قومی اسمبلی سے وفاقی بجٹ کی منظوری

حکومت کو دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے کے لیے بھاری رقم خرچ کرنا پڑ رہی ہے۔


Editorial June 28, 2013
عوامی حلقوں کی جانب سے احتجاج کے بعد یہ امید پیدا ہوئی کہ حکومت جی ایس ٹی میں اضافہ واپس لے لے گی مگر قومی اسمبلی نے اس اضافے کو جائز قرار دے کر عوامی احتجاج کو مسترد کر دیا۔ فوٹو: فائل

قومی اسمبلی نے جمعرات کو 35 کھرب 91 ارب روپے سے زائد کا بجٹ کثرت رائے سے منظور کر لیا' بل میں حکومت کی 8 ترامیم شامل کی گئیں جب کہ ایوان نے اپوزیشن کی دونوں ترامیم کثرت رائے سے مسترد کر دیں۔ بجٹ کی منظوری کے بعد 17 فیصد جی ایس ٹی 13 جون سے نافذ ہو گیا اور ایک ترمیم کے ذریعے 13 جون سے 21 جون کے دوران وصول کیے گئے ایک فیصد سیلز ٹیکس کو جائز قرار دے دیا گیا ہے۔

حکومت نے 12 جون کو بجٹ میں جی ایس ٹی کی شرح 16 سے 17 فیصد کرنے کی تجویز پیش کی تو اس کے بعد ملک بھر میں اشیائے خوردنی سمیت دیگر تمام اشیا کے نرخوں میں اضافہ ہو گیا جس پر پورے ملک میں عوامی حلقوں کی جانب سے اس پر احتجاج کیا گیا کہ حکومت نے بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کے بجائے جی ایس ٹی میں ایک فیصد ہی سہی اضافہ کر کے مہنگائی کے طوفان کو مزید شدید کر دیا ہے۔ عام شہری جو پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے دبا ہوا تھا اسے امید تھی کہ موجودہ حکومت اسے زیادہ سے زیادہ ریلیف دے کر مہنگائی کے عذاب سے اس کی جان چھڑائے گی مگر افسوس' ایسا نہ ہو سکا۔ موجودہ بجٹ اس کے لیے خوشی کا کوئی سندیسہ لے کر نہ آیا بلکہ جی ایس ٹی میں ایک فیصد کا اضافہ کر کے ضروریات زندگی اس کے لیے مزید مہنگی کر دی گئیں۔ عوامی حلقوں کی جانب سے احتجاج کے بعد یہ امید پیدا ہوئی کہ حکومت جی ایس ٹی میں اضافہ واپس لے لے گی مگر قومی اسمبلی نے اس اضافے کو جائز قرار دے کر عوامی احتجاج کو مسترد کر دیا۔

یہ تو عوامی جذبات ہیں دوسری جانب ماہرین معاشیات اعدادوشمار کے گورکھ دھندے کو سامنے رکھتے ہوئے الگ ہی نقطہ نظر پیش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عام آدمی کو حکومت کی مالی مشکلات اور مسائل کا اندازہ نہیں وہ صرف ریلیف چاہتا ہے مگر جب حکومت کے اخراجات اور مسائل زیادہ جب کہ اس کے مقابل آمدن کم ہو تو ایسے میں حکومت عوام کو ریلیف کیسے دے سکتی ہے۔ حکومت نے بجلی کے بحران کا مسئلہ بھی حل کرنا ہے جس کے لیے خطیر سرمائے کی ضرورت ہے' امن و امان کی بگڑتی صورتحال اور دہشت گردی نے حکومتی خزانے پر الگ سے بوجھ ڈال رکھا ہے۔

حکومت کو دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے کے لیے بھاری رقم خرچ کرنا پڑ رہی ہے۔ آئی ایم ایف کی قسطوں کی ادائیگی جو ایک بہت بڑی رقم ہے' بھی کرنا لازمی ہے ورنہ عالمی سطح پر حکومت کی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے۔ لہذا حکومت چاروں جانب مشکلات میں گھری ہوئی ہے۔ ماہرین کا دوسرا طبقہ ان تمام مشکلات کو تسلیم کرتے ہوئے موقف اختیار کرتا ہے کہ مالی مشکلات پر قابو پانے کا یہ حل نہیں کہ جی ایس ٹی میں اضافہ کر کے عوام کی ضروریات زندگی تک رسائی مشکل بنا دی جائے۔ حکومت بہتر منصوبہ بندی کے ذریعے اور ملکی وسائل سے صحیح معنوں میں فائدہ اٹھا کر اپنی مالی مشکلات پر قابو پا سکتی ہے۔

قدرت نے پاکستان کو وسائل سے مالا مال کیا ہے، بلوچستان میں معدنیات کا وسیع خزانہ موجود ہے، حکومت ان کے نکالنے پر توجہ دے تو ملک میں خوشحالی آ سکتی ہے۔ توانائی کے تمام ذرایع مہنگا ہونے سے ملکی صنعت و تجارت اور زراعت کے شعبے میں پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے جس کا بوجھ غریب آدمی پر بھی پڑتا اور ترقی کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ اگر حکومت بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کو سستا کر دے تو اس سے صنعتی اور زرعی انقلاب آ سکتا ہے جس سے حکومت کے ریونیو میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو گا اور حکومت کو نیا ٹیکس لگانے کی ضرورت درپیش نہیں ہو گی۔ حکومت ٹیکس کا دائرہ وسیع کرے، بڑے بڑے جاگیردار' قبائلی سردار اور متعدد امیر کبیر سیاستدان اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے حکومت کو ٹیکس ادا نہیں کرتے' ان سے بھی ٹیکس وصولی کی جائے'

علاوہ ازیں ٹیکس چوری عام ہے اور اس جرم میں متعلقہ سرکاری اہلکار بھی برابر کے شریک ہیں۔ کرپشن نے ہر سرکاری محکمے کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ اگر حکومت کرپشن ہی پر قابو پا لے تو اس سے اس کے ریونیو میں ہر سال اربوں روپے کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ موجودہ بجٹ پر بحث کے دوران اپوزیشن نے جی ایس ٹی کے نفاذ کی مخالفت کی۔ پیپلز پارٹی کے نوید قمر نے کہا کہ پچھلی تاریخوں سے ٹیکس وصولی سپریم کورٹ کے حکم کی نفی ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ جنرل سیلز ٹیکس میں اضافے کا 13 جون سے اطلاق سپریم کورٹ کے فیصلے کے عین مطابق ہے۔ انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جنرل سیلز ٹیکس میں ایک فیصد اضافے کو پانچ فیصد قرار دینا درست نہیں اور نہ ہی منی بجٹ پیش کرنے کا الزام درست ہے۔

ہر حکومت بجٹ پیش کرتے ہوئے یہ یقین دہانی کراتی ہے کہ منی بجٹ نہیں آئے گا مگراس پر عملدرآمد کبھی نہیں ہوا۔ بجٹ کے کچھ عرصے بعد ہی غیر علانیہ طور پر منی بجٹ آ جاتا ہے اور روز مرہ کی اشیا مزید مہنگی ہو جاتی ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی ہر ماہ اضافے کا طریقہ کار درست نہیں' اس سے ملکی معیشت میں کبھی استحکام نہیں آ سکتا ہے۔ ماضی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تعین سالانہ بنیادوں پر ہوتا تھا اور حکومت منی بجٹ پیش کرنے سے احتراز کرتی تھی جس سے صنعتکار اور تاجر کا بھی حکومتی پالیسیوں پر اعتبار قائم رہتا اور ملکی معیشت سال بھر درست سمت میں چلتی رہتی۔ مگر مشرف دور سے جاری ہونے والی اس روایت جس میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تعین قلیل المدت کے لیے ہوتا ہے، نے ملکی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

دوسری جانب پنجاب اسمبلی نے فنانس بل 2013-14 اپوزیشن کے احتجاج کے باوجود کثرت رائے سے منظور کر لیا ہے جس میں پوش علاقوں میں 5 مرلے کے گھروں پر ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے۔ اسمبلی میں فنانس بل کی مخالفت کرتے ہوئے اپوزیشن نے واک آئوٹ کیا۔ تحریک انصاف نے احتجاج کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ پوش آبادیوں میں پانچ مرلے کا کوئی گھر نہیں' کچی آبادیاں ہیں اور ان آبادیوں کے مکین انتہائی غریب اور پسماندہ ہیں' اپوزیشن کا یہ موقف بالکل درست ہے کہ پوش علاقوں میں پانچ مرلے کے نہیں بلکہ کنال یا اس سے بڑے گھر ہیں۔اس لیے پانچ مرلے والے گھر پر ٹیکس کا فیصلہ درست نہیں۔

قومی اور صوبائی سطح پر اپوزیشن احتجاج کر رہی ہے کہ حکومت نے بجٹ میں غریب آدمی کے ریلیف کے لیے کچھ پیش نہیں کیا بلکہ جی ایس ٹی میں اضافہ کر کے اس کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ ضروری امر ہے کہ حکومت ایسے فیصلوں پر نظرثانی کرے جس سے عام آدمی متاثر ہوتا ہے۔ اگر عام آدمی کے مسائل اسی طرح برقرار رہے تو موجودہ حکومت کے بارے میں اس کی خوش فہمی دم توڑ جائے گی اور امیدی ناامیدی میں بدل جائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں