شام کی خانہ جنگی لبنان تک پھیلنے لگی
لبنان ماضی میں بھی خانہ جنگی کا شکار رہا ہے‘ اس خانہ جنگی میں سیکڑوں لوگ مارے گئے تھے۔
شام کی خانہ جنگی کے اثرات اس کے ہمسایہ ملک لبنان پر بھی پڑنا شروع ہو گئے۔ غیر ملکی ذرایع ابلاغ میں شایع ہونے والی خبروں کے مطابق لبنان میںشام کے حامی اور مخالفین کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے۔یہ کشیدگی فرقہ وارانہ رنگ لیے ہوئے ہے۔ادھرلبنانی فوج سے بھی مسلح تنظیموں کی جھڑپیں ہو رہی ہیں۔
گزشتہ دنوں ایک عسکریت پسند تنظیم کے مسلح اہلکاروں کے ساتھ خونریز جھڑپ میں لبنان کے 18 فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ ادھر لبنان کے پڑوسی ملک شام میں جاری خانہ جنگی میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے جب کہ شام سے فرار ہو کر لبنان میں میں پناہ حاصل کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس سے یہ خطرہ واضح ہونا شروع ہو گیا ہے کہ شامی خانہ جنگی پھیل کر لبنان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔
ادھر شام کے تنازعہ کو حل کرانے کے سلسلے میں امریکا اور روس کے ما بین ہونے والے مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں۔ مغربی ذرایع ابلاغ کے مطابق روس کے نائب وزیر خارجہ کاتیلوف کا کہنا ہے کہ مجوزہ امن کانفرنس میں ایران کی شمولیت کے سوال پر دونوں ملکوں میں اتفاق نہیں ہو سکا۔ غیر ملکی ذرایع ابلاغ کے اندازوں کے مطابق لبنان میں پناہ حاصل کرنے والے شامی باشندوں کی تعداد دس لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ لبنان کے دو شہروں سیدون اور تریپولی (یہ لیبیا کا شہر تریپولی نہیں' لبنان میں بھی تریپولی نام کا شہر ہے)میں خونریزی شروع ہو چکی ہے۔
لبنان کے ایک مسلم رہنما شیخ احمد الاثیر کے حامیوں نے سیدون میں لبنانی فوج کی ایک چیک پوسٹ پر حملہ کیا' اس ابتدائی حملے میں تین لبنانی فوجی ہلاک ہو گئے تاہم بعد میں فوج کی طرف سے جوابی حملے میں دونوں طرف کے متعدد افراد مارے گئے۔ شیخ الاثیر کا گروپ حزب اللہ کا مخالف ہے اور ان دونوں میں بھی گاہے بگاہے جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ حزب اللہ کی طرف سے شام کے صدر بشار الاسد کی حمایت کی جا رہی ہے جب کہ شیخ الاثیرکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شامی باغیوں کے حامی ہیں۔یوں لبنان ایک نئی چپقلش کی طرف بڑھتا نظر آ رہا ہے۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ لبنان کی سرکاری فوج خاصی کمزور ہے۔ اس میں اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ لبنان میں طاقتور گروپوں کو کارروائیوں سے روک سکے۔ اس لیے خدشہ ہے کہ لبنان میں حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ لبنان ماضی میں بھی خانہ جنگی کا شکار رہا ہے' اس خانہ جنگی میں سیکڑوں لوگ مارے گئے تھے۔ بدترین خانہ جنگی کے بعد اس ملک میں امن قائم ہوا تھا لیکن کچھ عرصہ قبل حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان لڑائی شروع ہو گئی۔ جس کی وجہ سے لبنان میں خاصا نقصان ہوا۔ اب شامی خانہ جنگی کے اثرات اس ملک پر پڑنا شروع ہو گئے ہیں' اس ملک میں مسلم عسکری تنظیموں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی مستقبل میں بڑی خونریزی میں تبدیل ہو سکتی ہے۔شام کا بحران جیسے جیسے گہرا ہو گا یہ اپنے ہمسایہ ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لیتا جائے گا۔اب لبنان مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔
اس کے بعد ممکن ہے کہ اس بحران کے اثرات اردن پر بھی پڑیں۔ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ عالمی برادری شام میں خانہ جنگی ختم کرانے میں ناکام ہو گئی ہے۔ عرب لیگ کا کردار بھی خاموش تماشائی کاسا ہے۔او آئی سی بھی کچھ کرنے کے قابل نہیں۔ بڑی طاقتیں شام میں اپنی اپنی بالادستی کی جنگ لڑ رہی ہیں۔
اس کا سراسر نقصان شام کے عوام کو ہو رہا ہے اور اب اس کی لپیٹ میں ہمسایہ ممالک کے عوام بھی آ رہے ہیں۔ یہ صورت حال مشرق وسطی کے امن کے لیے انتہائی خطر ناک ہے۔ مسلم امہ خصوصاً عرب لیگ کو اس معاملے میں متحرک کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ یہ براہ راست ان کا مسئلہ ہے۔ اگر مسلم ممالک اس مسئلے کو حل نہیں کرینگے تو عالمی طاقتیں اپنا کھیل کھیلتی رہیں گی۔ اس معاملے کو اگر فوری طور پر حل نہ کیا گیا تو آنے والے دنوں میں لبنان میں شدید لڑائی شروع ہو سکتی ہے اور یہ لڑائی بھی مسلمانوں کے درمیان ہو گی۔ جس میں سراسر نقصان مسلمانوں کا ہو گا۔
گزشتہ دنوں ایک عسکریت پسند تنظیم کے مسلح اہلکاروں کے ساتھ خونریز جھڑپ میں لبنان کے 18 فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ ادھر لبنان کے پڑوسی ملک شام میں جاری خانہ جنگی میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے جب کہ شام سے فرار ہو کر لبنان میں میں پناہ حاصل کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس سے یہ خطرہ واضح ہونا شروع ہو گیا ہے کہ شامی خانہ جنگی پھیل کر لبنان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔
ادھر شام کے تنازعہ کو حل کرانے کے سلسلے میں امریکا اور روس کے ما بین ہونے والے مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں۔ مغربی ذرایع ابلاغ کے مطابق روس کے نائب وزیر خارجہ کاتیلوف کا کہنا ہے کہ مجوزہ امن کانفرنس میں ایران کی شمولیت کے سوال پر دونوں ملکوں میں اتفاق نہیں ہو سکا۔ غیر ملکی ذرایع ابلاغ کے اندازوں کے مطابق لبنان میں پناہ حاصل کرنے والے شامی باشندوں کی تعداد دس لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ لبنان کے دو شہروں سیدون اور تریپولی (یہ لیبیا کا شہر تریپولی نہیں' لبنان میں بھی تریپولی نام کا شہر ہے)میں خونریزی شروع ہو چکی ہے۔
لبنان کے ایک مسلم رہنما شیخ احمد الاثیر کے حامیوں نے سیدون میں لبنانی فوج کی ایک چیک پوسٹ پر حملہ کیا' اس ابتدائی حملے میں تین لبنانی فوجی ہلاک ہو گئے تاہم بعد میں فوج کی طرف سے جوابی حملے میں دونوں طرف کے متعدد افراد مارے گئے۔ شیخ الاثیر کا گروپ حزب اللہ کا مخالف ہے اور ان دونوں میں بھی گاہے بگاہے جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ حزب اللہ کی طرف سے شام کے صدر بشار الاسد کی حمایت کی جا رہی ہے جب کہ شیخ الاثیرکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شامی باغیوں کے حامی ہیں۔یوں لبنان ایک نئی چپقلش کی طرف بڑھتا نظر آ رہا ہے۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ لبنان کی سرکاری فوج خاصی کمزور ہے۔ اس میں اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ لبنان میں طاقتور گروپوں کو کارروائیوں سے روک سکے۔ اس لیے خدشہ ہے کہ لبنان میں حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ لبنان ماضی میں بھی خانہ جنگی کا شکار رہا ہے' اس خانہ جنگی میں سیکڑوں لوگ مارے گئے تھے۔ بدترین خانہ جنگی کے بعد اس ملک میں امن قائم ہوا تھا لیکن کچھ عرصہ قبل حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان لڑائی شروع ہو گئی۔ جس کی وجہ سے لبنان میں خاصا نقصان ہوا۔ اب شامی خانہ جنگی کے اثرات اس ملک پر پڑنا شروع ہو گئے ہیں' اس ملک میں مسلم عسکری تنظیموں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی مستقبل میں بڑی خونریزی میں تبدیل ہو سکتی ہے۔شام کا بحران جیسے جیسے گہرا ہو گا یہ اپنے ہمسایہ ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لیتا جائے گا۔اب لبنان مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔
اس کے بعد ممکن ہے کہ اس بحران کے اثرات اردن پر بھی پڑیں۔ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ عالمی برادری شام میں خانہ جنگی ختم کرانے میں ناکام ہو گئی ہے۔ عرب لیگ کا کردار بھی خاموش تماشائی کاسا ہے۔او آئی سی بھی کچھ کرنے کے قابل نہیں۔ بڑی طاقتیں شام میں اپنی اپنی بالادستی کی جنگ لڑ رہی ہیں۔
اس کا سراسر نقصان شام کے عوام کو ہو رہا ہے اور اب اس کی لپیٹ میں ہمسایہ ممالک کے عوام بھی آ رہے ہیں۔ یہ صورت حال مشرق وسطی کے امن کے لیے انتہائی خطر ناک ہے۔ مسلم امہ خصوصاً عرب لیگ کو اس معاملے میں متحرک کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ یہ براہ راست ان کا مسئلہ ہے۔ اگر مسلم ممالک اس مسئلے کو حل نہیں کرینگے تو عالمی طاقتیں اپنا کھیل کھیلتی رہیں گی۔ اس معاملے کو اگر فوری طور پر حل نہ کیا گیا تو آنے والے دنوں میں لبنان میں شدید لڑائی شروع ہو سکتی ہے اور یہ لڑائی بھی مسلمانوں کے درمیان ہو گی۔ جس میں سراسر نقصان مسلمانوں کا ہو گا۔