پشتون اور پختون میں فرق
جناب مو لانا فضل الرحمٰن کو مجبوری کے عالم میں چار و ناچار حزب اختلاف کا کردار ادا کر نا پڑا.
MULTAN:
خیبر پختون خوا تبدیلی کے بلندبانگ نعروں کے باوجود صدیوں سے طاری جمود کا شکار ہے۔ اتحادی سیاست اور مخلوط حکومتیں ہمیشہ تبدیلی کی مخالف اور جمود کی حامی و ہمنوا ہوتی ہیں۔ تحریک انصاف کی قیادت میں، سیاسی مجبوریوں کی بنا پر رنگ بر نگا بھان متی کا کنبہ جوڑا گیا ہے، کہیں کی اینٹ، کہیں کا روڑا۔ جس سے کسی قسم کی مثبت تبدیلی کی توقع رکھنا، ایں خیال است، محال است والا معاملہ ہو گا۔
جناب آفتاب شیرپائو کو میں پختون سیاست میں اسٹیٹس کو کی علامت سمجھتا ہوں، جہاں تک جماعت اسلامی اور برادرم سراج الحق کا تعلق ہے ان کے خلوص نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن میدان سیاست میں صرف خلوص کی بنیاد پر منزل نہیں پائی جا سکتی۔ جناب سراج الحق، مولانا فضل الرحمٰن کی زیر نگرانی ایم ایم اے کی حکومت میں سنیئر وزیر کی حثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں، ماضی کی طر ح اب بھی کار اختیار کی لگام ان کے ہا تھ میں نہیں ہو گی، اس لیے فوری مثبت اقدامات کی توقعات کار عبث ہو گا۔ تحریک انصاف کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک بھی ہمارے فرسودہ سیاسی نظام کا حصہ ہیں کو ئی اجنبی نہیں۔ وہ پیپلز پارٹی اور شیرپائو کی جماعت کے جانے مانے رہنما تھے، آج ان کے اتحادی کل تک مختلف جماعتوں میں ان کے رفیق کار بھی رہے ہیں۔ اس لیے وہ بھی تبدیلی کے بجا ئے اسٹیٹس کو کو ترجیح دیں گے۔
جناب مو لانا فضل الرحمٰن کو مجبوری کے عالم میں چار و ناچار حزب اختلاف کا کردار ادا کر نا پڑا ورنہ انھوں نے خیبر پی کے میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں مخلوط حکومت قائم کر نے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا۔ وہ تو جناب نواز شریف تھے جنھوں نے اکثریتی پارٹی تحریک انصاف کا حق حکمرانی تسلیم کر کے کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا۔
مرکز میں حکمران مسلم لیگ (ن) نے بلوچستان کے پشتون رہنما محمود خان اچکزئی کی دلداری اور دلجوئی کی انتہا کر دی۔ جناب نواز شریف کے نہاں خانۂ دل میں کہیں یہ خواہش چھپی ہوئی ہے کہ محمود خان کو ایوان صدر میں ہونا چاہیے۔ ان کی عام انتخابات سے پہلے مکمل حمایت کی گئی بلوچستان میں حکومت سازی ان کے مشورہ سے کی گئی۔
خیبر پختون خوا کا سیاسی منظر نامہ اس کے با لکل بر عکس دکھا ئی دیتا ہے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں خیبر کے پی کے سے مسلم لیگ (ن) کے 6 ارکان قومی اسمبلی میں منتخب ہو ئے۔ پختون اکثریتی علا قے اور ہند کو بو لنے والے ہزارہ سے تعداد میں برابر تھے۔
امیر مقا م کے بھائی ڈاکٹر عباداللہ شانگلہ/ سوات جب کہ شہاب الدین خان باجوڑ اور غالب خان جنوبی وزیرستان سے منتخب ہوئے۔ انتخابی مہم کے دوران امن و امان کی مخصوص صورتحال کی وجہ سے یہ قبائلی علاقے'نو گو ایریا' بنے ہو ئے تھے، ان ارکان نے جا ن ہتھیلی پر رکھ کر مسلم لیگ (ن) اور پاکستان کا پرچم سر بلند رکھا، جناب نواز شریف سمیت کوئی مرکزی رہنما بھی سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے ان کے حلقوں میں انتخابی مہم کے دوران نہیں آ سکا تھا۔ ہونا تو یہ چا ہیے تھا کہ وفاقی کابینہ کی تشکیل میں خیبر پی کے پختون ارکان کو ترجیحی بنیا دوں پر شامل کیا جاتا خا ص طور پر اس لیے بھی کہ صوبائی حکومت ہا تھو ں سے نکل چکی تھی۔ لیکن ان ارکان کو یکسر نظر اند از کر دیا گیا۔
جب کہ خیبر پختو ن خوا کے ہندکو بولنے والے ہزارہ ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے تینوں ارکان کو ایڈجسٹ کیا گیا۔ مانسہرہ کے سردار یوسف وفاقی وزیر مذہبی امور اور جب کہ ایبٹ آباد کے مرتضیٰ ستی ڈپٹی اسپیکر بنا ئے گئے، کپیٹن صفدر کو کسی رسمی عہد ے کی ضرور ت نہیں ہے ۔ سردار یوسف مشرف دور میں مسلم لیگ (ق) میں چلے گئے تھے، انھوں نے صوبہ ہز ارہ تحریک کے فر وغ میں بھی بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ خواتین کی مخصوص نشتوں کے لیے پختونوں کو پانچ نشتیں دی گئی ہیں جب کہ اس معاملے میں بھی ہزارہ والے خوش نصیب نکلے انھیں سا ت نشتیں ملیں۔ ان میں سے ایک تو براہ راست کینڈا سے صوبائی اسمبلی میں پہنچی ہیں۔ اس طرح خیبر کے پی کے اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی ذمے داری بھی ایبٹ آباد کے حصے میں آئی ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں مسلم لیگ کا اپنے پختون ارکان قو می اسمبلی کو یکسر نظر اند از کر نے کی سیا سی حکمت عملی زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی۔
اس کو لاپروائی، استغنا یا تجاہل عارفانہ کہا جائے یا کسی بڑے سیا سی کھیل کا حصہ، یہ سمجھنا ہر کسں و نا کس کے بس کی بات نہیں ہے جن کی دلجو ئی اور دلداری کی ضرورت تھی وہ احساس محرومی کا شکار ہیں اور جو دور مشر ف میں بھی اقتدار میں رہے ، انھیں عہدے دیے گئے۔
گل پھینکے ہیں اوروں کی طر ف اور ثمر بھی
اے خا نہ براندازٍ چمن، کچھ تو ادھر بھی
حرف آخر یہ ہے کہ خیبر پی کے کی سیاسی صورتحال پر بعض قارئین نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے خاص طور پر پروفیسر طیب فاروق بھٹی نے مرحوم عبدالولی خا ں کے لیے تعریفی لقب پر اعتراض کیا ہے۔انھوں نے لکھا ہے کہ ولی خاں سوویت یو نین کے خلا ف جہا د کے دوران کیمونسٹوں کی وکالت کر رہے تھے اور اب ان کے والی وارث امریکیوں کے ساتھ ہیں۔ غیور پختونوں نے گزشتہ عا م انتخابات میں انھیں سبق سکھا دیا ہے اور آپ کی دانش کے بھی کیا کہنے کہ آپ ولی خان اور ان کی مسترد شدہ جماعت کے لیے رطب اللسان ہیں۔ برادرم طیب بھٹی ایک اعلی درس گا ہ میں پڑھا تے ہیں، اپنی متوازن شخصیت کے برعکس انھوں نے ایسا جذباتی تبصرہ کیا ہے جس کی ان جیسے استاد سے توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔ جو کہ اس حقیقت کا آئینہ دار ہے کہ معاشر ے کے پڑھے لکھے طبقوں میں بھی اختلاف رائے کو بر داشت کا جذبہ ختم ہو تا جا رہا ہے 'یہ بھی انتہا پسندی کی ایک قسم ہے اور کیا عر ض کروں کہ گذشتہ دنو ں ایک ستم ظریف نے تو بر صغیر پا ک و ہند کی ایک مذہبی شخصیت کے لیے رحمت اللہ علیہ لکھنے پر بھی اعتراض کر دیا تھا ۔
کہا ں تک سنو گے کہا ں تک سنائیں
خیبر پختون خوا تبدیلی کے بلندبانگ نعروں کے باوجود صدیوں سے طاری جمود کا شکار ہے۔ اتحادی سیاست اور مخلوط حکومتیں ہمیشہ تبدیلی کی مخالف اور جمود کی حامی و ہمنوا ہوتی ہیں۔ تحریک انصاف کی قیادت میں، سیاسی مجبوریوں کی بنا پر رنگ بر نگا بھان متی کا کنبہ جوڑا گیا ہے، کہیں کی اینٹ، کہیں کا روڑا۔ جس سے کسی قسم کی مثبت تبدیلی کی توقع رکھنا، ایں خیال است، محال است والا معاملہ ہو گا۔
جناب آفتاب شیرپائو کو میں پختون سیاست میں اسٹیٹس کو کی علامت سمجھتا ہوں، جہاں تک جماعت اسلامی اور برادرم سراج الحق کا تعلق ہے ان کے خلوص نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن میدان سیاست میں صرف خلوص کی بنیاد پر منزل نہیں پائی جا سکتی۔ جناب سراج الحق، مولانا فضل الرحمٰن کی زیر نگرانی ایم ایم اے کی حکومت میں سنیئر وزیر کی حثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں، ماضی کی طر ح اب بھی کار اختیار کی لگام ان کے ہا تھ میں نہیں ہو گی، اس لیے فوری مثبت اقدامات کی توقعات کار عبث ہو گا۔ تحریک انصاف کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک بھی ہمارے فرسودہ سیاسی نظام کا حصہ ہیں کو ئی اجنبی نہیں۔ وہ پیپلز پارٹی اور شیرپائو کی جماعت کے جانے مانے رہنما تھے، آج ان کے اتحادی کل تک مختلف جماعتوں میں ان کے رفیق کار بھی رہے ہیں۔ اس لیے وہ بھی تبدیلی کے بجا ئے اسٹیٹس کو کو ترجیح دیں گے۔
جناب مو لانا فضل الرحمٰن کو مجبوری کے عالم میں چار و ناچار حزب اختلاف کا کردار ادا کر نا پڑا ورنہ انھوں نے خیبر پی کے میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں مخلوط حکومت قائم کر نے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا۔ وہ تو جناب نواز شریف تھے جنھوں نے اکثریتی پارٹی تحریک انصاف کا حق حکمرانی تسلیم کر کے کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا۔
مرکز میں حکمران مسلم لیگ (ن) نے بلوچستان کے پشتون رہنما محمود خان اچکزئی کی دلداری اور دلجوئی کی انتہا کر دی۔ جناب نواز شریف کے نہاں خانۂ دل میں کہیں یہ خواہش چھپی ہوئی ہے کہ محمود خان کو ایوان صدر میں ہونا چاہیے۔ ان کی عام انتخابات سے پہلے مکمل حمایت کی گئی بلوچستان میں حکومت سازی ان کے مشورہ سے کی گئی۔
خیبر پختون خوا کا سیاسی منظر نامہ اس کے با لکل بر عکس دکھا ئی دیتا ہے۔ 2013ء کے عام انتخابات میں خیبر کے پی کے سے مسلم لیگ (ن) کے 6 ارکان قومی اسمبلی میں منتخب ہو ئے۔ پختون اکثریتی علا قے اور ہند کو بو لنے والے ہزارہ سے تعداد میں برابر تھے۔
امیر مقا م کے بھائی ڈاکٹر عباداللہ شانگلہ/ سوات جب کہ شہاب الدین خان باجوڑ اور غالب خان جنوبی وزیرستان سے منتخب ہوئے۔ انتخابی مہم کے دوران امن و امان کی مخصوص صورتحال کی وجہ سے یہ قبائلی علاقے'نو گو ایریا' بنے ہو ئے تھے، ان ارکان نے جا ن ہتھیلی پر رکھ کر مسلم لیگ (ن) اور پاکستان کا پرچم سر بلند رکھا، جناب نواز شریف سمیت کوئی مرکزی رہنما بھی سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے ان کے حلقوں میں انتخابی مہم کے دوران نہیں آ سکا تھا۔ ہونا تو یہ چا ہیے تھا کہ وفاقی کابینہ کی تشکیل میں خیبر پی کے پختون ارکان کو ترجیحی بنیا دوں پر شامل کیا جاتا خا ص طور پر اس لیے بھی کہ صوبائی حکومت ہا تھو ں سے نکل چکی تھی۔ لیکن ان ارکان کو یکسر نظر اند از کر دیا گیا۔
جب کہ خیبر پختو ن خوا کے ہندکو بولنے والے ہزارہ ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے تینوں ارکان کو ایڈجسٹ کیا گیا۔ مانسہرہ کے سردار یوسف وفاقی وزیر مذہبی امور اور جب کہ ایبٹ آباد کے مرتضیٰ ستی ڈپٹی اسپیکر بنا ئے گئے، کپیٹن صفدر کو کسی رسمی عہد ے کی ضرور ت نہیں ہے ۔ سردار یوسف مشرف دور میں مسلم لیگ (ق) میں چلے گئے تھے، انھوں نے صوبہ ہز ارہ تحریک کے فر وغ میں بھی بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ خواتین کی مخصوص نشتوں کے لیے پختونوں کو پانچ نشتیں دی گئی ہیں جب کہ اس معاملے میں بھی ہزارہ والے خوش نصیب نکلے انھیں سا ت نشتیں ملیں۔ ان میں سے ایک تو براہ راست کینڈا سے صوبائی اسمبلی میں پہنچی ہیں۔ اس طرح خیبر کے پی کے اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی ذمے داری بھی ایبٹ آباد کے حصے میں آئی ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں مسلم لیگ کا اپنے پختون ارکان قو می اسمبلی کو یکسر نظر اند از کر نے کی سیا سی حکمت عملی زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی۔
اس کو لاپروائی، استغنا یا تجاہل عارفانہ کہا جائے یا کسی بڑے سیا سی کھیل کا حصہ، یہ سمجھنا ہر کسں و نا کس کے بس کی بات نہیں ہے جن کی دلجو ئی اور دلداری کی ضرورت تھی وہ احساس محرومی کا شکار ہیں اور جو دور مشر ف میں بھی اقتدار میں رہے ، انھیں عہدے دیے گئے۔
گل پھینکے ہیں اوروں کی طر ف اور ثمر بھی
اے خا نہ براندازٍ چمن، کچھ تو ادھر بھی
حرف آخر یہ ہے کہ خیبر پی کے کی سیاسی صورتحال پر بعض قارئین نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے خاص طور پر پروفیسر طیب فاروق بھٹی نے مرحوم عبدالولی خا ں کے لیے تعریفی لقب پر اعتراض کیا ہے۔انھوں نے لکھا ہے کہ ولی خاں سوویت یو نین کے خلا ف جہا د کے دوران کیمونسٹوں کی وکالت کر رہے تھے اور اب ان کے والی وارث امریکیوں کے ساتھ ہیں۔ غیور پختونوں نے گزشتہ عا م انتخابات میں انھیں سبق سکھا دیا ہے اور آپ کی دانش کے بھی کیا کہنے کہ آپ ولی خان اور ان کی مسترد شدہ جماعت کے لیے رطب اللسان ہیں۔ برادرم طیب بھٹی ایک اعلی درس گا ہ میں پڑھا تے ہیں، اپنی متوازن شخصیت کے برعکس انھوں نے ایسا جذباتی تبصرہ کیا ہے جس کی ان جیسے استاد سے توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔ جو کہ اس حقیقت کا آئینہ دار ہے کہ معاشر ے کے پڑھے لکھے طبقوں میں بھی اختلاف رائے کو بر داشت کا جذبہ ختم ہو تا جا رہا ہے 'یہ بھی انتہا پسندی کی ایک قسم ہے اور کیا عر ض کروں کہ گذشتہ دنو ں ایک ستم ظریف نے تو بر صغیر پا ک و ہند کی ایک مذہبی شخصیت کے لیے رحمت اللہ علیہ لکھنے پر بھی اعتراض کر دیا تھا ۔
کہا ں تک سنو گے کہا ں تک سنائیں