مسیحائے انسانیت عبدالستار ایدھی
دنیا بھر کے بڑے بڑے ایوارڈ عبدالستار ایدھی صاحب اور ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی صاحب کو دیے گئے۔
ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی پریس کانفرنس میں بتا رہے تھے کہ عظیم سماجی خدمت گار مولانا عبدالستار ایدھی صاحب کے گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ ان کے گردے خاصے ناکارہ ہوگئے ہیں۔ ڈاکٹر رضوی بتا رہے تھے کہ اب ایدھی صاحب مسلسل ڈائیلاسس پر رہیں گے، ایدھی صاحب کے لیے گردوں کے ڈونر (اپنا گردہ دینے والے) موجود ہیں، مگر ان کے گردے تبدیل نہیں کیے جاسکتے اور ڈاکٹر ادیب رضوی یہ بھی کہہ رہے تھے کہ ''ایدھی صاحب کے بیرون ملک علاج کی ضرورت نہیں ہے، ان کا علاج معالجہ پاکستان ہی میں ہوگا۔ ڈاکٹر رضوی صاحب کے ادارے SIUT میں علاج معالجے کی تمام سہولتیں موجود ہیں۔
ہمارے ملک کا سب سے بڑا آدمی دنیا بھر کے چند عظیم انسانوں میں شامل عبدالستار ایدھی ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کے ساتھ خاموش بیٹھے ہوئے اپنے بارے میں باتیں سن رہے تھے۔ ساری زندگی بہادری سے گزارنے والا، بڑے بڑے طوفانوں سے گزرنے والا، ٹکرانے والا، بڑے ہی اطمینان سے اپنے خراب و ناکارہ ہوتے نظام حیات کے بارے میں سب کچھ سن رہا تھا۔ پریس کانفرنس میں صحافی حضرات و خواتین، مختلف ٹی وی چینلز کے نمایندے اور کیمرہ مین کے علاوہ مولانا عبدالستار ایدھی صاحب کے علاج معالجے پر مامور تمام ڈاکٹر نرسیں و دیگر اسٹاف سب موجود تھے۔
پریس کانفرنس کے اختتام پر ایک گروپ فوٹو بنایا گیا۔ میں یہ گروپ فوٹو دیکھ رہا ہوں، اس تصویر میں ایدھی صاحب کے خدمت گار ڈاکٹر، نرسیں، وارڈ بوائے سب موجود ہیں اور اس گل دستے کے عین بیچوں بیچ دو قیمتی اور خوشبودار پھول موجود ہیں، دودھیا سفید بالوں والے ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی اور میلی سیاہ جناح کیپ پہنے مولانا عبدالستار ایدھی۔ یہ تصویر دیکھتے ہوئے میں سوچ رہا ہوں کہ اس گروپ میں شامل نوجوان ڈاکٹر لڑکے لڑکیاں نرسیں یہ سب لوگ اپنے اپنے بچوں کو مولانا عبدالستار ایدھی اور ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کی باتیں سنایا کریں گے۔
میرا ان دونوں شخصیات سے بہت قریبی تعلق ہے۔ یہ دونوں عظیم انسان ایک تیسرے بڑے آدمی کے دیوانے ہیں اور یہ تیسرا بڑا آدمی حبیب جالب ہے۔ 2007 سے ہر سال کسی ایک منتخب شخصیت کو حبیب جالب امن ایوارڈ دیا جاتا ہے۔ 2009 کا ایوارڈ عبدالستار ایدھی صاحب کو دیا گیا اور 2010 کا حبیب جالب امن ایوارڈ، ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی صاحب کو دیا گیا۔ قارئین کرام! یہ دونوں وہ شخصیات ہیں کہ جن کا اعتراف بین الاقوامی سطح پر کیا گیا۔ دنیا بھر کے بڑے بڑے ایوارڈ عبدالستار ایدھی صاحب اور ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی صاحب کو دیے گئے۔ اس کے باوجود یہ دونوں عظیم انسان خود چل کر آئے اور انھوں نے حبیب جالب امن ایوارڈ وصول کیا۔
مولانا عبدالستار ایدھی صاحب سے میری پہلی بالمشافہ ملاقات نوے کی دہائی میں ہوئی تھی۔ غالباً 1997 یا 1998 کا سال تھا۔ میں نے حبیب جالب صاحب کے خوبصورت سیاہ اسکیچ (کہ جسے ملک کے معروف مصور ''ریاظ'' نے بنایا تھا۔ مصور ریاظ اپنا نام ظ سے لکھتے ہیں) کے وال کلاک بنائے تھے اور میں یہ وال کلاک ایدھی سینٹر کھارادر کراچی میں آویزاں کرنا چاہتا تھا۔ ملاقات کے لیے میں نے سابق ممبر قومی اسمبلی عبدالعزیز میمن صاحب سے رابطہ کیا۔ مقررہ تاریخ اور وقت پر ہم ایدھی سینٹر کھارادر کراچی پہنچ گئے۔ میلی سی شلوار، ایدھی صاحب لکڑی کی کرسی پر ہمارے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے جالب صاحب کے اسکیچ والا وال کلاک ایدھی صاحب کی خدمت میں پیش کیا۔ جسے انھوں نے بصد خوشی قبول کیا اور پھر قریب بیٹھے ایک کارکن سے کہا کہ وال کلاک کو سامنے والی دیوار پر لگادو۔
وقت کا بہت بڑا انسان ہمارے سامنے بیٹھا تھا، ایدھی صاحب کہہ رہے تھے۔ میں اور میرے بیوی بچے عزیز میمن کی نانی کے گھر میں کرائے پر رہتے ہیں، میرے دن رات تو ایدھی سینٹر میں ہی زیادہ تر گزرتے ہیں۔ رات کو جب کبھی نیند آجائے تو اس جنازہ ڈولی میں سو جاتا ہوں۔ ایدھی صاحب کے بائیں ہاتھ کے قریب ہی لکڑی کا بنا ہوا جنازہ پڑا تھا۔ میں نے جنازہ دیکھا اور ایک جھرجھری سی میرے تن بدن میں لہراگئی۔ کچھ دیر مزید گزرنے کے بعد عبدالعزیز میمن صاحب نے مجھے چلنے کا اشارہ کیا اور ہم ایدھی صاحب سے اجازت لے کر اٹھ گئے۔ باہر آکر عزیز میمن صاحب نے کھارادر کے ایک چائے خانے پر ہمیں چائے پلائی، عزیز میمن کہہ رہے تھے ''بھئی! ایدھی صاحب کسی کو چائے پانی کا نہیں پوچھتے کیونکہ ان کے پاس اس کے لیے ذاتی پیسے نہیں ہوتے ''۔
اب ذرا تذکرہ حبیب جالب ایوارڈ کا بھی سن لیجیے۔ ہر سال 30 اپریل والے دن جب مزدوروں کی شام آجاتی ہے اور رات گزرنے کے بعد پوری دنیا میں مزدوروں کا سورج یکم مئی کی صورت طلوع ہوتا ہے اسی مزدوروں کی شام میں حبیب جالب امن ایوارڈ منتخب شخصیت کو دیا جاتا ہے۔ 30 اپریل 2009 کا دن کراچی میں اسلحہ بردار دہشت گرد دندناتے پھر رہے تھے۔ جگہ جگہ فائرنگ ہورہی تھی سعید آباد، مواچھ گوٹھ، لیاری سے گلستان جوہر، پہلوان گوٹھ، لانڈھی، ملیر، شاہ فیصل کالونی، سمجھیں تقریباً پورے کراچی شہر پر خوف کے سائے چھائے ہوئے تھے۔
میں کراچی پریس کلب میں تقریب کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ پریس کلب والی سڑک بھی سنسان پڑی تھی، دوست احباب بھی تقریب کے التوا کا مشورہ دے رہے تھے۔ مگر میں ایسا کسی صورت نہیں چاہتا تھا۔ میں نے ایدھی صاحب کو فون کیا اور شہر کے حالات بیان کیے۔ جواباً ایدھی صاحب نے کہا ''سعید بھائی! آپ تقریب میں آؤگے؟'' میں نے کہا ''ہاں'' تو ایدھی صاحب بولے ''آپ مجھے ایوارڈ دینا اور میں ایوارڈ لوں گا''۔
یہ ہیں عبدالستار ایدھی۔ شہر کے برے حالات کے باوجود جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم صاحب آئے اور اپنے ہاتھوں سے ایدھی صاحب کو ایوارڈ دیا۔ ملک بھر سے جو مقررین آئے تھے ان میں میر حاصل بزنجو، مشاہد اﷲ و دیگر موجود تھے۔ شہر کے حالات کے باوجود بڑی تعداد میں سامعین پہنچے تھے۔ آخر میں حبیب جالب کی عبدالستار صاحب کے لیے کہی گئی نظم حاضر ہے اس دعا کے ساتھ کہ اﷲ تادیر ایدھی صاحب کو زندہ رکھے۔
عبدالستار ایدھی
یہ جو تو چمکا رہا ہے ' آنسوؤں سے رات کو
فرق کیا پڑتا ہے پیارے جگنوؤں سے رات کو
اہل شیشہ لائے جاتے ہیں' مسلسل جوئے شیر
خسرواں مہکا رہے ہیں' گیسوؤں سے رات کو
خود مسلح اور ان کی پشت پر ہیں مقتدر
تو نہتا لڑ رہا ہے ڈاکوؤں سے رات کو
رات کا جڑ سے اکھڑنا ہی علاج درد ہے
کر سپرد خاک لاکھوں بازوؤں سے رات کو
ہمارے ملک کا سب سے بڑا آدمی دنیا بھر کے چند عظیم انسانوں میں شامل عبدالستار ایدھی ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کے ساتھ خاموش بیٹھے ہوئے اپنے بارے میں باتیں سن رہے تھے۔ ساری زندگی بہادری سے گزارنے والا، بڑے بڑے طوفانوں سے گزرنے والا، ٹکرانے والا، بڑے ہی اطمینان سے اپنے خراب و ناکارہ ہوتے نظام حیات کے بارے میں سب کچھ سن رہا تھا۔ پریس کانفرنس میں صحافی حضرات و خواتین، مختلف ٹی وی چینلز کے نمایندے اور کیمرہ مین کے علاوہ مولانا عبدالستار ایدھی صاحب کے علاج معالجے پر مامور تمام ڈاکٹر نرسیں و دیگر اسٹاف سب موجود تھے۔
پریس کانفرنس کے اختتام پر ایک گروپ فوٹو بنایا گیا۔ میں یہ گروپ فوٹو دیکھ رہا ہوں، اس تصویر میں ایدھی صاحب کے خدمت گار ڈاکٹر، نرسیں، وارڈ بوائے سب موجود ہیں اور اس گل دستے کے عین بیچوں بیچ دو قیمتی اور خوشبودار پھول موجود ہیں، دودھیا سفید بالوں والے ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی اور میلی سیاہ جناح کیپ پہنے مولانا عبدالستار ایدھی۔ یہ تصویر دیکھتے ہوئے میں سوچ رہا ہوں کہ اس گروپ میں شامل نوجوان ڈاکٹر لڑکے لڑکیاں نرسیں یہ سب لوگ اپنے اپنے بچوں کو مولانا عبدالستار ایدھی اور ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کی باتیں سنایا کریں گے۔
میرا ان دونوں شخصیات سے بہت قریبی تعلق ہے۔ یہ دونوں عظیم انسان ایک تیسرے بڑے آدمی کے دیوانے ہیں اور یہ تیسرا بڑا آدمی حبیب جالب ہے۔ 2007 سے ہر سال کسی ایک منتخب شخصیت کو حبیب جالب امن ایوارڈ دیا جاتا ہے۔ 2009 کا ایوارڈ عبدالستار ایدھی صاحب کو دیا گیا اور 2010 کا حبیب جالب امن ایوارڈ، ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی صاحب کو دیا گیا۔ قارئین کرام! یہ دونوں وہ شخصیات ہیں کہ جن کا اعتراف بین الاقوامی سطح پر کیا گیا۔ دنیا بھر کے بڑے بڑے ایوارڈ عبدالستار ایدھی صاحب اور ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی صاحب کو دیے گئے۔ اس کے باوجود یہ دونوں عظیم انسان خود چل کر آئے اور انھوں نے حبیب جالب امن ایوارڈ وصول کیا۔
مولانا عبدالستار ایدھی صاحب سے میری پہلی بالمشافہ ملاقات نوے کی دہائی میں ہوئی تھی۔ غالباً 1997 یا 1998 کا سال تھا۔ میں نے حبیب جالب صاحب کے خوبصورت سیاہ اسکیچ (کہ جسے ملک کے معروف مصور ''ریاظ'' نے بنایا تھا۔ مصور ریاظ اپنا نام ظ سے لکھتے ہیں) کے وال کلاک بنائے تھے اور میں یہ وال کلاک ایدھی سینٹر کھارادر کراچی میں آویزاں کرنا چاہتا تھا۔ ملاقات کے لیے میں نے سابق ممبر قومی اسمبلی عبدالعزیز میمن صاحب سے رابطہ کیا۔ مقررہ تاریخ اور وقت پر ہم ایدھی سینٹر کھارادر کراچی پہنچ گئے۔ میلی سی شلوار، ایدھی صاحب لکڑی کی کرسی پر ہمارے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے جالب صاحب کے اسکیچ والا وال کلاک ایدھی صاحب کی خدمت میں پیش کیا۔ جسے انھوں نے بصد خوشی قبول کیا اور پھر قریب بیٹھے ایک کارکن سے کہا کہ وال کلاک کو سامنے والی دیوار پر لگادو۔
وقت کا بہت بڑا انسان ہمارے سامنے بیٹھا تھا، ایدھی صاحب کہہ رہے تھے۔ میں اور میرے بیوی بچے عزیز میمن کی نانی کے گھر میں کرائے پر رہتے ہیں، میرے دن رات تو ایدھی سینٹر میں ہی زیادہ تر گزرتے ہیں۔ رات کو جب کبھی نیند آجائے تو اس جنازہ ڈولی میں سو جاتا ہوں۔ ایدھی صاحب کے بائیں ہاتھ کے قریب ہی لکڑی کا بنا ہوا جنازہ پڑا تھا۔ میں نے جنازہ دیکھا اور ایک جھرجھری سی میرے تن بدن میں لہراگئی۔ کچھ دیر مزید گزرنے کے بعد عبدالعزیز میمن صاحب نے مجھے چلنے کا اشارہ کیا اور ہم ایدھی صاحب سے اجازت لے کر اٹھ گئے۔ باہر آکر عزیز میمن صاحب نے کھارادر کے ایک چائے خانے پر ہمیں چائے پلائی، عزیز میمن کہہ رہے تھے ''بھئی! ایدھی صاحب کسی کو چائے پانی کا نہیں پوچھتے کیونکہ ان کے پاس اس کے لیے ذاتی پیسے نہیں ہوتے ''۔
اب ذرا تذکرہ حبیب جالب ایوارڈ کا بھی سن لیجیے۔ ہر سال 30 اپریل والے دن جب مزدوروں کی شام آجاتی ہے اور رات گزرنے کے بعد پوری دنیا میں مزدوروں کا سورج یکم مئی کی صورت طلوع ہوتا ہے اسی مزدوروں کی شام میں حبیب جالب امن ایوارڈ منتخب شخصیت کو دیا جاتا ہے۔ 30 اپریل 2009 کا دن کراچی میں اسلحہ بردار دہشت گرد دندناتے پھر رہے تھے۔ جگہ جگہ فائرنگ ہورہی تھی سعید آباد، مواچھ گوٹھ، لیاری سے گلستان جوہر، پہلوان گوٹھ، لانڈھی، ملیر، شاہ فیصل کالونی، سمجھیں تقریباً پورے کراچی شہر پر خوف کے سائے چھائے ہوئے تھے۔
میں کراچی پریس کلب میں تقریب کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ پریس کلب والی سڑک بھی سنسان پڑی تھی، دوست احباب بھی تقریب کے التوا کا مشورہ دے رہے تھے۔ مگر میں ایسا کسی صورت نہیں چاہتا تھا۔ میں نے ایدھی صاحب کو فون کیا اور شہر کے حالات بیان کیے۔ جواباً ایدھی صاحب نے کہا ''سعید بھائی! آپ تقریب میں آؤگے؟'' میں نے کہا ''ہاں'' تو ایدھی صاحب بولے ''آپ مجھے ایوارڈ دینا اور میں ایوارڈ لوں گا''۔
یہ ہیں عبدالستار ایدھی۔ شہر کے برے حالات کے باوجود جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم صاحب آئے اور اپنے ہاتھوں سے ایدھی صاحب کو ایوارڈ دیا۔ ملک بھر سے جو مقررین آئے تھے ان میں میر حاصل بزنجو، مشاہد اﷲ و دیگر موجود تھے۔ شہر کے حالات کے باوجود بڑی تعداد میں سامعین پہنچے تھے۔ آخر میں حبیب جالب کی عبدالستار صاحب کے لیے کہی گئی نظم حاضر ہے اس دعا کے ساتھ کہ اﷲ تادیر ایدھی صاحب کو زندہ رکھے۔
عبدالستار ایدھی
یہ جو تو چمکا رہا ہے ' آنسوؤں سے رات کو
فرق کیا پڑتا ہے پیارے جگنوؤں سے رات کو
اہل شیشہ لائے جاتے ہیں' مسلسل جوئے شیر
خسرواں مہکا رہے ہیں' گیسوؤں سے رات کو
خود مسلح اور ان کی پشت پر ہیں مقتدر
تو نہتا لڑ رہا ہے ڈاکوؤں سے رات کو
رات کا جڑ سے اکھڑنا ہی علاج درد ہے
کر سپرد خاک لاکھوں بازوؤں سے رات کو