صدر زرداری کے آم
صدر زرداری کی طرف سے آموں کے تحائف دینے کی خبریں شاید پہلی بار منظر عام پر آئی ہیں.
صدر مملکت آصف علی زرداری کی طرف سے ان کے نوابشاہ کے فارم کے آموں کا تحفہ وزیراعظم میاں نواز شریف، دیگر قومی رہنماؤں، اینکرز اور صحافیوں کو بھجوایا گیا ہے۔ سینئر کالم نگار عبدالقادر حسن کے مطابق آم کے تحفے کی روایت مرحوم نوابزادہ نصراﷲ خان نے شروع کی تھی اور مرحوم اپنے جاننے والے صحافیوں کو ہر سال آم کی ایک پیٹی بھجوایا کرتے تھے۔
نوابزادہ مرحوم جتنے بڑے سیاستدان تھے اتنے بڑے زمیندار نہیں تھے اور انھوں نے جائیداد بنانے کے بجائے اپنی زمینیں فروخت کرکرکے اپنی سیاست برقرار رکھی تھی۔ نوابزادہ مرحوم سے راقم کی شکارپور اور لاہور کے علاوہ ان کے آبائی شہر خان گڑھ کی پرانی حویلی میں بھی متعدد ملاقاتیں ہوئیں ۔سندھ کے سابق وزیر اعلی غوث علی شاہ بھی سرکاری نوازشات کرنے میں بہت فیاض تھے اور کہتے تھے کہ دینے والی سرکاری زمینیں ہوتی ہی دینے کے لیے ہیں تو کیوں نہ دی جائیں۔
صدر آصف علی زرداری تو اپنی فیاضی اور دوست نوازی کا منفرد ریکارڈ رکھتے ہیں، اسی لیے انھوں نے اپنے پسندیدہ صحافیوں کو بھی آم کے تحفے ایک سے زائد مقدار میں بھیجے، جس پر عبدالقادر حسن نے واضح طور پر صدر زرداری کا شکریہ ادا کیا ہے اور باہمی محبت بڑھانے کے لیے تحائف لینے دینے کا سلسلہ دینی طور پر بھی مثبت سمجھا جاتا ہے۔
صدر زرداری کی طرف سے آموں کے تحائف دینے کی خبریں شاید پہلی بار منظر عام پر آئی ہیں اور ممکن ہے کہ تلخیوں کے سیاسی ماحول میں صدر زرداری کے بھیجے گئے آموں کی مٹھاس کچھ بہتری لائے اور سیاسی ماحول خوشگوار رہ سکے۔
سپریم کورٹ میں نئے اٹارنی جنرل ملک منیر نے صدر زرداری کے سلسلے میں سابق وزیراعظم کے دور میں بھیجے گئے سوئٹزر لینڈ کے خطوط میں جس ڈیلنگ کا انکشاف کیا ہے اور سپریم کورٹ نے اسے توہین عدالت قرار دیا ہے اس معاملے کے آگے بڑھنے سے مزید حیرت انگیز باتیں سامنے آسکتی ہیں، جس کے بعد سیاسی ماحول میں پھر تلخی نمودار ہوسکتی ہے جو صدر آصف علی زرداری کو بھی متاثر کرسکتی ہے۔
صدر زرداری ستمبر تک صدارت سے فارغ ہوجائیں گے اور انھیں حاصل صدارتی استثنیٰ بھی ختم ہوجائے گا، جس کے بعد ممکن ہے انھیں بھی سابق صدر پرویز مشرف کی طرح اپنے ملک میں ہی پرانے مقدمات کے کھولے جانے پر ایک بار پھر عدالتی معاملات میں الجھنا پڑجائے۔
صدر زرداری کو طویل اسیری کا ریکارڈ بھی حاصل ہے، جس پر انھیں مجید نظامی نے مرد حر کا خطاب دیا تھا مگر چونکہ ہر اعزاز انھیں پی پی کے اقتدار میں آنے اور صدر بننے سے قبل دیا گیا تھا اور صدر زرداری کے 5 سال مکمل اور بااختیار اقتدار میں ملک کی حالت دیکھ کر ابھی تک تو انھیں کوئی نیا خطاب نہیں ملا، البتہ پہلے ملے ہوئے القاب ان کی واپسی کے بعد یاد رہیں گے، بھلا دیے جائیں گے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
آصف علی زرداری کی سخاوت، دوست نوازی تو ایک عرصے سے مشہور ہے اور ان کی اسیری کے دوران کی جانے والی فیاضی کے بھی بڑے چرچے ہیں، ان کی سخاوت اور فیاضی جب تک بالکل درست تھی جب تک یہ سب کچھ غیر سرکاری تھا اور انھیں حق تھا کہ وہ اپنا مال جیسے چاہیں خرچ کریں، آموں کے تحائف جس کو چاہیں بھیجیں مگر پاکستان کسی کا فارم یا جاگیر نہیں ہے کہ ملکی وسائل کو ذاتی جاگیر سمجھ کر لٹایا جائے اور اقربا پروری، دوست نوازی، فیاضی اور سخاوت کے ریکارڈ قائم کیے جائیں مگر بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا ہوتا آرہا ہے اور بانی پاکستان کے اس سلسلے میں مثالی کردار کو تمام حکمرانوں نے بھلادیا اور اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھ لیا۔ اس سلسلے میں پاکستان میں اقتدار میں رہنے والوں کا کردار اگر مثالی ہوتا تو ملک میں فوجی جنرلوں کو مارشل لاء لگانے کا موقع میسر نہ آتا اور ملک میں جمہوریت مستحکم ہوچکی ہوتی۔
سابق صدر ایوب خان، جنرل ضیاء الحق، جنرل یحییٰ اور جنرل پرویز مشرف بلاشبہ فوجی آمر تھے۔ ان پر دیگر الزامات تو لگ سکتے ہیں مگر کرپشن کا الزام ان پر تھا، نہ سابق وزرائے اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور محمد خان جونیجو پر کبھی لگا۔ 1988 میں محترمہ بے نظیربھٹو کی حکومت برسراقتدار آنے کے بعد 1999 تک جب نواز شریف وزیراعظم تھے دونوں کی حکومتوں پر کرپشن سمیت ہر قسم کے الزامات لگے جو اگرچہ ثابت تو عدالتوں میں نہیں ہوئے اور موجودہ صدر آصف زرداری بھی ان الزامات سے محفوظ نہیں رہے تھے مگر جب تیسری بار آصف علی زرداری کی حکومت اقتدار میں آئی اور انھوں نے یوسف رضاگیلانی کو وزیراعظم بنوایا تو گیلانی حکومت کے سوا چار سال میں کرپشن کا ملک میں ریکارڈ قائم ہوا اور باقی کسر راجہ پرویز اشرف کی 9 ماہ کی حکومت میں پوری ہوگئی۔
صدر زرداری کے دور صدارت اور پی پی کے دونوںسابق وزرائے اعظم کے دور میں نیچے سے وزیراعظم ہاؤس تک ریکارڈ کرپشن، اقربا پروری، ملک کی سب سے بڑی کابیناؤں کا نیا ریکارڈ قائم ہوا۔ اپنوں کو نوازنے کے لیے وزارتیں اور محکمے کم پڑگئے تو وزارتیں توڑ کر نئی نئی عجیب وغریب ناموں سے وزارتیں بنائی گئیں۔ وفاقی ڈویژنوں کو بھی وزارتوں کا درجہ دیا گیا جب کہ مشیروں اور معاونین خصوصی کی بھرمار الگ رہی۔ بیرونی قرضے لے لے کر اور نوٹ چھاپ چھاپ کر سرکاری اور قومی وسائل کرپشن کی نذر کرائے گئے اور قومی دولت بری طرح لٹوائی گئی۔
صدر زرداری کی دوستی، فیاضی اور فراخدلی کا موقع پرست اور مفاد پرستوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا، جن میں سیاستدان اور بیوروکریسی ہی نہیں بلکہ تمام حکومتی اتحادی شامل تھے۔ وفاق، سندھ، کے پی کے اور بلوچستان میں سنگین بدعنوانیوں اور اقربا پروری کی کہانیاں عام تھیں جس کی سزا پی پی اور اس کے اتحادیوں اور خصوصاً کرپشن میں بدنام وزرائے اعظم، وزیروں، مشیروں اور پارٹی رہنماؤں کو عوام نے 11 مئی کو دے دی ہے۔ 5 سال میں جو کچھ ہوا کیا اس کی ذمے داری سے صدر زرداری بری الذمہ ہوسکتے ہیں کیونکہ سب کچھ ان کی آنکھ تلے ہوا۔
کسی صحافی نے کبھی صدر زرداری سے نہیں پوچھا کہ انھوں نے راجہ پرویز اشرف کو وزیراعظم کیوں بنوایا، کیا کوئی پیپلز پارٹی میں کرپشن سے پاک رہنما نہیں تھا؟ 5 سال میں قومی وسائل کی بندربانٹ اور سخاوت کیوں ہوئی، کیا یہ ملک کی ذاتی جاگیر یا فارم تھا کہ اسے بے دردی سے لٹوایا گیا اور محض اپنوں کو نوازنے کے لیے بے نظیر بھٹو کی شہادت کو کیش کروا کے پی پی نے اسی لیے اقتدار حاصل کیا تھا۔ ان حالات کا جواب ایک قومی قرض ہے جسے آج نہیں تو کل ضرور دینا ہی پڑے گا۔