جنرل ر پرویز مشرف کا ٹرائل اور انصاف کے تقاضے
تاریخ کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ وہ اکثر اپنے آپ کو دہراتی بھی ہے اور اس معاملے میں بھی بس یہی ہوا ہے.
ایک بہت پرانی کہاوت ہے کہ جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے۔ اس وقت بہت سے لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف پر یہ کہاوت صادق آتی ہے؟ اس کے بالکل برعکس جنرل صاحب کے حامی وفاداروں کا کہنا ہے کہ جنرل صاحب کوئی عام بزدل قسم کے انسان نہیں بلکہ وہ ایک نڈر اور دلیر کمانڈو ہیں اور وہ تمام حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔
ان کا استدلال یہ بھی ہے جنرل صاحب کی وطن واپسی محض اچانک نہیں ہوئی بلکہ وہ خوب سوچ سمجھ کر اور تمام امکانات و عوامل کو پیش نظر رکھ کر یہاں آئے ہیں۔ مگر یہ بات کس حد تک درست ہے اس کا علم یا تو بذات خود جنرل صاحب کو ہوگا یا پھر اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ان کا یہ فیصلہ ان کے حق میں کس حد تک درست یا غلط تھا۔ اس سوال کا جواب صرف آنیو الا وقت ہی دے سکے گا۔ البتہ جہاں تک جنرل صاحب کے مزاج کی بات ہے تو ان کو اکثر یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ ''میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں ہوں''۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے ان الفاظ پر کب تک اور کس حد تک قائم رہتے ہیں۔
امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کے یہ سابق حکمراں اور سیاہ و سفید کے مالک فوجی ڈکٹیٹر اس وقت Deep hot waters میں ہیں اور شاید انھوں نے کبھی یہ سوچا بھی نہ ہوگا کہ ان پر اتنا کڑا وقت بھی آسکتا ہے۔ انسان کی یہ عام فطرت ہے کہ جب وہ مسند اقتدار پر براجمان ہوتا ہے تو خود کو عقل کل اور مختار کل سمجھتا ہے اور اس کی کیفیت I am the monarch all i survey والی ہوتی ہے اور اسے یہ غرور ہوتا ہے کہ وہ جو چاہے محض اپنی جنبش ابرو کے ایک اشارے پر کرسکتا ہے۔ وہ اس حقیقت کو یکسر فراموش کردیتا ہے کہ:
دارا رہا' نہ جم' نہ سکندر سا بادشاہ
تخت زمیں پر سیکڑوں آئے چلے گئے
تاریخ ایسی بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے جب اقتدار کے نشے میں چور مطلق العنان آمروں نے اس صداقت کو نظرانداز کردیا کہ روئے زمین پر اصل حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہے اور غرور و تکبر صرف اسی ذات باری کو زیب دیتا ہے۔ اس میں صرف فوجی آمر ہی نہیں بلکہ وہ سویلین قسم کے آمر بھی شامل ہیں جو یہ کہا کرتے تھے کہ ''میری کرسی بہت مضبوط ہے''۔ ایسے حکمرانوں کا انجام ہم سب کے سامنے ہے اور ہمارے موجودہ حکمرانوں کے لیے بھی یہ ایک نشان عبرت اور باعث سبق ہے۔
تاریخ کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ وہ اکثر اپنے آپ کو دہراتی بھی ہے اور اس معاملے میں بھی بس یہی ہوا ہے جسے دوسرے الفاظ میں مکافات عمل بھی کہا جاسکتا ہے۔ چونکہ اس وقت ہمارا میڈیا بڑی حد تک آزاد ہے لہٰذا صبح و شام اس پر پرویز مشرف ہی کے چرچے ہیں اور کیفیت یہ ہے کہ بجٹ 2013-14 کی ستم ظریفی بڑھتی ہوئی لاقانونیت اور دہشت گردی اور کمر توڑ ہوشربا مہنگائی سمیت تمام سنگین عوامی مسائل پس پشت چلے گئے ہیں۔ اس اعتبار سے جنرل (ر) پرویز مشرف کا معاملہ ہماری موجودہ حکومت کے لیے ایک درد سر بن گیا ہے کیونکہ ملک کے مظلوم و ستم رسیدہ عوام کی توجہ اب پرویز مشرف کے معاملہ پر مرکوز ہوگئی ہے۔
گزشتہ پانچ سال کا عرصہ پرویز مشرف کے لیے سکون اور چین سے عبارت تھا کیونکہ یہ سارا وقت جمہوریت کے انتقام کی نذر ہوگیا اور سابقہ حکومت کو مال بنانے سے اتنی فرصت ہی نہیں مل سکی کہ وہ اس معاملے کی جانب توجہ دیتی۔ اس بے چاری عوامی حکومت کو تو اتنی فرصت بھی میسر نہ آئی کہ اپنی شہید قائد محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو تلاش کرکے کیفر کردار تک پہنچاتی۔ بقول شاعر:
عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
مگر وزیر اعظم میاں نواز شریف کی تیسری حکومت کے برسراقتدار آتے ہی یہ مسئلہ گرم ہوگیا اور نتیجتاً انھوں نے گزشتہ مورخہ 24 جون کو قومی اسمبلی میں اپنا پالیسی بیان دیتے ہوئے سابق صدر اور سابق فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلانے کا اعلان کردیا ،جس کی اپوزیشن جماعتوں اور حکومت کی اتحادی جماعتوں نے مشترکہ اور غیر مشروط حمایت کردی۔ جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلانے سے متعلق مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے جس میں عدالت عظمیٰ نے وفاقی حکومت سے جواب طلب کیا ہوا تھا اور وزیر اعظم نے اسی کے حوالے سے قومی اسمبلی میں اپنا پالیسی بیان دیا اور اس بیان کو ہی بطور جواب عدالت عظمیٰ میں پیش کردیا گیا۔
وطن عزیز کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب کسی آمر کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلایا جائے گا۔ چناں چہ اس لحاظ سے اس کیس کی ایک تاریخی اہمیت ہوگی اور اسی لیے یہ مقدمہ پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ یہاں یہ بات دہرانے کی ضرورت نہیں کہ جنرل پرویز مشرف 12 اکتوبر 1999 کو وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر برسراقتدار آئے تھے اور اس وقت کی سپریم کورٹ نے ان کے اس اقدام کو جائز قرار دے دیا تھا اور اس کے بعد 2002 کے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی پارلیمنٹ نے LFO کو منظوری دے کر آئین کا حصہ بنادیا تھا۔
موجودہ صورت حال یہ ہے کہ اب جنرل پرویز مشرف کے خلاف جو مقدمہ چلے گا وہ 3 نومبر 2007 میں نافذ کی جانے والی ایمرجنسی پلس کا معاملہ ہوگا جس کے تحت اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کو برخواست کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ سابق پارلیمان نے 3 نومبر 2007 کے اقدامات کو استثنیٰ نہیں دیا تھا۔ یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ موجودہ وفاقی حکومت کا حالیہ فیصلہ اپنے مضمرات کے حوالے سے تاریخی اہمیت رکھتا ہے۔
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف سے متعلق فیصلہ عجلت یا جلدبازی میں نہیں کیا۔ اس فیصلے سے قبل سوچ بچار اور صلاح مشورے کے لیے ان کے پاس کافی وقت تھا۔ اس کے علاوہ ان کے پاس تمام اہم رپورٹیں بھی موجود تھیں۔لہٰذا ان کے اس فیصلے کے بارے میں یہ کہنا غلط ہوگا کہ:
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
میاں صاحب اب وہ پہلے والے میاں صاحب نہیں ہیں۔ انھوں نے ماضی کے نشیب و فراز اور وقت کے سردوگرم سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ چناں چہ انھوں نے اس انتہائی حساس نوعیت کے معاملے میں سب سے پہلے اپنی کابینہ کو اعتماد میں لیا اور پھر اس کے بعد وہ قومی اسمبلی پہنچے اور اس مسئلے کو دیگر سیاسی کھلاڑیوں کے ساتھ شیئر کیا اور ان سے یہ سوال کیا کہ ''آپ جمہوریت کی بساط لپیٹنے والوں اور آئین پاکستان کو پامال کرنے والوں کا ساتھ دیں گے یا میرا ساتھ دیں گے۔''
قصہ مختصر وقت نے ایک نئی کروٹ لی ہے اور مکافات عمل کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف اس وقت نرغے میں ہیں اور اس قانونی جنگ میں انھیں متوقع اور غیر متوقع طور پر شدید مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ تاہم وہ آزمائش کی اس گھڑی میں بالکل تنہا نہیں ہیں کیونکہ ان کے چند دیرینہ وفادار جن میں ماہر قانون بھی شامل ہیں ان کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔ مشرف کے ان حلقہ بگوشوں کا یہ کہنا ہے کچھ آرٹیکل 6 کے تحت ان کے باس کے ٹرائل کے نتیجے میں ایک پنڈورا باکس کھل جانے کا اندیشہ لاحق ہے جس کے نتیجے میں بات نکلی تو بہت دور تلک جائے گی اور بہت سارے پردہ نشینوں کے نام بھی اس میں شامل ہوجائیں گے۔
اس خدشے کے اظہار نے اہل الرائے اور قانون کے ماہرین کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔ ان میں سے بعض اس خدشے سے اتفاق کرتے ہیں جب کہ غالب اکثریت اس سے متفق نظر نہیں آتی۔ کیا درست ہے اور کیا درست نہیں ہے یہ اب آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ بعض صاحب الرائے حضرات کو یہ بات بھی ہضم نہیں ہورہی ہے کہ اگر 3 نومبر 2007 کو جنرل پرویز مشرف کی جانب سے نافذ کی گئی ایمرجنسی خلاف آئین اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی عدلیہ void ab initio قرار دے دی گئی تو کیا جنرل مشرف 12 اکتوبر 1999 کا اقدام کوئی چھوٹا یا معمولی قسم کا جرم تھا جسے محض اس بنا پر قابل معافی کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت کی عدالت عظمیٰ اور اس کے بعد پارلیمان نے اس کی توثیق کرائی تھی حالانکہ واقعتاً وہ پورا سسٹم جنرل پرویز مشرف کے آرڈر کے مطابق ہی قائم ہوا تھا۔
جنرل پرویز مشرف واحد فوجی ڈکٹیٹر نہیں ہیں جو ایک سویلین حکومت کا تختہ الٹنے کے جرم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ درحقیقت اس سلسلے کی بنیاد جنرل اور خود ساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان نے ڈالی تھی جس کی تقلید کرنے والوں میں جنرل یحییٰ خان اور جنرل محمد ضیاء الحق بھی شامل ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پرویز مشرف سے پہلے کے طالع آزماؤں کو کس کھاتے میں ڈالا جائے اور انھیں کس لیے معاف کیا جائے۔ یہ سوال اپنی جگہ نہایت اہم ہے، خواہ اس کا جواب دیا جائے یا نہ دیا جائے۔
انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ آرٹیکل 6 کے تحت آئین شکنی کے جرم کے معاملے میں سب کو ایک ہی نظر سے بلاتفریق و امتیاز دیکھا جائے۔ انصاف کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے معاملے میں بالکل فری اور فیئر ٹرائل کیا جائے اور Due Process of Law کو محض لفظاً نہیں بلکہ اس کی روح کے مطابق follow کیا جائے اور انصاف بالکل آئینے کی طرح صاف اور شفاف شکل میں ہوتا ہوا پوری دنیا کو نظر بھی آئے تاکہ عدلیہ کا مقام بلند تر ہو۔
ان کا استدلال یہ بھی ہے جنرل صاحب کی وطن واپسی محض اچانک نہیں ہوئی بلکہ وہ خوب سوچ سمجھ کر اور تمام امکانات و عوامل کو پیش نظر رکھ کر یہاں آئے ہیں۔ مگر یہ بات کس حد تک درست ہے اس کا علم یا تو بذات خود جنرل صاحب کو ہوگا یا پھر اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ان کا یہ فیصلہ ان کے حق میں کس حد تک درست یا غلط تھا۔ اس سوال کا جواب صرف آنیو الا وقت ہی دے سکے گا۔ البتہ جہاں تک جنرل صاحب کے مزاج کی بات ہے تو ان کو اکثر یہ کہتے ہوئے سنا گیا ہے کہ ''میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں ہوں''۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنے ان الفاظ پر کب تک اور کس حد تک قائم رہتے ہیں۔
امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کے یہ سابق حکمراں اور سیاہ و سفید کے مالک فوجی ڈکٹیٹر اس وقت Deep hot waters میں ہیں اور شاید انھوں نے کبھی یہ سوچا بھی نہ ہوگا کہ ان پر اتنا کڑا وقت بھی آسکتا ہے۔ انسان کی یہ عام فطرت ہے کہ جب وہ مسند اقتدار پر براجمان ہوتا ہے تو خود کو عقل کل اور مختار کل سمجھتا ہے اور اس کی کیفیت I am the monarch all i survey والی ہوتی ہے اور اسے یہ غرور ہوتا ہے کہ وہ جو چاہے محض اپنی جنبش ابرو کے ایک اشارے پر کرسکتا ہے۔ وہ اس حقیقت کو یکسر فراموش کردیتا ہے کہ:
دارا رہا' نہ جم' نہ سکندر سا بادشاہ
تخت زمیں پر سیکڑوں آئے چلے گئے
تاریخ ایسی بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے جب اقتدار کے نشے میں چور مطلق العنان آمروں نے اس صداقت کو نظرانداز کردیا کہ روئے زمین پر اصل حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہے اور غرور و تکبر صرف اسی ذات باری کو زیب دیتا ہے۔ اس میں صرف فوجی آمر ہی نہیں بلکہ وہ سویلین قسم کے آمر بھی شامل ہیں جو یہ کہا کرتے تھے کہ ''میری کرسی بہت مضبوط ہے''۔ ایسے حکمرانوں کا انجام ہم سب کے سامنے ہے اور ہمارے موجودہ حکمرانوں کے لیے بھی یہ ایک نشان عبرت اور باعث سبق ہے۔
تاریخ کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ وہ اکثر اپنے آپ کو دہراتی بھی ہے اور اس معاملے میں بھی بس یہی ہوا ہے جسے دوسرے الفاظ میں مکافات عمل بھی کہا جاسکتا ہے۔ چونکہ اس وقت ہمارا میڈیا بڑی حد تک آزاد ہے لہٰذا صبح و شام اس پر پرویز مشرف ہی کے چرچے ہیں اور کیفیت یہ ہے کہ بجٹ 2013-14 کی ستم ظریفی بڑھتی ہوئی لاقانونیت اور دہشت گردی اور کمر توڑ ہوشربا مہنگائی سمیت تمام سنگین عوامی مسائل پس پشت چلے گئے ہیں۔ اس اعتبار سے جنرل (ر) پرویز مشرف کا معاملہ ہماری موجودہ حکومت کے لیے ایک درد سر بن گیا ہے کیونکہ ملک کے مظلوم و ستم رسیدہ عوام کی توجہ اب پرویز مشرف کے معاملہ پر مرکوز ہوگئی ہے۔
گزشتہ پانچ سال کا عرصہ پرویز مشرف کے لیے سکون اور چین سے عبارت تھا کیونکہ یہ سارا وقت جمہوریت کے انتقام کی نذر ہوگیا اور سابقہ حکومت کو مال بنانے سے اتنی فرصت ہی نہیں مل سکی کہ وہ اس معاملے کی جانب توجہ دیتی۔ اس بے چاری عوامی حکومت کو تو اتنی فرصت بھی میسر نہ آئی کہ اپنی شہید قائد محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو تلاش کرکے کیفر کردار تک پہنچاتی۔ بقول شاعر:
عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
مگر وزیر اعظم میاں نواز شریف کی تیسری حکومت کے برسراقتدار آتے ہی یہ مسئلہ گرم ہوگیا اور نتیجتاً انھوں نے گزشتہ مورخہ 24 جون کو قومی اسمبلی میں اپنا پالیسی بیان دیتے ہوئے سابق صدر اور سابق فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلانے کا اعلان کردیا ،جس کی اپوزیشن جماعتوں اور حکومت کی اتحادی جماعتوں نے مشترکہ اور غیر مشروط حمایت کردی۔ جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلانے سے متعلق مقدمہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے جس میں عدالت عظمیٰ نے وفاقی حکومت سے جواب طلب کیا ہوا تھا اور وزیر اعظم نے اسی کے حوالے سے قومی اسمبلی میں اپنا پالیسی بیان دیا اور اس بیان کو ہی بطور جواب عدالت عظمیٰ میں پیش کردیا گیا۔
وطن عزیز کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب کسی آمر کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ چلایا جائے گا۔ چناں چہ اس لحاظ سے اس کیس کی ایک تاریخی اہمیت ہوگی اور اسی لیے یہ مقدمہ پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ یہاں یہ بات دہرانے کی ضرورت نہیں کہ جنرل پرویز مشرف 12 اکتوبر 1999 کو وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر برسراقتدار آئے تھے اور اس وقت کی سپریم کورٹ نے ان کے اس اقدام کو جائز قرار دے دیا تھا اور اس کے بعد 2002 کے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی پارلیمنٹ نے LFO کو منظوری دے کر آئین کا حصہ بنادیا تھا۔
موجودہ صورت حال یہ ہے کہ اب جنرل پرویز مشرف کے خلاف جو مقدمہ چلے گا وہ 3 نومبر 2007 میں نافذ کی جانے والی ایمرجنسی پلس کا معاملہ ہوگا جس کے تحت اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کو برخواست کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ سابق پارلیمان نے 3 نومبر 2007 کے اقدامات کو استثنیٰ نہیں دیا تھا۔ یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ موجودہ وفاقی حکومت کا حالیہ فیصلہ اپنے مضمرات کے حوالے سے تاریخی اہمیت رکھتا ہے۔
وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف سے متعلق فیصلہ عجلت یا جلدبازی میں نہیں کیا۔ اس فیصلے سے قبل سوچ بچار اور صلاح مشورے کے لیے ان کے پاس کافی وقت تھا۔ اس کے علاوہ ان کے پاس تمام اہم رپورٹیں بھی موجود تھیں۔لہٰذا ان کے اس فیصلے کے بارے میں یہ کہنا غلط ہوگا کہ:
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
میاں صاحب اب وہ پہلے والے میاں صاحب نہیں ہیں۔ انھوں نے ماضی کے نشیب و فراز اور وقت کے سردوگرم سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ چناں چہ انھوں نے اس انتہائی حساس نوعیت کے معاملے میں سب سے پہلے اپنی کابینہ کو اعتماد میں لیا اور پھر اس کے بعد وہ قومی اسمبلی پہنچے اور اس مسئلے کو دیگر سیاسی کھلاڑیوں کے ساتھ شیئر کیا اور ان سے یہ سوال کیا کہ ''آپ جمہوریت کی بساط لپیٹنے والوں اور آئین پاکستان کو پامال کرنے والوں کا ساتھ دیں گے یا میرا ساتھ دیں گے۔''
قصہ مختصر وقت نے ایک نئی کروٹ لی ہے اور مکافات عمل کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف اس وقت نرغے میں ہیں اور اس قانونی جنگ میں انھیں متوقع اور غیر متوقع طور پر شدید مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ تاہم وہ آزمائش کی اس گھڑی میں بالکل تنہا نہیں ہیں کیونکہ ان کے چند دیرینہ وفادار جن میں ماہر قانون بھی شامل ہیں ان کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔ مشرف کے ان حلقہ بگوشوں کا یہ کہنا ہے کچھ آرٹیکل 6 کے تحت ان کے باس کے ٹرائل کے نتیجے میں ایک پنڈورا باکس کھل جانے کا اندیشہ لاحق ہے جس کے نتیجے میں بات نکلی تو بہت دور تلک جائے گی اور بہت سارے پردہ نشینوں کے نام بھی اس میں شامل ہوجائیں گے۔
اس خدشے کے اظہار نے اہل الرائے اور قانون کے ماہرین کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔ ان میں سے بعض اس خدشے سے اتفاق کرتے ہیں جب کہ غالب اکثریت اس سے متفق نظر نہیں آتی۔ کیا درست ہے اور کیا درست نہیں ہے یہ اب آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ بعض صاحب الرائے حضرات کو یہ بات بھی ہضم نہیں ہورہی ہے کہ اگر 3 نومبر 2007 کو جنرل پرویز مشرف کی جانب سے نافذ کی گئی ایمرجنسی خلاف آئین اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی عدلیہ void ab initio قرار دے دی گئی تو کیا جنرل مشرف 12 اکتوبر 1999 کا اقدام کوئی چھوٹا یا معمولی قسم کا جرم تھا جسے محض اس بنا پر قابل معافی کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت کی عدالت عظمیٰ اور اس کے بعد پارلیمان نے اس کی توثیق کرائی تھی حالانکہ واقعتاً وہ پورا سسٹم جنرل پرویز مشرف کے آرڈر کے مطابق ہی قائم ہوا تھا۔
جنرل پرویز مشرف واحد فوجی ڈکٹیٹر نہیں ہیں جو ایک سویلین حکومت کا تختہ الٹنے کے جرم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ درحقیقت اس سلسلے کی بنیاد جنرل اور خود ساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان نے ڈالی تھی جس کی تقلید کرنے والوں میں جنرل یحییٰ خان اور جنرل محمد ضیاء الحق بھی شامل ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پرویز مشرف سے پہلے کے طالع آزماؤں کو کس کھاتے میں ڈالا جائے اور انھیں کس لیے معاف کیا جائے۔ یہ سوال اپنی جگہ نہایت اہم ہے، خواہ اس کا جواب دیا جائے یا نہ دیا جائے۔
انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ آرٹیکل 6 کے تحت آئین شکنی کے جرم کے معاملے میں سب کو ایک ہی نظر سے بلاتفریق و امتیاز دیکھا جائے۔ انصاف کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے معاملے میں بالکل فری اور فیئر ٹرائل کیا جائے اور Due Process of Law کو محض لفظاً نہیں بلکہ اس کی روح کے مطابق follow کیا جائے اور انصاف بالکل آئینے کی طرح صاف اور شفاف شکل میں ہوتا ہوا پوری دنیا کو نظر بھی آئے تاکہ عدلیہ کا مقام بلند تر ہو۔