ڈر بڑی قیمتی چیز ہے

اکثر فلموں میں آپ نے ڈائیلاگ سنا ہوگا کہ ’’ ڈر ‘‘ بہت ہی قیمتی چیز ہے، اسے پالو سنبھالو اور اپنا لو۔


Saad Ulllah Jaan Baraq November 27, 2018
[email protected]

KARACHI: ویسے تو ہم پر خدا کے اور بھی بہت سارے کرم اور احسان ہیں جن کا ہم جتنا شکر یہ ادا کریں کم ہے لیکن یہ جو ہمیں خاص ودیعیت کیا گیا ہے اسے اگر ہم نعمت عظمیٰ کہیں تو بھی غلط نہ ہوگا۔ یوں کہیے کہ یہ ہمارا وہ باڈی گارڈ ہے جو کسی بھی خطرے کو ہمارے قریب نہیں آنے دیتا اور دور دور رکھتا ہے ورنہ جیسی ہماری خُو بُوہے ،کردارو گفتارہے، مُنہ اور زبان ہے، ان کے طفیل اب تک نہ جانے ہم کتنی بار سنگسار ہو چکے ہوتے اور سولیوں پر لٹک چکے ہوتے لیکن ہمارا یہ محافظ یہ باڈی گارڈ دیکھتا رہتا ہے اور ذرا سا بھی خطرہ ہو تو سرخ بتی جلا دیتا ہے اور غصے کو کھوپڑی سے کھینچ کر پرے پھینک دیتا ہے اور اس کی جگہ عقل کے سہ طرفی تکیے رکھ کر آرام سے بیٹھا دیتاہے ۔

اب یہ جو پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے، اس کی ہر ہر حرکت پر کچھ کہنے کو جی چاہتا ہے لیکن اپنا باڈی گارڈ فوراً وہ بورڈ سامنے لہرا دیتا ہے جس پر اس نے سرخ حروف میں '' پٹائی '' لکھا ہوا ہے ۔ کہ پٹائی سے کون نہیں ڈرتا، چاہے وہ ماسٹر کی ہو، ہیڈ ماسٹر کی ہو یا پی ٹی آئی کی ہو۔ بلکہ آپ سے کیا پردہ اسی پٹائی بلکہ پی ٹی آئی کی پٹائی سے ہم اسکول چھوڑ کر بھاگے ۔

ہمارا پی ٹی آئی تھا بھی ایک نہایت ہی سخت سابق فوجی، اس نے اسکول میں پہلی مرتبہ ہاتھ آگے کرنے، سیدھے ہاتھ پر مارنے کا طریقہ منسوخ کرکے یہ نیا طریقہ رائج کیا تھا لکہ ہاتھ کو پھیلا کر اپنے کان کی سیدھ میں باہر کی طرف پھیلا یا جائے اور پی ٹی آئی اس توت کی ٹہنی کو اپنے سر کے اوپر لے جا کر گرایا کرتا تھا، یہ ٹہنی تین چاردن چلنے کے بعد ریٹائرڈ کردی جاتی اوراس کی تازہ تازہ کاٹی ہوئی ٹہنی آن ڈیوٹی کردی جاتی۔

اب ہم جیسے پی ٹی زدہ اور پی ٹی آئی گھائل انسان کے لیے پی ٹی آئی اور پٹائی کا '' مژدہ '' جان لیوا سننا بھی جھر جھری آور نہ ہو تو کیا ہو ۔

لیکن بھلا ہو ڈرپوک ہونے کا کہ جس کی حفاظت میں ہم بعافیت جی رہے ہیں ۔ اب اس دن کا قصہ سن لیجیے جب ہمارے وزیر اعظم سعودی عرب سے لدے پھندے تشریف لائے اور لوگوں کی مبارک باد کی گونج میں یہ خوش خبری بھی سنائی کہ کچھ اور ممالک '' اقتصادی پیکیج '' دینے کو تیار ہیں تو ہم پر شادیٔ مرگ جیسی کیفیت طاری ہوئی کیونکہ اسی اخبار میں پچاس لاکھ گھر مفت تقسیم کرنے کی کارروائیاں بھی شایع ہو رہی تھی ۔

اسی بات کو پشتو میں ایک کہاوت کے ذریعے واضح کیا جاتا ہے کہ لنڈے (بیل ) ابھی ذبح بھی نہیں ہوا ہے اور تم گوشت لینے کے لیے تھال سر پر رکھ کر آگئے ہو، اس مضمون کی بات اردو میں بھی کی گئی ہے لیکن ہمارے محافظ نے پھر پٹائی والا سرخ بورڈ سامنے کردیا ہے ۔ کیونکہ اردو کی کہاوت میں '' بستی '' کے لٹنے سے پہلے کچھ لوگوں کے آنے کا ذکر ہے اور وہ لوگ پٹائی میں مشہور عالم ہیں۔

اس نعمت مبارک قرضے اور امداد پر '' مبارک باد '' سے ہمیں ایک بہت پرانا قصہ یاد آرہا ہے، جب ہماری ایک وزیر اعظم کے ہاں دختر نیک اختر تولد ہوئی تھی ۔ اور اس پرپشاور میں بھنگڑے اور مٹھائیاں چل رہی تھیں ۔ چنانچہ وزیر اعظم کے اس '' کامیاب '' دورے پر بھی ہماری زبان میں کھجلی ہونے ہی والی تھی کہ محافظ نے سرخ بورڈ لہرا دیا ۔

چلو اچھا ہوا کام آگئی یہ بزدلی اپنی

وگر نہ ہم زمانے بھر سے '' پٹوانے '' کہاں جاتے

یا لے جائے جاتے ۔ وہ زمانے لد چکے جب کہیں مدتوں بعد کوئی '' لطیفہ '' چھوٹتا، اب تو شاید اخباروں کے ساتھ ساتھ وزیروں اور نئے ھماروں کو بھی ہدایت دی جا چکی کہ روز ایک ایک نیا لطیفہ چھوڑا کریں ورنہ پٹائی ہوگی، جب ہم ایک بات کرتے تھے اور دوسری '' دم '' ہلا یا کرتی تھی کہ ہر '' دم '' پر ہمارا محافظ بورڈ لیے کھڑا ہے ۔

لازم ہے دل کے پاس رہے پاسبان عقل

اور کبھی بھی اسے تنہا نہ چھوڑ ورنہ

باقی ساری کہانیوں پر سرخ بورڈ لگا ہوا ہے لیکن ایک پرانی کہانی یاد آگئی ۔ بلکہ ساتھ ہی بغل میں پشتو کی کہاوت یا ٹپہ بھی ہے، پہلے ٹپہ سن لیجیے کہ

پرتوگ دے سوڑے سوڑے راوڑو

چہ ہر سوڑہ ئے گنڈم خندا رازینہ

یعنی تم اپنی چھلنی چھلنی چادر ( اصل میں ایک اور جامہ ہے )لے کر آگئے اور میں ہر سوراخ کو سیتی ہوں تو ہنسی آتی ہے ۔ کہانی یہ ہے کہ ایک شخص کہیں ڈاکہ ڈالنے گیا تو جاتے ہوئے بیوی سے بولا کہ اگر میں آتے وقت '' ہنستا '' ہوا نظر آیا تو تم اس فضول گھر کو آگ لگا دینا تاکہ کہیں اورجابسیں ۔ اتفاق سے وہ اس ڈاکے میں پکڑا گیا لوگوں نے اس کی مونچھیں مع ہونٹ کی کاٹ دیں یا اوپری ہونٹ نہ ہونے کی وجہ سے بیوی نے اسے دورسے دانت نکالے دیکھا تو گھر کو آگ لگا دی ۔ اس کے بعد کیا ہوا پتہ نہیں چل سکا کیونکہ کتاب کا اگلا ورق بھی پھٹا ہوا ہے۔ اس لیے یہ بھی پتہ نہیں چل پایا کہ اس کہانی کا مطلب کیاہے ؟ یا کونسا سبق اس سے حاصل ہوتا ہے ۔

لیکن ضروری تو نہیں کہ ہر بات کا کوئی مطلب بھی ہو اور اس سے کوئی سبق بھی حاصل ہو ۔ ویسے بھی باقی سارے لوگ مطلب کی باتیں تو کرہی رہے ہیں اوراسباق وعبرتیں بھی پکڑوارہے ہیں، ایک ہماری بے مطلب ہو تو کیا فرق پڑے گا ۔ لیکن جو مطلب اور سبق ہم حاصل کرچکے ہیں وہ بھی کم نہیں یعنی ڈرپوک ہونا بہت ہی تحفظانہ محافظانہ بلکہ '' تحفظاتانہ '' خوبی ہے ۔ یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا ۔

اکثر فلموں میں آپ نے ڈائیلاگ سنا ہوگا کہ '' ڈر '' بہت ہی قیمتی چیز ہے، اسے پالو سنبھالو اور اپنا لو۔ جو ڈر گیا و '' بھر '' گیا اور گھر گیا ۔ انسان کے پاس '' ڈر '' نہیں تو کچھ بھی نہیں، جو ہوگا وہ بھی چلا جائے گا یہاں تک کہ جان بھی سلامت نہیں رہے گی، اس لیے انسان کو ہر وقت ہر چیز سے ڈرتے رہنا چاہیے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں