتے تھے۔

انھوں نے اپنی گائیکی کی زندگی کی مشکلات پرکھل کربات کی ۔کس طرح انھیں پی ٹی وی اورریڈیوکے چکر در چکرلگانے پڑے۔ کس طرح عزتِ نفس کو باربار کچلا گیا۔ کس طرح سفارشیں کرواکرواکر معمولی سے پروگرام حاصل کیے۔مگر بالاخر کامیابی نے اس شخص کے قدم چومے۔ جو درد اس کی آوازمیں ہے،وہ سحرطاری کردیتاہے۔عطاء اوران کے بیٹے ساول نے سماں باندھ دیا۔سانول ایک تعلیم یافتہ نوجوان ہے۔اپنے والدکے فن کوآگے بڑھارہاہے۔یہ بھی معلوم ہواکہ عطاء اللہ کی صاحبزادی ہالی وڈکی مشہورفلم،مشن امپوسیبل (Mission Impossible)میں اسپیشلs Effectدیتی رہی ہیں۔ہالی وڈکی اس قدرکامیاب فلم میں ٹیکنیکل کام کرنابہت بڑی کامیابی ہے۔

کس کس مہمان کاذکرکروں ۔ طالبعلم اوروسعت اللہ خان کاسیشن بھی حددرجہ کامیاب رہا۔سوال وجواب کاایک مدلل دریاتھاجس سے سب شرابور ہورہے تھے۔پورے ملک سے اپنے اپنے شعبوں کے کامیاب ترین لوگ موجودتھے۔آصف،رضامیراور جمال شاہ کودیکھ کر خوشی ہوئی۔ٹی وی اورفلم پردہائیاں حکومت کرنے والے یہ بڑے لوگ،آج بھی ماشاء اللہ قائم ودائم ہیں۔ انور مقصودمکمل طورپرمیلہ لوٹنے میں کامیاب رہے۔ معلوم ہی نہ ہوپایاکہ دوپہرسے رات کب ہوگئی۔وقت گزرنے کاپتہ ہی نہ چل پایا۔ایسی ایسی شخصیات سے مکالمہ اور خوبصورت باتوں کاطوفان۔اب توفیصل آبادلٹریری فیسٹیول، شہر کی پہچان بن چکاہے۔میرے اپنے شہرکی انمٹ اورانمول شناخت۔ خدا، اس طلسم ہوشرباجیسے سفرکوقائم ودائم رکھے!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں